السَّـــــــــــــــلام عَلَيْــــــــــــــــــــكُمْ وَ رَحْمَةُ اللہ وَ بَرَكَاتُهُ
✨ اللَّهُمَّ اكْفِنِي بِحَلَالِكَ عَنْ حَرَامِكَ، وَأَغْنِنِي بِفَضْلِكَ عَمَّنْ سِوَاكَ
اےاللہ! تو مجھے اپنی حلال کردہ چیز کے ذریعے اپنی حرام کردہ چیز سے کافی ہوجا اور مجھے اپنے فضل کے ذریعے اپنے علاوہ سب سے بےنیاز کردے۔
📗 PARAH (1st) الم
📕 SURAT - UL- BAQARA
📖 AYAAT: 21-25
Audio Duration
⏰ 12:04
LECTURE 2️⃣
PART (3)👇🏿👇🏿👇🏿
#تفسیر_ڈاکٹر_اسرار_احمد
✨ اللَّهُمَّ اكْفِنِي بِحَلَالِكَ عَنْ حَرَامِكَ، وَأَغْنِنِي بِفَضْلِكَ عَمَّنْ سِوَاكَ
اےاللہ! تو مجھے اپنی حلال کردہ چیز کے ذریعے اپنی حرام کردہ چیز سے کافی ہوجا اور مجھے اپنے فضل کے ذریعے اپنے علاوہ سب سے بےنیاز کردے۔
📗 PARAH (1st) الم
📕 SURAT - UL- BAQARA
📖 AYAAT: 21-25
Audio Duration
⏰ 12:04
LECTURE 2️⃣
PART (3)👇🏿👇🏿👇🏿
#تفسیر_ڈاکٹر_اسرار_احمد
BAYAN-UL-QURAN
Written notes ✍🏻
_______________________
SURAT-UL-BAKRAH
Ayat 21-25
_______________________
📕 سورہ البقرۃ آیات 21 سے 25
أعُــــــــوْذُ بِاْلـــلّٰـــــهِ مِـــنَ الْشَّـــــیْـطٰــنِ الْــــــرّجِـــیْمْ
بِسْـــــمِ اْلـــلّٰـــــهِ اْلْــــــرَّحْمٰنِ اْلْــــــرَّحِـــیْمْ
📕 يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اعۡبُدُوۡا رَبَّكُمُ الَّذِىۡ خَلَقَكُمۡ وَالَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَتَّقُوۡنَ ۙ ۞
ترجمہ:
"اے لوگو ! بندگی اختیار کرو اپنے اس ربّ (مالک) کی جس نے تم کو پیدا کیا اور تم سے پہلے جتنے لوگ گزرے ہیں (انہیں بھی پیدا کیا) تاکہ تم بچ سکو" ۔
✍🏻 تفسیر:
سورة البقرۃ کے تیسرے رکوع میں قرآن کی دعوت کا خلاصہ آگیا ہے کہ قرآن اپنے مخاطب کو کیا ماننے کی دعوت دیتا ہے اور اس کی پکار کیا ہے۔ جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں ‘ سورة البقرۃ کے نزول سے قبل دو تہائی قرآن نازل ہوچکا تھا۔ ترتیب مصحف کے اعتبار سے وہ قرآن بعد میں آئے گا ‘ لیکن ترتیب نزولی کے اعتبار سے وہ پس منظر میں موجود ہے۔
لہٰذا سورة البقرۃ کے پہلے دو ‘ رکوعوں میں مکی قرآن کے مباحث کا خلاصہ بیان کردیا گیا ہے اور تیسرے رکوع میں قرآن مجید کی دعوت کا خلاصہ اور لب لبابّ آگیا ہے ‘ جبکہ قرآن مجید کا فلسفہ اور بعض نہایت اہم موضوعات و مسائل کا خلاصہ چوتھے رکوع میں بیان ہوا ہے۔ اب ہم تیسرے رکوع کا مطالعہ کر رہے ہیں :
آیت ٢١ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ یہ قرآن کی دعوت کا خلاصہ ہے اور یہی تمام انبیاء و رسل علیہ السلام کی دعوت تھی۔ سورة الاعراف اور سورة ہود میں ایک ایک رسول کا نام لے کر اس کی دعوت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے : یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَالَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ” اے میری قوم کے لوگو ! اللہ کی بندگی کرو ‘ تمہارا کوئی اور الٰہ اس کے سوا نہیں ہے “۔ سورة الشعراء میں رسولوں کی دعوت کے ضمن میں باربار یہ الفاظ آئے ہیں :
فَاتَّقُوا اللّٰــــــــــــــــهَ وَاَطِیْعُوْنِ
” پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو “۔ سورة نوح میں حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت ان الفاظ میں بیان ہوئی :
اَنِ اعْبُدُوا اللّٰــــــــــــــــهَ وَاتَّقُوْہُ وَاَطِیْعُوْنِ ” کہ اللہ کی بندگی کرو ‘ اس کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو ! “
پھر ازروئے قرآن یہی عبادتِ رب انسان کی غایت تخلیق ہے : وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ الاَّ لِیَعْبُدُوْنِ الذّٰریٰت ” اور ہم نے جنوں اور انسانوں کو پیدا ہی صرف اس لیے کیا ہے کہ ہماری بندگی کریں “۔ چناچہ تمام رسولوں کی دعوت یہی ” عبادتِ ربّ “ ہے اور محمد رسول اللہ ﷺ کی دعوت بھی یہی ہے ‘ لیکن یہاں ایک بہت بڑا فرق واقع ہوگیا ہے۔ وہ یہ کہ باقی تمام رسولوں کی دعوت کے ضمن میں صیغۂ خطاب ” یٰقَوْمِ “ ہے۔ یعنی ” اے میری قوم کے لوگو ! “ جبکہ یہاں صیغۂ خطاب ہے : ” یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ “ یعنی ” اے بنی نوع انسان ! “ معلوم ہوا کہ محمد رسول اللہ ﷺ سے پہلے تمام رسول علیہ السلام صرف اپنی اپنی قوموں کی طرف آئے ‘ جبکہ پیغمبر آخر الزمان حضرت محمد رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری اور کامل رسول ہیں جن کی دعوت آفاقی ہے۔
عام طور پر لوگ جو غلط راستہ اختیار کرلیتے ہیں اس پر اس دلیل سے جمے رہتے ہیں کہ ہمارے آباء و اَجداد کا راستہ یہی تھا۔ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ کے الفاظ میں اس دلیل کا ردّ بھی موجود ہے کہ جیسے تم مخلوق ہو ویسے ہی تمہارے آباء و اجداد بھی مخلوق تھے ‘ جیسے تم خطا کرسکتے ہو اسی طرح وہ بھی تو خطا کرسکتے تھے۔ لہٰذا یہ نہ دیکھو کہ آباء و اجداد کا راستہ کیا تھا ‘ بلکہ یہ دیکھو کہ حق کیا ہے۔
لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ” تاکہ تم بچ سکو “۔ یعنی دنیا میں افراط وتفریط کے دھکوں سے بچ سکو اور آخرت میں اللہ کے عذاب سے بچ سکو۔ ان دونوں سے اگر بچنا ہے تو اللہ کی بندگی کی روش اختیار کرو۔
📕 الَّذِىۡ جَعَلَ لَـكُمُ الۡاَرۡضَ فِرَاشًا وَّالسَّمَآءَ بِنَآءً وَّاَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخۡرَجَ بِهٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزۡقًا لَّـكُمۡۚ فَلَا تَجۡعَلُوۡا لِلّٰهِ اَنۡدَادًا وَّاَنۡـتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ۞
ترجمہ:
"جس نے تمہارے لیے زمین کو فرش بنا دیا اور آسمان کو چھت بنا دیا۔ اور آسمان سے پانی برسایا پھر اس (پانی) کے ذریعے سے (زمین سے) ہر طرح کی پیداوار نکال کر تمہارے لیے رزق بہم پہنچایا۔ تو ہرگز اللہ کے مدمقابل نہ ٹھہراؤ جانتے بوجھتے" ۔
Written notes ✍🏻
_______________________
SURAT-UL-BAKRAH
Ayat 21-25
_______________________
📕 سورہ البقرۃ آیات 21 سے 25
أعُــــــــوْذُ بِاْلـــلّٰـــــهِ مِـــنَ الْشَّـــــیْـطٰــنِ الْــــــرّجِـــیْمْ
بِسْـــــمِ اْلـــلّٰـــــهِ اْلْــــــرَّحْمٰنِ اْلْــــــرَّحِـــیْمْ
📕 يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اعۡبُدُوۡا رَبَّكُمُ الَّذِىۡ خَلَقَكُمۡ وَالَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَتَّقُوۡنَ ۙ ۞
ترجمہ:
"اے لوگو ! بندگی اختیار کرو اپنے اس ربّ (مالک) کی جس نے تم کو پیدا کیا اور تم سے پہلے جتنے لوگ گزرے ہیں (انہیں بھی پیدا کیا) تاکہ تم بچ سکو" ۔
✍🏻 تفسیر:
سورة البقرۃ کے تیسرے رکوع میں قرآن کی دعوت کا خلاصہ آگیا ہے کہ قرآن اپنے مخاطب کو کیا ماننے کی دعوت دیتا ہے اور اس کی پکار کیا ہے۔ جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں ‘ سورة البقرۃ کے نزول سے قبل دو تہائی قرآن نازل ہوچکا تھا۔ ترتیب مصحف کے اعتبار سے وہ قرآن بعد میں آئے گا ‘ لیکن ترتیب نزولی کے اعتبار سے وہ پس منظر میں موجود ہے۔
لہٰذا سورة البقرۃ کے پہلے دو ‘ رکوعوں میں مکی قرآن کے مباحث کا خلاصہ بیان کردیا گیا ہے اور تیسرے رکوع میں قرآن مجید کی دعوت کا خلاصہ اور لب لبابّ آگیا ہے ‘ جبکہ قرآن مجید کا فلسفہ اور بعض نہایت اہم موضوعات و مسائل کا خلاصہ چوتھے رکوع میں بیان ہوا ہے۔ اب ہم تیسرے رکوع کا مطالعہ کر رہے ہیں :
آیت ٢١ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ یہ قرآن کی دعوت کا خلاصہ ہے اور یہی تمام انبیاء و رسل علیہ السلام کی دعوت تھی۔ سورة الاعراف اور سورة ہود میں ایک ایک رسول کا نام لے کر اس کی دعوت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے : یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَالَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ” اے میری قوم کے لوگو ! اللہ کی بندگی کرو ‘ تمہارا کوئی اور الٰہ اس کے سوا نہیں ہے “۔ سورة الشعراء میں رسولوں کی دعوت کے ضمن میں باربار یہ الفاظ آئے ہیں :
فَاتَّقُوا اللّٰــــــــــــــــهَ وَاَطِیْعُوْنِ
” پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو “۔ سورة نوح میں حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت ان الفاظ میں بیان ہوئی :
اَنِ اعْبُدُوا اللّٰــــــــــــــــهَ وَاتَّقُوْہُ وَاَطِیْعُوْنِ ” کہ اللہ کی بندگی کرو ‘ اس کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو ! “
پھر ازروئے قرآن یہی عبادتِ رب انسان کی غایت تخلیق ہے : وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ الاَّ لِیَعْبُدُوْنِ الذّٰریٰت ” اور ہم نے جنوں اور انسانوں کو پیدا ہی صرف اس لیے کیا ہے کہ ہماری بندگی کریں “۔ چناچہ تمام رسولوں کی دعوت یہی ” عبادتِ ربّ “ ہے اور محمد رسول اللہ ﷺ کی دعوت بھی یہی ہے ‘ لیکن یہاں ایک بہت بڑا فرق واقع ہوگیا ہے۔ وہ یہ کہ باقی تمام رسولوں کی دعوت کے ضمن میں صیغۂ خطاب ” یٰقَوْمِ “ ہے۔ یعنی ” اے میری قوم کے لوگو ! “ جبکہ یہاں صیغۂ خطاب ہے : ” یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ “ یعنی ” اے بنی نوع انسان ! “ معلوم ہوا کہ محمد رسول اللہ ﷺ سے پہلے تمام رسول علیہ السلام صرف اپنی اپنی قوموں کی طرف آئے ‘ جبکہ پیغمبر آخر الزمان حضرت محمد رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری اور کامل رسول ہیں جن کی دعوت آفاقی ہے۔
عام طور پر لوگ جو غلط راستہ اختیار کرلیتے ہیں اس پر اس دلیل سے جمے رہتے ہیں کہ ہمارے آباء و اَجداد کا راستہ یہی تھا۔ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ کے الفاظ میں اس دلیل کا ردّ بھی موجود ہے کہ جیسے تم مخلوق ہو ویسے ہی تمہارے آباء و اجداد بھی مخلوق تھے ‘ جیسے تم خطا کرسکتے ہو اسی طرح وہ بھی تو خطا کرسکتے تھے۔ لہٰذا یہ نہ دیکھو کہ آباء و اجداد کا راستہ کیا تھا ‘ بلکہ یہ دیکھو کہ حق کیا ہے۔
لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ” تاکہ تم بچ سکو “۔ یعنی دنیا میں افراط وتفریط کے دھکوں سے بچ سکو اور آخرت میں اللہ کے عذاب سے بچ سکو۔ ان دونوں سے اگر بچنا ہے تو اللہ کی بندگی کی روش اختیار کرو۔
📕 الَّذِىۡ جَعَلَ لَـكُمُ الۡاَرۡضَ فِرَاشًا وَّالسَّمَآءَ بِنَآءً وَّاَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخۡرَجَ بِهٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزۡقًا لَّـكُمۡۚ فَلَا تَجۡعَلُوۡا لِلّٰهِ اَنۡدَادًا وَّاَنۡـتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ۞
ترجمہ:
"جس نے تمہارے لیے زمین کو فرش بنا دیا اور آسمان کو چھت بنا دیا۔ اور آسمان سے پانی برسایا پھر اس (پانی) کے ذریعے سے (زمین سے) ہر طرح کی پیداوار نکال کر تمہارے لیے رزق بہم پہنچایا۔ تو ہرگز اللہ کے مدمقابل نہ ٹھہراؤ جانتے بوجھتے" ۔
✍🏻 تفسیر:
آیت ٢٢ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّالسَّمَآءَ بِنَآءً وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
اسکا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ جب تم بھی مانتے ہو کہ اس کائنات کا خالق اللہ کے سوا کوئی نہیں ‘ تو پھر اس کے شریک کیوں ٹھہراتے ہو ؟ اہل عرب یہ بات مانتے تھے کہ کائنات کا خالق صرف اور صرف اللہ ہے ‘ البتہ جو ان کے دیوی دیوتا تھے انہیں وہ سمجھتے تھے کہ یہ اللہ کے اوتار ہیں یا اللہ کے ہاں بہت پسندیدہ ہیں ‘ اس کے محبوب ہیں ‘ اس کے اولیاء ہیں ‘ اس کی بیٹیاں ہیں ‘ لہٰذا یہ شفاعت کریں گے تو ہمارا بیڑا پار ہوجائے گا۔ ان سے کہا جا رہا ہے کہ جب تم یہ مانتے ہو کہ کائنات کا خالق ایک اللہ ہے ‘ وہی اس کا مدبر ہے تو اب کسی کو اس کا مدمقابل نہ بناؤ۔ ّ
اَنْدَاد ” نِدّ “ کی جمع ہے ‘ اس کا معنی مدمقابل ہے۔ خطبۂ جمعہ میں آپ نے یہ الفاظ سنے ہوں گے : ” لَا ضِدَّ لَہٗ وَلَا نِدَّ لَہٗ “۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رض بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا : اللہ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ کون سا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اَنْ تَجْعَلَ لِلّٰہِ نِدًّا وَھُوَ خَلَقَکَ ١ ” یہ کہ تو اس کا کوئی مدمقابل ٹھہرائے حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا ہے “۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا کسی درجے میں کوئی شریک یا مدمقابل نہیں ہے۔ اس ضمن میں رسول اللہ ﷺ امت کو اس درجے توحید کی باریکیوں تک پہنچا کر گئے ہیں کہ ایسے تصوراتّ کی بالکل جڑ کٹ جاتی ہے۔ ایک صحابی رض نے آپ ﷺ کے سامنے ایسے ہی کہہ دیا : ” مَاشَاء اللّٰــــــــــــــــهَ وَمَا شِءْتَ “ یعنی جو اللہ چاہے اور جو آپ ﷺ چاہیں۔ آپ ﷺ نے انہیں فوراً ٹوک دیا اور فرمایا : اَجَعَلْتَنِیْ لِلّٰــــــــــــــــهِ نِدًّا ؟ مَا شَاء اللّٰہُ وَحْدَہٗ ” کیا تو نے مجھے اللہ کا مدمقابل بنا دیا ہے ؟ بلکہ وہی ہوگا جو تنہا اللہ چاہے۔ “ ٢ اس کائنات میں مشیت صرف ایک ہستی کی چلتی ہے۔ کسی اور کی مشیت اس کی مشیت کے تابع پوری ہوجائے تو ہوجائے ‘ لیکن مشیت مطلقہ صرف اس کی ہے۔ یہاں تک کہ قرآن حکیم میں رسول اللہ ﷺ سے فرمایا گیا :
اِنَّکَ لَا تَھْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰــــــــــــــــهَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ
{القصص : ٥٦}
” اے نبی ﷺ ! یقینا آپ جسے چاہیں اسے ہدایت نہیں دے سکتے ‘ بلکہ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ “
اگر ہدایت کا معاملہ رسول اللہ ﷺ کے اختیار میں ہوتا تو ابوطالب دنیا سے ایمان لائے بغیر رخصت نہ ہوتے۔
ان دو آیتوں میں توحید کے دونوں پہلو بیان ہوگئے👇🏿 ‘
1️⃣ توحید نظری بھی اور
2️⃣توحید عملی بھی
توحید عملی یہ ہے کہ بندگی صرف اسی کی ہے۔ اب اگلی آیت میں ایمان بالرسالت کا بیان آرہا ہے۔
📕 وَاِنۡ کُنۡتُمۡ فِىۡ رَيۡبٍ مِّمَّا نَزَّلۡنَا عَلٰى عَبۡدِنَا فَاۡتُوۡا بِسُوۡرَةٍ مِّنۡ مِّثۡلِهٖ وَادۡعُوۡا شُهَدَآءَكُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ اِنۡ كُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ ۞
ترجمہ:
"اور اگر تم واقعتا شک میں ہو اس کلام کے بارے میں جو ہم نے اتارا اپنے بندے پر (کہ یہ ہمارا نازل کردہ ہے یا نہیں) تو لے آؤ ایک ہی سورت اس جیسی۔ اور بلا لو اپنے سارے مددگاروں کو اللہ کے سوا اگر تم سچے ہو" ۔
✍🏻 تفسیر:
وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا ‘
” تعارف قرآن “ میں یہ بات تفصیل سے بیان کی گئی تھی کہ قرآن حکیم میں ایسے پانچ مقامات ہیں جہاں پر یہ چیلنج موجود ہے کہ اگر تمہارا یہ خیال ہے کہ یہ کلام محمد ﷺ کی اختراع ہے تو تم بھی مقابلے میں ایسا ہی کلام پیش کرو۔
✨ سورة الطور کی آیات ٣٣ ‘ ٣٤ میں ارشاد ہوا :
” کیا ان کا یہ کہنا ہے کہ اسے محمد ﷺ نے خود گھڑ لیا ہے ؟ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ماننے کو تیار نہیں۔ پھر چاہیے کہ وہ اسی طرح کا کوئی کلام پیش کریں اگر وہ سچے ہیں “۔
✨ سورة بنی اسراء یل آیت ٨٨ میں فرمایا گیا کہ
” اگر تمام جن و انس جمع ہو کر بھی اس قرآن جیسی کتاب پیش کرنا چاہیں تو ہرگز نہیں کرسکیں گے ‘ چاہے وہ سب ایک دوسرے کے مددگار ہی کیوں نہ ہوں “۔
✨ پھر سورة ہود آیت ١٣ میں فرمایا گیا کہ
” اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے کہہ دیجیے اگر پورے قرآن کی نظیر نہیں لاسکتے تو ایسی دس سورتیں ہی گھڑ کرلے آؤ ! “
اس کے بعد مزید نیچے اتر کر ‘ جسے برسبیل تنزل کہا جاتا ہے ‘
✨ سورة یونس آیت ٣٨ میں اس جیسی ایک ہی سورت بنا کرلے آنے کا چیلنج دیا گیا۔
مذکورہ بالا تمام مقامات مکی سورتوں میں ہیں۔ پہلی مدنی سورة ” البقرۃ “ کی آیت زیر مطالعہ میں یہی بات بڑے اہتمام کے ساتھ فرمائی گئی کہ اگر تم لوگوں کو اس کلام کے بارے میں کوئی شک ہے جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے کہ یہ اللہ کا کلام نہیں ہے تو اس جیسی ایک سورت تم بھی موزوں کر کے لے آؤ ! یہ ایک سورت سورة العصر کے مساوی بھی ہوسکتی تھی ‘ سورة الکوثر کے مساوی بھی ہوسکتی تھی۔
آیت ٢٢ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّالسَّمَآءَ بِنَآءً وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
اسکا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ جب تم بھی مانتے ہو کہ اس کائنات کا خالق اللہ کے سوا کوئی نہیں ‘ تو پھر اس کے شریک کیوں ٹھہراتے ہو ؟ اہل عرب یہ بات مانتے تھے کہ کائنات کا خالق صرف اور صرف اللہ ہے ‘ البتہ جو ان کے دیوی دیوتا تھے انہیں وہ سمجھتے تھے کہ یہ اللہ کے اوتار ہیں یا اللہ کے ہاں بہت پسندیدہ ہیں ‘ اس کے محبوب ہیں ‘ اس کے اولیاء ہیں ‘ اس کی بیٹیاں ہیں ‘ لہٰذا یہ شفاعت کریں گے تو ہمارا بیڑا پار ہوجائے گا۔ ان سے کہا جا رہا ہے کہ جب تم یہ مانتے ہو کہ کائنات کا خالق ایک اللہ ہے ‘ وہی اس کا مدبر ہے تو اب کسی کو اس کا مدمقابل نہ بناؤ۔ ّ
اَنْدَاد ” نِدّ “ کی جمع ہے ‘ اس کا معنی مدمقابل ہے۔ خطبۂ جمعہ میں آپ نے یہ الفاظ سنے ہوں گے : ” لَا ضِدَّ لَہٗ وَلَا نِدَّ لَہٗ “۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رض بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا : اللہ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ کون سا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اَنْ تَجْعَلَ لِلّٰہِ نِدًّا وَھُوَ خَلَقَکَ ١ ” یہ کہ تو اس کا کوئی مدمقابل ٹھہرائے حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا ہے “۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا کسی درجے میں کوئی شریک یا مدمقابل نہیں ہے۔ اس ضمن میں رسول اللہ ﷺ امت کو اس درجے توحید کی باریکیوں تک پہنچا کر گئے ہیں کہ ایسے تصوراتّ کی بالکل جڑ کٹ جاتی ہے۔ ایک صحابی رض نے آپ ﷺ کے سامنے ایسے ہی کہہ دیا : ” مَاشَاء اللّٰــــــــــــــــهَ وَمَا شِءْتَ “ یعنی جو اللہ چاہے اور جو آپ ﷺ چاہیں۔ آپ ﷺ نے انہیں فوراً ٹوک دیا اور فرمایا : اَجَعَلْتَنِیْ لِلّٰــــــــــــــــهِ نِدًّا ؟ مَا شَاء اللّٰہُ وَحْدَہٗ ” کیا تو نے مجھے اللہ کا مدمقابل بنا دیا ہے ؟ بلکہ وہی ہوگا جو تنہا اللہ چاہے۔ “ ٢ اس کائنات میں مشیت صرف ایک ہستی کی چلتی ہے۔ کسی اور کی مشیت اس کی مشیت کے تابع پوری ہوجائے تو ہوجائے ‘ لیکن مشیت مطلقہ صرف اس کی ہے۔ یہاں تک کہ قرآن حکیم میں رسول اللہ ﷺ سے فرمایا گیا :
اِنَّکَ لَا تَھْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰــــــــــــــــهَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ
{القصص : ٥٦}
” اے نبی ﷺ ! یقینا آپ جسے چاہیں اسے ہدایت نہیں دے سکتے ‘ بلکہ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ “
اگر ہدایت کا معاملہ رسول اللہ ﷺ کے اختیار میں ہوتا تو ابوطالب دنیا سے ایمان لائے بغیر رخصت نہ ہوتے۔
ان دو آیتوں میں توحید کے دونوں پہلو بیان ہوگئے👇🏿 ‘
1️⃣ توحید نظری بھی اور
2️⃣توحید عملی بھی
توحید عملی یہ ہے کہ بندگی صرف اسی کی ہے۔ اب اگلی آیت میں ایمان بالرسالت کا بیان آرہا ہے۔
📕 وَاِنۡ کُنۡتُمۡ فِىۡ رَيۡبٍ مِّمَّا نَزَّلۡنَا عَلٰى عَبۡدِنَا فَاۡتُوۡا بِسُوۡرَةٍ مِّنۡ مِّثۡلِهٖ وَادۡعُوۡا شُهَدَآءَكُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ اِنۡ كُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ ۞
ترجمہ:
"اور اگر تم واقعتا شک میں ہو اس کلام کے بارے میں جو ہم نے اتارا اپنے بندے پر (کہ یہ ہمارا نازل کردہ ہے یا نہیں) تو لے آؤ ایک ہی سورت اس جیسی۔ اور بلا لو اپنے سارے مددگاروں کو اللہ کے سوا اگر تم سچے ہو" ۔
✍🏻 تفسیر:
وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا ‘
” تعارف قرآن “ میں یہ بات تفصیل سے بیان کی گئی تھی کہ قرآن حکیم میں ایسے پانچ مقامات ہیں جہاں پر یہ چیلنج موجود ہے کہ اگر تمہارا یہ خیال ہے کہ یہ کلام محمد ﷺ کی اختراع ہے تو تم بھی مقابلے میں ایسا ہی کلام پیش کرو۔
✨ سورة الطور کی آیات ٣٣ ‘ ٣٤ میں ارشاد ہوا :
” کیا ان کا یہ کہنا ہے کہ اسے محمد ﷺ نے خود گھڑ لیا ہے ؟ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ماننے کو تیار نہیں۔ پھر چاہیے کہ وہ اسی طرح کا کوئی کلام پیش کریں اگر وہ سچے ہیں “۔
✨ سورة بنی اسراء یل آیت ٨٨ میں فرمایا گیا کہ
” اگر تمام جن و انس جمع ہو کر بھی اس قرآن جیسی کتاب پیش کرنا چاہیں تو ہرگز نہیں کرسکیں گے ‘ چاہے وہ سب ایک دوسرے کے مددگار ہی کیوں نہ ہوں “۔
✨ پھر سورة ہود آیت ١٣ میں فرمایا گیا کہ
” اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے کہہ دیجیے اگر پورے قرآن کی نظیر نہیں لاسکتے تو ایسی دس سورتیں ہی گھڑ کرلے آؤ ! “
اس کے بعد مزید نیچے اتر کر ‘ جسے برسبیل تنزل کہا جاتا ہے ‘
✨ سورة یونس آیت ٣٨ میں اس جیسی ایک ہی سورت بنا کرلے آنے کا چیلنج دیا گیا۔
مذکورہ بالا تمام مقامات مکی سورتوں میں ہیں۔ پہلی مدنی سورة ” البقرۃ “ کی آیت زیر مطالعہ میں یہی بات بڑے اہتمام کے ساتھ فرمائی گئی کہ اگر تم لوگوں کو اس کلام کے بارے میں کوئی شک ہے جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے کہ یہ اللہ کا کلام نہیں ہے تو اس جیسی ایک سورت تم بھی موزوں کر کے لے آؤ ! یہ ایک سورت سورة العصر کے مساوی بھی ہوسکتی تھی ‘ سورة الکوثر کے مساوی بھی ہوسکتی تھی۔
وَادْعُوْا شُھَدَآءَ کُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰــــــــــــــــهِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
قریش کا خیال یہ تھا کہ شعراء کے پاس جن ہوتے ہیں ‘ جو انہیں شعر سکھاتے ہیں ‘ ورنہ عام آدمی تو شعر نہیں کہہ سکتا۔ چناچہ فرمایا کہ جو بھی تمہارے مددگار ہوں ‘ ایک اللہ کو چھوڑ کر جس کی بھی تم مدد حاصل کرسکتے ہو ‘ جنات ہوں یا انسان ہوں ‘ خطیب ہوں ‘ شعراء ہوں یا ادیب ہوں ‘ ان سب کو جمع کرلو اور اس قرآن جیسی ایک ہی سورت بنا کرلے آؤ ‘ اگر تم سچے ہو۔ ّ
قرآن کا انداز یہ ہے کہ وہ اپنے اندر جھانکنے کی دعوت دیتا ہے۔ چناچہ یہاں گویا آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ کہا جا رہا ہے کہ حقیقت میں تمہیں اس قرآن کے کلام الٰہی ہونے میں کوئی شک نہیں ہے ‘ یہ تو تم محض بات بنا رہے ہو۔ اگر تمہیں واقعتا شک ہے ‘ اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو آؤ میدان میں اور اس جیسی ایک ہی سورت بنا لاؤ !
📕 فَاِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلُوۡا وَلَنۡ تَفۡعَلُوۡا فَاتَّقُوۡا النَّارَ الَّتِىۡ وَقُوۡدُهَا النَّاسُ وَالۡحِجَارَةُ ۖۚ اُعِدَّتۡ لِلۡكٰفِرِيۡنَ ۞
ترجمہ:
"پھر اگر تم ایسا نہ کرسکو اور ہرگز نہ کرسکوگے ! ) تو پھر بچو اس آگ سے جس کا ایندھن بنیں گے انسان اور پتھر۔ تیار کی گئی ہے کافروں کے لیے" ۔
✍🏻 تفسیر:
فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْا
یہ چیلنج اللہ کے سوا کوئی نہیں دے سکتا۔ یہ انداز دنیا کی کسی کتاب کا نہیں ہے ‘ یہ دعویٰ صرف قرآن کا ہے۔ کیسا دو ٹوک انداز ہے : ” پھر اگر تم نہ کر پاؤ ‘ اور تم ہرگز نہیں کر پاؤ گے۔ “
فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ
جہنم کے ایندھن کے طور پر پتھروں کا ذکر خاص طور پر کیا گیا ہے۔ اس کے دو امکانات ہیں۔ ایک تو یہ کہ آپ کو معلوم ہے پتھر کے کوئلے کی آگ عام لکڑی کے کوئلے کے مقابلے میں بڑی سخت ہوتی ہے۔ لہٰذا جہنم کی آگ بہت بڑے بڑے پتھروں سے دہکائی جائے گی۔ دوسرے یہ کہ مشرکین نے جو معبود تراش رکھے تھے وہ پتھر کے ہوتے تھے۔ مشرکین کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ تمہارے ساتھ تمہارے ان معبودوں کو بھی جہنم میں جھونکا جائے گا تاکہ تمہاری حسرت کے اندر اضافہ ہو کہ یہ ہیں وہ معبودان باطل جن سے ہم دعائیں مانگا کرتے تھے ‘ جن کے سامنے ماتھے ٹیکتے تھے ‘ جن کے سامنے ڈنڈوت کرتے تھے ‘ جن کو چڑھاوے چڑھاتے تھے !
اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِیْنَ
یہ جہنم منکرین حق کے لیے تیار کی گئی ہے۔ اب یہاں گویا ایمان باللہ اور ایمان بالرسالت کے بعد ایمان بالآخرت کا ذکر آگیا۔
📕 وَبَشِّرِ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُؕ ڪُلَّمَا رُزِقُوۡا مِنۡهَا مِنۡ ثَمَرَةٍ رِّزۡقًا ۙ قَالُوۡا هٰذَا الَّذِىۡ رُزِقۡنَا مِنۡ قَبۡلُ وَاُتُوۡا بِهٖ مُتَشَابِهًا ؕ وَلَهُمۡ فِيۡهَآ اَزۡوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ ۙ وَّهُمۡ فِيۡهَا خٰلِدُوۡنَ ۞
ترجمہ:
"اور بشارت دے دیجیے (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے کہ ان کے لیے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے ندیاں بہتی ہوں گی۔ جب بھی انہیں دیا جائے گا وہاں کا کوئی پھل رزق کے طور پر (یعنی کھانے کے لیے) وہ کہیں گے یہ تو وہی ہے جو ہمیں پہلے بھی ملتا تھا اور دیے جائیں گے ان کو پھل ایک صورت کے۔ اور ان کے لیے اس (جنت) میں نہایت پاکباز بیویاں ہوں گی۔ اور وہ اس میں رہیں گے ہمیشہ ہمیشہ"۔
✍🏻 تفسیر:
وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ
یہ لفظی ترجمہ ہے۔ مراد اس سے یہ ہے کہ جن کے دامن میں ندیاں بہتی ہوں گی۔ اس لیے کہ فطری باغ عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ جس میں ذرا اونچائی پر درخت لگے ہوئے ہیں اور دامن میں ندی بہہ رہی ہے ‘ جس سے خود بخود آب پاشی ہو رہی ہے اور درختوں کی جڑوں تک پانی پہنچ رہا ہے۔
کُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْھَا مِنْ ثَمَرَۃٍ رِّزْقًا
قَالُوْا ھٰذَا الَّذِیْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَاُتُوْا بِہٖ مُتَشَابِھًا ؕ
اس کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ جنت میں اہل جنت کی جو ابتدائی دعوت یا ابتدائی ضیافت نُزُل ہوگی اس میں انہیں وہی پھل پیش کیے جائیں گے جو دنیا میں معروف ہیں ‘ مثلاً انار ‘ انگور ‘ سیب ‘ کھجور وغیرہ۔ اہل جنت انہیں دیکھ کر کہیں گے کہ یہ تو وہی پھل ہیں جو ہم دنیا میں کھاتے آئے ہیں ‘ لیکن جب انہیں چکھیں گے تو ظاہری مشابہت کے باوجود ذائقے میں زمین و آسمان کا فرق پائیں گے۔ اور ایک مفہوم یہ بھی لیا گیا ہے کہ اہل جنت کو جنت میں بھی وہی پھل ملتے رہیں گے ‘ لیکن ہر بار ان کا ذائقہ بدلتا رہے گا۔ ان کی شکل و صورت وہی رہے گی ‘ لیکن ذائقہ وہ نہیں رہے گا۔ لہٰذا یہ دنیا والا معاملہ نہیں ہوگا کہ ایک ہی شے کو کھاتے کھاتے انسان کی طبیعت بھر جاتی ہے۔
وَلَھُمْ فِیْھَآ اَزْوَاجٌ مُّطَھَّرَۃٌ
وَّھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ
قریش کا خیال یہ تھا کہ شعراء کے پاس جن ہوتے ہیں ‘ جو انہیں شعر سکھاتے ہیں ‘ ورنہ عام آدمی تو شعر نہیں کہہ سکتا۔ چناچہ فرمایا کہ جو بھی تمہارے مددگار ہوں ‘ ایک اللہ کو چھوڑ کر جس کی بھی تم مدد حاصل کرسکتے ہو ‘ جنات ہوں یا انسان ہوں ‘ خطیب ہوں ‘ شعراء ہوں یا ادیب ہوں ‘ ان سب کو جمع کرلو اور اس قرآن جیسی ایک ہی سورت بنا کرلے آؤ ‘ اگر تم سچے ہو۔ ّ
قرآن کا انداز یہ ہے کہ وہ اپنے اندر جھانکنے کی دعوت دیتا ہے۔ چناچہ یہاں گویا آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ کہا جا رہا ہے کہ حقیقت میں تمہیں اس قرآن کے کلام الٰہی ہونے میں کوئی شک نہیں ہے ‘ یہ تو تم محض بات بنا رہے ہو۔ اگر تمہیں واقعتا شک ہے ‘ اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو آؤ میدان میں اور اس جیسی ایک ہی سورت بنا لاؤ !
📕 فَاِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلُوۡا وَلَنۡ تَفۡعَلُوۡا فَاتَّقُوۡا النَّارَ الَّتِىۡ وَقُوۡدُهَا النَّاسُ وَالۡحِجَارَةُ ۖۚ اُعِدَّتۡ لِلۡكٰفِرِيۡنَ ۞
ترجمہ:
"پھر اگر تم ایسا نہ کرسکو اور ہرگز نہ کرسکوگے ! ) تو پھر بچو اس آگ سے جس کا ایندھن بنیں گے انسان اور پتھر۔ تیار کی گئی ہے کافروں کے لیے" ۔
✍🏻 تفسیر:
فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْا
یہ چیلنج اللہ کے سوا کوئی نہیں دے سکتا۔ یہ انداز دنیا کی کسی کتاب کا نہیں ہے ‘ یہ دعویٰ صرف قرآن کا ہے۔ کیسا دو ٹوک انداز ہے : ” پھر اگر تم نہ کر پاؤ ‘ اور تم ہرگز نہیں کر پاؤ گے۔ “
فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ
جہنم کے ایندھن کے طور پر پتھروں کا ذکر خاص طور پر کیا گیا ہے۔ اس کے دو امکانات ہیں۔ ایک تو یہ کہ آپ کو معلوم ہے پتھر کے کوئلے کی آگ عام لکڑی کے کوئلے کے مقابلے میں بڑی سخت ہوتی ہے۔ لہٰذا جہنم کی آگ بہت بڑے بڑے پتھروں سے دہکائی جائے گی۔ دوسرے یہ کہ مشرکین نے جو معبود تراش رکھے تھے وہ پتھر کے ہوتے تھے۔ مشرکین کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ تمہارے ساتھ تمہارے ان معبودوں کو بھی جہنم میں جھونکا جائے گا تاکہ تمہاری حسرت کے اندر اضافہ ہو کہ یہ ہیں وہ معبودان باطل جن سے ہم دعائیں مانگا کرتے تھے ‘ جن کے سامنے ماتھے ٹیکتے تھے ‘ جن کے سامنے ڈنڈوت کرتے تھے ‘ جن کو چڑھاوے چڑھاتے تھے !
اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِیْنَ
یہ جہنم منکرین حق کے لیے تیار کی گئی ہے۔ اب یہاں گویا ایمان باللہ اور ایمان بالرسالت کے بعد ایمان بالآخرت کا ذکر آگیا۔
📕 وَبَشِّرِ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُؕ ڪُلَّمَا رُزِقُوۡا مِنۡهَا مِنۡ ثَمَرَةٍ رِّزۡقًا ۙ قَالُوۡا هٰذَا الَّذِىۡ رُزِقۡنَا مِنۡ قَبۡلُ وَاُتُوۡا بِهٖ مُتَشَابِهًا ؕ وَلَهُمۡ فِيۡهَآ اَزۡوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ ۙ وَّهُمۡ فِيۡهَا خٰلِدُوۡنَ ۞
ترجمہ:
"اور بشارت دے دیجیے (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے کہ ان کے لیے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے ندیاں بہتی ہوں گی۔ جب بھی انہیں دیا جائے گا وہاں کا کوئی پھل رزق کے طور پر (یعنی کھانے کے لیے) وہ کہیں گے یہ تو وہی ہے جو ہمیں پہلے بھی ملتا تھا اور دیے جائیں گے ان کو پھل ایک صورت کے۔ اور ان کے لیے اس (جنت) میں نہایت پاکباز بیویاں ہوں گی۔ اور وہ اس میں رہیں گے ہمیشہ ہمیشہ"۔
✍🏻 تفسیر:
وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ
یہ لفظی ترجمہ ہے۔ مراد اس سے یہ ہے کہ جن کے دامن میں ندیاں بہتی ہوں گی۔ اس لیے کہ فطری باغ عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ جس میں ذرا اونچائی پر درخت لگے ہوئے ہیں اور دامن میں ندی بہہ رہی ہے ‘ جس سے خود بخود آب پاشی ہو رہی ہے اور درختوں کی جڑوں تک پانی پہنچ رہا ہے۔
کُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْھَا مِنْ ثَمَرَۃٍ رِّزْقًا
قَالُوْا ھٰذَا الَّذِیْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَاُتُوْا بِہٖ مُتَشَابِھًا ؕ
اس کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ جنت میں اہل جنت کی جو ابتدائی دعوت یا ابتدائی ضیافت نُزُل ہوگی اس میں انہیں وہی پھل پیش کیے جائیں گے جو دنیا میں معروف ہیں ‘ مثلاً انار ‘ انگور ‘ سیب ‘ کھجور وغیرہ۔ اہل جنت انہیں دیکھ کر کہیں گے کہ یہ تو وہی پھل ہیں جو ہم دنیا میں کھاتے آئے ہیں ‘ لیکن جب انہیں چکھیں گے تو ظاہری مشابہت کے باوجود ذائقے میں زمین و آسمان کا فرق پائیں گے۔ اور ایک مفہوم یہ بھی لیا گیا ہے کہ اہل جنت کو جنت میں بھی وہی پھل ملتے رہیں گے ‘ لیکن ہر بار ان کا ذائقہ بدلتا رہے گا۔ ان کی شکل و صورت وہی رہے گی ‘ لیکن ذائقہ وہ نہیں رہے گا۔ لہٰذا یہ دنیا والا معاملہ نہیں ہوگا کہ ایک ہی شے کو کھاتے کھاتے انسان کی طبیعت بھر جاتی ہے۔
وَلَھُمْ فِیْھَآ اَزْوَاجٌ مُّطَھَّرَۃٌ
وَّھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ
📍 مذکورہ بالا ان پانچ آیات ٢١ تا ٢٥ میں ایمانیات ثلاثہ یعنی ایمان باللہ ‘ ایمان بالرسول اور ایمان بالآخرۃ کی دعوت آگئی۔ اب آگے کچھ ضمنی مسائل زیربحث آئیں گے۔
🤲🏻 بارک اللّٰــــــــــــــــه لی ولکم فی القرآن العظیم ونفعنی وایاکم بالآیات والذکر الحکیم
🤲🏻 بارک اللّٰــــــــــــــــه لی ولکم فی القرآن العظیم ونفعنی وایاکم بالآیات والذکر الحکیم
🌺🍃🍃🌺🍃🍃🌺
*💕قرآن میری زندگی💕*
〰〰〰〰〰〰〰
*🌷اعوز باللہ من الشیطان الرجیم*
*🌷بسم اللہ الرحمن الرحیم*
🍃 *سورة الفاتحہ*
🖌 آیت نمبر: *2*
*الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۲﴾*
بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا۔
🍃 *آیت کا ترجمہ*
*عبارت کی وضاحت* *تجوید*۰
🌺🍃🍃🌺🍃🍃🌺
#قرآن_میری_زندگی
*💕قرآن میری زندگی💕*
〰〰〰〰〰〰〰
*🌷اعوز باللہ من الشیطان الرجیم*
*🌷بسم اللہ الرحمن الرحیم*
🍃 *سورة الفاتحہ*
🖌 آیت نمبر: *2*
*الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۲﴾*
بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا۔
🍃 *آیت کا ترجمہ*
*عبارت کی وضاحت* *تجوید*۰
🌺🍃🍃🌺🍃🍃🌺
#قرآن_میری_زندگی
🍃🌺آجکا لیکچر سن کر آپکو اپنے رب پر بے پناہ پیار آئے گا
*آجکی آیت سن کر خود کو چیک کریں*
*آجکی آیت سن کر خود کو چیک کریں*
*💫Quran Reminders💫*
〰〰🍃🌷🍃〰〰
🌹 بسم الله الرحمن الرحيم 🌹
السلام عليكم و رحمة الله و بركاته
*📖 Para 0⃣7⃣*
📘 *Surah Al-An'aam* 👇🏻
▶ *Part # 02-A*
*Ayahs 21-60*
*⏰- 17:05*
🍁 *جزاكم الله خيراً كثيراً* 🍁
〰〰🍃🌷🍃〰〰
#قرآن_تفسیر_استاذہ_عفت_مقبول
〰〰🍃🌷🍃〰〰
🌹 بسم الله الرحمن الرحيم 🌹
السلام عليكم و رحمة الله و بركاته
*📖 Para 0⃣7⃣*
📘 *Surah Al-An'aam* 👇🏻
▶ *Part # 02-A*
*Ayahs 21-60*
*⏰- 17:05*
🍁 *جزاكم الله خيراً كثيراً* 🍁
〰〰🍃🌷🍃〰〰
#قرآن_تفسیر_استاذہ_عفت_مقبول
*💫Quran Reminders💫*
〰〰🍃🌷🍃〰〰
*📖 Para 0⃣7⃣*
📘 *Surah Al-An'aam* 👇🏻
▶ *Part # 02-A*
*Ayahs 21-60*
〰〰🍃🌷🍃〰〰
*🌷Breif Description of Lecture*
〰〰🍃🌷🍃〰〰
آج کے لیکچر میں بتایا گیا ہے کہ *جہنم کے عذاب کا ذکر کیا گیا ہے* میدان محشر کے مناظر کو بیان کیا گیا ہے ۔۔۔ سارے مسائل کی جڑ دنیا ہے... آخرت کی فکر کرنے کی ضرورت ہے
*📚آج کے لیکچر میں جو باتیں بتائی گئی ہیں اگر ان کو دل میں اتار لیا جائے تو بہت سے دلی روگوں کا خاتمہ پیدا ہو سکتا ہے ۔۔۔ اور لوگوں کا خوف اور ڈر دل سے نکل جائے گا📚* ۔۔۔ ان شاءاللہ ۔۔۔ توجہ سے سنیے
〰〰🍃🌷🍃〰〰
*یاد رکھیے*
〰〰🍃👇🏻🍃〰〰
*📚نفع اور نقصان کا مالک لوگ نہیں بلکہ صرف اور صرف اللہ ہے ۔۔۔۔ یہ عقیدہ بندوں کو بے خوف بنا دیتا ہے ۔۔۔📚*
〰〰🍃👆🏻🍃〰〰
✍🏻لیکچر کو سنتے ہوۓ دل کا جائزہ ضرور لیجیے گا
〰〰🍃🌷🍃〰〰
〰〰🍃🌷🍃〰〰
*📖 Para 0⃣7⃣*
📘 *Surah Al-An'aam* 👇🏻
▶ *Part # 02-A*
*Ayahs 21-60*
〰〰🍃🌷🍃〰〰
*🌷Breif Description of Lecture*
〰〰🍃🌷🍃〰〰
آج کے لیکچر میں بتایا گیا ہے کہ *جہنم کے عذاب کا ذکر کیا گیا ہے* میدان محشر کے مناظر کو بیان کیا گیا ہے ۔۔۔ سارے مسائل کی جڑ دنیا ہے... آخرت کی فکر کرنے کی ضرورت ہے
*📚آج کے لیکچر میں جو باتیں بتائی گئی ہیں اگر ان کو دل میں اتار لیا جائے تو بہت سے دلی روگوں کا خاتمہ پیدا ہو سکتا ہے ۔۔۔ اور لوگوں کا خوف اور ڈر دل سے نکل جائے گا📚* ۔۔۔ ان شاءاللہ ۔۔۔ توجہ سے سنیے
〰〰🍃🌷🍃〰〰
*یاد رکھیے*
〰〰🍃👇🏻🍃〰〰
*📚نفع اور نقصان کا مالک لوگ نہیں بلکہ صرف اور صرف اللہ ہے ۔۔۔۔ یہ عقیدہ بندوں کو بے خوف بنا دیتا ہے ۔۔۔📚*
〰〰🍃👆🏻🍃〰〰
✍🏻لیکچر کو سنتے ہوۓ دل کا جائزہ ضرور لیجیے گا
〰〰🍃🌷🍃〰〰
*💫Quran Reminders💫*
〰〰🍃🌷🍃〰〰
*عملی نکات*
*📖 Para 0⃣7⃣*
📘 *Surah Al-An'aam* 👇🏻
▶ *Part # 02-A*
*Ayahs 21-60*
〰〰🍃🌷🍃〰〰
*🌷روز محشر کی تیاری کرنی ہے اور اللہ کا خوف دل میں پیدا کرنا ہے..*
*🌷 موت کے بعد دنیا میں کبھی واپسی ممکن نہیں... اس لیے اسی دنیا میں آخرت کی تیاری کرنی ہے... اس وقت کو غنیمت جانو..*
*🌷 موت اچانک آتی ہے... اس کے لیے تیاری کرنی ہے*
*🌷قیامت کے دن لوگ گناہوں کے بوجھ پیٹھ پر لادے ہوئے ہوں گے... گناہوں سے بچنے کی کوشش کرنی ہے*
*🌷تقدیر لکھی جا چکی ہے اس لیے تقدیر پر ایمان ضروری ہے... جب سب سہارے ٹوٹ جاتے ہیں تب اللہ یاد آتا*
ہے
*🌷دکھ ہو یا سکھ ہو صرف اور صرف اللہ سے ہی مانگنا چاہیے..*
〰〰🍃🌷🍃〰〰
〰〰🍃🌷🍃〰〰
*عملی نکات*
*📖 Para 0⃣7⃣*
📘 *Surah Al-An'aam* 👇🏻
▶ *Part # 02-A*
*Ayahs 21-60*
〰〰🍃🌷🍃〰〰
*🌷روز محشر کی تیاری کرنی ہے اور اللہ کا خوف دل میں پیدا کرنا ہے..*
*🌷 موت کے بعد دنیا میں کبھی واپسی ممکن نہیں... اس لیے اسی دنیا میں آخرت کی تیاری کرنی ہے... اس وقت کو غنیمت جانو..*
*🌷 موت اچانک آتی ہے... اس کے لیے تیاری کرنی ہے*
*🌷قیامت کے دن لوگ گناہوں کے بوجھ پیٹھ پر لادے ہوئے ہوں گے... گناہوں سے بچنے کی کوشش کرنی ہے*
*🌷تقدیر لکھی جا چکی ہے اس لیے تقدیر پر ایمان ضروری ہے... جب سب سہارے ٹوٹ جاتے ہیں تب اللہ یاد آتا*
ہے
*🌷دکھ ہو یا سکھ ہو صرف اور صرف اللہ سے ہی مانگنا چاہیے..*
〰〰🍃🌷🍃〰〰