ذہنی سکون کے لیے وظیفہ
سوال
ذہنی سکون کے لیے کوئی وظیفہ بتادیں!
جواب
قرآن مجید کی درج ذیل آیت ہر نماز کے بعد گیارہ مرتبہ پڑھ لیا کریں :
{وَ لِيَرْبِطَ عَلٰى قُلُوْبِكُمْ وَ يُثَبِّتَ بِهِ الْاَقْدَامَ} (پارہ نمبر 9، سورۃ الانفال، آیت نمبر 11)
نیز پنج وقتہ نمازوں کی پابندی کے ساتھ، کثرت سے استغفار اور اللہ کا ذکر کرنے سے بھی ذہن کو سکون اور راحت میسر ہوگا۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144010200542
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
#محمداصغرچمپارنی_القاسمی
سوال
ذہنی سکون کے لیے کوئی وظیفہ بتادیں!
جواب
قرآن مجید کی درج ذیل آیت ہر نماز کے بعد گیارہ مرتبہ پڑھ لیا کریں :
{وَ لِيَرْبِطَ عَلٰى قُلُوْبِكُمْ وَ يُثَبِّتَ بِهِ الْاَقْدَامَ} (پارہ نمبر 9، سورۃ الانفال، آیت نمبر 11)
نیز پنج وقتہ نمازوں کی پابندی کے ساتھ، کثرت سے استغفار اور اللہ کا ذکر کرنے سے بھی ذہن کو سکون اور راحت میسر ہوگا۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144010200542
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
#محمداصغرچمپارنی_القاسمی
اگر بچہ رات کو پیدا ہو تو اگلا دن پیدائش کا پہلا دن شمار ہوگا
سوال
میرا بیٹا جمعرات کی رات تقریبًا 10بجے پیداہوا، تو عقیقہ کا ساتواں دن کون سا پڑےگا بدھ یا جمعرات ؟
جواب
آپ کا بیٹا چوں کہ جمعرات کی رات (یعنی جمعرات کا دن گزار کر شبِ جمعہ میں) 10 بجے کے قریب پیدا ہوا ہے ، لہٰذا جمعہ کا دن اس کی ولادت کا پہلا دن شمار ہوگا اور اگلی جمعرات کو اس کی پیدائش کا ساتواں دن ہوگا۔
اب اگر آپ چاہیں تو بدھ کے دن مغرب کے بعد یعنی بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات کو بھی عقیقہ کرسکتے ہیں، لیکن زیادہ بہتر اور افضل یہ ہے کہ جمعرات کے دن سورج نکلنے کے بعد عقیقہ کیاجاۓ۔
"و ذبحھا في الیوم السابع یسنّ والأولی فعلھا صدر النھار عند طلوع الشمس بعد وقت الكراهة للتبرك بالبکور."
(تنقیح الفتاوی الحامدیة: ( ۲ / ۲۳۳ ) کتاب الذبائح، ط : مکتبه امدادیه )
فقط واللہ اعلم
ماخذ: دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر: 144210200939
تاریخ اجراء: 01-06-2021
#محمداصغرچمپارنی_القاسمی
سوال
میرا بیٹا جمعرات کی رات تقریبًا 10بجے پیداہوا، تو عقیقہ کا ساتواں دن کون سا پڑےگا بدھ یا جمعرات ؟
جواب
آپ کا بیٹا چوں کہ جمعرات کی رات (یعنی جمعرات کا دن گزار کر شبِ جمعہ میں) 10 بجے کے قریب پیدا ہوا ہے ، لہٰذا جمعہ کا دن اس کی ولادت کا پہلا دن شمار ہوگا اور اگلی جمعرات کو اس کی پیدائش کا ساتواں دن ہوگا۔
اب اگر آپ چاہیں تو بدھ کے دن مغرب کے بعد یعنی بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات کو بھی عقیقہ کرسکتے ہیں، لیکن زیادہ بہتر اور افضل یہ ہے کہ جمعرات کے دن سورج نکلنے کے بعد عقیقہ کیاجاۓ۔
"و ذبحھا في الیوم السابع یسنّ والأولی فعلھا صدر النھار عند طلوع الشمس بعد وقت الكراهة للتبرك بالبکور."
(تنقیح الفتاوی الحامدیة: ( ۲ / ۲۳۳ ) کتاب الذبائح، ط : مکتبه امدادیه )
فقط واللہ اعلم
ماخذ: دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر: 144210200939
تاریخ اجراء: 01-06-2021
#محمداصغرچمپارنی_القاسمی
دیوالی کی مبارک باد دینا
سوال
کیا دیوالی کی مبارک باد دینے کی اجازت ہے؟
جواب
غیر مسلموں کے مذہبی تہوار کے موقع پر انہیں مبارک باد دینا گویا ان کے نقطہ نظر کی تائید ہے، نیز چوں کہ غیر مسلموں کے مذہبی تہوار مشرکانہ اعتقادات پر مبنی ہوتے ہیں، جب کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارے لیے شرک سے بے زاری اور لاتعلقی کا اظہار ضروری ہے، اس لیے دیوالی کی مبارک باد دینا جائز نہیں، اور اگر اس سے ان کے دین کی تعظیم یا اس پر رضامندی مقصود ہو تو کفر کا اندیشہ ہے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144102200320
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
#محمداصغرچمپارنی_القاسمی
سوال
کیا دیوالی کی مبارک باد دینے کی اجازت ہے؟
جواب
غیر مسلموں کے مذہبی تہوار کے موقع پر انہیں مبارک باد دینا گویا ان کے نقطہ نظر کی تائید ہے، نیز چوں کہ غیر مسلموں کے مذہبی تہوار مشرکانہ اعتقادات پر مبنی ہوتے ہیں، جب کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارے لیے شرک سے بے زاری اور لاتعلقی کا اظہار ضروری ہے، اس لیے دیوالی کی مبارک باد دینا جائز نہیں، اور اگر اس سے ان کے دین کی تعظیم یا اس پر رضامندی مقصود ہو تو کفر کا اندیشہ ہے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144102200320
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
#محمداصغرچمپارنی_القاسمی
مرنے كے بعد روح كا گھر آنا؟
سوال:کیا مرنے کے بعد روح کا واپس گھر کو آنا یاجمعرات کو آنا ایسا حدیث یا قرآن یا صحابہ کرام کی زندگی میں کچھ دلیل ہے؟
جواب نمبر: 145542
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 070-088/M=2/1438
مرنے کے بعد مردہ کی روح اپنے مقام علیین یا سجین میں پہنچادی جاتی ہے، اسے دنیا میں نہیں بھیجا جاتا ہے، مرنے کے بعد روح کا گھر واپس آنا یا جمعرات کو آنا قرآن و صریح حدیث سے ثابت نہیں ہے کلا إن کتٰب الفجار لفی سجین۔ المطففین:۷۔ کلا إن کتٰب الأبرار لفی علیین۔ المطففین: ۱۸۔ قلنا وجہ التوفیق: أن مقر أرواح المومنین فی علیین أو فی السماء السابعة ونحو ذلک کما مر ومقر أرواح الکفار فی سجین۔ التفسیر المظہری: ۱۰/ ۲۲۵، حافظ کتب خانہ کوئٹہ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
#محمداصغرچمپارنی_القاسمی
سوال:کیا مرنے کے بعد روح کا واپس گھر کو آنا یاجمعرات کو آنا ایسا حدیث یا قرآن یا صحابہ کرام کی زندگی میں کچھ دلیل ہے؟
جواب نمبر: 145542
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 070-088/M=2/1438
مرنے کے بعد مردہ کی روح اپنے مقام علیین یا سجین میں پہنچادی جاتی ہے، اسے دنیا میں نہیں بھیجا جاتا ہے، مرنے کے بعد روح کا گھر واپس آنا یا جمعرات کو آنا قرآن و صریح حدیث سے ثابت نہیں ہے کلا إن کتٰب الفجار لفی سجین۔ المطففین:۷۔ کلا إن کتٰب الأبرار لفی علیین۔ المطففین: ۱۸۔ قلنا وجہ التوفیق: أن مقر أرواح المومنین فی علیین أو فی السماء السابعة ونحو ذلک کما مر ومقر أرواح الکفار فی سجین۔ التفسیر المظہری: ۱۰/ ۲۲۵، حافظ کتب خانہ کوئٹہ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
#محمداصغرچمپارنی_القاسمی
کیا جنات کو تابع کرنا جائز ہے؟
سوال:کیا جنات کو تابع کرنا جائز ہے؟ میں جنات کو تابع کرکے لوگوں کی مدد کرنا چاہتا ہوں، کیونکہ انڈیا میں بہت جھوٹے عامل ہیں جو مجبور لوگوں کا فائدہ اٹھا رہے ہیں، مجھے برداشت نہیں ہو رہا ہے، ہماری بھی بہن کو دیکھ کر کچھ مدد کیجئے گا۔
جواب نمبر: 145555
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 070-091/L=2/1438
جنات کو تابع کرنے کے سلسلے میں کچھ تفصیل ہے جس کی وضاحت حضرت مفتی شفیع صاحب نے اپنی کتاب معارف القرآن میں کی ہے جو ماشاء اللہ کافی و شافی ہے اس کو من و عن نقل کیا جاتا ہے۔
”خلاصہ یہ ہے کہ جنات کی تسخیر اگر کسی کے لیے بغیر قصد و عمل کے محض منجانب اللہ ہو جائے جیسا کہ سلیمان علیہ السلام اور بعض صحابہ کرام کے متعلق ثابت ہے تو وہ معجزہ یا کرامت میں داخل ہے اور جو تسخیر عملیات کے ذریعہ کی جاتی ہے اس میں اگر کلمات کفریہ یا اعمال کفریہ ہوں تو کفر، اور صرف معصیت پر مشتمل ہوں تو گناہِ کبیرہ ہے، اور جن عملیات میں ایسے الفاظ استعمال کیے جائیں جن کے معنی معلوم نہیں ان کو بھی فقہاء نے اس بنا پر ناجائز کہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ان کلمات میں کفر و شرک یا معصیت پر مشتمل کلمات ہوں قاضی بدرالدین نے ”آکام المرجان“ میں ایسے نامعلوم المعنی کلمات کے استعمال کو بھی ناجائز لکھا ہے، اور اگر یہ عمل تسخیر اسماء الہٰیہ یا آیاتِ قرآنیہ کے ذریعہ ہو اور اس میں نجاست وغیرہ کے استعمال جیسی کوئی معصیت بھی نہ ہو تو وہ اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ مقصود اس سے جنات کی ایذاء سے خود بچنا یا دوسرے مسلمانوں کو بچانا ہو یعنی دفعِ مضرت مقصود ہو، جلب منفعت مقصود نہ ہو کیونکہ اگر اس کو کسبِ مال کا پیشہ بنایا گیا تو اس لیے جائز نہیں کہ اس میں استرقاقِ حر یعنی آزاد کو اپنا غلام بنانا اور بلا حقِ شرعی اس سے بیگار لینا ہے جو حرام ہے واللہ اعلم (معارف القرآن: ۷/ ۲۶۶) واضح رہے کہ تسخیر کا عمل دشوار رہتا ہے اور بسا اوقات اس میں جان کا بھی خطرہ رہتا ہے اس لیے اس سے احتراز کرنے میں ہی بھلائی ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
#محمداصغرچمپارنی_القاسمی
سوال:کیا جنات کو تابع کرنا جائز ہے؟ میں جنات کو تابع کرکے لوگوں کی مدد کرنا چاہتا ہوں، کیونکہ انڈیا میں بہت جھوٹے عامل ہیں جو مجبور لوگوں کا فائدہ اٹھا رہے ہیں، مجھے برداشت نہیں ہو رہا ہے، ہماری بھی بہن کو دیکھ کر کچھ مدد کیجئے گا۔
جواب نمبر: 145555
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 070-091/L=2/1438
جنات کو تابع کرنے کے سلسلے میں کچھ تفصیل ہے جس کی وضاحت حضرت مفتی شفیع صاحب نے اپنی کتاب معارف القرآن میں کی ہے جو ماشاء اللہ کافی و شافی ہے اس کو من و عن نقل کیا جاتا ہے۔
”خلاصہ یہ ہے کہ جنات کی تسخیر اگر کسی کے لیے بغیر قصد و عمل کے محض منجانب اللہ ہو جائے جیسا کہ سلیمان علیہ السلام اور بعض صحابہ کرام کے متعلق ثابت ہے تو وہ معجزہ یا کرامت میں داخل ہے اور جو تسخیر عملیات کے ذریعہ کی جاتی ہے اس میں اگر کلمات کفریہ یا اعمال کفریہ ہوں تو کفر، اور صرف معصیت پر مشتمل ہوں تو گناہِ کبیرہ ہے، اور جن عملیات میں ایسے الفاظ استعمال کیے جائیں جن کے معنی معلوم نہیں ان کو بھی فقہاء نے اس بنا پر ناجائز کہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ان کلمات میں کفر و شرک یا معصیت پر مشتمل کلمات ہوں قاضی بدرالدین نے ”آکام المرجان“ میں ایسے نامعلوم المعنی کلمات کے استعمال کو بھی ناجائز لکھا ہے، اور اگر یہ عمل تسخیر اسماء الہٰیہ یا آیاتِ قرآنیہ کے ذریعہ ہو اور اس میں نجاست وغیرہ کے استعمال جیسی کوئی معصیت بھی نہ ہو تو وہ اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ مقصود اس سے جنات کی ایذاء سے خود بچنا یا دوسرے مسلمانوں کو بچانا ہو یعنی دفعِ مضرت مقصود ہو، جلب منفعت مقصود نہ ہو کیونکہ اگر اس کو کسبِ مال کا پیشہ بنایا گیا تو اس لیے جائز نہیں کہ اس میں استرقاقِ حر یعنی آزاد کو اپنا غلام بنانا اور بلا حقِ شرعی اس سے بیگار لینا ہے جو حرام ہے واللہ اعلم (معارف القرآن: ۷/ ۲۶۶) واضح رہے کہ تسخیر کا عمل دشوار رہتا ہے اور بسا اوقات اس میں جان کا بھی خطرہ رہتا ہے اس لیے اس سے احتراز کرنے میں ہی بھلائی ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
#محمداصغرچمپارنی_القاسمی
*تین طلاق معلق کا حکم اور اس سے بچنے کا حیلہ*
سوال
اگر کسی نے اپنی بیوی کو کہا کہ تو اگر گھر سے نکلی تو تجھے تین طلاق ہو جائیں گی ، مگر نیت صرف ڈرانے کی تھی، نہ کہ واقعی طلاق دینے کی، تو کیا بیوی کے گھر سے نکلنے کی صورت میں طلاق ہو جائے گی؟
جواب
صورتِ مسئولہ میں جب مذکورہ شخص نے یہ جملہ کہا :اگر گھر سے نکلی تو تجھے تین طلاق ہو جائیں گی، تو ایسی صورت میں مذکورہ شخص کی بیوی کی طلاق گھر سے نکلنے پر موقوف ہو گئی، اب اگر وہ گھر سے نکلے گی تو اس کو تین طلاقیں واقع ہو جائیں گے۔ پھر مذکورہ شخص نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں یہ الفاظ طلاق کے صریح الفاظ ہیں ان سے طلاق کے وقوع کے لیے نیت کی حاجت نہیں ہوتی، نیت کے بغیر بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔
البتہ تین طلاق سے بچنے کی یہ صورت ہے کہ مذکورہ شخص اپنی اہلیہ کوایک طلاقِ رجعی دے دے ، اور عدت میں رجوع نہ کرے، جب بیوی کی عدت ختم ہوجائے (یعنی تین ماہواریاں گزر جائیں یاحاملہ ہونے کی صورت میں وضع حمل کے بعد) تو وہ گھر سے نکل جائے، ایسا کرنے سے یہ تعلیق ختم ہوجائے گی، اور چوں کہ اُس وقت وہ مذکورہ شخص کے نکاح میں نہیں ہوگی؛ اس لیے تین طلاقیں واقع نہیں ہوں گی اور شرط پوری ہوجائے گی، پھر دونوں میاں بیوی دوبارہ باہمی رضامندی سے مہر مقرر کرکے گواہوں کی موجودگی میں نکاح کرلیں۔ لیکن آئندہ کے لیے دو طلاقوں کا حق باقی ہوگا، اور اس شخص کو بات چیت میں احتیاط کرنی چاہیے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 355):
"فحيلة من علق الثلاث بدخول الدار أن يطلقها واحدة ثم بعد العدة تدخلها فتنحل اليمين فينكحها."
فقط واللہ اعلم
ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144206201011
تاریخ اجراء :01-02-2021
#المفتی_محمد_رضوان_الاعظمی_القاسمی
سوال
اگر کسی نے اپنی بیوی کو کہا کہ تو اگر گھر سے نکلی تو تجھے تین طلاق ہو جائیں گی ، مگر نیت صرف ڈرانے کی تھی، نہ کہ واقعی طلاق دینے کی، تو کیا بیوی کے گھر سے نکلنے کی صورت میں طلاق ہو جائے گی؟
جواب
صورتِ مسئولہ میں جب مذکورہ شخص نے یہ جملہ کہا :اگر گھر سے نکلی تو تجھے تین طلاق ہو جائیں گی، تو ایسی صورت میں مذکورہ شخص کی بیوی کی طلاق گھر سے نکلنے پر موقوف ہو گئی، اب اگر وہ گھر سے نکلے گی تو اس کو تین طلاقیں واقع ہو جائیں گے۔ پھر مذکورہ شخص نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں یہ الفاظ طلاق کے صریح الفاظ ہیں ان سے طلاق کے وقوع کے لیے نیت کی حاجت نہیں ہوتی، نیت کے بغیر بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔
البتہ تین طلاق سے بچنے کی یہ صورت ہے کہ مذکورہ شخص اپنی اہلیہ کوایک طلاقِ رجعی دے دے ، اور عدت میں رجوع نہ کرے، جب بیوی کی عدت ختم ہوجائے (یعنی تین ماہواریاں گزر جائیں یاحاملہ ہونے کی صورت میں وضع حمل کے بعد) تو وہ گھر سے نکل جائے، ایسا کرنے سے یہ تعلیق ختم ہوجائے گی، اور چوں کہ اُس وقت وہ مذکورہ شخص کے نکاح میں نہیں ہوگی؛ اس لیے تین طلاقیں واقع نہیں ہوں گی اور شرط پوری ہوجائے گی، پھر دونوں میاں بیوی دوبارہ باہمی رضامندی سے مہر مقرر کرکے گواہوں کی موجودگی میں نکاح کرلیں۔ لیکن آئندہ کے لیے دو طلاقوں کا حق باقی ہوگا، اور اس شخص کو بات چیت میں احتیاط کرنی چاہیے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 355):
"فحيلة من علق الثلاث بدخول الدار أن يطلقها واحدة ثم بعد العدة تدخلها فتنحل اليمين فينكحها."
فقط واللہ اعلم
ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144206201011
تاریخ اجراء :01-02-2021
#المفتی_محمد_رضوان_الاعظمی_القاسمی
مسافر امام نے چار رکعات نماز پڑھائی تو کیا حکم ہے؟
سوال
حضرت ! 2 باتوں کی وضاحت کر دیں۔ 1۔ مسافر امام نے ظہر کی نماز میں 2 رکعت کی نیت کی مگر بھولے سے 4 رکعت پڑھا دیں۔ 2۔ مسافر امام نے لا علمی سے 4 کی نیت کر کے ظہر پڑھا دی۔ کس صورت میں نماز دوہرانے کی ضرورت ہے؟
جواب
مسئلہ نمبر۔1:
کسی مسافر امام نے دو رکعت کی نیت کی اور چار رکعت نماز پڑھادی تو اس کی دو صورتیں ہیں:
پہلی صورت:
امام نےدوسری رکعت کے بعد قعدہ کیا ہے تو مقیم مقتدیوں کی نماز درست نہیں ہوگی اور خود اس امام کی اور مسافر مقتدیوں کی نماز آخر میں سجدہ سہو کرنے سے درست ہو جائے گی، اور اگر سجدہ سہو کئے بغیر سلام پھیر دیا ہے، تو جب تک نماز کا وقت باقی ہو، مسافر پر اس فرض نماز کا دوبارہ پڑھنا واجب ہوگا، اور وقت گزرنے کے بعد دوبارہ پڑھنا مستحب ہوگا۔
دوسری صورت:
امام نےدوسری رکعت کے بعد قعدہ نہیں کیا ہے تو امام اور اس کے پیچھے نماز پڑھنے والے مقتدی چاہے مسافر ہو یا مقیم سب کی فرض نماز باطل ہوجائے گی اور یہ نماز نفل شمار ہوگی، اور فرض نماز دوبارہ پڑھنا لازم ہوگا۔
مسئلہ نمبر۔2:
اگر مسافر امام نے چار رکعات کی نیت کی اور دو رکعت نماز پڑھائی، تو نماز ادا ہوجائے گی، کیونکہ رکعات کی تعداد میں غلطی سے نماز پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے، اور اگر چار رکعات کی نیت کرکے چار رکعات پڑھائی، تو اس کی تفصیل پہلے مسئلہ میں بیان کردی گئی ہے۔
-------------------------------
دلائل:
لمافی الدرالمختار:
ﻓﻠﻮ ﺃﺗﻢ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﺇﻥ ﻗﻌﺪ ﻓﻲ) اﻟﻘﻌﺪﺓ (اﻷﻭﻟﻰ ﺗﻢ ﻓﺮﺿﻪ ﻭ) ﻟﻜﻨﻪ (ﺃﺳﺎء) ﻟﻮ ﻋﺎﻣﺪا ﻟﺘﺄﺧﻴﺮ اﻟﺴﻼﻡ۔۔۔۔(ﻭﻣﺎ ﺯاﺩ ﻧﻔﻞ) ﻛﻤﺼﻠﻲ اﻟﻔﺠﺮ ﺃﺭﺑﻌﺎ (ﻭﺇﻥ ﻟﻢ ﻳﻘﻌﺪ ﺑﻄﻞ ﻓﺮﺿﻪ) ﻭﺻﺎﺭ اﻟﻜﻞ ﻧﻔﻼ ﻟﺘﺮﻙ اﻟﻘﻌﺪﺓاﻟﻤﻔﺮﻭﺿﺔ۔(ج:٢، ص: ١٢٨،ط:دارالفکر بیروت)
وفی الشامیة:
ﻭﺃﻃﻠﻘﻪ ﻓﺸﻤﻞ ﻣﺎ ﺇﺫا ﻧﻮﻯ ﺃﺭﺑﻌﺎ ﺃﻭ ﺭﻛﻌﺘﻴﻦ ﺧﻼﻓﺎ ﻟﻤﺎ ﺃﻓﺎﺩﻩ ﻓﻲ اﻟﺪﺭﺭ ﻣﻦ اﺷﺘﺮاﻁ اﻟﻨﻴﺔ ﺭﻛﻌﺘﻴﻦ ﻟﻤﺎ ﻓﻲ اﻟﺸﺮﻧﺒﻼﻟﻴﺔ ﻣﻦ ﺃﻧﻪ ﻻ ﻳﺸﺘﺮﻁ ﻧﻴﺔ ﻋﺪﺩ اﻟﺮﻛﻌﺎﺕ ﻭﻟﻤﺎ ﺻﺮﺡ ﺑﻪ اﻟﺰﻳﻠﻌﻲ ﻓﻲ ﺑﺎﺏ اﻟﺴﻬﻮ ﻣﻦ ﺃﻥ اﻟﺴﺎﻫﻲ ﻟﻮ ﺳﻠﻢ ﻟﻠﻘﻄﻊ ﻳﺴﺠﺪ ﻷﻧﻪ ﻧﻮﻯ ﺗﻐﻴﻴﺮ اﻟﻤﺸﺮﻭﻉ ﻓﺘﻠﻐﻮ، ﻛﻤﺎ ﻟﻮ ﻧﻮﻯ اﻟﻈﻬﺮ ﺳﺘﺎ ﺃﻭ ﻧﻮﻯ ﻣﺴﺎﻓﺮ اﻟﻈﻬﺮ ﺃﺭﺑﻌﺎ ﺃﻓﺎﺩﻩ ﺃﺑﻮ اﻟﺴﻌﻮﺩ ﻋﻦ ﺷﻴﺨﻪ.ﻗﻠﺖ: ﻟﻜﻦ ﺫﻛﺮ ﻓﻲ اﻟﺠﻮﻫﺮﺓ ﺃﻧﻪ ﻳﺼﺢ ﻋﻨﺪ ﺃﺑﻲ ﻳﻮﺳﻒ ﻭﻻ ﻳﺼﺢ ﻋﻨﺪ ﻣﺤﻤﺪ.
(ج:٢، ص: ١٢٨،ط:دارالفکر بیروت)
و فیہ ایضا:
ﻓﻠﻮ ﺃﺗﻢ اﻟﻤﻘﻴﻤﻮﻥ ﺻﻼﺗﻬﻢ ﻣﻌﻪ ﻓﺴﺪﺕ ﻷﻧﻪ اﻗﺘﺪاء اﻟﻤﻔﺘﺮﺽ ﺑﺎﻟﻤﺘﻨﻔﻞ۔
(ج:٢، ص: ١٣٠،ط:دارالفکر بیروت)
ماخذ: دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر: 2108
#محمداصغرچمپارنی_القاسمی
سوال
حضرت ! 2 باتوں کی وضاحت کر دیں۔ 1۔ مسافر امام نے ظہر کی نماز میں 2 رکعت کی نیت کی مگر بھولے سے 4 رکعت پڑھا دیں۔ 2۔ مسافر امام نے لا علمی سے 4 کی نیت کر کے ظہر پڑھا دی۔ کس صورت میں نماز دوہرانے کی ضرورت ہے؟
جواب
مسئلہ نمبر۔1:
کسی مسافر امام نے دو رکعت کی نیت کی اور چار رکعت نماز پڑھادی تو اس کی دو صورتیں ہیں:
پہلی صورت:
امام نےدوسری رکعت کے بعد قعدہ کیا ہے تو مقیم مقتدیوں کی نماز درست نہیں ہوگی اور خود اس امام کی اور مسافر مقتدیوں کی نماز آخر میں سجدہ سہو کرنے سے درست ہو جائے گی، اور اگر سجدہ سہو کئے بغیر سلام پھیر دیا ہے، تو جب تک نماز کا وقت باقی ہو، مسافر پر اس فرض نماز کا دوبارہ پڑھنا واجب ہوگا، اور وقت گزرنے کے بعد دوبارہ پڑھنا مستحب ہوگا۔
دوسری صورت:
امام نےدوسری رکعت کے بعد قعدہ نہیں کیا ہے تو امام اور اس کے پیچھے نماز پڑھنے والے مقتدی چاہے مسافر ہو یا مقیم سب کی فرض نماز باطل ہوجائے گی اور یہ نماز نفل شمار ہوگی، اور فرض نماز دوبارہ پڑھنا لازم ہوگا۔
مسئلہ نمبر۔2:
اگر مسافر امام نے چار رکعات کی نیت کی اور دو رکعت نماز پڑھائی، تو نماز ادا ہوجائے گی، کیونکہ رکعات کی تعداد میں غلطی سے نماز پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے، اور اگر چار رکعات کی نیت کرکے چار رکعات پڑھائی، تو اس کی تفصیل پہلے مسئلہ میں بیان کردی گئی ہے۔
-------------------------------
دلائل:
لمافی الدرالمختار:
ﻓﻠﻮ ﺃﺗﻢ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﺇﻥ ﻗﻌﺪ ﻓﻲ) اﻟﻘﻌﺪﺓ (اﻷﻭﻟﻰ ﺗﻢ ﻓﺮﺿﻪ ﻭ) ﻟﻜﻨﻪ (ﺃﺳﺎء) ﻟﻮ ﻋﺎﻣﺪا ﻟﺘﺄﺧﻴﺮ اﻟﺴﻼﻡ۔۔۔۔(ﻭﻣﺎ ﺯاﺩ ﻧﻔﻞ) ﻛﻤﺼﻠﻲ اﻟﻔﺠﺮ ﺃﺭﺑﻌﺎ (ﻭﺇﻥ ﻟﻢ ﻳﻘﻌﺪ ﺑﻄﻞ ﻓﺮﺿﻪ) ﻭﺻﺎﺭ اﻟﻜﻞ ﻧﻔﻼ ﻟﺘﺮﻙ اﻟﻘﻌﺪﺓاﻟﻤﻔﺮﻭﺿﺔ۔(ج:٢، ص: ١٢٨،ط:دارالفکر بیروت)
وفی الشامیة:
ﻭﺃﻃﻠﻘﻪ ﻓﺸﻤﻞ ﻣﺎ ﺇﺫا ﻧﻮﻯ ﺃﺭﺑﻌﺎ ﺃﻭ ﺭﻛﻌﺘﻴﻦ ﺧﻼﻓﺎ ﻟﻤﺎ ﺃﻓﺎﺩﻩ ﻓﻲ اﻟﺪﺭﺭ ﻣﻦ اﺷﺘﺮاﻁ اﻟﻨﻴﺔ ﺭﻛﻌﺘﻴﻦ ﻟﻤﺎ ﻓﻲ اﻟﺸﺮﻧﺒﻼﻟﻴﺔ ﻣﻦ ﺃﻧﻪ ﻻ ﻳﺸﺘﺮﻁ ﻧﻴﺔ ﻋﺪﺩ اﻟﺮﻛﻌﺎﺕ ﻭﻟﻤﺎ ﺻﺮﺡ ﺑﻪ اﻟﺰﻳﻠﻌﻲ ﻓﻲ ﺑﺎﺏ اﻟﺴﻬﻮ ﻣﻦ ﺃﻥ اﻟﺴﺎﻫﻲ ﻟﻮ ﺳﻠﻢ ﻟﻠﻘﻄﻊ ﻳﺴﺠﺪ ﻷﻧﻪ ﻧﻮﻯ ﺗﻐﻴﻴﺮ اﻟﻤﺸﺮﻭﻉ ﻓﺘﻠﻐﻮ، ﻛﻤﺎ ﻟﻮ ﻧﻮﻯ اﻟﻈﻬﺮ ﺳﺘﺎ ﺃﻭ ﻧﻮﻯ ﻣﺴﺎﻓﺮ اﻟﻈﻬﺮ ﺃﺭﺑﻌﺎ ﺃﻓﺎﺩﻩ ﺃﺑﻮ اﻟﺴﻌﻮﺩ ﻋﻦ ﺷﻴﺨﻪ.ﻗﻠﺖ: ﻟﻜﻦ ﺫﻛﺮ ﻓﻲ اﻟﺠﻮﻫﺮﺓ ﺃﻧﻪ ﻳﺼﺢ ﻋﻨﺪ ﺃﺑﻲ ﻳﻮﺳﻒ ﻭﻻ ﻳﺼﺢ ﻋﻨﺪ ﻣﺤﻤﺪ.
(ج:٢، ص: ١٢٨،ط:دارالفکر بیروت)
و فیہ ایضا:
ﻓﻠﻮ ﺃﺗﻢ اﻟﻤﻘﻴﻤﻮﻥ ﺻﻼﺗﻬﻢ ﻣﻌﻪ ﻓﺴﺪﺕ ﻷﻧﻪ اﻗﺘﺪاء اﻟﻤﻔﺘﺮﺽ ﺑﺎﻟﻤﺘﻨﻔﻞ۔
(ج:٢، ص: ١٣٠،ط:دارالفکر بیروت)
ماخذ: دار الافتاء الاخلاص کراچی
فتوی نمبر: 2108
#محمداصغرچمپارنی_القاسمی
*اشارہ سے لقمہ دینے والے کی نماز کا حکم*
سوال ]۲۷۸۶[: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں: کہ دو شخص ایک جگہ نماز پڑھ رہے تھے ان میں سے ایک قاعدہ اولیٰ چھوڑ کر کھڑا ہونے لگا تو دوسرے نے ہاتھ مار کر بیٹھنے کی طرف اشارہ کیا جس کی وجہ سے وہ قعدہ کی طرف لوٹ آیا، تو اس صورت میں ان کی نماز ہوئی یا نہیں؟
المستفتی: فرید الدین امروہوی
باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جو شخص کھڑا ہونے جارہا تھا دوسرے آدمی کے ہاتھ مار کر اشارہ کرنے کی وجہ سے وہ بیٹھنے کی طرف لوٹ آیا اور لوٹنے کا سبب اشارہ کرنے والے کا اشارہ ہی بنا، تو ایسی صورت میں لوٹنے والے کی نماز فاسد ہوگئی اور اشارہ کرنے والے کی نماز اس لئے فاسد ہوگئی کہ اس نے غیر امام کو لقمہ دیا ہے۔نیز ہاتھ کا مارنا عمل کثیر بھی ہے؛ اس لئے بھی اس کی نماز فاسد ہوگئی۔
وفتحہ علی غیر إمامہ لأنہ تعلم وتعلیم من غیر حاجۃ، بحر وہو شامل لفتح المقتدي علی مثلہ وعلی المنفرد وعلی غیر المصلي وعلی إمام آخر لفتح الإمام والمنفرد علي أي شخص کان إن أراد بہ التعلیم لا التلاوۃ، نہر قولہ وکذا الأخذ أي أخذ المصلي غیر الإمام بفتح من فتح علیہ مفسد أیضا۔ (شامي، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ، و مایکرہ فیہا، کراچی ۱/۶۲۲، زکریا ۲/۳۸۱)
فتاویٰ قاسمیہ ج7
#المفتی_محمد_رضوان_الاعظمی_القاسمی
سوال ]۲۷۸۶[: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں: کہ دو شخص ایک جگہ نماز پڑھ رہے تھے ان میں سے ایک قاعدہ اولیٰ چھوڑ کر کھڑا ہونے لگا تو دوسرے نے ہاتھ مار کر بیٹھنے کی طرف اشارہ کیا جس کی وجہ سے وہ قعدہ کی طرف لوٹ آیا، تو اس صورت میں ان کی نماز ہوئی یا نہیں؟
المستفتی: فرید الدین امروہوی
باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جو شخص کھڑا ہونے جارہا تھا دوسرے آدمی کے ہاتھ مار کر اشارہ کرنے کی وجہ سے وہ بیٹھنے کی طرف لوٹ آیا اور لوٹنے کا سبب اشارہ کرنے والے کا اشارہ ہی بنا، تو ایسی صورت میں لوٹنے والے کی نماز فاسد ہوگئی اور اشارہ کرنے والے کی نماز اس لئے فاسد ہوگئی کہ اس نے غیر امام کو لقمہ دیا ہے۔نیز ہاتھ کا مارنا عمل کثیر بھی ہے؛ اس لئے بھی اس کی نماز فاسد ہوگئی۔
وفتحہ علی غیر إمامہ لأنہ تعلم وتعلیم من غیر حاجۃ، بحر وہو شامل لفتح المقتدي علی مثلہ وعلی المنفرد وعلی غیر المصلي وعلی إمام آخر لفتح الإمام والمنفرد علي أي شخص کان إن أراد بہ التعلیم لا التلاوۃ، نہر قولہ وکذا الأخذ أي أخذ المصلي غیر الإمام بفتح من فتح علیہ مفسد أیضا۔ (شامي، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ، و مایکرہ فیہا، کراچی ۱/۶۲۲، زکریا ۲/۳۸۱)
فتاویٰ قاسمیہ ج7
#المفتی_محمد_رضوان_الاعظمی_القاسمی
حیض بند کرانے کے لیے دوا کا استعمال
*الجواب حامداً و مصلیاً و مسلماً :*
حیض بند کرنے یا کھولنے کیلئے معالجہ کرنا مباح ہے( 246) مطلوب شرعی ہے اور نہ ممنوع شرعی (ردالمحتار ص۸۲۷ جلد۱ )[1]وهوالموفق
[1]قال العلامه ابن عابدین: قال فی السراج سئل بعض المشائخ عن المرضعة إذا لم ترحیضا فعالجته حتی رأت صفرة فی أيام الحیض قال هو حیض تنقضی به العدة۔ (ردالمحتار هامش الدرالمختار ص۲۰۲جلد۱ باب العدة) (فتاوی فریدیہ ج۲/۱۰۸-۱۰۹)
توضيح المسئله:فكما جاز إجراء الحيض يجوز إيقافه لمدة معينه لغرض صحيح(مرتب)
اور فتاوی دارالعلوم زکریا میں ہے:
حیض چونکہ کوئی ایسی چیز نہیں کہ اس کا جاری رہنا ضروری ہو بلکہ عارضی چیز ہے اسے روکنے کے لئے دوا کھانا ممنوع نہیں ہے ، بلکہ جائز ہے خصوصاً حج یا رمضان میں دو ائی کا استعمال فائدہ مند ہو سکتا ہے ، تاکہ عورت اپنے واجبات سہولت اور آسانی کے ساتھ ادا کرسکے کیونکہ ان ایام میں حیض آنے سے عموماً تکالیف اٹھانی پڑتی ہیں البتہ حیض کو مستقل بند کرنے کے لئے دو استعمال کرنا مناسب نہیں ہے چونکہ اس میں صحت پر اثر پڑنے کا اندیشہ ہے اس لئے احتیاط بہتر ہے ۔
رد المحتار میں ہے :
وقال فی السراج سئل المشائخ عن المرضعة إذا لم ترحیضاً فعالجته حتی رأت صفرة فی أيام الحیض قال هوحیض تنقضی به العدة۔(رد المحتار۱/ ۳۰4)
نیز مذکورہے: وأیضا لوانقطع دمها فعالجته بدواء حتی رأت صفرة فی أيام الحیض أجاب بعض المشائخ بأنه تنقضی به العدة.(رد المحتار ۳/ 55)
جامع الفتاویٰ مدلل ج6/ 275
#المفتی_محمد_رضوان_الاعظمی_القاسمی
*الجواب حامداً و مصلیاً و مسلماً :*
حیض بند کرنے یا کھولنے کیلئے معالجہ کرنا مباح ہے( 246) مطلوب شرعی ہے اور نہ ممنوع شرعی (ردالمحتار ص۸۲۷ جلد۱ )[1]وهوالموفق
[1]قال العلامه ابن عابدین: قال فی السراج سئل بعض المشائخ عن المرضعة إذا لم ترحیضا فعالجته حتی رأت صفرة فی أيام الحیض قال هو حیض تنقضی به العدة۔ (ردالمحتار هامش الدرالمختار ص۲۰۲جلد۱ باب العدة) (فتاوی فریدیہ ج۲/۱۰۸-۱۰۹)
توضيح المسئله:فكما جاز إجراء الحيض يجوز إيقافه لمدة معينه لغرض صحيح(مرتب)
اور فتاوی دارالعلوم زکریا میں ہے:
حیض چونکہ کوئی ایسی چیز نہیں کہ اس کا جاری رہنا ضروری ہو بلکہ عارضی چیز ہے اسے روکنے کے لئے دوا کھانا ممنوع نہیں ہے ، بلکہ جائز ہے خصوصاً حج یا رمضان میں دو ائی کا استعمال فائدہ مند ہو سکتا ہے ، تاکہ عورت اپنے واجبات سہولت اور آسانی کے ساتھ ادا کرسکے کیونکہ ان ایام میں حیض آنے سے عموماً تکالیف اٹھانی پڑتی ہیں البتہ حیض کو مستقل بند کرنے کے لئے دو استعمال کرنا مناسب نہیں ہے چونکہ اس میں صحت پر اثر پڑنے کا اندیشہ ہے اس لئے احتیاط بہتر ہے ۔
رد المحتار میں ہے :
وقال فی السراج سئل المشائخ عن المرضعة إذا لم ترحیضاً فعالجته حتی رأت صفرة فی أيام الحیض قال هوحیض تنقضی به العدة۔(رد المحتار۱/ ۳۰4)
نیز مذکورہے: وأیضا لوانقطع دمها فعالجته بدواء حتی رأت صفرة فی أيام الحیض أجاب بعض المشائخ بأنه تنقضی به العدة.(رد المحتار ۳/ 55)
جامع الفتاویٰ مدلل ج6/ 275
#المفتی_محمد_رضوان_الاعظمی_القاسمی
غزوۂ ہند کے لیے غزوہ کا لفظ
سوال
غزوہ ہند برحق ہے اور ضرور برپا ہوگا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اس جنگ کو آخر ’’غزوہ‘‘ کیوں کہا گیا؟ غزوات تو نبی کریم ﷺ کی زندگی میں ختم ہوچکے اور غزوہ اس جنگ کو کہا جاتاہے جس میں نبی کریم ﷺ بنفسِ نفیس موجود ہوں!
جواب
سیرت کی کتابوں میں عام اسلوب یہی ہے کہ جس معرکہ میں نبی کریمﷺ بنفسِ نفیس شریک ہوئے ہوں اسے ’’غزوہ‘‘ کہتے ہیں، لیکن غزوہ کی یہ اصطلاح اور تعریف کسی حدیث یا نص کی بنیاد پر متعین نہیں ہے، یعنی ایسا نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خود اپنی زندگی میں جن جنگوں میں شرکت فرمائی انہیں غزوہ کا نام دیا اور جن لشکروں میں آپ ﷺ بنفسِ نفیس تشریف نہیں لے گئے انہیں آپ ﷺ نے سریہ کا نام دیا ہو، اگر ایسا ہوتا تو سوال درست ہوتا کہ حدیث میں اسے غزوہ کیوں کہا گیا! جب کہ غزوہ اور سریہ کی مشہور اصطلاح بعد کے عرف میں طے ہوئی ہے، اور اصطلاحات میں ایسا ہوتاہے کہ کبھی وہ اپنے مشہور معنیٰ میں استعمال نہیں ہوتیں، چناں چہ ’’غزوہ ‘‘ کے استعمال میں بھی یہ قاعدہ، قاعدہ کلیہ نہیں ہے، جیسا کہ ’’غزوہ موتہ‘‘ کے لیے بھی ’’غزوہ‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے حال آں کہ نبی کریمﷺ خود اس معرکہ میں شریک نہیں ہوئے تھے۔
لہذا رسول اللہ ﷺ کی احادیثِ مبارکہ میں بعد کے زمانوں میں پیش آنے والی جنگ کے لیے ’’غزوہ ہند‘‘ کے الفاظ پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا۔ اس حوالے سے بعض عوام میں جو یہ بات کہی جاتی ہے کہ غزوہ ہند کو غزوہ ہند اس لیے کہا جاتا ہے کہ غزوہ وہ ہوتاہے جس میں نبی علیہ السلام شریک ہوں، اور غزوہ ہند میں اللہ کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام موجود ہوں گے، اس تکلف کی ضرورت نہیں ہے، اس لیے کہ اولاً غزوہ ہند کے مصداق میں اہلِ علم کی آراء مختلف ہیں، اگر اس کا مصداق وہ آخری جنگ مان لی جائے جو حضرت عیسی علی نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام کے زمانے میں ہوگی تو بھی یہ بات متعین ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس وقت ہند کے بجائے شام میں ہوں گے، لہٰذا اس جنگ میں بھی براہِ راست اللہ کے نبی علیہ السلام شریک نہیں ہوں گے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ سیرت کی عام کتابوں میں اگرچہ ’’غزوہ‘‘ سے مراد وہ لشکر ہوتاہے جس میں رسول اللہ ﷺ بنفسِ نفیس تشریف لے گئے ہوں، لیکن کتبِ احادیث اور سیرت میں ہی بعض اوقات ’’غزوہ‘‘ کا اطلاق ان لشکروں پر بھی ہوا ہے جن میں رسول اللہ ﷺ بنفسِ نفیس تشریف نہیں لے گئے، (جیسے غزوہ موتہ کا ذکر ہوچکا) چناں چہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ’’صحیح بخاری‘‘ میں ’’کتاب المغازی‘‘ کے عنوان کے تحت فرماتے ہیں کہ ’’مغازی‘‘ سے مراد یہاں ان لشکروں کی تشکیل ہے جو رسول اللہ ﷺ کی طرف سے کفار کی طرف بھیجے گئے، خواہ آپ ﷺ بنفسِ نفیس تشریف لے گئے یا آپ ﷺ نے کوئی لشکر بھیج دیا۔
فتح الباري لابن حجر (7 / 279):
"والمغازي جمع مغزى، يقال: غزا يغزو غزواً ومغزىً، والأصل غزوا والواحدة غزوة وغزاة والميم زائدة، وعن ثعلب: الغزوة المرة والغزاة عمل سنة كاملة، وأصل الغزو القصد، ومغزى الكلام: مقصده، والمراد بالمغازي هنا ما وقع من قصد النبي صلى الله عليه وسلم الكفار بنفسه أو بجيش من قبله".
سنن النسائي (6 / 42):
" عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: «وَعَدَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزْوَةَ الْهِنْدِ، فَإِنْ أَدْرَكْتُهَا أُنْفِقْ فِيهَا نَفْسِي وَمَالِي، فَإِنْ أُقْتَلْ كُنْتُ مِنْ أَفْضَلِ الشُّهَدَاءِ، وَإِنْ أَرْجِعْ فَأَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ الْمُحَرَّرُ»".
الفتن لنعيم بن حماد (1 / 409):
"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: «وَعَدَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزْوَةَ الْهِنْدِ، فَإِنْ أَدْرَكْتُهَا أَنْفَقْتُ فِيهَا نَفْسِي وَمَالِي، فَإِنِ اسْتُشْهِدْتُ كُنْتُ مِنْ أَفْضَلِ الشُّهَدَاءِ، وَإِنْ رَجَعْتُ فَأَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ الْمُحَرِّرُ»".
مسند أحمد مخرجاً (12 / 28):
"عن أبي هريرة، قال: «وعدنا رسول الله صلى الله عليه وسلم غزوة الهند فإن استشهدت كنت من خير الشهداء، وإن رجعت، فأنا أبو هريرة المحرر»". فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144012200233
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
#محمداصغرچمپارنی_القاسمی
سوال
غزوہ ہند برحق ہے اور ضرور برپا ہوگا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اس جنگ کو آخر ’’غزوہ‘‘ کیوں کہا گیا؟ غزوات تو نبی کریم ﷺ کی زندگی میں ختم ہوچکے اور غزوہ اس جنگ کو کہا جاتاہے جس میں نبی کریم ﷺ بنفسِ نفیس موجود ہوں!
جواب
سیرت کی کتابوں میں عام اسلوب یہی ہے کہ جس معرکہ میں نبی کریمﷺ بنفسِ نفیس شریک ہوئے ہوں اسے ’’غزوہ‘‘ کہتے ہیں، لیکن غزوہ کی یہ اصطلاح اور تعریف کسی حدیث یا نص کی بنیاد پر متعین نہیں ہے، یعنی ایسا نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خود اپنی زندگی میں جن جنگوں میں شرکت فرمائی انہیں غزوہ کا نام دیا اور جن لشکروں میں آپ ﷺ بنفسِ نفیس تشریف نہیں لے گئے انہیں آپ ﷺ نے سریہ کا نام دیا ہو، اگر ایسا ہوتا تو سوال درست ہوتا کہ حدیث میں اسے غزوہ کیوں کہا گیا! جب کہ غزوہ اور سریہ کی مشہور اصطلاح بعد کے عرف میں طے ہوئی ہے، اور اصطلاحات میں ایسا ہوتاہے کہ کبھی وہ اپنے مشہور معنیٰ میں استعمال نہیں ہوتیں، چناں چہ ’’غزوہ ‘‘ کے استعمال میں بھی یہ قاعدہ، قاعدہ کلیہ نہیں ہے، جیسا کہ ’’غزوہ موتہ‘‘ کے لیے بھی ’’غزوہ‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے حال آں کہ نبی کریمﷺ خود اس معرکہ میں شریک نہیں ہوئے تھے۔
لہذا رسول اللہ ﷺ کی احادیثِ مبارکہ میں بعد کے زمانوں میں پیش آنے والی جنگ کے لیے ’’غزوہ ہند‘‘ کے الفاظ پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا۔ اس حوالے سے بعض عوام میں جو یہ بات کہی جاتی ہے کہ غزوہ ہند کو غزوہ ہند اس لیے کہا جاتا ہے کہ غزوہ وہ ہوتاہے جس میں نبی علیہ السلام شریک ہوں، اور غزوہ ہند میں اللہ کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام موجود ہوں گے، اس تکلف کی ضرورت نہیں ہے، اس لیے کہ اولاً غزوہ ہند کے مصداق میں اہلِ علم کی آراء مختلف ہیں، اگر اس کا مصداق وہ آخری جنگ مان لی جائے جو حضرت عیسی علی نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام کے زمانے میں ہوگی تو بھی یہ بات متعین ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس وقت ہند کے بجائے شام میں ہوں گے، لہٰذا اس جنگ میں بھی براہِ راست اللہ کے نبی علیہ السلام شریک نہیں ہوں گے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ سیرت کی عام کتابوں میں اگرچہ ’’غزوہ‘‘ سے مراد وہ لشکر ہوتاہے جس میں رسول اللہ ﷺ بنفسِ نفیس تشریف لے گئے ہوں، لیکن کتبِ احادیث اور سیرت میں ہی بعض اوقات ’’غزوہ‘‘ کا اطلاق ان لشکروں پر بھی ہوا ہے جن میں رسول اللہ ﷺ بنفسِ نفیس تشریف نہیں لے گئے، (جیسے غزوہ موتہ کا ذکر ہوچکا) چناں چہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ’’صحیح بخاری‘‘ میں ’’کتاب المغازی‘‘ کے عنوان کے تحت فرماتے ہیں کہ ’’مغازی‘‘ سے مراد یہاں ان لشکروں کی تشکیل ہے جو رسول اللہ ﷺ کی طرف سے کفار کی طرف بھیجے گئے، خواہ آپ ﷺ بنفسِ نفیس تشریف لے گئے یا آپ ﷺ نے کوئی لشکر بھیج دیا۔
فتح الباري لابن حجر (7 / 279):
"والمغازي جمع مغزى، يقال: غزا يغزو غزواً ومغزىً، والأصل غزوا والواحدة غزوة وغزاة والميم زائدة، وعن ثعلب: الغزوة المرة والغزاة عمل سنة كاملة، وأصل الغزو القصد، ومغزى الكلام: مقصده، والمراد بالمغازي هنا ما وقع من قصد النبي صلى الله عليه وسلم الكفار بنفسه أو بجيش من قبله".
سنن النسائي (6 / 42):
" عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: «وَعَدَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزْوَةَ الْهِنْدِ، فَإِنْ أَدْرَكْتُهَا أُنْفِقْ فِيهَا نَفْسِي وَمَالِي، فَإِنْ أُقْتَلْ كُنْتُ مِنْ أَفْضَلِ الشُّهَدَاءِ، وَإِنْ أَرْجِعْ فَأَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ الْمُحَرَّرُ»".
الفتن لنعيم بن حماد (1 / 409):
"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: «وَعَدَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزْوَةَ الْهِنْدِ، فَإِنْ أَدْرَكْتُهَا أَنْفَقْتُ فِيهَا نَفْسِي وَمَالِي، فَإِنِ اسْتُشْهِدْتُ كُنْتُ مِنْ أَفْضَلِ الشُّهَدَاءِ، وَإِنْ رَجَعْتُ فَأَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ الْمُحَرِّرُ»".
مسند أحمد مخرجاً (12 / 28):
"عن أبي هريرة، قال: «وعدنا رسول الله صلى الله عليه وسلم غزوة الهند فإن استشهدت كنت من خير الشهداء، وإن رجعت، فأنا أبو هريرة المحرر»". فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144012200233
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
#محمداصغرچمپارنی_القاسمی
*دادا کے عقیقہ کرنے کے بعد باپ کا دوبارہ عقیقہ کرنا*
سوال(۱۶۲):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: دادا نے باپ سے پوچھے بغیر پوتے کا عقیقہ کردیا ، اَب باپ بھی عقیقہ کرنا چاہتا ہے، تو کیا اُس بچہ کا دوبارہ عقیقہ ہوسکتا ہے؟ اگر باپ دوبارہ عقیقہ کردے تو صحیح کونسا ہوگا؟
*باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ*
الجواب وباللّٰہ التوفیق: باپ کی موجودگی میں بچہ کے عقیقہ کا حق باپ کو ہے دادا کو نہیں؛ لہٰذا اگر باپ دوبارہ عقیقہ کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، اور یہی صحیح ہوگا۔
من أحب أن ینسک عن ولدہ فلیفعل۔ (إعلاء السنن ۱۷؍۱۱۴، بہشتی زیور ۳؍۴۲)
یستحب لمن ولد لہ ولد أن یسمیہ یوم أسبوعہ، ویحلق رأسہ ویتصدق عند الأئمۃ الثلاثۃ بزنۃ شعرہ فضۃ أو ذہبًا۔ (شامي ۹؍۴۸۵ زکریا) فقط واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۲؍۴؍۱۴۲۷ھ
الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ
کتاب النوازل ج14/
#المفتی_محمد_رضوان_الاعظمی_القاسمی
سوال(۱۶۲):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: دادا نے باپ سے پوچھے بغیر پوتے کا عقیقہ کردیا ، اَب باپ بھی عقیقہ کرنا چاہتا ہے، تو کیا اُس بچہ کا دوبارہ عقیقہ ہوسکتا ہے؟ اگر باپ دوبارہ عقیقہ کردے تو صحیح کونسا ہوگا؟
*باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ*
الجواب وباللّٰہ التوفیق: باپ کی موجودگی میں بچہ کے عقیقہ کا حق باپ کو ہے دادا کو نہیں؛ لہٰذا اگر باپ دوبارہ عقیقہ کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، اور یہی صحیح ہوگا۔
من أحب أن ینسک عن ولدہ فلیفعل۔ (إعلاء السنن ۱۷؍۱۱۴، بہشتی زیور ۳؍۴۲)
یستحب لمن ولد لہ ولد أن یسمیہ یوم أسبوعہ، ویحلق رأسہ ویتصدق عند الأئمۃ الثلاثۃ بزنۃ شعرہ فضۃ أو ذہبًا۔ (شامي ۹؍۴۸۵ زکریا) فقط واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۲؍۴؍۱۴۲۷ھ
الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ
کتاب النوازل ج14/
#المفتی_محمد_رضوان_الاعظمی_القاسمی
جامع اور مختصر خطبہ نکاح
سوال
جیسا کہ آپ نے اپنی ویب سائٹ پر ایک جامع خطبہ جمعہ بتلایا ہے، برائے کرم ایک مختصر اور جامع خطبہ نکاح بھی لکھ کر بھیج دیجیے؛ تاکہ ایک خطیب اس کو یاد کرکے نکاح پڑھاسکے.
جواب
خطبہ نکاح کا میں بہتر طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرنے کے بعد سورہ آلِ عمران کی آیت نمبر: ۱۰۲ ، سورہ نساء کی آیت نمبر: ۱ ، اور سورہ احزاب کی آیت نمبر : ۷۰ ،۷۱ پڑھی جائے، اس کے بعد نکاح سے متعلق چند احادیث پڑھ لی جائیں۔ ذیل میں نمونہ کے طور پر ایک خطبہ لکھا جارہا ہے:
" اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِیْنُه وَنَسْتَغْفِرُه وَنُؤْمِنُ بِه وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّئاٰتِ اَعْمَالِنَا مَن یَّهْدِهِ اللهُ فَلاَ مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ یُّضْلِلْهُ فَلاَ هَادِیَ لَهُ۞ونشْهَدُ أَنْ لَآ اِلٰهَ اِلاَّ اللهُ وَحْدَهٗ لَا شَرِیْکَ لَهٗ۞وَنشْهَدُ اَنَّ سَیِّدَنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَرَسُوْلُه، أَمَّا بَعْدُ فأَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْم ۞ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِِْ۞ { يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ} [آل عمران: 102] {يَاأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا} [النساء: 1] {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (70) يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا (71)} [الأحزاب: 70، 71] قال النبيﷺ : «يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ». و قال عليه الصلاة والسلام : " تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ: لِمَالِهَا وَلِحَسَبِهَا وَلِجَمَالِهَا وَلِدِينِهَا فَاظْفَرْ بِذَات الدّين تربت يداك". وقالﷺ : «الدُّنْيَا كُلُّهَا مَتَاعٌ، وَخَيْرُ مَتَاعِ الدُّنْيَا الْمَرْأَة الصَّالِحَة». وقال عليه الصلاة والسلام : ’’ النكاح من سنتي ‘‘. و في رواية : ’’ فمن رغب عن سنتي فليس مني ‘‘ أو كما قال عليه الصلاة والسلام".
حوالہ جات:
مشكاة المصابيح (2/ 941):
"عن عبد الله بن مسعود قال: علمنا رسول الله صلى الله عليه وسلم التشهد في الصلاة والتشهد في الحاجة قال: التشهد في الصلاة: «التحيات لله والصلوات والطيبات السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمداً عبده ورسوله» . [ص:942] والتشهد في الحاجة: «إن الحمد لله نستعينه ونستغفره ونعوذ بالله من شرور أنفسنا من يهد الله فلا مضل له ومن يضلل فلا هادي له وأشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمداً عبده ورسوله» . ويقرأ ثلاث آيات: {يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله حق تقاته ولاتموتن إلا وأنتم مسلمون} {يا أيها الناس اتقوا ربكم الذي خلقكم من نفس واحدة وخلق منها زوجها وبث منهما رجالاً كثيراً ونساءً واتقوا الله الذي تساءلون والأرحام إن الله كان عليكم رقيباً} {يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله وقولوا قولاً سديداً يصلح لكم أعمالكم ويغفر لكم ذنوبكم ومن يطع الله ورسوله فقد فاز فوزاً عظيماً}. رواه أحمد والترمذي وأبو داود والنسائي وابن ماجه والدارمي.
وفي جامع الترمذي فسر الآيات الثلاث سفيان الثوري، وزاد ابن ماجه بعد قوله: «إن الحمد لله نحمده» وبعد قوله: «من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا»، والدارمي بعد قوله: «عظيماً»: ثم يتكلم بحاجته. وروى في شرح السنة عن ابن مسعود في خطبة الحاجة من النكاح وغيره".
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (5/ 2069):
"«عن عبد الله بن مسعود قال: علمنا رسول الله صلى الله عليه وسلم التشهد في الصلاة والتشهد في الحاجة»، أي: من النكاح وغيره، والتشهد إظهار الشهادة بالإيقان أو طلب التشهد، وهو حلاوة الإيمان أو طلب الشهود وهو الحضور والعرفان في مقام الإحسان ... (ويقرأ ثلاث آيات) قال الطيبي - رحمه الله -: " هذا في رواية النسائي، وهو يقتضي معطوفاً عليه، فالتقدير يقول: الحمد لله ويقرأ أي النبي صلى الله عليه وسلم:" {يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله حق تقاته} [آل عمران: 102]". فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144012200577
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
#محمداصغرچمپارنی_القاسمی
سوال
جیسا کہ آپ نے اپنی ویب سائٹ پر ایک جامع خطبہ جمعہ بتلایا ہے، برائے کرم ایک مختصر اور جامع خطبہ نکاح بھی لکھ کر بھیج دیجیے؛ تاکہ ایک خطیب اس کو یاد کرکے نکاح پڑھاسکے.
جواب
خطبہ نکاح کا میں بہتر طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرنے کے بعد سورہ آلِ عمران کی آیت نمبر: ۱۰۲ ، سورہ نساء کی آیت نمبر: ۱ ، اور سورہ احزاب کی آیت نمبر : ۷۰ ،۷۱ پڑھی جائے، اس کے بعد نکاح سے متعلق چند احادیث پڑھ لی جائیں۔ ذیل میں نمونہ کے طور پر ایک خطبہ لکھا جارہا ہے:
" اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِیْنُه وَنَسْتَغْفِرُه وَنُؤْمِنُ بِه وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّئاٰتِ اَعْمَالِنَا مَن یَّهْدِهِ اللهُ فَلاَ مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ یُّضْلِلْهُ فَلاَ هَادِیَ لَهُ۞ونشْهَدُ أَنْ لَآ اِلٰهَ اِلاَّ اللهُ وَحْدَهٗ لَا شَرِیْکَ لَهٗ۞وَنشْهَدُ اَنَّ سَیِّدَنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَرَسُوْلُه، أَمَّا بَعْدُ فأَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْم ۞ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِِْ۞ { يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ} [آل عمران: 102] {يَاأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا} [النساء: 1] {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (70) يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا (71)} [الأحزاب: 70، 71] قال النبيﷺ : «يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ». و قال عليه الصلاة والسلام : " تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ: لِمَالِهَا وَلِحَسَبِهَا وَلِجَمَالِهَا وَلِدِينِهَا فَاظْفَرْ بِذَات الدّين تربت يداك". وقالﷺ : «الدُّنْيَا كُلُّهَا مَتَاعٌ، وَخَيْرُ مَتَاعِ الدُّنْيَا الْمَرْأَة الصَّالِحَة». وقال عليه الصلاة والسلام : ’’ النكاح من سنتي ‘‘. و في رواية : ’’ فمن رغب عن سنتي فليس مني ‘‘ أو كما قال عليه الصلاة والسلام".
حوالہ جات:
مشكاة المصابيح (2/ 941):
"عن عبد الله بن مسعود قال: علمنا رسول الله صلى الله عليه وسلم التشهد في الصلاة والتشهد في الحاجة قال: التشهد في الصلاة: «التحيات لله والصلوات والطيبات السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمداً عبده ورسوله» . [ص:942] والتشهد في الحاجة: «إن الحمد لله نستعينه ونستغفره ونعوذ بالله من شرور أنفسنا من يهد الله فلا مضل له ومن يضلل فلا هادي له وأشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمداً عبده ورسوله» . ويقرأ ثلاث آيات: {يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله حق تقاته ولاتموتن إلا وأنتم مسلمون} {يا أيها الناس اتقوا ربكم الذي خلقكم من نفس واحدة وخلق منها زوجها وبث منهما رجالاً كثيراً ونساءً واتقوا الله الذي تساءلون والأرحام إن الله كان عليكم رقيباً} {يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله وقولوا قولاً سديداً يصلح لكم أعمالكم ويغفر لكم ذنوبكم ومن يطع الله ورسوله فقد فاز فوزاً عظيماً}. رواه أحمد والترمذي وأبو داود والنسائي وابن ماجه والدارمي.
وفي جامع الترمذي فسر الآيات الثلاث سفيان الثوري، وزاد ابن ماجه بعد قوله: «إن الحمد لله نحمده» وبعد قوله: «من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا»، والدارمي بعد قوله: «عظيماً»: ثم يتكلم بحاجته. وروى في شرح السنة عن ابن مسعود في خطبة الحاجة من النكاح وغيره".
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (5/ 2069):
"«عن عبد الله بن مسعود قال: علمنا رسول الله صلى الله عليه وسلم التشهد في الصلاة والتشهد في الحاجة»، أي: من النكاح وغيره، والتشهد إظهار الشهادة بالإيقان أو طلب التشهد، وهو حلاوة الإيمان أو طلب الشهود وهو الحضور والعرفان في مقام الإحسان ... (ويقرأ ثلاث آيات) قال الطيبي - رحمه الله -: " هذا في رواية النسائي، وهو يقتضي معطوفاً عليه، فالتقدير يقول: الحمد لله ويقرأ أي النبي صلى الله عليه وسلم:" {يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله حق تقاته} [آل عمران: 102]". فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144012200577
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
#محمداصغرچمپارنی_القاسمی
*دعا میں درود شریف پڑھنے کا لزوم*
سوال
کیا ہر فرض نماز کے بعد دعا میں درود شریف پڑھنا فرض ولازم ہے؟اور کیا اس کے بغیر دعا ہو جاتی ہے؟
جواب
دعا میں درود شریف پڑھنے کا حکم:
دعا خواہ فرض نماز کے بعد ہو یا کسی اور موقع پر اس میں درود شریف پڑھنا فرض اور لازم نہیں، البتہ دعا میں درود شریف کا اہتمام کرنا چاہیے، یہ دعا کے آداب میں سے ہے، اس سے دعا میں تاثیر پیدا ہو جاتی ہے اور قبولیت کے زیادہ قریب ہوجاتی ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بے شک دعا آسمان اور زمین کے درمیان موقوف رہتی ہے، اس میں سے کچھ بھی آسمان کی طرف بلند نہیں ہوتا جب تک تم اپنے نبی ﷺ پر درود نہ بھیجو۔ (ترمذی)
'' عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال: إن الدعاء موقوف بین السماء والأرض لا یصعد منها شيء حتی تصلی علی نبیک ۔ رواه الترمذي''۔ (مشکاة المصابیح، باب الصلاة علی النبي صلی الله علیه وسلم، الفصل الثالث، ص:87 ط: قدیمی)
درود شریف خود دعا ہے، جس سے تمام حاجتیں بن مانگے پوری ہوتی ہیں:
نیز یہ کہ درود شریف خود ایک دعا ہے جو شخص درود شریف کا اہتمام کرتا ہے اللہ تعالی اس کی حاجتیں بغیر مانگے غیب سے پوری فرماتے ہیں۔
سنن الترمذي - شاكر + ألباني (4/ 636)
'' قال أبي: قلت: يا رسول الله إني أكثر الصلاة عليك، فكم أجعل لك من صلاتي ؟ فقال: ما شئت، قال: قلت: الربع؟ قال: ما شئت، فإن زدت فهو خير لك! قلت: النصف؟ قال: ما شئت، فإن زدت فهو خير لك! قال: قلت: فالثلثين؟ قال: ما شئت، فإن زدت فهو خير لك! قلت: أجعل لك صلاتي كلها، قال: إذا تكفى همك، ويغفر لك ذنبك'' . قال أبو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.''
ترجمہ: حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں آپ پر کثرت سے درود بھیجتاہوں، اپنی دعا میں کتنا وقت درود کے لیے خاص کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جتنا تم چاہو۔ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: کیا ایک چوتھائی صحیح ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جتنا تم چاہو، لیکن اگر اس سے زیادہ کرو تو تمہارے لیے اور اچھاہے! میں نے عرض کیا: نصف وقت مقرر کرلوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جتنا تم چاہو، لیکن اس سے زیادہ کرو تو تمہارے لیے اور اچھا ہے! میں نے عرض کیا: دو تہائی وقت مقرر کردوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جتنا تم چاہو، لیکن اس سے زیادہ کرو تو تمہارے لیے ہی بہتر ہے۔میں نے عرض کیا: میں اپنی ساری دعا کا وقت درود کے لیے وقف کرتاہوں! اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: یہ تیرے سارے دکھوں اور غموں کے لیے کافی ہوگا، اور تیرے گناہوں کی بخشش کا باعث ہوگا۔
دعا میں درود شریف پڑھنے کی حکمتیں:
علماء فرماتے ہیں کہ دعا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجنے میں دو حکمتیں ہیں:
1۔ درود شریف خود ایک دعا ہے، اور یہ دعا ایسی ہے جس کی قبولیت میں ذردہ برابر شک کی گنجائش نہیں ہے ؛ کیوں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں خود اس کی خبر دی ہے، اور ہمیں بھی درود بھیجنے کا حکم دیا ہے، لہٰذا معلوم ہوا کہ درود شریف ایسی دعا ہے جس کی قبولیت میں ذرہ برابر شک نہیں ہے، اب جب بندہ اپنی حاجت مانگتاہے تو اس کے لیے مستحب یہ ہے کہ وہ درود شریف پڑھ کر اپنی حاجت کی دعا مانگے، یا دعا کے فوراً بعد درود شریف پڑھے، اس سے زیادہ امید ہوگی کہ اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو قبول فرمائیں گے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بعید ہے کہ ایک دعا قبول فرمائیں اور اس کے ساتھ متصل مانگی جانے والی دعا کو رد کردیں۔
2۔ امتی جب درود شریف پڑھے گا تو وہ درود آپ ﷺ تک لازمی پہنچایا جائے گا، جیساکہ صحیح احادیث میں موجود ہے، اور آپ ﷺ ہر امتی کے درود اور سلام کا جواب بھی دیتے ہیں۔ زندگی میں آپ ﷺ کا معمول یہ تھا کہ جو شخص بھی آپ ﷺ کو ہدیہ دیتا یا آپ پر کسی کا معمولی احسان بھی ہوتا آپ ﷺ اسے ضرور بدلہ دیتے تھے، اور اس کے احسان سے بڑھ کر آپ ﷺ نے ہمیشہ بدلہ دیا ہے، اب جب ہم درود شریف پڑھیں گے اور آپ ﷺ تک ہماری یہ دعائیں پہنچیں گی تو آپﷺ امتی کے درود کے جواب میں ضرور اس کا بدلہ دیں گے، اور وہ بدلہ امتی کے لیے دعا کی صورت میں ہوگا، یوں امتی کی دعا شرف قبولیت پالے گی۔ (ان شاء اللہ)
لہٰذا دعا میں درود شریف پڑھنا دعا کے آداب میں سے ہے، اور ہماری سعادت ہے کہ ہم دعا میں درود شریف پڑھیں۔ اگر دعاکے شروع اور آخر دونوں میں پڑھا جائے تو زیادہ بہتر ہے، ورنہ دعا میں کسی بھی موقع پر (اول، آخر یا درمیان میں) جہاں بھی درود شریف پڑھ لیا گیا مذکورہ فضیلت پر عمل ہوجائے گا، لیکن یہ ضروری نہیں ہے، اس لیے اگر کسی نے دعا میں درود شریف نہ پڑھا تو گناہ گار نہیں ہوگا بشرطیکہ استخفافاً (اسے ہلکا اور معمولی سمجھتے ہوئے) ترک نہ کرے، اور جو دعا درود شریف کے بغیر مانگی جائے تو اللہ تعالیٰ اسے بھی قبول کرنے پر قادر ہیں، لیکن محب صادق اور ایک امتی ہونے کی حیثیت سے دعا میں درود شریف کا اہتمام کرنا چاہیے۔
سوال
کیا ہر فرض نماز کے بعد دعا میں درود شریف پڑھنا فرض ولازم ہے؟اور کیا اس کے بغیر دعا ہو جاتی ہے؟
جواب
دعا میں درود شریف پڑھنے کا حکم:
دعا خواہ فرض نماز کے بعد ہو یا کسی اور موقع پر اس میں درود شریف پڑھنا فرض اور لازم نہیں، البتہ دعا میں درود شریف کا اہتمام کرنا چاہیے، یہ دعا کے آداب میں سے ہے، اس سے دعا میں تاثیر پیدا ہو جاتی ہے اور قبولیت کے زیادہ قریب ہوجاتی ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بے شک دعا آسمان اور زمین کے درمیان موقوف رہتی ہے، اس میں سے کچھ بھی آسمان کی طرف بلند نہیں ہوتا جب تک تم اپنے نبی ﷺ پر درود نہ بھیجو۔ (ترمذی)
'' عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال: إن الدعاء موقوف بین السماء والأرض لا یصعد منها شيء حتی تصلی علی نبیک ۔ رواه الترمذي''۔ (مشکاة المصابیح، باب الصلاة علی النبي صلی الله علیه وسلم، الفصل الثالث، ص:87 ط: قدیمی)
درود شریف خود دعا ہے، جس سے تمام حاجتیں بن مانگے پوری ہوتی ہیں:
نیز یہ کہ درود شریف خود ایک دعا ہے جو شخص درود شریف کا اہتمام کرتا ہے اللہ تعالی اس کی حاجتیں بغیر مانگے غیب سے پوری فرماتے ہیں۔
سنن الترمذي - شاكر + ألباني (4/ 636)
'' قال أبي: قلت: يا رسول الله إني أكثر الصلاة عليك، فكم أجعل لك من صلاتي ؟ فقال: ما شئت، قال: قلت: الربع؟ قال: ما شئت، فإن زدت فهو خير لك! قلت: النصف؟ قال: ما شئت، فإن زدت فهو خير لك! قال: قلت: فالثلثين؟ قال: ما شئت، فإن زدت فهو خير لك! قلت: أجعل لك صلاتي كلها، قال: إذا تكفى همك، ويغفر لك ذنبك'' . قال أبو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.''
ترجمہ: حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں آپ پر کثرت سے درود بھیجتاہوں، اپنی دعا میں کتنا وقت درود کے لیے خاص کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جتنا تم چاہو۔ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: کیا ایک چوتھائی صحیح ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جتنا تم چاہو، لیکن اگر اس سے زیادہ کرو تو تمہارے لیے اور اچھاہے! میں نے عرض کیا: نصف وقت مقرر کرلوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جتنا تم چاہو، لیکن اس سے زیادہ کرو تو تمہارے لیے اور اچھا ہے! میں نے عرض کیا: دو تہائی وقت مقرر کردوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جتنا تم چاہو، لیکن اس سے زیادہ کرو تو تمہارے لیے ہی بہتر ہے۔میں نے عرض کیا: میں اپنی ساری دعا کا وقت درود کے لیے وقف کرتاہوں! اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: یہ تیرے سارے دکھوں اور غموں کے لیے کافی ہوگا، اور تیرے گناہوں کی بخشش کا باعث ہوگا۔
دعا میں درود شریف پڑھنے کی حکمتیں:
علماء فرماتے ہیں کہ دعا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجنے میں دو حکمتیں ہیں:
1۔ درود شریف خود ایک دعا ہے، اور یہ دعا ایسی ہے جس کی قبولیت میں ذردہ برابر شک کی گنجائش نہیں ہے ؛ کیوں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں خود اس کی خبر دی ہے، اور ہمیں بھی درود بھیجنے کا حکم دیا ہے، لہٰذا معلوم ہوا کہ درود شریف ایسی دعا ہے جس کی قبولیت میں ذرہ برابر شک نہیں ہے، اب جب بندہ اپنی حاجت مانگتاہے تو اس کے لیے مستحب یہ ہے کہ وہ درود شریف پڑھ کر اپنی حاجت کی دعا مانگے، یا دعا کے فوراً بعد درود شریف پڑھے، اس سے زیادہ امید ہوگی کہ اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو قبول فرمائیں گے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بعید ہے کہ ایک دعا قبول فرمائیں اور اس کے ساتھ متصل مانگی جانے والی دعا کو رد کردیں۔
2۔ امتی جب درود شریف پڑھے گا تو وہ درود آپ ﷺ تک لازمی پہنچایا جائے گا، جیساکہ صحیح احادیث میں موجود ہے، اور آپ ﷺ ہر امتی کے درود اور سلام کا جواب بھی دیتے ہیں۔ زندگی میں آپ ﷺ کا معمول یہ تھا کہ جو شخص بھی آپ ﷺ کو ہدیہ دیتا یا آپ پر کسی کا معمولی احسان بھی ہوتا آپ ﷺ اسے ضرور بدلہ دیتے تھے، اور اس کے احسان سے بڑھ کر آپ ﷺ نے ہمیشہ بدلہ دیا ہے، اب جب ہم درود شریف پڑھیں گے اور آپ ﷺ تک ہماری یہ دعائیں پہنچیں گی تو آپﷺ امتی کے درود کے جواب میں ضرور اس کا بدلہ دیں گے، اور وہ بدلہ امتی کے لیے دعا کی صورت میں ہوگا، یوں امتی کی دعا شرف قبولیت پالے گی۔ (ان شاء اللہ)
لہٰذا دعا میں درود شریف پڑھنا دعا کے آداب میں سے ہے، اور ہماری سعادت ہے کہ ہم دعا میں درود شریف پڑھیں۔ اگر دعاکے شروع اور آخر دونوں میں پڑھا جائے تو زیادہ بہتر ہے، ورنہ دعا میں کسی بھی موقع پر (اول، آخر یا درمیان میں) جہاں بھی درود شریف پڑھ لیا گیا مذکورہ فضیلت پر عمل ہوجائے گا، لیکن یہ ضروری نہیں ہے، اس لیے اگر کسی نے دعا میں درود شریف نہ پڑھا تو گناہ گار نہیں ہوگا بشرطیکہ استخفافاً (اسے ہلکا اور معمولی سمجھتے ہوئے) ترک نہ کرے، اور جو دعا درود شریف کے بغیر مانگی جائے تو اللہ تعالیٰ اسے بھی قبول کرنے پر قادر ہیں، لیکن محب صادق اور ایک امتی ہونے کی حیثیت سے دعا میں درود شریف کا اہتمام کرنا چاہیے۔
دعا کا مسنون طریقہ اور اس میں درود شریف کا موقع ومحل:
ہمارے ہاں عموماً مشہور ہے کہ دعا کے اول و آخر میں درود شریف پڑھنا ضروری ہے، اور اس کا مطلب یہ لیا جاتاہے کہ دعا کے بالکل آغاز اور بالکل اختتام پر درود شریف پڑھا جائے، اس کی وضاحت بھی مناسب معلوم ہوتی ہے۔ علماء کرام نے احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں دعا کا یہ ادب ضرور بتایاہے کہ دعا کے شروع اور آخر میں درود شریف ہو، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ دعا ہی درود شریف سے شروع کی جائے، بلکہ دعا کا مسنون طریقہ جو کئی احادیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خود منقول ہے وہ یہ ہے کہ سب سے پہلے اللہ تبارک وتعالیٰ کی خوب حمد وثنا کی جائے، اس کے بعد آپ ﷺ پر درود شریف بھیجا جائے، پھر آپ ﷺ کے آل و اصحاب پر درود بھیج کر اپنی حاجت مانگی جائے، پھر دعا کے اختتام میں درود شریف اور پھر آخر میں حمد وثنا پر دعا ختم کی جائے۔ یہ دعا کا مسنون طریقہ ہے، اس کے مطابق دعا کے شروع اور آخر میں درود شریف بھی ہے، لیکن سب سے پہلے اور سب سے آخر میں حمد وثنا باری تعالیٰ ہے۔ یہ دعا کا مسنون طریقہ ہے۔ البتہ اگر کوئی شخص دعا شروع ہی درود شریف سے کرے اور ختم بھی درود شریف پر ہی کرے تو یہ بھی جائز ہے، اگر حضور ﷺ کی محبت میں ایسا کرے گا تو یہ خلافِ ادب بھی نہیں کہلائے گا۔
نیز یہ بھی واضح رہے کہ دعا کے شروع اور آخر میں درود شریف کے کوئی بھی ثابت شدہ کلمات پڑھ لیے جائیں(خواہ وہ مختصر ہوں) اس سے درود شریف کی فضیلت حاصل ہوجائے گی۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143909201798
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
#محمداصغرچمپارنی_القاسمی
ہمارے ہاں عموماً مشہور ہے کہ دعا کے اول و آخر میں درود شریف پڑھنا ضروری ہے، اور اس کا مطلب یہ لیا جاتاہے کہ دعا کے بالکل آغاز اور بالکل اختتام پر درود شریف پڑھا جائے، اس کی وضاحت بھی مناسب معلوم ہوتی ہے۔ علماء کرام نے احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں دعا کا یہ ادب ضرور بتایاہے کہ دعا کے شروع اور آخر میں درود شریف ہو، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ دعا ہی درود شریف سے شروع کی جائے، بلکہ دعا کا مسنون طریقہ جو کئی احادیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خود منقول ہے وہ یہ ہے کہ سب سے پہلے اللہ تبارک وتعالیٰ کی خوب حمد وثنا کی جائے، اس کے بعد آپ ﷺ پر درود شریف بھیجا جائے، پھر آپ ﷺ کے آل و اصحاب پر درود بھیج کر اپنی حاجت مانگی جائے، پھر دعا کے اختتام میں درود شریف اور پھر آخر میں حمد وثنا پر دعا ختم کی جائے۔ یہ دعا کا مسنون طریقہ ہے، اس کے مطابق دعا کے شروع اور آخر میں درود شریف بھی ہے، لیکن سب سے پہلے اور سب سے آخر میں حمد وثنا باری تعالیٰ ہے۔ یہ دعا کا مسنون طریقہ ہے۔ البتہ اگر کوئی شخص دعا شروع ہی درود شریف سے کرے اور ختم بھی درود شریف پر ہی کرے تو یہ بھی جائز ہے، اگر حضور ﷺ کی محبت میں ایسا کرے گا تو یہ خلافِ ادب بھی نہیں کہلائے گا۔
نیز یہ بھی واضح رہے کہ دعا کے شروع اور آخر میں درود شریف کے کوئی بھی ثابت شدہ کلمات پڑھ لیے جائیں(خواہ وہ مختصر ہوں) اس سے درود شریف کی فضیلت حاصل ہوجائے گی۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143909201798
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
#محمداصغرچمپارنی_القاسمی
عربی زبان میں انگلیوں کے نام
سوال
انگلی کے کیا نام ہیں ؟
جواب
انگلی کو عربی میں "إِصْبَع"اور"أُصْبُع"کہتے ہیں، جس کی جمع "أصابعُ"آتی ہے یعنی انگلیاں۔ نیز یہ لفظ عربی میں نو طرح پڑھا جاتاہے، یعنی:
إِصْبَعُ و أُصْبَعُ و أَصْبَعُ و إِصْبِعُ و أُصْبِعُ و أَصْبِعُ و إِصْبُعُ و أُصْبُعُ و أَصْبُعُ
پانچوں انگلیوں کے نام ترتیب وار درج ذیل ہیں:
الإبْهامُ: انگوٹھا۔
السَّبَّابَةُ: انگوٹھے کے برابر والی انگلی، جسے شہادت کی انگلی یا اشارہ کرنے والی انگلی بھی کہتے ہیں۔
الوُسْطى: شہادت کی انگلی کے برابر والی انگلی، جو بالکل درمیان میں ہوتی ہے اور اس کے دائیں بائیں دو دو انگلیاں ہوتی ہیں۔
البِنْصِرُ: درمیانی اور سب سے آخری انگلی کے بیچ والی انگلی۔
الخِنْصِرُ: سب سے آخری چھوٹی والی انگلی، جسے چھنگلی بھی کہتے ہیں۔
التَّلخِيص في مَعرفَةِ أسمَاءِ الأشياء (ص:61، ط:دار طلاس للدراسات والترجمة والنشر، دمشق):
’’و الأصابع، الواحدة إصبع، و هي الإبهام ثم السبابة ثم الوسطى ثم البنصر ثم الخنصر.‘‘
مجمع البحرين لليازجي (ص:412، ط:المطبعة الأدبية، بيروت):
قل: أول الأصابع الإبهام ... و بعدها سبابة تقام
و بعدها الوسطى، يليها البنصر ... و بعدها الصغرى أخيراً خنصر
فقط و الله اعلم
مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر فتویٰ ملاحظہ کیجیے:
قیامت میں انگلیوں کی نام پوچھے جانے والی بات کی ویڈیو بناکر شئیر کرنا
فتوی نمبر : 144206201491
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
#محمداصغرچمپارنی_القاسمی
سوال
انگلی کے کیا نام ہیں ؟
جواب
انگلی کو عربی میں "إِصْبَع"اور"أُصْبُع"کہتے ہیں، جس کی جمع "أصابعُ"آتی ہے یعنی انگلیاں۔ نیز یہ لفظ عربی میں نو طرح پڑھا جاتاہے، یعنی:
إِصْبَعُ و أُصْبَعُ و أَصْبَعُ و إِصْبِعُ و أُصْبِعُ و أَصْبِعُ و إِصْبُعُ و أُصْبُعُ و أَصْبُعُ
پانچوں انگلیوں کے نام ترتیب وار درج ذیل ہیں:
الإبْهامُ: انگوٹھا۔
السَّبَّابَةُ: انگوٹھے کے برابر والی انگلی، جسے شہادت کی انگلی یا اشارہ کرنے والی انگلی بھی کہتے ہیں۔
الوُسْطى: شہادت کی انگلی کے برابر والی انگلی، جو بالکل درمیان میں ہوتی ہے اور اس کے دائیں بائیں دو دو انگلیاں ہوتی ہیں۔
البِنْصِرُ: درمیانی اور سب سے آخری انگلی کے بیچ والی انگلی۔
الخِنْصِرُ: سب سے آخری چھوٹی والی انگلی، جسے چھنگلی بھی کہتے ہیں۔
التَّلخِيص في مَعرفَةِ أسمَاءِ الأشياء (ص:61، ط:دار طلاس للدراسات والترجمة والنشر، دمشق):
’’و الأصابع، الواحدة إصبع، و هي الإبهام ثم السبابة ثم الوسطى ثم البنصر ثم الخنصر.‘‘
مجمع البحرين لليازجي (ص:412، ط:المطبعة الأدبية، بيروت):
قل: أول الأصابع الإبهام ... و بعدها سبابة تقام
و بعدها الوسطى، يليها البنصر ... و بعدها الصغرى أخيراً خنصر
فقط و الله اعلم
مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر فتویٰ ملاحظہ کیجیے:
قیامت میں انگلیوں کی نام پوچھے جانے والی بات کی ویڈیو بناکر شئیر کرنا
فتوی نمبر : 144206201491
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
#محمداصغرچمپارنی_القاسمی
*قاضی اور حَکَم (ثالث) میں کیا فرق ہے؟*
سوال
مفتی صاحب ! قاضی اور حکم دونوں ہی فریقین کے درمیان فیصلہ کے لئے مقرر کیے جاتے ہیں، پھر ان میں فرق کیا ہے؟
*جواب*
قاضی اور حَکَم (ثالث) میں فرق یہ ہے کہ قاضی حکومت کی طرف سے مقرر کیا جاتا ہے اور وہ حکومت کا وکیل ہوتا ہے، جسے فیصلے کرنے میں مکمل اختیار حاصل ہوتا ہے اور وہ ہر خاص و عام شخص پر یکساں ولایت رکھتا ہے، جبکہ حَکَم (ثالث) فریقین کی طرف سے باہم رضامندی سے مقرر کیا جاتا ہے اور اسے صرف اسی فریقین کے درمیان فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہوتا ہے، جنہوں نے اسے مقرر کیا ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
کما فی الشامیۃ:
توالیۃ الخصمین حاکماً یحکم بینھما ورکنہ علیہ مع قبول الاٰخر۔
(باب التحکیم، ج: 5، ص: 428، ط: سعید)
وفی العنایۃ علی ھامش فتح القدیر:
ان المحکم ادنیٰ مرتبۃ من القاضی لاقتصار حکمہ علٰی من رضی یحکمہ وعموم ولایۃ القاضی۔
(باب التحکیم، ج: 6، ص: 406، ط: رشیدیۃ)
کذا فی فتاوی حقانیۃ:
(ج: 5، ص: 435)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی
#المفتی_محمد_رضوان_الاعظمی_القاسمی
سوال
مفتی صاحب ! قاضی اور حکم دونوں ہی فریقین کے درمیان فیصلہ کے لئے مقرر کیے جاتے ہیں، پھر ان میں فرق کیا ہے؟
*جواب*
قاضی اور حَکَم (ثالث) میں فرق یہ ہے کہ قاضی حکومت کی طرف سے مقرر کیا جاتا ہے اور وہ حکومت کا وکیل ہوتا ہے، جسے فیصلے کرنے میں مکمل اختیار حاصل ہوتا ہے اور وہ ہر خاص و عام شخص پر یکساں ولایت رکھتا ہے، جبکہ حَکَم (ثالث) فریقین کی طرف سے باہم رضامندی سے مقرر کیا جاتا ہے اور اسے صرف اسی فریقین کے درمیان فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہوتا ہے، جنہوں نے اسے مقرر کیا ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
کما فی الشامیۃ:
توالیۃ الخصمین حاکماً یحکم بینھما ورکنہ علیہ مع قبول الاٰخر۔
(باب التحکیم، ج: 5، ص: 428، ط: سعید)
وفی العنایۃ علی ھامش فتح القدیر:
ان المحکم ادنیٰ مرتبۃ من القاضی لاقتصار حکمہ علٰی من رضی یحکمہ وعموم ولایۃ القاضی۔
(باب التحکیم، ج: 6، ص: 406، ط: رشیدیۃ)
کذا فی فتاوی حقانیۃ:
(ج: 5، ص: 435)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی
#المفتی_محمد_رضوان_الاعظمی_القاسمی
*ٹرین میں پانی نہ ملنے پر تیمم*
مسئلہ (۱۰) : اگر ٹرین کے کسی ڈبے میں پانی ختم ہوجائے اور قریب کے ڈبے جہاں تک وہ جاسکتا ہے،وہاں بھی پانی نہیںہے ،اور نماز کا وقت ختم ہونے سے پہلے کوئی ایسا اسٹیشن بھی آنے والا نہیں ہے ، جہاں ٹرین اتنی دیر رکے ، جس میں وضو کیا جاسکے، یا پانی لیا جاسکے ،تو شرعاً تیمم کی اجازت ہوگی، خواہ ٹرین کے گذرتے ہوئے باہر پانی نظر آرہا ہو، کیوں کہ وضو کے واجب ہونے کیلئے پانی کا موجود ہونا شرط نہیںہے، بلکہ اس کے استعمال پر قدرت شرط ہے، اسی لئے حضرات فقہاء کرام نے پانی کے موجود ہونے کے باوجود اس کے استعمال پر قدرت نہ ہونے کی صورت میں تیمم کو جائز قرار دیا ہے.
المسائل المہمة فیما ابتلت بہ العامة جلد 4
#المفتی_محمد_رضوان_الاعظمی_القاسمی
مسئلہ (۱۰) : اگر ٹرین کے کسی ڈبے میں پانی ختم ہوجائے اور قریب کے ڈبے جہاں تک وہ جاسکتا ہے،وہاں بھی پانی نہیںہے ،اور نماز کا وقت ختم ہونے سے پہلے کوئی ایسا اسٹیشن بھی آنے والا نہیں ہے ، جہاں ٹرین اتنی دیر رکے ، جس میں وضو کیا جاسکے، یا پانی لیا جاسکے ،تو شرعاً تیمم کی اجازت ہوگی، خواہ ٹرین کے گذرتے ہوئے باہر پانی نظر آرہا ہو، کیوں کہ وضو کے واجب ہونے کیلئے پانی کا موجود ہونا شرط نہیںہے، بلکہ اس کے استعمال پر قدرت شرط ہے، اسی لئے حضرات فقہاء کرام نے پانی کے موجود ہونے کے باوجود اس کے استعمال پر قدرت نہ ہونے کی صورت میں تیمم کو جائز قرار دیا ہے.
المسائل المہمة فیما ابتلت بہ العامة جلد 4
#المفتی_محمد_رضوان_الاعظمی_القاسمی
*دوسرے کی زمین میں اس کی اجازت سے اپنے لیے درخت لگانا*
سوال
ایک شخص نے کزن کی زمین پر درخت لگائے، کزن کی زندگی میں درخت لگانے والے صاحب درختوں کو کاٹ کر استعمال بھی کرتے تھے، اب درخت لگانے والے اور زمین کے مالک کزن فوت ہوگئے، شرعاً ان درختوں کا مالک کون ہے؟ صاحبِ زمین کی اولاد یا درخت لگانے والے کی اولاد؟
جواب
صورتِ مسئولہ میں اگر درخت لگانے والے نے اپنے کزن کی زمین میں اپنے لیے درخت لگائے تو وہ درخت، درخت لگانے والے ہی کی ملکیت شمار ہوں گے، اور ان کے انتقال کے بعد ان کے ورثاء کا حصہ شمار ہوگا، اور زمین بدستور مالکِ زمین کے ورثاء کی ملکیت میں رہے گی۔ اب زمین کے مالک، درخت والوں سے کہہ سکتے ہیں آپ اپنے درختوں کو نکال کر لے جاؤ، یا ان کو اکھڑے ہوئے درختوں کی قیمت دے کر خود درخت ان سے لے لیں، یا درخت لگانے والے کے ورثاء زمین کے مالک کے ورثاء کو ان درختوں کی قیمت دینے پر راضی کرلیں، بہتر یہ ہے کہ باہمی رضامندی ومفاہمت سے درختوں کی مناسب قیمت طے کرکے درختوں کے مالکوں سے اس کو خرید لینا چاہیے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(عمر دار زوجته بماله بإذنها فالعمارة لها والنفقة دين عليها) لصحة أمرها.
(قوله: عمر دار زوجته إلخ) على هذا التفصيل عمارة كرمها وسائر أملاكها جامع الفصولين، وفيه عن العدة كل من بنى في دار غيره بأمره فالبناء لآمره ولو لنفسه بلا أمره فهو له، وله رفعه إلا أن يضر بالبناء، فيمنع ولو بنى لرب الأرض، بلا أمره ينبغي أن يكون متبرعا كما مر اهـ وفيه بنى المتولي في عرصة الوقف إن من مال الوقف فللوقف، وكذا لو من مال نفسه، لكن للوقف ولو لنفسه من ماله، فإن أشهد فله وإلا فللوقف بخلاف أجنبي بنى في ملك غيره (قوله: والنفقة دين عليها) لأنه غير مقطوع في الإنفاق فيرجع عليها لصحة أمرها، فصار كالمأمور بقضاء الدين زيلعي، وظاهره وإن لم يشترط الرجوع". (6/747، مسائل شتی، ط؛ سعید)
وفیہ ایضا:
"(ومن بنى أو غرس في أرض غيره بغير إذنه أمر بالقلع والرد) لو قيمة الساحة أكثر كما مر (وللمالك أن يضمن له قيمة بناء أو شجر أمر بقلعه)
(قوله بغير إذنه) فلو بإذنه فالبناء لرب الدار، ويرجع عليه بما أنفق جامع الفصولين من أحكام العمارة في ملك الغير". (6/194، کتاب الغصب، ط؛ سعید)
وفیہ ایضا:
"(بنى أحدهما) أي أحد الشريكين (بغير إذن الآخر) في عقار مشترك بينهما (فطلب شريكه رفع بنائه قسم) العقار (فإن وقع) البناء (في نصيب الباني فبها) ونعمت (وإلا هدم) البناء، وحكم الغرس كذلك، بزازية.
(قوله: بغير إذن الآخر) وكذا لو بإذنه لنفسه لأنه مستعير لحصة الآخر، وللمعير الرجوع متى شاء. أما لو بإذنه للشركة يرجع بحصته عليه بلا شبهة رملي على الأشباه (قوله: وإلا هدم البناء) أو أرضاه بدفع قيمته ط عن الهندية.
أقول: وفي فتاوى قارئ الهداية: وإن وقع البناء في نصيب الشريك قلع وضمن ما نقصت الأرض بذلك اهـ وقد تقدم في كتاب الغصب متنا أن من بنى أو غرس في أرض غيره أمر بالقلع وللمالك أن يضمن له قيمة بناء أو غرس أمر بقلعه إن نقصت الأرض به، والظاهر جريان التفصيل هنا كذلك، تأمل". (6/ 268) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144008200739
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
#المفتی_محمد_رضوان_الاعظمی_القاسمی
سوال
ایک شخص نے کزن کی زمین پر درخت لگائے، کزن کی زندگی میں درخت لگانے والے صاحب درختوں کو کاٹ کر استعمال بھی کرتے تھے، اب درخت لگانے والے اور زمین کے مالک کزن فوت ہوگئے، شرعاً ان درختوں کا مالک کون ہے؟ صاحبِ زمین کی اولاد یا درخت لگانے والے کی اولاد؟
جواب
صورتِ مسئولہ میں اگر درخت لگانے والے نے اپنے کزن کی زمین میں اپنے لیے درخت لگائے تو وہ درخت، درخت لگانے والے ہی کی ملکیت شمار ہوں گے، اور ان کے انتقال کے بعد ان کے ورثاء کا حصہ شمار ہوگا، اور زمین بدستور مالکِ زمین کے ورثاء کی ملکیت میں رہے گی۔ اب زمین کے مالک، درخت والوں سے کہہ سکتے ہیں آپ اپنے درختوں کو نکال کر لے جاؤ، یا ان کو اکھڑے ہوئے درختوں کی قیمت دے کر خود درخت ان سے لے لیں، یا درخت لگانے والے کے ورثاء زمین کے مالک کے ورثاء کو ان درختوں کی قیمت دینے پر راضی کرلیں، بہتر یہ ہے کہ باہمی رضامندی ومفاہمت سے درختوں کی مناسب قیمت طے کرکے درختوں کے مالکوں سے اس کو خرید لینا چاہیے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(عمر دار زوجته بماله بإذنها فالعمارة لها والنفقة دين عليها) لصحة أمرها.
(قوله: عمر دار زوجته إلخ) على هذا التفصيل عمارة كرمها وسائر أملاكها جامع الفصولين، وفيه عن العدة كل من بنى في دار غيره بأمره فالبناء لآمره ولو لنفسه بلا أمره فهو له، وله رفعه إلا أن يضر بالبناء، فيمنع ولو بنى لرب الأرض، بلا أمره ينبغي أن يكون متبرعا كما مر اهـ وفيه بنى المتولي في عرصة الوقف إن من مال الوقف فللوقف، وكذا لو من مال نفسه، لكن للوقف ولو لنفسه من ماله، فإن أشهد فله وإلا فللوقف بخلاف أجنبي بنى في ملك غيره (قوله: والنفقة دين عليها) لأنه غير مقطوع في الإنفاق فيرجع عليها لصحة أمرها، فصار كالمأمور بقضاء الدين زيلعي، وظاهره وإن لم يشترط الرجوع". (6/747، مسائل شتی، ط؛ سعید)
وفیہ ایضا:
"(ومن بنى أو غرس في أرض غيره بغير إذنه أمر بالقلع والرد) لو قيمة الساحة أكثر كما مر (وللمالك أن يضمن له قيمة بناء أو شجر أمر بقلعه)
(قوله بغير إذنه) فلو بإذنه فالبناء لرب الدار، ويرجع عليه بما أنفق جامع الفصولين من أحكام العمارة في ملك الغير". (6/194، کتاب الغصب، ط؛ سعید)
وفیہ ایضا:
"(بنى أحدهما) أي أحد الشريكين (بغير إذن الآخر) في عقار مشترك بينهما (فطلب شريكه رفع بنائه قسم) العقار (فإن وقع) البناء (في نصيب الباني فبها) ونعمت (وإلا هدم) البناء، وحكم الغرس كذلك، بزازية.
(قوله: بغير إذن الآخر) وكذا لو بإذنه لنفسه لأنه مستعير لحصة الآخر، وللمعير الرجوع متى شاء. أما لو بإذنه للشركة يرجع بحصته عليه بلا شبهة رملي على الأشباه (قوله: وإلا هدم البناء) أو أرضاه بدفع قيمته ط عن الهندية.
أقول: وفي فتاوى قارئ الهداية: وإن وقع البناء في نصيب الشريك قلع وضمن ما نقصت الأرض بذلك اهـ وقد تقدم في كتاب الغصب متنا أن من بنى أو غرس في أرض غيره أمر بالقلع وللمالك أن يضمن له قيمة بناء أو غرس أمر بقلعه إن نقصت الأرض به، والظاهر جريان التفصيل هنا كذلك، تأمل". (6/ 268) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144008200739
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
#المفتی_محمد_رضوان_الاعظمی_القاسمی
امانت کی رقم اپنے استعمال میں لانے کاحکم
سوال
سوال:کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس بارے میں کہ:
آج کل یہ عرف ہوچکا ہے کہ امانت کے پیسوں کو لوگ اپنے استعمال میں لے آتے ہیں یا بینک میں رکھوا دیتے ہیں، پھر جب امانت رکھوانے والا امانت کا مطالبہ کرتا ہے تو اس کو اپنے ذاتی پیسے دے دیتے ہیں۔ اس عرف کی بناء پر امانت کے پیسے ذاتی استعمال میں لانا درست ہے ؟ بینوا توجروا۔
جواب
جی ہاں اگر کسی جگہ امانت کے پیسوں کو ذاتی استعمال میں لانے کااس طرح عرف ہو چکا ہوکہ امانت رکھنے والے اور رکھوانے والےدونوں کو اس عرف کا علم ہوتو ایسی صورت میں امانت کے پیسوں کو ذاتی استعمال میں لانا ، یا بینک میں رکھوانا یا قرض دینا جائز ہوگا۔ اس طرح کرنے کے بعد ان پیسوں کی حیثیت امانت کے بجائے قرض کی ہوجائے گی،لہذا اس کی ادائیگی بہرحال لازم ہوگی۔
البتہ اگر کوئی صراحۃً استعمال کرنے یا آگےقرض دینے سے منع کردے تو پھر ایسا کرنا جائز نہیں ہوگا۔
حوالہ جات
مجلة الأحكام العدلية (1 / 146):(المادة 772) الإذن دلالة كالإذن صراحة. بيد أنه عند وجود النهي صراحة لا اعتبار بالإذن دلالة.
مجلة الأحكام العدلية (1 / 148):(المادة 779) : فعل ما لا يرضاه صاحب الوديعة في حق الوديعة تعد۔
مجيب
متخصص
مفتیان
مفتی سیّد عابد شاہ صاحب
مفتی محمد حسین خلیل خیل صاحب
ماخذ :دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
فتوی نمبر :61877
تاریخ اجراء :2019-04-01
#محمداصغرچمپارنی_القاسمی
سوال
سوال:کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس بارے میں کہ:
آج کل یہ عرف ہوچکا ہے کہ امانت کے پیسوں کو لوگ اپنے استعمال میں لے آتے ہیں یا بینک میں رکھوا دیتے ہیں، پھر جب امانت رکھوانے والا امانت کا مطالبہ کرتا ہے تو اس کو اپنے ذاتی پیسے دے دیتے ہیں۔ اس عرف کی بناء پر امانت کے پیسے ذاتی استعمال میں لانا درست ہے ؟ بینوا توجروا۔
جواب
جی ہاں اگر کسی جگہ امانت کے پیسوں کو ذاتی استعمال میں لانے کااس طرح عرف ہو چکا ہوکہ امانت رکھنے والے اور رکھوانے والےدونوں کو اس عرف کا علم ہوتو ایسی صورت میں امانت کے پیسوں کو ذاتی استعمال میں لانا ، یا بینک میں رکھوانا یا قرض دینا جائز ہوگا۔ اس طرح کرنے کے بعد ان پیسوں کی حیثیت امانت کے بجائے قرض کی ہوجائے گی،لہذا اس کی ادائیگی بہرحال لازم ہوگی۔
البتہ اگر کوئی صراحۃً استعمال کرنے یا آگےقرض دینے سے منع کردے تو پھر ایسا کرنا جائز نہیں ہوگا۔
حوالہ جات
مجلة الأحكام العدلية (1 / 146):(المادة 772) الإذن دلالة كالإذن صراحة. بيد أنه عند وجود النهي صراحة لا اعتبار بالإذن دلالة.
مجلة الأحكام العدلية (1 / 148):(المادة 779) : فعل ما لا يرضاه صاحب الوديعة في حق الوديعة تعد۔
مجيب
متخصص
مفتیان
مفتی سیّد عابد شاہ صاحب
مفتی محمد حسین خلیل خیل صاحب
ماخذ :دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
فتوی نمبر :61877
تاریخ اجراء :2019-04-01
#محمداصغرچمپارنی_القاسمی
*وہ صحابہ ؓ جو اپنے نام سے زیادہ کنیت سے مشہور ہوئے*
1. ابوبکر صدیق
اصل نام " عبداللہ " تھا .
2. ابوہریرہ
اصل نام " عبد الرحمن " تھا .
3. ابوذر غفاری
اصل نام " جندب بن جنادہ " تھا .
4. ابو موسی اشعری
اصل نام " عبداللہ بن قیس " تھا .
5. ابوسفیان
اصل نام " صخر بن حرب " تھا .
6. ابو الدرداء
اصل نام " عویمر " تھا .
7. ابو سعید خدری
اصل نام " سعد بن مالک " تھا .
8. ابودجانہ
اصل نام " سماک " تھا .
9. ابو طلحہ انصاری
اصل نام " زید " تھا .
10. ابولبابہ
اصل نام " رفاعہ " تھا .
11. ابوعبیدہ
اصل نام " عامر " تھا .
12. ابو حذیفہ
اصل نام " ھشيم " تھا .
13. ابو زید
اصل نام " سعد بن عمرو " تھا .
14. ابو قتادہ
اصل نام " حارث بن ربعی " تھا.
15. ابو ایوب انصاری
اصل نام " خالد بن زید " تھا .
*رضوان اللہ تعالی عنہم اجمعین*
#المفتی_محمد_رضوان_الاعظمی_القاسمی
1. ابوبکر صدیق
اصل نام " عبداللہ " تھا .
2. ابوہریرہ
اصل نام " عبد الرحمن " تھا .
3. ابوذر غفاری
اصل نام " جندب بن جنادہ " تھا .
4. ابو موسی اشعری
اصل نام " عبداللہ بن قیس " تھا .
5. ابوسفیان
اصل نام " صخر بن حرب " تھا .
6. ابو الدرداء
اصل نام " عویمر " تھا .
7. ابو سعید خدری
اصل نام " سعد بن مالک " تھا .
8. ابودجانہ
اصل نام " سماک " تھا .
9. ابو طلحہ انصاری
اصل نام " زید " تھا .
10. ابولبابہ
اصل نام " رفاعہ " تھا .
11. ابوعبیدہ
اصل نام " عامر " تھا .
12. ابو حذیفہ
اصل نام " ھشيم " تھا .
13. ابو زید
اصل نام " سعد بن عمرو " تھا .
14. ابو قتادہ
اصل نام " حارث بن ربعی " تھا.
15. ابو ایوب انصاری
اصل نام " خالد بن زید " تھا .
*رضوان اللہ تعالی عنہم اجمعین*
#المفتی_محمد_رضوان_الاعظمی_القاسمی