🔶المسائل والدلائل چینل🔶
1.16K subscribers
24 photos
2 videos
25 files
127 links
فقہ حنفی کےمطابق ادلہ اربعہ قرآن.سنت.اجماع اورقیاس شرعی کی روشنی میں حل کردہ مسائل کامجموعہ
اس لنک کوزیادہ سےزیادہ شئیرکریں!

برائےرابطہ= @Mdasgarchamparnibot
Download Telegram
شہید کی اقسام اور کیا ڈوب کر مرنے والا شہید ہے

سوال

کیا ڈوب کر مرنے والا مسلمان شہید ہوتا ہے؟ اس کے متعلق حدیث کا حوالہ دیں۔

جواب

اصل سوال کے جواب سے پہلے تمہید کے طور پر جان لینا مناسب ہے کہ شہید کی دو قسمیں ہیں:

(۱) شہید کامل: جو دنیا اور آخرت دونوں کے اعتبار سے شہید ہو۔ یعنی آخرت میں بھی اس کو شہید کا ثواب ملتا ہے اور دنیا میں بھی اس کا حکم عام مردوں سے الگ ہوتا ہے۔ (اس کو غسل نہیں دیا جاتا اور اس کے کپڑے وغیرہ نہیں اتارے جاتے)۔

(۲) شہید حکمی: جو صرف آخرت کے اعتبار سے شہید ہو یعنی اس کو آخرت میں شہید کا ثواب ملتا ہے۔ البتہ دنیا میں اس کا حکم عام مردوں کی طرح ہوتا ہے۔

شہید حکمی کی ایک طویل فہرست ہے اس میں ڈوب کر مرنے والا بھی شامل ہے۔ حدیث پاک میں ہے:

عن ابی ہ ری رۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال الشھداء خمسۃ: المطعون، المبطون والغرق و صاحب الھدم والشہید فی سبیل اللہ۔ (بخاری : رقم الحدیث ۲۸۲۹)

ترجمہ: حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شہید پانچ ہیں:

(۱) طاعون کی وبا میں مرنے والا۔ (۲) پیٹ کی بیماری میں مرنے والا۔ (۳) پانی میں ڈوب کر مرنے والا۔ (۴) کسی دیوار وغیرہ کے نیچے دب کر مرنے والا۔ (۵) اللہ کے راستہ میں مرنے والا۔

ماخذ :دار الافتاء جامعہ اشرفیہ لاہور
فتوی نمبر :712

#محمداصغرچمپارنی_القاسمی
*{۱۹۴۹} ’’خلاص! میں تجھے لکھ دیتا ہوں ، چلی جا‘‘کہنے سے طلاق ہوگی؟*

سوال: ایک شخص کا اپنی بیوی سے جھگڑا ہو گیا، غصہ کی حالت میں اس نے اپنی بیوی کو
ڈرانے کے لئے کہا : ’’خلاص! میں تجھے لکھ دیتا ہوں ، چلی جا‘‘ اس جملہ کے کہنے سے طلاق ہوئی یا نہیں ؟ اور اگر طلاق ہو گئی تو کتنی؟ اور کونسی؟ اگر بیوی دوبارہ اسی شوہر کے ساتھ رہنا چاہے تو اس کی کیا شکل ہے؟

الجواب: حامداً و مصلیاً و مسلماً… ’’میں تجھے لکھ دیتا ہوں ، چلی جا‘‘ یہ الفاظ کنایہ طلاق کے ہیں ، اس لئے اگر بنیت طلاق یہ الفاظ کہے ہیں تو طلاق باون واقع ہو جائے گی، جس میں اگر دونوں کو میاں بیوی کی طرح رہنا ہو تو از سر نو نکاح کرنا پڑے گا۔ (شامی: ۲؍۴۶۶)

فتاویٰ دینیہ ج3/

#المفتی_محمد_رضوان_الاعظمی_القاسمی
*شوہر نے کہا ’’ طلاق لے لے ‘‘ ، بیوی نے کہا ’’ میں نے طلاق لے لی ‘‘*

شوہر نے بیوی سے کہا کہ ’’ تو طلاق لے لے ‘‘ ، بیوی نے کہا کہ ’’ میں نے طلاق لے لی ‘‘ ، تو ایک طلاقِ رجعی واقع ہوجائے گی ۔

وإن کانت التفویض مقرونًا بذکر الطلاق بأن قال لہا : اختاري الطلاق ، فقالت : اخترت الطلاق فہي واحدۃ رجعیۃ ۔ ( الفتاویٰ الہندیۃ ، کتاب الطلاق / الباب

کتاب المسائل ج5/
#المفتی_محمد_رضوان_الاعظمی_القاسمی
*بیوی کا شوہر کو طلاق دینا
*
بیوی کی طرف سے شوہر کو طلاق دینے کا کوئی اعتبار نہیں ہے ؛ اس لئے کہ نہ تو بیوی کو طلاق کا اختیار ہے اور نہ شوہر طلاق کا محل ہے ۔

وأیضاً فإن قولہ : أنا منک طالق فیہ وصف الرجل بالطلاق صریحًا فلا یقع ؛ لأن الطلاق صفۃ للمرأۃ ۔ ( شامي ، کتاب الطلاق / باب الصریح ، مطلب في قولہ : علی الطلاق من ذراعي ۴ ؍ ۴۶۶ زکریا )
ومحلہ المنکوحۃ وأہلہ زوج عاقل بالغ مستقیظ ۔ ( شامي ۴ ؍ ۴۳۱ زکریا )

کتاب المسائل ج5/
#المفتی_محمد_رضوان_الاعظمی_القاسمی
ایک روایت کی تحقیق


India

سوال # 145517

ایک حدیث ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ”علم سیکھنے اگر تمہیں چین جانا پڑے تو جاوٴ“ اس حدیث کے بارے میں ہمارے یہاں کے ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ یہ حدیث شیعہ وغیرہ لوگوں کی بنائی ہوئی ہے کیونکہ کوئی علم سیکھنے سعودی جائے گا یا چین جائے گا، تو میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ یہ حدیث صحیح ہے یا بنائی ہوئی ہے اگر صحیح ہے تو اس کا جواب حوالے کے ساتھ دیں جس سے مجھے اطمینان ہو جائے۔

Published on: Nov 13, 2016

جواب # 145517

بسم الله الرحمن الرحيم


Fatwa ID: 054-035/D=2/1438


مذکورہ حدیث کو امام بیہقی علامہ سیوطی وغیرہ نے ضعیف قرار دیا ، ابن حبان نے باطل اور ابن جوزی نے موضوع قرار دیا، اور حافظ مزی نے حسن لغیرہ اور حافظ ذہبی نے اس کی بعض سند کو صالح قرار دیا قال البیہقی: ہذا حدیث متنہ مشہور وإسنادہ ضعیف وقد روی من أوجہ کلہا ضعیف (شعب الایمان: ۳/۱۹۳رقم: ۱۵۴۳ط: الرشد ریاض) وقال الإمام العجلونی: اطلبوا العلم ولو بالصین فإن طلب العلم فریضة علی کلی مسلم رواہ البیہقی والخطیب وابن عبد البر والدیلمي وغیرہم عن أنس وہو ضعیف بل قال ابن حبان باطل وذکر ابن الجوزی فی الموضوعات ونوزع بقول الحافظ المزي لہ طرق ربما یصل بمجموعہا إلی الحسن ویقول الذہبي فی تلخیص الواہیات روی من عدة طرق واہیات وبعضہا صالح (کشف الخفاء: ۱/۱۵۶، ط: عصریہ) واضح رہے کہ حضرت گنگوہی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا بشرط ثبوت کے اس سے علم دین مراد ہے تفصیل کے لیے مطالعہ فرمائیں ”باقیات فتاوی رشیدیہ ص: ۳۹۸تا ۴۰۲۔



واللہ تعالیٰ اعلم


دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

#محمداصغرچمپارنی_القاسمی
شادی کےوقت کن کن باتوں کاخیال رکھیں؟


السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، کیا فرماتے ہیں علماء دین اور مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ جب کہیں نکاح کا پیغام بھیجا جائے تو کن کن باتوں اور امور کو لڑکا لڑکی میں دیکھنا مستحب و مندوب ہیں؟؟؟براہ کرم مدلل تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔

#الجواب_وباللہ_التوفیق_وبہ_نستعین


*رشتے کے انتخاب کا معیار*


تحریر/ مفتی رشید احمد خورشید

جب بھی دنیا میں کوئی بچہ آتاہے تو وہ اپنا ایک خاندانی پس منظر رکھتا ہے۔ اس کے والد کا تعلق کس پیشے سے ہے۔ ددھیال کے لوگ کیسے ہیں؟ ننھیالی رشتہ دار کس شعبہ زندگی سے وابستگی رکھتے ہیں؟کس ماحول کے اندر وہ پروان چڑھے ہیں؟ عموما یہ پس منظر ہر انسان کادوسرے سے مختلف ہوتاہے اور اس کا اثر ہر انسان کی ذاتی زندگی پر ہونا ایک فطری اور بدیہی امر ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” مَا مِنْ مَوْلُوْدٍ إلَّا یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ، فَأَبَوَاہُ یُہَوِّدَانِہٖ أَو یُنَصِّرَانِہٖ أَو یُمَجِّسَانِہٖ۔۔۔۔۔۔” یعنی”ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے والدین یا اس کو یہودی بنادیتے ہیں، یا عیسائی بنادیتے ہیں یا مجوسی بناتے ہیں۔”(بخاری ومسلم) اس حدیث سے یہ بات بالکل عیاں ہے کہ گھریلو اور خاندانی ماحول کا انسان کی زندگی پر بہت گہرا اور دیر پا اثر ہوتا ہے۔ جب ہم بیٹے یا بیٹی کے لیے رشتے کا انتخاب کرتے ہیں تواس وقت ہمیں بہت سی دیگر چیزوں اور ترجیحات کے ساتھ اس بات کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے کہ جس گھر میں ہم رشتہ دے رہے ہیں یا لے رہے ہیں ان کا خاندانی پس منظر اور اس لڑکے یا لڑکی کی تربیت اور نشو ونما کس قسم کے ماحول میں ہوئی ہے؟
ساس جب اپنے لیے بہو تلاش کررہی ہو تو اس کو یہ اسی وقت سوچ لینا چاہیے کہ میں گھر میں کس قسم کی بہو کے ساتھ رہ سکتی ہوں؟ میرے مزاج کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے لیے ایک لڑکی میں کن بنیادی صفات کا ہونا ضروری ہے؟ ان ساری چیزوں کو اچھی سوچ کر، سمجھ کر اور غور وفکر کرکے اس کے بعد تلاش کا عمل شروع کیاجائے۔ اگر پہلے سے یہ بات طے کرلی جائے اور پھرتلاش کے عمل کے دوران ان چیزوں کو پیش نظر رکھاجائے تو بعد میں مسائل پیدا نہیں ہوتے۔ بنیادی غلطی ہماری عورتیں یہاں کرتی ہیں کہ ابتدا میں لڑکے کی بہنیں اور والدہ کی نظر صرف اور صرف ایک بات پر ہوتی ہے اور وہ ہے”خوبصورتی”۔ ان کا مطمح نظر صرف یہی ایک چیزہوتی ہے اور اسی کو معیار بناکر کسی رشتے کا انتخاب یا اس کو مسترد کرتی ہیں۔ چنانچہ عموما ہم نے دیکھا اور سنا کہ بہنیں جب کسی لڑکی کو دیکھنے جاتی ہیں تو واپسی پر ان کا تبصرہ کچھ اس طرح کا ہوتا ہے:” اس کی تو آنکھیں ٹیڑھی ہیں۔ اس کی تو ناک اتنی بڑی ہے۔ اس کے تو ہونٹ اتنے موٹے ہیں۔ اس کے گال تو بالکل پچکے ہوئے ہیں وغیرہ” اس طرح کے تبصرے اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک پسند یا ناپسند کا معیار حسن اور خوبصورتی ہے اور بس صرف وہ چیزیں جو اس کے ظاہر سے تعلق رکھتی ہیں۔اس کے اخلاق، شرافت، ادب، حیا، خدمت اور دیگر اوصاف کو نظر انداز کردیاجاتا ہے۔ اس لیے کہ اگر اس کے علاوہ کسی اور چیز کو بھی ترجیحات میں شامل کیاہوتا تو یقینا وہ بھی زیر تبصرہ آتا، لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”تُنْکَحُ الْمَرْأَۃُ لِأَرْبَعٍ: لِمَالِہَا، وَلِحَسَبِہَا، وَلِجَمَالِہَا، وَلِدِینِہَا، فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّینِ تَرِبَتْ یَدَاکَ.” (بخاری:4802، مسلم:1466) یعنی کسی عورت سے نکاح چار چیزوں کی وجہ سے کیاجاتا ہے: اس کے مال کی وجہ سے کہ یہ بہت مالدار خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کا رشتہ اپنے بیٹے کے لیے مانگیں گے تو جہیز بھی اچھا ملے گا اور شادی کے بعد بھی بھاری بھر کم تحفے تحائف ملتے رہیں گے۔دوسری وجہ آپ نے بیان فرمائی: اس کے حسب اور دنیاوی اسٹیٹس کی وجہ سے کہ اس کا والد تو فلاں محکمہ میں ڈائریکٹر ہے۔ بڑا آفیسر ہے۔ہمارے بیٹے کو بھی سرکاری نوکری دلوادے گا۔ لوگوں میں ہمارا بھی ایک نام ہوجائے گا کہ فلاں کا داماد ہے۔ تیسری وجہ: اس کی خوبصورتی کی وجہ سے ۔ اس چیز کو بھی ہمارے معاشرے میں اولین ترجیحات میں شامل کیا گیا ہے۔اور چوتھی وجہ آپ نے ارشاد فرمائی: اس کی دینداری کی وجہ سے۔ ا س کے بعد آپ نے فرمایا: ”پس تو دیندار عورت کے ساتھ نکاح کرکے کامیابی حاصل کر ، تیرے ہاتھ خاک آلو ہوجائیں۔” اس حدیث شریف میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی ترجیحات میں شامل ساری چیزوں کو بیان فرمادیا اور پھر آخر میں آپ نے اپنی امت کو جو حکم دیا وہ یہ کہ بقیہ تین چیزوںکومعیار بنانے کے بجائے دینداری کو معیار بناؤ اور ساتھ ہی اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ اگر ازدواجی زندگی میں کامیابی چاہتے ہو تو دینداری کو ترجیح دو۔ ظفر کا یہ لفظ اردو میں بھی کامیابی اور کامرانی کے مفہوم میں استعمال ہوتاہے۔ حقیقت یہی ہے کہ اگر والدین اپنے ذاتی مفادات کے بجائے اپنے بیٹے کے مفاد اور بہتر مستقبل کو سامنے رکھیں تووہ اس کے لیے ا
یسی بیوی لے کر آئیں گے جس کے ساتھ اس کی زندگی خوشگوار گذرے اور ظاہر ہے کہ وہ ایک دیندار خاتون ہی کی صفت ہوسکتی ہے۔ یہاں ایک بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ ہمارے ہاںدینداری کو نماز روزے تک محدود سمجھاجاتا ہے، حالانکہ ایسا نہیں۔ شرافت، انسانیت، اچھے اخلاق، خدمت کا جذبہ، شوہر کی خدمت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا، غریبوں کی مدد کرنا، سارے معاملات کو دین کے مطابق بروئے کار لانا یہ دینداری ہے۔ اس چیز کو اگر دیکھاجائے گا تو قوی امید اس بات کی ہے کہ یہ زندگی کا سفر کامیاب رہے گا اور کیوں کر نہ ہو کہ حضور نے اس کو کامیابی کا مژدہ سنایا ہے۔
اس کے برعکس اگر دیگر چیزوں کو معیار بنالیاجائے گا تو پھر نتائج کچھ زیادہ اچھے نہیں ہوں گے۔ چنانچہ ایک حدیث میں ارشاد ہے:”مَنْ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً لِعِزِّہَا لَمْ یَزِدْہُ اللَّہُ إِلَّا ذُلًّا ، وَمَنْ تَزَوَّجَہَا لِمَالِہَا لَمْ یَزِدْہُ اللَّہُ إِلَّا فَقْرًا ، وَمَنْ تَزَوَّجَہَا لِحَسَبِہَا لَمْ یَزِدْہُ اللَّہُ إِلَّا دَنَاءَ ۃً، وَمَنْ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً لَمْ یَتَزَوَّجْہَا إِلَّا لِیَغُضَّ بَصَرَہُ أَوْ لِیُحْصِنَ فَرْجَہُ ، أَوْ یَصِلَ رَحِمَہُ بَارَکَ اللَّہُ لَہُ فِیہَا ، وَبَارَکَ لَہَا فِیہِ. (المعجم الاوسط للطبرانی:2342)
”جس نے کسی عورت سے اس کی عزت کی وجہ سے شادی کی، اللہ اس کی ذلت کو بڑھادیں گے اور جس نے اس کی مالداری کی وجہ سے شادی کی، اللہ اس کے فقر میں اضافہ کردیں گے اور جس نے کسی عورت سے اس کے اسٹیٹس اور حسب کی وجہ سے نکاح کیا، اللہ اس کا سر نیچا کردیں گے اور جس نے اپنی نظروں اور شرمگاہ کی حفاظت کے لیے اور صلہ رحمی کے لیے نکاح کیا، اللہ دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ برکت والی زندگی عطا فرمادیں گے۔” اس حدیث کو اگر چہ محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے، لیکن بہرحال تجربہ اور مشاہدہ بھی یہی بتاتا ہے۔ جو ان دنیاوی چیزوں کی وجہ سے کسی عورت سے شادی کرتا ہے تو پھر وہ اس کا غلام بن کر رہ جاتا ہے اور دنیا میں کوئی اچھا مقام حاصل کرنے میںکم ہی کامیاب ہوتا ہے۔
ایک طرف تو والدین کو ان باتوں کو مد نظر رکھنا چاہیے۔ دوسری طرف ہمارے بہت سے نوجوان دوست باربار یہ سوال کرتے ہیں کہ ”لوومیرج” کی اسلام میں کیا حیثیت ہے؟ اس پر میںیہی سوال کیاکرتا ہوںکہ آپ کی محبت کا سبب اور وجہ کیا ہے؟ آپ میرے ساتھ اس بات میں اتفاق کریں گے کہ ننانوے فیصد کسی نوجوان کی ذاتی دلچسپی کی وجہ اس لڑکی کی خوبصورتی، حسن یا ظاہری چیزیں ہوتی ہیں ، نہ کہ دینداری، خاندانی شرافت اور حسن اخلاق۔ ایسی صورتحال میں پھر یہی وجہ بنتی ہے کہ یہ شادی عموما ناکام ہوجاتی ہے۔ اس لیے کہ دنیا کی یہ ساری چیزیں تو زوال پذیر ہیں۔ حسن تو چند دنوں کی بات ہے۔ حسین سے حسین انسان کا چہزرہ بھی ایک وقت آتا ہے کہ جھرجھریاں پڑجاتی ہیں یا کبھی کسی حادثے کا شکار ہوجاتا ہے یا کوئی مسئلہ پیش آجاتا ہے۔ مالدار غریب ہوجاتے ہیں۔ بڑے نیچے آجاتے ہیں تو پھر دلچسپی کا سبب برقرار نہیں رہتا تو وہ رشتہ بھی ڈگمگانے لگ جاتا ہے۔ اسی لیے رشتے کے انتخاب میں والدین کو بھی اور خود نوجوانوں کو بھی یہ بات سامنے رکھنی چاہیے۔ چند دن کے جوش میں آکر اپنی ساری زندگی تباہ کرنے سے بہتر ہے کہ کچھ دن کے ہوش سے اپنی زندگی کو خوشحال بنادیں.

صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر

#المفتی_محمد_رضوان_الاعظمی_القاسمی
*تعزیتی جلسوں اور كانفرنسوں كا كیا حكم ہے؟*

سوال
اور کیا میت کے فوتگی سے کچھ دن بعد یہ جلسے اور سیمنار کئے جائیں یا کچھ مہینے بعد یا 30 ، 40 سال بعد ، تو کیا اس سے شرعی حکم مختلف ہو گا ؟
(تعزیتی جلسوں اور سیمنار کیلئے میت کے مکان و مقام یا اس سے ہٹ کر دوسری جگہ پر تحریری یا زبانی طور پر بلایا جاتا ہے اور اس محفل میں میت کے محاسن و مناقب بیان کئے جاتے ہیں (اگر وفات شدہ شخص عالم ہو تو دوست احباب انکی علمی زندگی کے متعلق مقالات بھی پڑھتے ہیں وہاں) نیز میت کیلئے ایصالِ ثواب بھی کیا جاتا ہے )
الف -کیا یہ جلسے اور سیمنار کرانا مکروہ اور بدعت ہے ؟ بدلیلِ حدیث "نَہَی رَسُولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم عَنِ الْمَرَاثِی "(سنن ابن ماجہ) جیسے کہ مفتی سعید احمد پالنپوری مدظلہ و مفتی حبیب الرحمان مدظلہ اور مولانا محمد امین پالنپوری مدظلہ وغیرہ کی رائے ہے کہ مندرجہ بالا حدیث کی رو سے یہ جلسے اور سیمنار ممنوع ہیں یا
ب - کیا یہ جلسے مباح ہیں ؟یا ج -کیا یہ جلسے اور سیمنار مندوب ہیں ؟ بدلیلِ حدیث "اذْکُرُوا مَحَاسِنَ مَوْتَاکُمْ" (جامع ترمذی ، سنن ابوداود) تعزیتی جلسہ اورخاص اس جلسے میں مرثیے پڑھنے کا کیا شرعی حکم ہے ؟ نیز کسی کی یاد میں مرثیہ کہنے کا کیا حکم ہے ؟ (جلسے میں ہو یا ویسے ہی ہو) کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے مرثیہ پڑھنا ثابت ہے ؟ بقول علامہ انور شاہ کشمیری حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی مرثیہ پڑھا ہے ( انوارِ انواری ، ص 156) 3.اگر تعزیتی جلسے اوراس میں مرثیے پڑھنے کو ممنوع و شجرِ ممنوعہ قرار دیا جائے یا اسکو صرف ظاہری رسم ٹھہرایا جائے تو اکابرینِ دیوبند (جو سنت پر مکمل عمل پیرا اور قرآن و حدیث اور فقہ کے ماہرین تھے ) سے جب تعزیتی جلسے اور مرثیے پڑھنا ثابت ہیں تو اسکی کیا تاویل کی جائے گی ؟
الف شیخ الہند کی وفات پر تعزیتی جلسہ
شیخ الہند کے وفات کے بعد ایک دن حضرت مولانا حافظ احمد صاحب کی زیرِ صدارت تعزیتی جلسہ ہوا ، سب ہی اکابر نے مرثیے پڑھے -
خاتم المحدثین علامہ انور شاہ کشمیری نے بھی آنسو کی روانی میں دو قصیدے پڑھے ایک عربی کا اور ایک فارسی کا -
پھر فرمایا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین نے بھی سنت کے مطابق حزن و ملال کا اظہار کیا ہے حضرت صدیقِ اکبر نے بھی مرثیہ پڑھا ہے -
اس لئے آنسو بہانا یا غم کرنا بدعت نہیں ہے ،صحابہ کرام سے ثابت ہے
نبی کریم ﷺ سے بھی ثابت ہے حضرت ابراہیم رض (صاحبزادہٴ حضور ﷺ) کے وصال پر آپ ﷺ نے فرمایا تھا "إنا بفراقک یا إبراہیم لمحزونون" (رواہ البخاری)
( انوارِ انواری ، صفحات 156-155)
ب - علامہ انور شاہ کشمیری کی وفات پر متعدد تعزیتی جلسے
ایک جلسہ ڈابھیل میں ہوا جسمیں شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی نے بھی تعزیتی کلمات کہے تھے
اسی طرح دوسرا جلسہ تعزیتی دارالعلوم دیوبند کی دارالحدیث میں ہوا جسمیں اکابر دیوبند خصوصا شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نے تعزیتی تقریر کی -
اسی طرح تیسرا تعزیتی جلسہ دہلی میں جمعیة العلمائے ہند نے کی جسمیں خصوصا مفتی اعظم ہند مولانا کفایت اللہ اور مولانا احمد سعید نے تعزیتی تقاریر کیں -
(نقشِ دوام ، صفحات 59 61)
یہ جلسے خصوصا اسی لئے ذکر کئے کہ ان میں سب بڑے بڑے اکابر نے بذاتِ خود شرکت کی اور تقاریر کہے -
جواب
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 244-74T/B=05/1440
اہل میت کو تسلی دینا اور ان کے غم میں اپنی شرکت کا اظہار کرنا، اور ان کے غم کو ہلکا کرنا، یہ امر مسنون و مستحب ہے لقولہ علیہ السلام ”من عزیٰ أخاہ بمصیبةٍ کساہ اللہ من حلل الکرامة “ ۔ مقامی لوگوں کے لئے تین دن کے اندر اندر تعزیت جائز ہے اور باہر والوں کے لئے تین دن کے بعد بھی تعزیت کرنا جائز ہے، تعزیت کے نام سے باقاعدہ جلسہ کرنا درست نہیں۔

واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

#المفتی_محمد_رضوان_الاعظمی_القاسمی
باڈی اسپرے لگا کر نماز پڑھنا

سوال

باڈی سپر ے لگا کر نماز ہو جاتی ہے؟

جواب

اگر باڈی اسپرے میں الکوحل شامل نہیں تو اسے لگا کر نماز پڑھنے سے نماز ہوجاتی ہے، اور اگر باڈی اسپرے میں الکوحل ملا ہو ہو تو اس میں یہ تفصیل ہے  کہ  الکحل کی دو قسمیں ہیں: (1) ایک وہ جو منقیٰ، انگور، یا کھجور کی شراب سےحاصل کی گئی ہو،  یہ بالاتفاق ناپاک ہے، اس کا استعمال اور اس کی خریدوفروخت ناجائز ہے۔ (2) دوسری  وہ جو مذکورہ  بالا اشیاء کے علاوہ کسی اور چیز مثلا  جو، آلو، شہد، گنا، سبزی وغیرہ سے حاصل کی گئی ہو، اس کا استعمال اور اس کی خریدوفروخت جائز ہے۔

           مذکورہ تفصیل کی  رو سے صورتِ مسئولہ میں اگر باڈی اسپرے وغیرہ  میں استعمال ہونے والی الکحل منقیٰ ، انگور، یا کھجور سے حاصل کی گئی   ہے تو ایسے باڈی اسپرے  کا استعمال جائز نہیں ہے اور اس کو لگا کر نماز پڑھنے سے نماز بھی جائز نہیں ہوگی، اور اگر باڈی اسپرے وغیرہ میں  استعمال ہونے والی الکحل مذکورہ اشیاء کے علاوہ جو، آلو، شہد، گنا، سبزی وغیرہ سے حاصل کی گئی ہے تو ایسے باڈی اسپرے کا استعمال جائز ہے اور اس کو لگا کر نماز پڑھنے سے نماز ہوجائے گی۔

           عام طور پر  باڈی اسپرے اور پرفیوم وغیرہ میں جو الکحل استعمال ہوتی ہے وہ انگوریا کھجور وغیرہ سے حاصل نہیں کی جاتی، بلکہ  دیگر اشیاء سے بنائی جاتی ہے، لہذا  کسی چیز  کے بارے میں جب تک  تحقیق سے ثابت  نہ ہوجائے کہ اس  میں  پہلی قسم (منقیٰ، انگور، یا کھجور کی شراب )سے حاصل شدہ الکحل ہے ، اس وقت تک اس کے استعمال کو  ناجائز اور حرام نہیں کہہ سکتے، اور ایسا باڈی سپرے لگاکر نماز پڑھنا جائز ہے، تاہم اگر احتیاط پر عمل کرتے ہوئے اس سے بھی اجتناب کیا جائے تو یہ زیادہ بہتر ہے۔فقط واللہ اعلم

فتوی نمبر : 143909200562

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

#محمداصغرچمپارنی_القاسمی
الکوحل ملا سینی ٹائزر استعمال کرنا

سوال

صحیح مسلم حدیث : 5141

"حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ عَنْ أَبِيهِ وَائِلٍ الْحَضْرَمِيِّ أَنَّ طَارِقَ بْنَ سُوَيْدٍ الْجُعْفِيَّ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْخَمْرِ، فَنَهَاهُ أَوْ كَرِهَ أَنْ يَصْنَعَهَا، فَقَالَ: إِنَّمَا أَصْنَعُهَا لِلدَّوَاءِ، فَقَالَ: إِنَّهُ لَيْسَ بِدَوَاءٍ وَلَكِنَّهُ دَاءٌ".

حضرت طارق بن سوید جعفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شراب ( بنانے ) کےمتعلق سوال کیا ، آپ نے اس سے منع فرمایا یا اس کے بنانے کو نا پسند فرمایا ، انہوں نےکہا: میں اس کو دوا کے لیے بناتا ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ دوا نہیں ہے ، بلکہ خود بیماری ہے ۔

سوال: کیا اس حدیث کی روشنی میں وہ ادویات جن میں الکحل شامل ہو ان کا استعمال درست ہے؟

کیا اس حدیث کی روشنی میں ہاتھ صاف کرنے کے لیے مستعمل ہینڈ سینیٹائیزر (جو کہ الکحل سے تیار شدہ ہوتا ہے) اس کے استعمال کی اجازت ہے؟

قرآن و سنت صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں فتویٰ عطا فرما دیجیے!

جواب

سوال میں مذکور حدیث میں ’’خَمْر‘‘ (شراب) بنانے کی ممانعت ہے، خواہ وہ دوا کے طور پر ہو، اور آج بھی حکم یہی ہے کہ بطورِ دوا شراب بنانا حرام ہے۔ البتہ ہر نشہ آور مشروب یا ہر الکوحل کو عربی زبان اور شرعی اصطلاح میں ’’خَمْر‘‘ (شراب) نہیں کہتے،  بلکہ شراب سے مراد وہ خاص مشروب ہے جو انگور، کھجور یا منقی سے کشیدہ کیا گیا ہو۔ اور موجودہ دور میں دواؤں اور دیگر اشیاء میں جو الکوحل استعمال کیا جاتاہے بنیادی طور پر وہ دو حیثیتوں کا حامل  ہے:

1- انگور، کھجور، منقی سے بنی الکحل۔

2- دیگر پھلوں، اناج، لکڑی یا کیمیکل سے بنی الکحل۔

پس جو  الکوحل انگور، کھجور  کی شراب سے حاصل کی جائے وہ الکوحل  نہ صرف حرام  ہے، بلکہ نجس بھی ہے اور دوسری مائعات وغیرہ کو بھی نجس کردیتی ہے،  اس لیے کہ  اس قسم کی الکوحل شراب ( خمر) کا جزء ہوتی ہے، یعنی اس کا ماخذ شراب ہے اور شراب  میں دونوں عیب ( حرام و نجس ہونا)  پائے جاتے ہیں، لہذا جو حکم اصل  یعنی شراب ( خمر) کا حکم ہوگا، وہی حکم اس شراب کے ہر ہر جز کا ہوگا،  یعنی ہاتھ، کپڑے پر لگنے کی صورت میں ناپاک کردے گی اور اس کا پینا حرام ہوگا چاہے وہ نشہ آور ہو یا نہ ہو۔

جو الکوحل انگور، کھجور کے علاوہ کسی دوسری شے سے حاصل کی جائے (مثلاً گنے کے شیرے Molasses سے تو اس کا پینا نشہ کی وجہ سے حرام رہے گا، البتہ وہ نجس شمار نہیں ہوگی، وجہ اس کی یہ ہے کہ اس کا ماخذ  انگور، کھجور کے علاوہ ہے،  اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں  خمر کی تعیین  کر کے اسے حرام اور  رجس (نجس)  قرار دیا ہے، اور خمر انگور اور کھجور کی شراب کو کہتے ہیں۔ پس جو  الکوحل مصنوعی طریقہ سے یا انگور و کھجور کے علاوہ سے  بنائی جاتی ہے اس کا پینا نشہ آور ہونے کی صورت میں تو  حرام ہو گا،  تاہم  اس کی معمولی مقدار نشہ آور نہ ہونے کی وجہ سے اتنی معمولی مقدار  ناپاک نہیں کہلائے گی، بلکہ پاک باقی رہے گی۔

موجودہ دور میں جو الکوحل پرفیومز، ہینڈ سیناٹائزر (ہاتھ کے جراثیم مارنے کے لیے) استعمال ہوتی ہے، وہ نجس نہیں بلکہ پاک ہے،  بلکہ  اس قسم کی  الکوحل   پینے کے قابل بھی نہیں ہوتی اور پینے کی صورت میں موت کا سبب بن سکتی ہے۔

لہذا انگور،  اور کھجور کے علاوہ  ہر قسم کی الکوحل پاک ہے، اس کے خارجی استعمال سے ہاتھ، کپڑے وغیرہ  ناپاک نہیں ہوتے۔

تکملہ فتح الملہم میں ہے:

"و أما غير الأشربة الأربعة، فليست نجسة عند الإمام ابي حنيفة رحمه الله تعالي. و بهذا يتبين حكم الكحول المسكرة (Alcohals) التي عمت بها البلوي اليوم، فإنها تستعمل في كثير من الأدوية و العطور و المركبات الأخري، فإنها إن اتخذت من العنب أو التمر فلا سبيل الي حلتها أو طهارتها، و إن اتخذت من غيرهما فالأمر فيها سهل علي مذهب أبي حنيفة رحمه الله تعالي، و لايحرم استعمالها للتداوي أو لأغراض مباحة أخري ما لم تبلغ حد الإسكار، لأنها إنما تستعمل مركبةً مع المواد الأخري، ولايحكم بنجاستها أخذًا بقول أبي حنيفة رحمه الله.

و إن معظم الحكول التي تستعمل اليوم في الأودية و العطور و غيرهما لاتتخذ من العنب أو التمر، إنما تتخذ من الحبوب أو القشور أو البترول و غيره، كما ذكرنا في باب بيوع الخمر من كتاب البيوع". (كتاب الأشربة، حكم الكحول المسكرة، ٣/ ٦٠٨، ط: مكتبة دار العلوم) فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144107200788
تاریخ اجراء :15-03-2020

#محمداصغرچمپارنی_القاسمی
الکوحل پر مشتمل ہومیو پیتھک ادویہ کا حکم

سوال

میں ایک سرکاری ملازم ہوں، آپ سے یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ ہومیو پیتھک طریقۂ علاج کرنے یا کروانے کے بارے میں شرعی احکامات کیا ہیں؟ہومیو پیتھی میں جو ادویہ استعمال ہوتی ہیں ان میں الکوحل بھی شامل ہوتی ہے جو کہ 90 فیصد تک ہوتی ہے، آپ سے سوال یہ ہے کہ ہومیو پیتھک طریقۂ علاج کرنا یا کروانا جائز ہے یا نہیں ؟ جبکہ اس کی ادویہ میں 90 فیصد تک الکوحل شامل ہوتی ہے۔

جواب

ہومیو پیتھی ایک طریقۂ علاج ہے، اور بنیادی طور پر یہ نہ صرف جائز بلکہ اگر مخلوق کی خدمت کی نیت سے شریعت کے احکام کے مطابق کیا جائے تو باعثِ اجر بھی ہے،جہاں تک ہومیو پیتھی کی ایسی ادویہ کے شرعی حکم کا تعلق ہے جن میں الکوحل کا استعمال کیا گیاہوتو اس حوالے سے وضاحت یہ ہے کہ اگر الکوحل انگور یا کھجور سے کشیدہ نہ ہو تو ان ادویہ کا استعمال ہر طرح کے مریض کے لئے جائز ہےبشرطیکہ یہ نشہ آور نہ ہوں، تاہم اگر کوئی اس سے احتراز کر کے دوسری ایسی ادویہ استعمال کرےتو یہ تقویٰ کی رو سے بہتر ہے، اور اگر الکوحل انگور یا کھجور سے بنی ہو تو ایسے الکوحل پر مشتمل ادویہ کا استعمال ہر طرح کے مریض کے لئے جائز نہیں، اس لئے عام مریضوں کے لئے ایسی ادویات تجویز کرنا جائز نہیں، البتہ اگر کسی مریض کے لئے ایسی دواء تجویز کرنے کی مجبوری ہو کہ اس کے مرض کی کوئی اور دواء موجود نہ ہو یا کارگر نہ ہو، اور بیماری غیر معمولی ہو تو خاص ایسے مریضوں کے لئےایسی دواء بھی تجویز کرنا شرعاً جائز ہے۔
مذکورہ تفصیل کے ساتھ ہومیو پیتھی ادویات کا استعمال اور تجویز کرنا چونکہ جائز ہےاس لئے ہومیو پیتھی کو بطورِ پیشہ اور علاج اختیار کرنا بھی جائز ہے، طبی جوہر (نواں حصہ بہشتی زیور، ص 776،دارالاشاعت)میں مذکور ہے:
"سوال:انگریزی دوا جو پینے کی ہوتی ہے اس میں عموماً اسپرٹ ملائی جاتی ہے، یہ قسم ہے اعلیٰ درجہ کی شراب کی۔۔۔ کیا یہ پینا جائز ہے یا ناجائز؟ جواب: اسپرٹ اگر انگور، کشمش، تر کھجور یا چھوارے سے حاصل نہ کی گئی ہو تو استعمال کی گنجائش ہے للاختلاف ،ورنہ گنجائش نہیں للاتفاق۔۔۔الی۔۔۔ یہاں سے حکم ہومیو پیتھک ادویات کا بھی نکل آیا کہ اولیٰ یہی ہے کہ ان کو بلاضرورت استعمال نہ کیا جائے کیونکہ ان کا اصل جزو اسپرٹ ہی ہوتا ہےاور دوسری دوا کا جزو برائے نام ہوتا ہے۔"
حوالہ جات
فی الدر المختار (ج10،ص48، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ):
"(والكل) أي الثلاثة المذكورة (حرام إذا غلى واشتد) وإلا اتفاقا، وإن قذف حرم اتفاقا، ۔۔۔۔۔ (وحرمتها دون حرمة الخمر فلا يكفر مستحلها) لأن حرمتها بالاجتهاد.(والحلال منها) أربعة أنواع:الأول (نبيذ التمر والزبيب إن طبخ أدنى طبخة) يحل شربه (وإن اشتد) وهذا (إذا شرب) منه (بلا لهو وطرب) فلو شرب للهو فقليله وكثيره حرام (وما لم يسكر) فلو شرب ما يغلب على ظنه أنه مسكر فيحرم، لأن السكر حرام في كل شراب۔"فقط

مجيب
عمران مجید صاحب
مفتیان
مفتی آفتاب احمد صاحب 
مفتی سیّد عابد شاہ صاحب

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
فتوی نمبر :61238
تاریخ اجراء :2017-11-25

#محمداصغرچمپارنی_القاسمی
عبقری رسالے اور اس کے مدیر کے بیانات اور تحریرات کا حکم

سوال

ایک شخصیت کے متعلق پوچھنا چاہتا ہوں جوکہ آپ ہی کے دیار سے تعلق رکھتی ہے؛ اس لیے کہ جب علماءِ دیوبند انڈیا سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے مقامی علماء سے پوچھنے کو کہا، وہ شخصیت حکیم طارق محمود چغتائی کی ہے ان کے متعلق آپ اکابر کی کیا رائے ہے؟  کیا ان کے بیانات سن سکتے ہیں؟ ان کے بتلائے ہوئے عملیات پر عمل کرسکتے ہیں؟ کیا وہ دیوبندی  ہیں؟ جواب دے کر ممنون فرمائیں!

اگرچہ آپ کے اصولوں میں یہ بات ہے کہ شخصیت سے متعلق سوال کا عموماً جواب نہیں دیا جاتا ہے,لیکن پھر بھی میں آپ پر امید لگائے ہوئے ہوں، اس لیے کہ میری والدہ دن بھر بس ان ہی کی باتیں سنتی رہتی ہیں.

جواب

جامعہ کی ویب سائٹ پر  شخصیات سے متعلق سوالات کا جواب نہیں دیا جاتا جیسا کہ آپ کے بھی علم میں ہے۔ البتہ موصوف کی تحریرات، بیانات اور ان کے رسالہ (عبقری) کے مندرجات سے متعلق اصولی حکم ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے:

موصوف کی تحریرات ، بیانات اور ان کے رسالہ (عبقری) کے مندرجات عموماً تین طرح کے ہوتے ہیں:

1- وظائف۔ 2- مجربات۔ 3- دینی مسائل اور راہ نمائی وغیرہ۔

(1) وظائف سےمتعلق یہ حکم ہے کہ جن وظائف میں درج ذیل شرائط  ہوں وہ جائز ہیں: 
(۱)  ان کا معنی  ومفہوم معلوم ہو،  (۲) ان میں  کوئی شرکیہ کلمہ نہ ہو، (۳)  ان کے مؤثر بالذات ہونے   کا اعتقاد نہ ہو ۔

       لہذا  ایسے وظائف جو آیاتِ  قرآنیہ، ادعیہ ماثورہ یا کلماتِ صحیحہ پر مشتمل ہوں  تو  جائز کاموں کے لیےان کو لکھنا،  استعمال کرنا اور ان سے علاج کرنا شرعاً درست ہے؛ کیوں کہ اس کی حقیقت ایک جائز تدبیر سے زیادہ کچھ نہیں اور جن وظائف  میں کلماتِ  شرکیہ یا  کلماتِ مجہولہ یا نامعلوم قسم کے منترہوں یا الفاظ معلوم اور صحیح ہوں لیکن انہیں مؤثر حقیقی  سمجھا جائے تو ان کا استعمال  شرعاً جائز نہیں ہے۔

(2) مجربات میں اگر کوئی خلافِ شرع بات نہ ہو  تو مجربات کے طور پر ان کے استعمال کی گنجائش ہے، کیوں کہ ان کا تعلق دینی امور سے نہیں ہے، بلکہ  تجربات سے ہے۔ البتہ اگر ان کا تعلق طب/میڈیکل سے ہو تو اس کے ماہرین سے رائے لیے بغیر ان پر عمل بھی مناسب نہیں ہے، ہر عمل ہر ایک کے لیے مفید نہیں ہوتا، مزاجوں اور علاقوں اور موسم کے اعتبار سے علاج میں بھی فرق آتاہے۔  چناں چہ احادیثِ مبارکہ میں بھی جن بعض اشیاء کے بہت سے طبی فوائد آئے ہیں علماءِ کرام نے لکھا ہے کہ وہ بھی ہر ایک کے لیے نہیں ہے، بلکہ موسم، مزاج وغیرہ کے اعتبار سے فرق آتاہے، اس لیے صاحبِ تجربہ سے رائے لیے بغیر از خود استعمال نہ کیا جائے تو بہتر ہے۔

(3) دینی اور شرعی بات  کا مستند ہونا ضروری ہوتا ہے،  اس لیے اس میں مستند علماءِ کرام سے پوچھ پوچھ کر اور مستند کتب میں دیکھ کر ہی عمل اور نقل کیا جائے، موصوف کی تحریرات، بیانات اور ان  کے  رسالہ میں بسا اوقات دینی باتیں غیر مستند نقل کی جاتی ہیں، جن میں سے بہت سی باتوں پر اہلِ علم گرفت بھی کرتے رہے ہیں، اس لیے ان کی دینی باتیں پڑھنے  اور نقل کرنے سے احتیاط کریں اور اگر کبھی ایسی کوئی بات سامنے آجائے تو مستند علماء سے تصدیق کرکے عمل کریں۔فقط واللہ اعلم

فتوی نمبر : 144104200152

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

#محمداصغرچمپارنی_القاسمی
نیک عورتوں کو جنت میں حوروں کے بدلے کیا ملے گا؟

سوال

جنت میں مردوں کےنیک اعمال کے بدلے میں حوروں کا وعدہ ہے، جب کہ کئی خواتین کہتی ہیں کہ ہمیں کیا ملے گا؟

جواب

نیک عورت اگر شادی شدہ ہے تو  جنت میں  اپنے جنتی  شوہر  کے ساتھ رہے گی اور شوہر کو ملنے والی حوروں کی سردار ہوگی، اوراللہ تعالیٰ اس عورت کو ان سب سے حسین وجمیل بنائیں گے اور  وہ میاں بیوی آپس میں ٹوٹ کر محبت کرنے والے ہوں گے۔

اور اگر دنیا میں عورت کے متعدد شوہر ہوں یعنی عورت  نے اپنے شوہر کے انتقال  یا اس کے طلاق دینے کے بعد دوسری شادی کرلی ہو  یعنی اس عورت نے دو یا اس سے زیادہ شادیاں کی ہوں تو   وہ جنت میں اپنے کس شوہر کے ساتھ رہے گی ؟  اس بارے میں  مختلف اقوال ہیں :

  (1)   اس عورت کو اختیار دیا جائے گا  کہ جس کے ساتھ اس کی زیادہ موافقت ہو اس کو اختیار کرلے۔

(2)   وہ عورت آخری شوہر  کے ساتھ رہے گی۔حضرت  ابودرداء  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : عورت  کو اس کا آخری شوہر ملے گا۔

(3) عورت اس شوہر کے ساتھ رہے گی جس نے دنیا میں   اس کے ساتھ اچھے اخلاق کا برتاؤ کیا ہواور وہ شوہر جس نے  عورت  پر ظلم کیا ہوگا ، اس کو تنگ کیا ہوگا وہ اس عورت سے محروم رہے گا۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ  تعالیٰ عنہا کی ایک روایت میں ہے کہ  انہوں نے  آپ ﷺ سے پوچھا  کہ کسی کے دو شوہر ہوں تو   وہ جنت میں کس کے ساتھ رہے گی؟آپ ﷺ نے    فرمایا: اسے اختیار دیا جائے گا ، پس وہ اس شوہر کو اختیار کرے گی جس نے دنیا میں اس کے ساتھ اچھے اخلاق کا برتاؤ کیا ہو، اور وہی اس کا جنت میں شوہر ہوگا، اے ام سلمہ! اچھے اخلاق والے دنیا اور آخرت کی بھلائی لے گئے۔

(4) بعض حضرات نے یوں تطبیق دی ہے کہ  اگر سب شوہر حسن خلق میں برابر ہوں تو  آخری شوہر کو ملے گی ورنہ اسے اختیار دیا جائے گا۔

اور اگر عورت  کنواری ہو یعنی اس کا شادی سے پہلے ہی انتقال ہوگیا ہو ، یا شادی شدہ تو  ہو ،لیکن اس کا شوہر جنتی نہ ہو تو  جنت میں جس مرد کو بھی وہ پسند کرے گی، اس کے ساتھ اس کا نکاح ہوجائے گا، اور اگر موجودہ لوگوں میں کسی کو بھی پسند نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک مرد جنت میں پیدا فرمائیں گے  جو اس کے ساتھ نکاح کرے گا۔(فتاویٰ عبدالحی )

باقییہ خواہش کہ ایک عورت بیک وقت کئی مردوں کی بیوی ہو خلافِ فطرت بھی ہی اور جنت میں یہ خواہش پیدا بھی نہیں ہوگی۔

''المعجم الأوسط للطبرانی''  میں ہے:

'' قال: خطب معاوية بن أبي سفيان أم الدرداء بعد وفاة أبي الدرداء، فقالت أم الدرداء: إني سمعت أبا الدرداء يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «أيما امرأة توفي عنها زوجها، فتزوجت بعده فهي لآخر أزواجها»۔ وما كنت لأختارك على أبي الدرداء''۔ (3/ 275،  من اسمہ بکر، برقم:3130،  ط:دارالحرمین، القاہرہ)

'' المعجم الكبير للطبراني'' میں ہے:

''عن أم سلمة، قالت: قلت: يا رسول الله أخبرني عن قول الله: ﴿ حُوْرٌعِيْنٌ ﴾ [الواقعة: 22] ، قال: " حور: بيض، عين: ضخام العيون شقر الجرداء بمنزلة جناح النسور "، قلت: يا رسول الله أخبرني عن قوله: ﴿ كَاَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَّكْنُوْنٌ ﴾ [الطور: 24] ، قال: «صفاؤهم صفاء الدر في الأصداف التي لم تمسه الأيدي». قلت: يا رسول الله أخبرني عن قوله: ﴿ فِيْهِنَّ خَيْرَاتٌ حِسَانٌ ﴾ [الرحمن: 70] ، قال: «خيرات الأخلاق، حسان الوجوه» . قلت: يا رسول الله أخبرني عن قوله: ﴿ كَاَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَّكْنُوْنٌ ﴾ [الصافات: 49] ، قال: « رقتهن كرقة الجلد الذي رأيت في داخل البيضة مما يلي القشر وهو العرفي» . قلت: يا رسول الله أخبرني عن قوله: ﴿ عُرُباً اَتْرَاباً ﴾ [الواقعة: 37] ، قال: «هن اللواتي قبضن في دار الدنيا عجائز رمضاء شمطاء خلقهن الله بعد الكبر، فجعلهن عذارى عرباً متعشقات محببات، أتراباً على ميلاد واحد» . قلت: يا رسول الله أنساء الدنيا أفضل أم الحور العين؟ قال: «بل نساء الدنيا أفضل من الحور العين، كفضل الظهارة على البطانة» . قلت: يا رسول الله وبما ذاك؟، قال: " بصلاتهن وصيامهن وعبادتهن الله، ألبس الله وجوههن النور، وأجسادهن الحرير، بيض الألوان خضر الثياب صفراء الحلي، مجامرهن الدر، وأمشاطهن الذهب، يقلن: ألا نحن الخالدات فلا نموت أبداً، ألا ونحن الناعمات فلا نبؤس أبداً، ألا ونحن المقيمات فلا نظعن أبداً، ألاونحن الراضيات فلا نسخط أبداً، طوبى لمن كنا له وكان لنا "، قلت: يا رسول الله المرأة منا تتزوج الزوجين والثلاثة والأربعة ثم تموت فتدخل الجنة ويدخلون معها، من يكون زوجها؟ قال: " يا أم سلمة إنها تخير فتختار أحسنهم خلقاً، فتقول: أي رب إن هذا كان أحسنهم معي خلقاً في دار الدنيا فزوجنيه، يا أم سلمة ذهب حسن الخلق بخير الدنيا والآخرة'' ۔(23/ 367، ازواج رسول اللہ ﷺ،  ام سلمۃ، ط:مکتبہ ابن تیمیہ، القاہرہ)فقط واللہ اعلم

فتوی نمبر : 143909201595

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

#محمداصغرچمپارنی_القاسمی
*دو رکعت نفل نماز میں متعددنوافل کی نیت کرنا*


*🔮 مسئلہ نمبر : 291 🔮*


*کیا فرماتے ہیں المعھدالعالی للافتاء کے علماء کرام و مفتیان عظام شرح متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ:-*

*سوال:-*

السلام علیکم

صورت مسئلہ یہ ہے کہ دو یا تین نفل نمازوں کی دو ہی رکعت میں ایک ساتھ نیت کرسکتے ہیں
جیسے صلوۃ التوبہ صلوۃ الحاجہ اور شکرانہ یہ تینوں نمازوں کو ایک ہی ساتھ ایک ہی نیت کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں؟ جواب دے کر شکریہ کا موقعہ عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی

فقط والسلام
*المستفتی = محمد فیصل دھولیہ مہاراشٹر*
*•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••*
*وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ*

*الجواب وباللہ التوفیق*
*بسم اللہ الرحمٰن الرحیم*


نفل میں توسیع ہے؛ اس لیے دو رکعت کی نفل کی نیت میں صلاة الحاجة، شکر، توبہ چاشت یا اشراق کی نیت ایک ساتھ کرسکتے ہیں؛ اسی طرح تہجد کے ساتھ صلاة الحاجت کی نیت بھی کرسکتے ہیں؛ البتہ جو نوافل مختلف السبب ہیں جیسے اشراق اور چاشت یا تراویح اور تہجد ان کی نیت ایک ساتھ نہیں کرسکتے۔
اسی طرح دو رکعت نفل میں تحیۃ المسجد، تحیۃ الوضوء، چاشت وغیرہ کئی نیتیں کی جا سکتی ہیں اور متعدد نیتیں کرنے پر انہی دو رکعتوں میں ان تمام نوافل کا ثواب ملے گا۔ اسی طرح سے نفلی صدقہ کرتے ہوئے مختلف امور کے لیے صدقہ کی نیت بھی کی جاسکتی ہے، اسی طرح طواف کر کے کئی افراد کو ثواب بخشنا چاہے تو بخشا جاسکتا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ صرف دو رکعت نفل میں ساری نوافل کی نیت کر کے باقی نوافل کو مستقل طور پر چھوڑ دیا جائے، بلکہ حسبِ موقع جتنی توفیق ہو زیادہ سے زیادہ نوافل پڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
لیکن اتنا ضرور ہے کہ جس عمل کی نیت کر رہے ہوں اس کا وقت اور موقع بھی ہو، تب اس کا اجر ملے گا، اور اگر کسی ایسے عمل کی یا کسی ایسی نفل کی نیت کریں جس کا وہ وقت ہی نہیں تھا پھر وہ اجر کا مستحق نہیں ہوگا، جیسےرات میں نفل پڑھتے وقت چاشت کی نیت لغو اور بےفائدہ ہے۔

*مستفاد: فتاوی دارالعلوم و حاشیۃ الطحطاوی*
*•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••*
*ثم إنه إن جمع بين عبادات الوسائل في النية صح، كما لو اغتسل لجنابة وعيد وجمعة اجتمعت ونال ثواب الكل، وكما لو توضأ لنوم وبعد غيبة وأكل لحم جزور، وكذا يصح لو نوى نافلتين أو أكثر، كما لو نوى تحية مسجد وسنة وضوء وضحى وكسوف، والمعتمد أن العبادات ذات الأفعال يكتفي بالنية في أولها ولا يحتاج إليها في كل جزء اكتفاء بانسحابها عليها، ويشترط لها الإسلام والتمييز والعلم بالمنوى، وأن لا يأتي بمناف بين النية والمنوي*
باب شروط الصلاة وأركانها: ١ /٢١٦، ط: دار الكتب العلمية

*قال في الأشباہ: وأما إذا نوی نافلتین کما إذا نوی برکعتي الفجر التحیة والسنة أجزأت عنہما (فی حاشیتہ: أجزأت عنہما لأن التحیة والسنة قربتان: أحدہما: وہي التحیة تحصل بلا قصدٍ فلا یمنع حصولہا قصد غیرہا وکذا لو نوی الفجر والتحیة کما في فتح القدیر قیل ولو تعرض المصنف لنفل مختلف السبب لکان أولی کمن أخر التراویح إلی آخر اللیل ونوی التراویح، وقیام آخر اللیل؛ لأن سبب التراویح غیر سبب قیام اللیل*
الأشباہ: ۱ /۱۴۷

*ھٰذا ماعندی واللہ تعالیٰ أعلم وعلمہ جل مجدہ أتم وأحکم*


*🔮______________🔮_____________🔮*

*حررہ العبد = محمد اصغرچمپارنی القاسمی*
*١٦/ شوال المکرم ١٤٤١ھ بروز منگل*
ہیلوایپ کے ذریعہ پیسہ کمانے کا حکم


🔮 مسئلہ نمبر : 292 🔮


کیا فرماتے ہیں المعھدالعالی للافتاء کے علماء کرام و مفتیان عظام شرح متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ:-

سوال:-

السلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہ

آجکل ہیلو ایپ چلانے سے جو پیسہ ملتا ہے اس سے موبائل کا ریچارج کرنا یا کسی بھی دوسری ضرورت میں اس پیسے کا استعمال کرنا کیسا ہے؟

المستفتی= محمد فرحان رگھوناتھ پورہ مئو یوپی
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

موجودہ ہیلوایپ فقط چلانے سے رقم تو ملے گی نہیں جب تک کہ آپ کوئی ویڈیو یا آئیڈیو کی تشہیر نہ کریں یا تو خود ویڈیوبناکر اپلوڈ کریں یا دوسرے کی ویڈیو تشہیر کریں۔ ہیلو ایپ کے ذریعہ اکاؤنٹ بناکر غیرشرعی امور کی تشہیر کے ذریعہ ملنے والی رقم جائز نہیں؛ البتہ فقط اپنی آواز یعنی آئیڈیو ریکارڈنگ کے ذریعہ دینی اور فلاحی امور کی تشہیر کریں جس میں کسی بھی قسم کی لایعنی امور مثلا جاندار کی تصویر کشی نہ کی گئی ہو یا فحش ویڈیو کی تشہیر نہ کی جائے تب ملنے والی رقم درست ہوگی ورنہ نہیں۔ لیکن فی زماننا ہیلو ایپ پر فحش ویڈیوز و تصاویر ہی اپلوڈ کرنے کارواج ہے لیکن اگر کوئی ان ناجائز امور سے اجتناب کرتے ہوئے فقط اپنی آواز(ریکارڈنگ) کے ذریعہ دینی و فلاحی امور انجام دیتا ہے اور اس پر کچھ رقم دستیاب ہوتی ہے تب ایسی صورت میں وہ رقم کسی بھی مصرف میں استعمال کرسکتا ہے جائز ہے؛ بصورتِ دیگر جائز نہیں۔


مستفاد: کتاب النوازل جلد١٣/کتاب الفتاویٰ ۶/ ۱۶۸-۱۷۰
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
عن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہ قال: سمعت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: إن أشد الناس عذابًا عند اللّٰہ یوم القیامۃ المصورون۔
صحیح البخاري،کتاب اللباس/باب عذاب المصورین یوم القیامۃ رقم: ۵۹۵۰ دار الفکر بیروت

وظاهر كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع علي تحريم تصوير الحيوان؛ و قال: وسواء لما يمتهن أو لغيره فصنعه حرام لكل حال؛ لأن فيه مضاهاة لخلق الله
شامی ١/ ٦٤٧، ط: سعيد

والحق أنه لاينبغي تكلف أي فرق بين أنواع التصوير المختلفة ... نظراً لإطلاق الحديث
فقہ السیرہ ٤/ ٩٧

قال ابن مسعود: صوت اللهو و الغناء ينبت النفاق في القلب كما ينبت الماء النبات. قلت: و في البزازية: إستماع صوت الملاهي كضرب قصب و نحوه حرام ؛لقوله عليه الصلاة و السلام: استماع الملاهي معصية، و الجلوس عليها فسق، و التلذذ بها كفر؛ أي بالنعمة
الدرالمختار ٦/ ٣٤٨ - ٣٤٩


ھٰذا ماعندی واللہ تعالیٰ أعلم وعلمہ جل مجدہ أتم وأحکم


🔮______________🔮_____________🔮

حررہ العبد = محمد اصغرچمپارنی القاسمی
١٧/ شوال المکرم ١٤٤١ھ بروز بدھ
ناول لکھناکیساہے؟

سوال # 61401

آپ سے دعا خیر کی درخواست کرتا ہوں اور آپ سے اس مسئلہ پہ شرعی نصیحت چاہتا ہوں کہ کیا اسلام میں ناول نگاری حرام ہے ؟ اگرچہ میں اپنی تصنیف میں عموماً مذہبی اور دینی مضمون بیان نہیں کرتا مگر میں کسی غیر شرعی عمل (مثلاً زنا، عریانیت، شراب نوشی وغیرہ) کی حمایت نہیں کرتا. اس کے علاوہ میں کسی بھی طرح فحش تذکرات (جیسے جنسی تعلقات، گالی غلوچ)سے گریز کرتا ہوں. اسکے باوجود عموماً لوگوں کے منہ سے میں نے اسکو حرام ہی سنا ہے . کیا ہر طرح کی ناول حرام ہے ؟ کیا ناول نگاری کو ذریعہ روزی نہیں بنایا جا سکتا
مہربانی کر کے اس مسئلہ پہ روشنی ڈالیں.

Published on: Oct 11, 2015

جواب # 61401

بسم الله الرحمن الرحيم

Fatwa ID: 1065-1054/N=12/1436-U

ناولوں میں عام طور پر عشقیہ وفحش مضامین وکہانیاں، اسلام اور اسلامیات (جیسے ڈاڑھی وغیرہ)پر مذاق واستہزا کی چیزیں،جرائم پیشہ افراد کی کہانیاں اور واقعات وغیرہ ہوتے ہیں، جن سے پڑھنے والوں کا ذہن اور اخلاق دونوں خراب ہوتے ہیں ، اسلام اور اسلامیات کی اہمیت ان کے ذہنوں میں کم ہوجاتی ہے ،لوگ ان ناولوں میں لگ کر اصل ذمہ داریوں سے اور نماز ،روزہ وغیرہ سے غافل ہوکر اپنے قیمتی اوقات ضائع کرتے ہیں، بعض لوگ ان میں لگ کر پوری پوری رات ضائع کردیتے ہیں اور ایسے لٹریچرس سے معاشرہ میں صلاح وبہتری کے بجائے فساد و بگاڑ میں اضافہ ہوتا ہے؛اس لیے ناول نگاری اور ناول خوانی دونوں ناجائز وممنوع ہیں اور یہ دونوں لہو ناجائز میں داخل ہیں، جس سے قرآن پاک میں منع کیا گیا ہے۔
قال اللہ تعالی:إن الذین یحبون أن تشیع الفاحشة فی الذین آمنوا لھم عذاب ألیم فی الدنیا والآخرة،واللہ یعلم وأنتم لا تعلمون (سورہ نور، آیت:۱۹)،
وقال أیضاً في مقام آخر:ومن الناس من یشتري لھو الحدیث لیضل عن سبیل اللہ بغیر علم الآیة(سورہ لقمان، آیت:۶)،
وقال التھانوي في أحکام القرآن (۳: ۲۰۰، ۲۰۱):وفذلکة الکلام أن اللھو علی أنواع؛ لھو مجرد، ولھو فیہ نفع وفائدة ولکن ورد الشرع بالنھي عنہ، ولھو فیہ فائدة ولم یرد فی الشرع نھي صریح عنہ ولکنہ ثبت بالتجربة أنہ یکون ضررہ أعظم من نفعہ ملتحق بالمنھي عنہ، ولھو فیہ فائدة ولم یرد الشرع بتحریمہ ولم یغلب علی نفعہ ضررہ ولکن یشتغل فیہ بقصد التلھي،ولھو فیہ فائدة مقصودة ولم یرد الشرع بتحریمہ ولیس فیہ مفسدة دینیة واشتغل بہ علی غرض صحیح لتحصیل الفائدة المطوبة لا بقصد التلھي، فھذہ خمسة أنواع، لا جائز فیھا إلا الأخیر الخامس فھو أیضاً لیس من إباحة اللھو في شییٴ؛بل إباحة ما کان لھواً صورة ثم خرج عن اللھویة بقصد صالح وغرض صحیح فلم یبق لھوا اھ
معارف القرآن(۷:۲۰، ۲۱ مطبوعہ: ربانی بک ڈپو، دہلی) میں ہے:جمہور صحابہ وتابعین اور عامہ مفسرین کے نزدیک لہو الحدیث عام ہے تمام ان چیزوں کے لیے جو انسان کو اللہ کی عبادت اور یاد سے غفلت میں ڈالے، اس میں غناء، مزامیر بھی داخل ہے اور بیہودہ قصے کہانیاں بھی، امام بخاری نے اپنی کتاب الادب المفرد میں اور بیہقی نے اپنی سنن میں لہو الحدیث کی یہی تفسیر اختیار کی ہے ، اس میں فرمایا ہے کہ لہو الحدیث ھو الغناء وأشباھہ ،یعنی: لہو الحدیث سے مراد گانا اور اس کے مشابہ دوسری چیزیں ہیں (یعنی :جو چیزیں اللہ کی عبادت سے غافل کردیں )، اور سنن بیہقی میں ہے: اشتراء لہو الحدیث سے مراد گانے بجانے والے مرد یا عورت کو خریدنا یا اس کے امثال ایسی بیہودہ چیزوں کو خریدنا ہے جو اللہ کی یاد سے غافل کریں، ابن جریر نے بھی اسی عام معنی کو اختیار فرمایا ہے (روح ملخصاً)،اور ترمذی کی ایک روایت سے بھی یہی عموم ثابت ہوتا ہے ،جس میں آں حضرت کا یہ ارشاد ہے کہ گانے والی لونڈیوں کی تجارت نہ کرو اور پھر فرمایا کہ وفي مثل ھذا أنزلت ھذہ الآیة ومن الناس یشتری الخ۔
اور آگے ص ۲۳ پر ہے:عنوان: فحش اور فضول ناول یا فحش اشعار اور اہل باطل کی کتابیں بھی دیکھنا ناجائز ہے :اس زمانے میں بیشتر نوجوان فحش ناول یا جرائم پیشہ افراد کے حالات پر مشتمل قصے یا فحش اشعار دیکھنے کے عادی ہیں ،یہ سب چیزیں اسی قسم لہو حرام میں داخل ہیں الخ۔
آپ کے مسائل اور ان کا حل ( جدید تخریج شدہ ۸:۵۰۲مطبوعہ: کتب خانہ نعیمیہ دیوبند) میں ہے:
سوال:کیا افسانہ وغیرہ لکھنا گناہ ہے؟
جواب:۔ جی ہاں! گناہ ہے اور بے فائدہ بھی۔
اس لیے اللہ تعالی نے اگر آپ کو قلمی صلاحیتوں سے نوازا ہے تو آپ دینیات کا مطالعہ کرکے اور علمائے کرام کے رابطہ میں رہ کر اصلاحی مضامین لکھنے میں اپنی صلاحیتیں صرف کریں ، اس میں آپ کو دینی ودنیوی دونوں قسم کے فوائد حاصل ہوں گیإن شاء اللّٰہ تعالی۔اور اگر آپ سوال میں مذکور طریقہ پر ناول نگاری ہی کرنا چاہتے ہیں تو چوں کہ سوال سے آپ کے ناول کی پوری نوعیت واضح نہیں ہوتی ہے؛کیوں کہ اس میں منفی امور کا تو ذکر ہے ، مثبت امور کا ذکر نہیں ہے کہ آپ اپنی ناولوں میں کس طرح کی چیزیں لکھیں گے ،اور ممکن ہے کہ وہ چیزیں آپ کے ذہن میں تو صحیح ہوں،لیکن شرعی اعتبار سے صح
یح نہ ہوں؛ اس لیے آپ کی ناولوں کی صحیح نوعیت واضح ہونے سے پہلے کچھ کہنا مشکل ہے۔

واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

#محمداصغرچمپارنی_القاسمی
ساس بہو کے اختلاف میں شوہر کے لیے لائحہ عمل نیز بیوی کے لیے جدا رہائش کے مطالبے کا حکم

سوال

لوگ بیوی اور والدین کے حقوق کی بات تو بہت کرتے ہیں ،مرد بے چارہ کا کیا قصور ہے، اگر ساتھ رہے تو ساس بہو کے جھگڑے، بیوی اپنا حق جتاتی ہے کہ مجھے الگ رہنا ہے، الگ رہے تو دونوں گھروں کے کام کرتے کرتے مرد ختم ہوجائے، سوال یہ ہے کن حالات میں شوہر لازماً اپنے والدین کے ساتھ رہے اور کن حالات میں لازماً الگ ہوجائے؟ کیا بیوی شوہر سے الگ گھر کا مطالبہ کرسکتی ہے؟

اگربیوی کے مطالبہ پر اسے الگ گھر دینا شوہر کی ذمہ داری ہے ، تومیرا آپ سے سوال یہ ہے کہ :

1: اسلام میں مردکوحاکم بنایاگیاہے،اوررخصتی لڑکی کی ہوتی ہے نہ کہ لڑکے کی،پھریہ کیسے ہوسکتاہے کہ لڑکاشادی کے بعد اپنی بیوی کے کہنے پررخصت ہوجائے؟ نیزاگرلڑکاماں باپ سے محبت کرتاہواوران سے الگ رہنابالکل نہ چاہتاہوتوکیااسلام ہمیں یہ حکم دیتاہے کہ ہم اپنے ماں باپ کوبیوی کے مطالبے پراپنی نظروں سے دورکردیں؟

2:دوسری بات یہ ہے کہ آج کل توگھربہت مہنگے ہیں،اوربہت کم لوگ ہیں جوالگ گھرلے سکتے ہیں،جب کہ اسلام توجلدی شادی کاحکم دیتاہے، اورگھربنانے میں توپوری زندگی لگ جاتی ہے،پھرکیالڑکاچالیس سال کی عمرمیں شادی کرے گا؟

بہشتی زیورمیں یہ مسئلہ لکھاہے کہ: اگرشوہربیوی کے لیے ایک کمرہ علیحدہ کردے جس کادروازہ ہواورعورت اس کواندرسے بندکرسکتی ہو ،توالگ گھرکامطالبہ پوراہوگیااب بیوی مزیدمطالبہ نہیں کرسکتی،اوریہ نہیں کہہ سکتی کہ پوراگھرمیرے لیے الگ کرو۔

 

جواب

واضح رہے کہ میاں بیوی اور ان کے متعلقین کے رشتے قاعدوں اور ضابطوں کے بجائے رابطوں سے نبھائے جائیں تو یہ رشتے کامیاب رہتے ہیں ،اسلام نے ہرمسلمان کو تمام تعلق داروں سے حسن معاشرت کا حکم دیاہے، جیسے بیوی پرشوہر کے حقوق اور اس کے والدین کا احترام وتوقیر لازم ہے، اسی طرح شوہر کے ذمہ بھی بیوی کے حقوق لازم ہیں، اورشوہر کے والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ آنے والی بہو کو اپنی حقیقی بیٹی سمجھتے ہوئے اس سے وہی سلوک وبرتاؤ رکھیں جو حقیقی بیٹی سے رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں جانبین کو  حقوق کے مطالبے کے بجائے اخلاق کریمانہ کا مظاہرہ کرناچاہیے، بیوی کو چاہیے کہ  اپنی ساس کی ہر بات برداشت کرے،ان کی ہر نصیحت کا  خندہ پیشانی سے استقبال کرے اورشوہر کے والدین کی خدمت کرے ،  یہ میاں بیوی دونوں کی سعادت اور اخروی نیک بختی ہے، یہ ہمت اور حوصلہ اور شوہر کے بزرگ والدین کے ساتھ رہ کر ان کی خدمت بیوی کو لائق رشک بنادیتا ہے، نیز اس کی برکتوں کا مشاہدہ پھر میاں بیوی خود بھی کرتے ہیں۔اس لیے میاں بیوی حتی الامکان اسی کی کوشش کریں کہ والدین کے ساتھ رہ کر ان کی خدمت کریں، اگر ان سے کوئی سخت یا ناروا بات بھی ہوجائے تو  اس پر صبر کریں اوراللہ سے اجر کی امید رکھیں۔

تاہم  اگربیوی میں اتنا حوصلہ نہیں کہ وہ اپنی رائے کوساس کے سامنے مٹادے توشرعاً  اس پر یہ لازم نہیں ہے کہ وہ شوہر کے والدین کے ساتھ ہی رہے، بلکہ شریعت نے عورت کو الگ رہائش کا حق دیاہے،  ایسی صورت میں شوہر کے والدین اور اس کی بیوی دونوں کے حق میں روز انہ کی  اذیت سے بہتر یہ ہے کہ  الگ رہائش اختیار کرلیں، لیکن علیحدہ رہائش اختیار کرنے میں شوہر کے والدین سے قطع تعلق کی نیت نہ ہو، بلکہ نیت یہ ہو کہ ساتھ رہ کہ والدین کو جو اذیت ہم سے پہنچتی ہے اور جو بے ادبی ہوتی ہے اس سے بچ جائیں، غرض خود کو قصوروارسمجھ کر الگ ہونا چاہیے والدین کو قصوروار ٹھہرا کر نہیں۔ اور الگ ہونے کے بعد بھی شوہر کے والدین کی ہر خدمت کو اپنی سعادت سمجھا جائے۔

بیوی کے لیے الگ رہائش کا بندوبست ایک علیحدہ معاملہ ہے اور والدین کے ساتھ محبت کا اظہار اور ان کے ساتھ تعلق  اور میل جول رکھنا ایک علیحدہ معاملہ ہے،  اولاد کے دل میں والدین کی محبت ہونی ہی چاہیے اور والدین کے حقوق کی ادائیگی اولاد پر فرض بھی ہے۔ شوہر بیک وقت دونوں امور کو بحسن وخوبی انجام دے سکتا ہے۔ بیوی کو علیحدہ رہائش دینے سے یہ نتیجہ کہاں نکلتا ہے کہ والدین کی محبت میں یا ان کے ساتھ میل جول میں کسی طرح بھی کمی کرے!!  نہ ہی بیوی کی الگ رہائش کا یہ مطلب ہے کہ والدین کو چھوڑ کر ہر وقت بیوی کے پاس موجود رہے، جیسے اپنے کاروبار اور ضروریات کے لیے انسان دن بھر گھر سے باہر رہتاہے، اسی طرح والدین کی خدمت ، ان سے میل جول، ان کے حقوق کی ادائیگی کی ترتیب بھی بنائی جاسکتی ہے، یہ کوئی ایسا کام نہیں کہ جو ناممکن  یا بہت مشکل ہو،  اللہ تعالی نے انسان کو اسی نظام سے منسلک پیدا کیا ہے ، اور اسی دنیا میں انہیں تعلقات کو نبھاتے ہوئے اس نے کامیاب زندگی گزارنی ہے، بیوی کا مطالبہ بھی اپنی بساط کے مطابق پورا کرے اور والدین کے ساتھ میل جول بھی بیک وقت برقرار رکھے، دونوں باتیں، گو کہ ہمت اور شخصی استقلال چاہتی ہیں، لیکن  یہ مشکل یا ناممکن نہیں ہیں۔

مذکورہ تفصیل اور اسلامی احکام وحقوق کاحسن، توازن اور اعتدال سامنے رکھتے ہوئے بادی النظر میں ہ
ی یہ بات غلط ہے کہ:مرد کو اللہ نے حاکم بنایاہے اور رخصتی تولڑکی کی ہوتی ہے نہ کہ مرد کی، پھر بیوی کے مطالبے پر مرد رخصت ہوکر والدین سے جدا ہوجائے۔ 

جہاں تک علیحدہ رہائش فراہم کرنے کی ذمہ داری ہے توشریعت نے اس  معاملہ میں شوہر کی استطاعت اورحیثیت کوملحوظ رکھاہے ، اگرشوہراتنی استطاعت نہیں رکھتا کہ مکمل طورپر جدا گھر  دے یا شوہر استطاعت رکھتاہے لیکن بیوی متوسط یا عام خاندان سے تعلق رکھتی ہے توگھرمیں سے ایک ایسا جدا مستقل کمرہ جس  کا بیت الخلا، باورچی خانہ وغیرہ الگ ہو اورعورت کی ضروریات کوکافی ہوجائے ،جس میں وہ اپنامال واسباب تالالگاکررکھ سکے، کسی اورکی اس میں دخل اندازی نہ ہو،  ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے کافی ہے۔

اوراگرشوہرزیادہ  مال دار ہے اور اس کی استطاعت ہے کہ وہ مستقل طورپر علیحدہ گھر کا انتظام کرے  اور بیوی بھی شریف اور اعلی خاندان سے تعلق رکھتی ہے تو بیوی کو الگ گھر کے مطالبے کا حق ہوگا، لیکن شوہر کی حیثیت کو مدنظر رکھ کر درمیانے درجے کے گھر کا انتظام لازم ہوگا۔

جدا رہائش (خواہ  علیحدہ  کمرے کی صورت میں ہو یا جدا مکان)  مالکانہ حقوق کے ساتھ دینا بھی شوہر کے ذمہ لازم نہیں ہے، بلکہ اگرشوہر نے کرائے یاعاریت کے مکان میں بھی یہ سہولیات بہم پہنچادیں تو  عورت مزید مطالبہ نہیں کرسکتی،نیزشوہرجہاں بھی مناسب انتظام کردے عورت کے حق کی ادائیگی ہوجائے گی کسی خاص علاقے یا خاص معیار کے گھر کے مطالبے کا بیوی کو حق نہیں ہوگا۔

اس تفصیل سے معلوم ہوگیا کہ اسلام نے شادی کے سلسلہ میں وسعت سے زیادہ ذمہ داری مردپرنہیں ڈالی اورنہ ہی نکاح کومشکل بنایاہے۔

لہٰذا یہ کہنا درست نہیں کہ شوہر ساری زندگی کماتارہے گا تو شادی کب کرے گا؟ جب کہ اسلام میں مردکوجلدشادی کرنے کاحکم دیاگیاہے؟  اس لیے کہ اسلام میں جلد شادی کا حکم اسی صورت میں دیا گیا ہے جب وہ بیوی کے نان نفقے اور حقوق کی ذمہ داریاں ادا کرنے کی استطاعت رکھتاہو۔اورنفقہ ہی کاایک جزبیوی کورہائش دینابھی ہے۔شریعت کاحکم یہ ہے کہ اگربیوی ،شوہرکے والدین کے ساتھ  رہنے پرراضی ہوتوٹھیک ہے، اوراگروہ الگ رہناچاہے توشوہراسے ساتھ رہنے پرمجبورنہیں کرسکتا۔تمام فقہاء کرام اس بات پرمتفق ہیں کہ جدارہائش بیوی کاحق ہے جسے ختم نہیں کیاجاسکتا۔

بہشتی زیور کی جس عبارت کا آپ نے حوالہ دیا ہے، وہ مسئلہ عمومی احوال کے اعتبار سے لکھا گیا ہے جوبالکل درست ہے، اس کی مکمل عبارت درج ذیل ہے:

' گھر میں سے ایک جگہ عورت کو الگ کردے کہ وہ اپنا مال اسباب حفاظت سے رکھے اور خود اس میں رہے سہے اور اس کی قفل کنجی اپنے پاس رکھے، کسی اور کو اس میں دخل نہ ہو، فقط عورت ہی کے قبضے میں رہے توبس حق ادا ہوگیا، عورت کو اس سے زیادہ کادعوی نہیں ہوسکتا، اور یہ نہیں کہہ سکتی کہ پورا گھر میرے لیے الگ کردو۔ (بہشتی زیور، رہنے کے لیے گھرملنے کا بیان، ص:333)

بہشتی زیور کی اس عبارت سے یہی معلوم ہورہاہے کہ عورت کو ایسی الگ مستقل رہائش کے مطالبے کا حق ہے جہاں وہ اپنا  مال واسباب رکھ سکے اس  رہائش میں کسی اور کا عمل دخل نہ ہو۔ عموماً شوہر اتنا مال دار نہیں ہوتا کہ علیحدہ گھر کا انتظام کرے،  اس لیے عمومی احوال کے اعتبار سے عورت کا یہی حق ہے، اس سے زیادہ نہیں۔ نیزحضرت تھانوی رحمہ اللہ نے "بہشتی زیور "بنیادی طورپر خواتین کے لیے لکھی ہے، اور اس میں خصوصیت کے ساتھ شوہر کی اطاعت، خانگی مسائل اور سسرال وغیرہ کے حقوق کی تاکید فرمائی ہے، موضوع اور موقع کا تقاضا بھی یہی ہے عمومی احوال میں خواتین کا جتنا حق ہے وہ  بتادیاجائے اور انہیں زیادہ مطالبے اور شوہر کو پریشان کرنے سے رکنے کی نصیحت کی جائے۔

البتہ اگر شوہر کی مالی حیثیت بھی بہت اچھی ہو اور بیوی بھی شریف اوراعلیٰ خاندان کی ہو توشریعت نے ان خصوصی احوال کا بھی لحاظ کیا ہے، فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ: ان احوال میں بیوی مطالبہ کرے تو شوہر کے ذمہ اپنی حیثیت کے مطابق درمیانے درجے کے الگ گھر کا انتظام لازم ہوگا، بیوی کو بہت اعلیٰ معیار کے مکان کے مطالبے کا حق نہیں ہوگا۔جیساکہ "فتاویٰ شامی"(جلد:3،صفحہ:600،601،مطبوعہ :ایچ ایم سعید )میں اس کی وضاحت موجود ہے۔

 حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے اپنے مستند فتاوی "امدادالفتاوی" میں اس طرح کے مسائل کے حوالے سے جوکچھ لکھا ہے، اس میں سے چند حوالے سائل کے مزید اطمینان کے لیے درج کیے جاتےہیں:

"سوال: (628) جناب نے ایک روز وعظ میں حقوق زوجین کے متعلق فرمایاتھاکہ زوجہ کا ایک یہ بھی حق ہے کہ اگر وہ خاوند کے والدین سے علیحدہ رہنا چاہے تواس کا منشا پورا کردینا واجب ہے اس کے ساتھ گزارش ہے کہ کلام مجید میں خدواندکریم کا یہ حکم ہے کہ سوائے شرک کے اورتمام امور میں والدین کا حکم مانو تویہ فرض ہوا، اب قابل دریافت یہ امرہے کہ والدین کی اگرمرضی نہیں ہے کہ بیوی کو ان سے علیحدہ رکھاجاوے اور زوجہ کی یہ مرضی ہے کہ ان سے علیحدہ رہے خواہ ایک ہی مکان میں ہو یاعلیحدہ مکان میں توکس طرح کرناچاہ
یے؟ اور اس کی بابت کیاحکم ہے؟ آیا پہلے فرض ادا کیاجائے یاواجب؟ براہ نوازش اس کی بابت مفصل تحریرفرماویں تاکہ آسانی سے سمجھ میں آجاوے۔

الجواب: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

والدین کی اطاعت ترک واجب میں نہیں اور عورت کے یہ حقوق واجب ہیں، پس اگروالدین ان کے ترک کوکہیں توان کی اطاعت نہیں۔" (امدادالفتاوی، 2/526)

اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں حضرت تھانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

'چوں کہ شرعاً عورت کوحق حاصل ہے کہ شوہرکے ماں باپ سے علیحدہ رہے،اوراگروہ اپنے حق جائزکامطالبہ کرے گی توشوہرپراس کے حق کاادا واجب ہوگا۔اورواجب کاترک معصیت ہے،اورمعصیت میں کسی کی اطاعت نہیں،لہذا اس انتظام کونہ بدلیں'۔(امدادالفتاویٰ،2/525)

مفتی محمودحسن گنگوہی رحمہ اللہ اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:

’’مردکے ذمہ واجب ہے کہ عورت کوایک مکان علیحدہ رہنے کے لیے دےکہ اس مکان میں شوہرکے ماں باپ بہن بھائی وغیرہ نہ رہتے ہوں،بلکہ وہ پورابیوی کے قبضہ وتصرف میں ہو،اورمکان سے مرادایک کمرہ یاکوٹھاہے جس کوعربی میں’’بیت‘‘کہتے ہیں ،لہذااگرصحن وغیر ہ مشترک ہوجس کوشوہرکے دوسرے عزیزبھی استعمال کرتے ہوں اوربیوی بھی تواس کومطالبے کاحق نہیں کہ میراصحن بھی مستقل ہوناچاہیے،اس میں بھی کسی کی شرکت نہ ہو۔یہ اس وقت ہے جب کہ شوہراوربیوی دونوں زیادہ مالدارنہ ہوں،بلکہ متوسط درجے کے ہوں،اگرمالدارہوں اورشوہرمیں اس قدراستطاعت ہوکہ کوئی مستقل گھرعلیحدہ بیوی کودے سکتاہے ،خواہ خریدکر،خواہ کرایہ پر،خواہ عاریت پرجس کاصحن وغیرہ بھی علیحدہ ہو جس کوعربی میں ’’دار‘‘کہتے ہیں،توعورت کواس مطالبے کاحق حاصل ہے۔"

(فتاویٰ محمودیہ،13/،448،447،ط:جامعہ فاروقیہ کراچی)

اسی نوعیت کے ایک مسئلہ سے متعلق حکیم العصرحضرت مولانامحمدیوسف لدھیانوی رحمہ اللہ کی تحریرنقل کی جاتی ہے:

'بیوی کوعلیحدہ جگہ میں رکھنا(خواہ اسی مکان کاایک حصہ ہو،جس میں اس کے سوادوسرے کاعمل دخل نہ ہو)شوہرکے ذمے شرعاً واجب ہے،بیوی اگرخوشی سے شوہرکے والدین کے ساتھ رہناچاہے اوران کی خدمت کواپنی سعادت سمجھے توٹھیک ہے،لیکن اگروہ علیحدہ رہائش کی خواہش مند ہوتواسے والدین کے ساتھ رہنے پرمجبورنہ کیاجائے،بلکہ اس کی جائزخواہش کاجواس کا شرعی حق ہے ،احترام کیاجائے.....والدین کی خوشی کے لیے بیوی کی حق تلفی کرناجائزنہیں۔قیامت کے دن آدمی سے اس کے ذمے کے حقوق کامطالبہ ہوگااورجس نے ذرابھی کسی پرزیادتی کی ہوگی یا حق تلفی کی ہوگی مظلوم کواس سے بدلہ دلایاجائے گا۔بہت سے وہ لوگ جویہاں اپنے کوحق پرسمجھتے ہیں ،وہاں جاکران پرکھلے گاکہ وہ حق پرنہیں تھے،اپنی خواہش اورچاہت پرچلنادین داری نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکموں پرچلنادین داری ہے'۔

(آپ کے مسائل اوران کاحل،والدین اوراولادکے تعلقات،والدین کی خوشی پربیوی کی حق تلفی ناجائزہے،جلد:8،صفحہ:572،ط:مکتبہ لدھیانوی کراچی)

ان شاء اللہ تعالیٰ اس قدر تفصیل تشفی کے لیے کافی ہوگی۔ فقط واللہ اعلم

فتوی نمبر : 143509200063

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن


#محمداصغرچمپارنی_القاسمی