الکلام_البلیغ_فی_احکام_التبلیغ_060317064824.pdf
48.2 MB
📓کتاب: الکلام البلیغ فی احکام التبلیغ۔ PDF
🖊مؤلف: مولانا محمد فاروق صاحب اترانوی رحمہ اللہ تعالی
دینی جماعتوں کو افراط و تفریط سے اور معنوی و اصطلاحی تحریفات سے پاک رکھنے کے لئے ایک جامع کتاب۔
🖊مؤلف: مولانا محمد فاروق صاحب اترانوی رحمہ اللہ تعالی
دینی جماعتوں کو افراط و تفریط سے اور معنوی و اصطلاحی تحریفات سے پاک رکھنے کے لئے ایک جامع کتاب۔
📚 علم بڑی نازک چیز ہے
یہ علم بڑی نازک چیز ہے، افسوس ہے اس پر جس کی زبان تو عالم ہو لیکن دل جاہل ہو، لقمان حکیم فرماتے تھے، " میں نے لوہے اور پتھر کو اٹھایا لیکن دین سے زیادہ وزنی چیز کو نہیں دیکھا، میں شب زفاف کی لذت کو پایا مگر اللہ کے ذکر سے بہتر کسی چیز کو نہیں پایا "۔ آج ہمارے لباس، صوف سے بھی زیادہ نرم ہوتے ہیں، ہماری زبانیں شہد سے بھی زیادہ میٹھی ہوتی ہیں، مگر ہمارے دل بھیڑئے کے دل سے بھی زیادہ سخت ہوتے ہیں۔
( خطبات فقیر جلد اول )
یہ علم بڑی نازک چیز ہے، افسوس ہے اس پر جس کی زبان تو عالم ہو لیکن دل جاہل ہو، لقمان حکیم فرماتے تھے، " میں نے لوہے اور پتھر کو اٹھایا لیکن دین سے زیادہ وزنی چیز کو نہیں دیکھا، میں شب زفاف کی لذت کو پایا مگر اللہ کے ذکر سے بہتر کسی چیز کو نہیں پایا "۔ آج ہمارے لباس، صوف سے بھی زیادہ نرم ہوتے ہیں، ہماری زبانیں شہد سے بھی زیادہ میٹھی ہوتی ہیں، مگر ہمارے دل بھیڑئے کے دل سے بھی زیادہ سخت ہوتے ہیں۔
( خطبات فقیر جلد اول )
📿 زمین اور آسمان نے آج تک اس سے بڑا صادق دل نہیں دیکھا۔۔۔۔
ابھی عصر ہونے کو کچھ ہی دیر باقی تھی۔ عرب تاجروں کا ایک قافلہ ملک شام کی طرف رواں دواں تھا۔ یہ تاجر دل ہی دل میں ڈرے ہوئے تھے کیونکہ ملک شام کو جاتے ہوئے اکثر قافلے لٹ جاتے تھے۔ راستے میں ودان نامی بستی آباد تھی۔ اس بستی کو آباد کرنے والے قبیلۂ غفار کے باشندے تھے۔ قبیلہ غفار کے باشندے تجارتی قافلوں کی ڈاکوؤں سے حفاظت کرتے تھے اور قافلے اس کے بدلے انہیں معاوضہ ادا کرتے تھے۔ لیکن اگر کوئی قافلہ ان کی "خدمات" نہ لیتا تو یہ زبردستی اس سے کچھ نہ کچھ چھین لیتے۔
جندب بن جنادہ کا تعلق بھی اسی قبیلہ سے تھا۔ انہیں جرات، بہادری اور دوراندیشی میں ایک خاص مقام حاصل تھا۔ جندب ان لوگوں میں شامل تھے جنہیں اس بات کا احساس تھا کہ ان کا اصلی مذہب وہ تھا جو حضرت ابراہیم نے سمجھایا تھا اور وہ اس بات سے بھی واقف تھے کہ حضرت ابراہیم نے بتوں کے بجائے ایک اللہ کی عبادت کی تعلیم دی تھی۔ چنانچہ ان عرب تاجروں کے قیام کے دوران جندب بن جنادہ کو معلوم ہوا کہ مکہ معظمہ میں ایک ایسے شخص کا چرچا ہے جو اپنے آپ کو نبی کہتے ہیں۔ جندب کو پہلے بھی کچھ خبریں اس طرح کی ملی تھیں۔ اب قافلے والوں سے اس کی تصدیق ہوئی تو انہوں نے اپنے بھائی انیس سے کہا:
"تم ابھی مکہ معظمہ کی طرف کوچ کرو اور وہاں جا کر ان تمام حالات کا جائزہ لینا جو اس وقت وہاں رونما ہو چکے ہیں۔ خاص طور پر یہ پتا کرنا کہ اس نبی کی دعوت کیا ہے۔"
اس حکم کی تعمیل میں انیس فوراً مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ وہاں پہنچ کر وہ سب سے پہلے اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ کی باتیں سنیں اور لوگوں کا ردعمل بھی دیکھا۔ وہاں سے واپسی پر اپنے بھائی جندب سے کہنے لگے:
"خدا کی قسم میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، وہ تو لوگوں کو اچھے اخلاق کی دعوت دیتے ہیں۔ ان کی گفتگو ایسی تاثیر رکھتی ہے کہ سننے والا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔"
جندب دلچسپی سے بولے: "نئے نبی کے متعلق لوگوں کی کیا رائے ہے؟"
"وہاں کے لوگ ان کے حق میں نہیں ہیں۔ انہیں جادوگر، نجومی اور شاعر کہتے ہیں مگر ان کا کلام ایسا ہے جو پہلے کبھی کسی شاعر نے سنانہ لکھا۔"
جندب بے چین ہو کر بولے: "پیارے بھائی! تمہارے بیان کردہ حالات سے دل کو تسلی نہیں ہوئی۔ الٹا بے چینی بڑھ گئی ہے۔ میں خود ٹھیک صورت حال معلوم کرنے کے لیے مکہ کی طرف روانہ ہوتا ہوں۔"
"ہاں! آپ ضرور جائیے، مگر مکہ والوں سے محتاط رہیے کیونکہ ہر اس شخص کے جانی دشمن بن جاتے ہیں جو نئے نبی میں دلچسپی لیتا ہے۔" بھائی نے انہیں خبردار کرتے ہوئے کہا۔
جندب بن جنادہ نے پانی کا مشکیزہ اور سامان سفر ساتھ لیا اور دوسرے ہی دن مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہو گئے۔
٭٭٭
مکہ کے بازار میں جندب بن جنادہ اپنے سفر کی تکان کے باعث آہستہ آہستہ چلے جا رہے تھے مگر دل ہی دل میں قریش مکہ سے خوفزدہ تھے۔ وہ پریشان بھی تھے کہ نئے نبی کے حالات کیسے معلوم ہوں گے کیونکہ یہاں کسی سے ان کی کوئی جان پہچان نہیں تھی۔
مکہ کے بازاروں میں گھومتے ہوئے رات کے وقت جندب بن جنادہ کی ملاقات ایک لڑکے سے ہوئی۔ یہ نوجوان کوئی اور نہیں علی ابن طالب تھے۔
وہ جنادہ کا چہرہ دیکھ کر بھانپ چکے تھے کہ یہ اجنبی ہیں اور کسی کی تلاش میں ہیں۔ انہوں نے ہمت کی اور پوچھا:
"آپ مجھے مکہ میں اجنبی معلوم ہوتے ہیں اور شاید آپ کو ابھی اپنی منزل نہیں ملی؟"
جندب بولے: "جی نہیں، میں آج ہی مغرب سے ذرا پہلے پہنچا ہوں۔"
علی نے عرب کی روایتی مہمان نوازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا: "تو میرے گھر تشریف لائیں۔ رات میرے ہاں قیام کریں، صبح ہوتے ہی اپنی منزل کی طرف چلے جائیے گا۔"
جندب پہلے تو ہچکچائے پھر ان کی دعوت پر حضرت علی کے گھر چلے گئے۔ ان کی خوب خاطر تواضع کی گئی۔ حضرت علی نے مکہ معظمہ آنے کا سبب دریافت کرنا چاہا تو جندب نے بتانے سے گریز کیا۔ صبح ہوئے تواپنا سامان لے کر پھر مکہ کے بازاروں میں حالات کا جائزہ لینے نکلے مگر دوسرا دن بھی یونہی گزرا۔ رات کے وقت پھر حضرت علی انہیں گھر لے آئے۔ مہمان نوازی کے دوران حضرت علی نے پوچھا: "آپ نے مجھے اپنا مکہ میں آنے کا مقصد نہیں بتایا؟"
جندب نے اپنی تجربہ کار آنکھیں اپنے میزبان نوجوان پر مرکوز کیں اور بولے: "اگر آپ میرے ساتھ وعدہ کریں کہ مجھے صحیح بات بتائیں گے تو میں آپ کو اپنے دل کی بات کہے دیتا ہوں۔"
"میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کو صحیح بات بتاؤں گا۔" حضرت علی چمکتی آنکھوں سے بولے۔
"میں دور دراز کا سفر طے کرکے یہاں محض اس لیے آیا ہوں کہ اس شخص سے ملوں جنہوں نے نبوت کا دعوی کیا ہے اور اپنے کانوں سے وہ کلام سنوں جس کو وہ خدا کا خاص کلام کہتے ہیں۔"
حضرت علی نے جب ان کی یہ بات سنی تو ان کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا اور کہا: "اللہ کی قسم! آپ سچے رسول ہیں اور لوگوں کو ایک خدا کی عبادت کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔"
ابھی عصر ہونے کو کچھ ہی دیر باقی تھی۔ عرب تاجروں کا ایک قافلہ ملک شام کی طرف رواں دواں تھا۔ یہ تاجر دل ہی دل میں ڈرے ہوئے تھے کیونکہ ملک شام کو جاتے ہوئے اکثر قافلے لٹ جاتے تھے۔ راستے میں ودان نامی بستی آباد تھی۔ اس بستی کو آباد کرنے والے قبیلۂ غفار کے باشندے تھے۔ قبیلہ غفار کے باشندے تجارتی قافلوں کی ڈاکوؤں سے حفاظت کرتے تھے اور قافلے اس کے بدلے انہیں معاوضہ ادا کرتے تھے۔ لیکن اگر کوئی قافلہ ان کی "خدمات" نہ لیتا تو یہ زبردستی اس سے کچھ نہ کچھ چھین لیتے۔
جندب بن جنادہ کا تعلق بھی اسی قبیلہ سے تھا۔ انہیں جرات، بہادری اور دوراندیشی میں ایک خاص مقام حاصل تھا۔ جندب ان لوگوں میں شامل تھے جنہیں اس بات کا احساس تھا کہ ان کا اصلی مذہب وہ تھا جو حضرت ابراہیم نے سمجھایا تھا اور وہ اس بات سے بھی واقف تھے کہ حضرت ابراہیم نے بتوں کے بجائے ایک اللہ کی عبادت کی تعلیم دی تھی۔ چنانچہ ان عرب تاجروں کے قیام کے دوران جندب بن جنادہ کو معلوم ہوا کہ مکہ معظمہ میں ایک ایسے شخص کا چرچا ہے جو اپنے آپ کو نبی کہتے ہیں۔ جندب کو پہلے بھی کچھ خبریں اس طرح کی ملی تھیں۔ اب قافلے والوں سے اس کی تصدیق ہوئی تو انہوں نے اپنے بھائی انیس سے کہا:
"تم ابھی مکہ معظمہ کی طرف کوچ کرو اور وہاں جا کر ان تمام حالات کا جائزہ لینا جو اس وقت وہاں رونما ہو چکے ہیں۔ خاص طور پر یہ پتا کرنا کہ اس نبی کی دعوت کیا ہے۔"
اس حکم کی تعمیل میں انیس فوراً مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ وہاں پہنچ کر وہ سب سے پہلے اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ کی باتیں سنیں اور لوگوں کا ردعمل بھی دیکھا۔ وہاں سے واپسی پر اپنے بھائی جندب سے کہنے لگے:
"خدا کی قسم میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، وہ تو لوگوں کو اچھے اخلاق کی دعوت دیتے ہیں۔ ان کی گفتگو ایسی تاثیر رکھتی ہے کہ سننے والا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔"
جندب دلچسپی سے بولے: "نئے نبی کے متعلق لوگوں کی کیا رائے ہے؟"
"وہاں کے لوگ ان کے حق میں نہیں ہیں۔ انہیں جادوگر، نجومی اور شاعر کہتے ہیں مگر ان کا کلام ایسا ہے جو پہلے کبھی کسی شاعر نے سنانہ لکھا۔"
جندب بے چین ہو کر بولے: "پیارے بھائی! تمہارے بیان کردہ حالات سے دل کو تسلی نہیں ہوئی۔ الٹا بے چینی بڑھ گئی ہے۔ میں خود ٹھیک صورت حال معلوم کرنے کے لیے مکہ کی طرف روانہ ہوتا ہوں۔"
"ہاں! آپ ضرور جائیے، مگر مکہ والوں سے محتاط رہیے کیونکہ ہر اس شخص کے جانی دشمن بن جاتے ہیں جو نئے نبی میں دلچسپی لیتا ہے۔" بھائی نے انہیں خبردار کرتے ہوئے کہا۔
جندب بن جنادہ نے پانی کا مشکیزہ اور سامان سفر ساتھ لیا اور دوسرے ہی دن مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہو گئے۔
٭٭٭
مکہ کے بازار میں جندب بن جنادہ اپنے سفر کی تکان کے باعث آہستہ آہستہ چلے جا رہے تھے مگر دل ہی دل میں قریش مکہ سے خوفزدہ تھے۔ وہ پریشان بھی تھے کہ نئے نبی کے حالات کیسے معلوم ہوں گے کیونکہ یہاں کسی سے ان کی کوئی جان پہچان نہیں تھی۔
مکہ کے بازاروں میں گھومتے ہوئے رات کے وقت جندب بن جنادہ کی ملاقات ایک لڑکے سے ہوئی۔ یہ نوجوان کوئی اور نہیں علی ابن طالب تھے۔
وہ جنادہ کا چہرہ دیکھ کر بھانپ چکے تھے کہ یہ اجنبی ہیں اور کسی کی تلاش میں ہیں۔ انہوں نے ہمت کی اور پوچھا:
"آپ مجھے مکہ میں اجنبی معلوم ہوتے ہیں اور شاید آپ کو ابھی اپنی منزل نہیں ملی؟"
جندب بولے: "جی نہیں، میں آج ہی مغرب سے ذرا پہلے پہنچا ہوں۔"
علی نے عرب کی روایتی مہمان نوازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا: "تو میرے گھر تشریف لائیں۔ رات میرے ہاں قیام کریں، صبح ہوتے ہی اپنی منزل کی طرف چلے جائیے گا۔"
جندب پہلے تو ہچکچائے پھر ان کی دعوت پر حضرت علی کے گھر چلے گئے۔ ان کی خوب خاطر تواضع کی گئی۔ حضرت علی نے مکہ معظمہ آنے کا سبب دریافت کرنا چاہا تو جندب نے بتانے سے گریز کیا۔ صبح ہوئے تواپنا سامان لے کر پھر مکہ کے بازاروں میں حالات کا جائزہ لینے نکلے مگر دوسرا دن بھی یونہی گزرا۔ رات کے وقت پھر حضرت علی انہیں گھر لے آئے۔ مہمان نوازی کے دوران حضرت علی نے پوچھا: "آپ نے مجھے اپنا مکہ میں آنے کا مقصد نہیں بتایا؟"
جندب نے اپنی تجربہ کار آنکھیں اپنے میزبان نوجوان پر مرکوز کیں اور بولے: "اگر آپ میرے ساتھ وعدہ کریں کہ مجھے صحیح بات بتائیں گے تو میں آپ کو اپنے دل کی بات کہے دیتا ہوں۔"
"میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کو صحیح بات بتاؤں گا۔" حضرت علی چمکتی آنکھوں سے بولے۔
"میں دور دراز کا سفر طے کرکے یہاں محض اس لیے آیا ہوں کہ اس شخص سے ملوں جنہوں نے نبوت کا دعوی کیا ہے اور اپنے کانوں سے وہ کلام سنوں جس کو وہ خدا کا خاص کلام کہتے ہیں۔"
حضرت علی نے جب ان کی یہ بات سنی تو ان کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا اور کہا: "اللہ کی قسم! آپ سچے رسول ہیں اور لوگوں کو ایک خدا کی عبادت کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔"
"تو آپ پھر مجھے ان سے کب ملوائیں گے؟" جندب بے چینی سے بولے۔
"کل صبح آپ میرے پیچھے پیچھے چلتے آئیں۔ اگر میں نے راستے میں کسی مقام پر کوئی خطرہ محسوس کیا تو میں رک جاؤں گا لیکن آپ آہستہ آہستہ چلتے رہیں۔ جب میں کسی کے گھر میں داخل ہو جاؤں تو آپ بھی بے دھڑک میرے پیچھے اندر آجائیں۔"
جندب نے اس تجویز سے اتفاق کیا اور اگلی صبح طے شدہ پروگرام کے مطابق وہ حضرت علی کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔ دیکھنے والوں کو شک نہیں ہوا کہ حضرت علی کسی اجنبی کی رہنمائی کر رہے ہیں۔ بالآخر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔
جندب حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہی بولے ۔۔۔۔ "السلام علیکم!"
آپ نے ارشاد فرمایا۔ "وعلیک سلام اللہ ورحمتہ اللہ و برکاتہ۔"
جندب بن جنادہ کو سب سے پہلے یہ شرف حاصل ہوا کہ انہوں نے ان الفاظ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا اور سلام کرنے کا یہی انداز مسلمانوں میں رائج ہو گیا۔ نبی آخر الزماں نے انہیں اسلام کی دعوت دی اور اللہ کا کلام سنایا۔ انہوں نے فوراً اسلام قبول کر لیا۔
یہ وہی جندب بن جنادہ ہیں جنہیں تاریخ ان کی کنیت "ابوذر غفاری" سے جانتی ہے۔ یہ وہی ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ ہیں جنہیں ایسے چوتھے یا پانچویں صحابی ہونے کا شرف حاصل ہے جنہوں نے اسلام قبول کرنے میں پہل کی۔
ابوذر غفاری اسلام قبول کرنے کے بعد رسول اللہ ہی کی خدمت اقدس میں رہے۔ آپ نے ابوذر کو اسلام کے بنیادی مسائل اچھی طرح سمجھا دیئے اور محبت بھرے انداز میں یہ تلقین فرمائی: "ابھی یہاں اپنے مسلمان ہونے کا کسی کو نہ بتائیے، مجھے اندیشہ ہے کہ اگر کسی کو پتا چل گیا کہ آپ مسلمان ہو گئے ہیں تو قریش مکہ آپ کو نقصان پہنچائیں گے۔"
ابوذر یہ سنتے ہی بولے: "اس پاک ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، میرا جی چاہتا ہے کہ ایک بار ضرور قریش کے روبرو کھڑے ہو کر کلمۂ حق بلند کروں۔"
٭٭٭
ایک دن قریش کے کافر مکہ کے بازار میں کھڑے باتیں کر رہے تھے۔ جناب ابوذر غفاری خاموشی سے ان کے درمیان جا کھڑے ہوئے اور با آواز بلند کہا: "اے خاندان قریش! میں سچے دل سے اقرار کرتا ہوں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں۔"
ابھی ابوذر غفاری مزید کچھ کہنا چاہتے تھے کہ کفار یہ سنتے ہی بھڑک اٹھے اور آپ کو بے دریغ مارنا شروع کر دیا۔ قریب تھا کہ موت واقع ہو جاتی، عباس بن عبدالمطلب حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے چچا آئے اور کہا: "کیا تم ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو، جو قبیلہ غفار سے تعلق رکھتا ہے۔ جانتے ہو ان کی بستی تمہارے قافلوں کے درمیان واقع ہے۔"
کفار مکہ یہ سنتے ہی ٹھٹھک گئے اور ان کے ہاتھ تھم گئے۔ انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ اگر ان کے ہاتھوں بنی غفار کا ایک بھی شخص مارا گیا تو ان کا کوئی تجارتی قافلہ محفوظ طریقے سے سفر نہیں کر سکے گا اور انہیں مجبوراً ابو ذر کو چھوڑنا پڑا۔
زخموں سے نڈھال جناب ابوذر غفاری حضور کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ آپ ان کی یہ حالت دیکھ کر بہت رنجیدہ ہوئے اور فرمایا: " کیا میں نے تمہیں ابھی اسلام کا اعلان کرنے سے روکا نہیں تھا؟ اب آپ اپنی قوم میں جائیں اور انہیں اسلام کی دعوت دیں۔ شاید ان کی کایا پلٹ جائے۔"
ابوذر غفاری واپس اپنے قبیلے میں آئے۔ سب سے پہلے اپنے بھائی انیس کو تمام حالات بتائے تو وہ مسلمان ہو گئے۔ اپنی والدہ کو اسلام کی دعوت دی، وہ بھی مسلمان ہو گئیں اور ان کی دیکھا دیکھی قبیلۂ غفار کے تمام لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے۔
جب حضور نے اللہ کے حکم سے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو ابوذرغفاری مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور رسول اللہ کی خدمت میں رہنے لگے۔
جب رسول اللہ اس دنیا سے رحلت فرما گئے تو جناب ابوذر غفاری بے چین رہنے لگے۔ کیونکہ مدینہ طیبہ اللہ کے رسول سے خالی اور آپ کی مبارک مجالس سے محروم ہو چکا تھا۔ابوذر ملک شام کی طرف کوچ کر گئے۔ بعد ازاں آپ مدینہ کے قریب ایک بستی میں آباد ہو گئے اور یہیں 32 ہجری میں آپ نے انتقال فرمایا۔
آپ کی تعریف میں رسول اکرم کا یہ ارشاد تاریخ کے اوراق کی زینت بن گیا۔ آپ نے فرمایا: "زمین اور آسمان نے آج تک ابوذرغفاری سے بڑھ کر کوئی صادق دل نہ دیکھا ہو گا۔" رضی اللہ عنہ‘
بقلم: محمد عمر (دستک)
🌱🌱🌱🌱🌱🌱🌱🌱🌱
پیش خدمت: مجموعۃ واٹسآپ
*🌤فرسانُ الإسلام🌤* (مَردوں کے لئے)
*📚اِسلامی فِکر📚* (خواتین کے لئے)
https://telegram.me/IslamiFikr
"کل صبح آپ میرے پیچھے پیچھے چلتے آئیں۔ اگر میں نے راستے میں کسی مقام پر کوئی خطرہ محسوس کیا تو میں رک جاؤں گا لیکن آپ آہستہ آہستہ چلتے رہیں۔ جب میں کسی کے گھر میں داخل ہو جاؤں تو آپ بھی بے دھڑک میرے پیچھے اندر آجائیں۔"
جندب نے اس تجویز سے اتفاق کیا اور اگلی صبح طے شدہ پروگرام کے مطابق وہ حضرت علی کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔ دیکھنے والوں کو شک نہیں ہوا کہ حضرت علی کسی اجنبی کی رہنمائی کر رہے ہیں۔ بالآخر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔
جندب حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہی بولے ۔۔۔۔ "السلام علیکم!"
آپ نے ارشاد فرمایا۔ "وعلیک سلام اللہ ورحمتہ اللہ و برکاتہ۔"
جندب بن جنادہ کو سب سے پہلے یہ شرف حاصل ہوا کہ انہوں نے ان الفاظ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا اور سلام کرنے کا یہی انداز مسلمانوں میں رائج ہو گیا۔ نبی آخر الزماں نے انہیں اسلام کی دعوت دی اور اللہ کا کلام سنایا۔ انہوں نے فوراً اسلام قبول کر لیا۔
یہ وہی جندب بن جنادہ ہیں جنہیں تاریخ ان کی کنیت "ابوذر غفاری" سے جانتی ہے۔ یہ وہی ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ ہیں جنہیں ایسے چوتھے یا پانچویں صحابی ہونے کا شرف حاصل ہے جنہوں نے اسلام قبول کرنے میں پہل کی۔
ابوذر غفاری اسلام قبول کرنے کے بعد رسول اللہ ہی کی خدمت اقدس میں رہے۔ آپ نے ابوذر کو اسلام کے بنیادی مسائل اچھی طرح سمجھا دیئے اور محبت بھرے انداز میں یہ تلقین فرمائی: "ابھی یہاں اپنے مسلمان ہونے کا کسی کو نہ بتائیے، مجھے اندیشہ ہے کہ اگر کسی کو پتا چل گیا کہ آپ مسلمان ہو گئے ہیں تو قریش مکہ آپ کو نقصان پہنچائیں گے۔"
ابوذر یہ سنتے ہی بولے: "اس پاک ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، میرا جی چاہتا ہے کہ ایک بار ضرور قریش کے روبرو کھڑے ہو کر کلمۂ حق بلند کروں۔"
٭٭٭
ایک دن قریش کے کافر مکہ کے بازار میں کھڑے باتیں کر رہے تھے۔ جناب ابوذر غفاری خاموشی سے ان کے درمیان جا کھڑے ہوئے اور با آواز بلند کہا: "اے خاندان قریش! میں سچے دل سے اقرار کرتا ہوں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں۔"
ابھی ابوذر غفاری مزید کچھ کہنا چاہتے تھے کہ کفار یہ سنتے ہی بھڑک اٹھے اور آپ کو بے دریغ مارنا شروع کر دیا۔ قریب تھا کہ موت واقع ہو جاتی، عباس بن عبدالمطلب حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے چچا آئے اور کہا: "کیا تم ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو، جو قبیلہ غفار سے تعلق رکھتا ہے۔ جانتے ہو ان کی بستی تمہارے قافلوں کے درمیان واقع ہے۔"
کفار مکہ یہ سنتے ہی ٹھٹھک گئے اور ان کے ہاتھ تھم گئے۔ انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ اگر ان کے ہاتھوں بنی غفار کا ایک بھی شخص مارا گیا تو ان کا کوئی تجارتی قافلہ محفوظ طریقے سے سفر نہیں کر سکے گا اور انہیں مجبوراً ابو ذر کو چھوڑنا پڑا۔
زخموں سے نڈھال جناب ابوذر غفاری حضور کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ آپ ان کی یہ حالت دیکھ کر بہت رنجیدہ ہوئے اور فرمایا: " کیا میں نے تمہیں ابھی اسلام کا اعلان کرنے سے روکا نہیں تھا؟ اب آپ اپنی قوم میں جائیں اور انہیں اسلام کی دعوت دیں۔ شاید ان کی کایا پلٹ جائے۔"
ابوذر غفاری واپس اپنے قبیلے میں آئے۔ سب سے پہلے اپنے بھائی انیس کو تمام حالات بتائے تو وہ مسلمان ہو گئے۔ اپنی والدہ کو اسلام کی دعوت دی، وہ بھی مسلمان ہو گئیں اور ان کی دیکھا دیکھی قبیلۂ غفار کے تمام لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے۔
جب حضور نے اللہ کے حکم سے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو ابوذرغفاری مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور رسول اللہ کی خدمت میں رہنے لگے۔
جب رسول اللہ اس دنیا سے رحلت فرما گئے تو جناب ابوذر غفاری بے چین رہنے لگے۔ کیونکہ مدینہ طیبہ اللہ کے رسول سے خالی اور آپ کی مبارک مجالس سے محروم ہو چکا تھا۔ابوذر ملک شام کی طرف کوچ کر گئے۔ بعد ازاں آپ مدینہ کے قریب ایک بستی میں آباد ہو گئے اور یہیں 32 ہجری میں آپ نے انتقال فرمایا۔
آپ کی تعریف میں رسول اکرم کا یہ ارشاد تاریخ کے اوراق کی زینت بن گیا۔ آپ نے فرمایا: "زمین اور آسمان نے آج تک ابوذرغفاری سے بڑھ کر کوئی صادق دل نہ دیکھا ہو گا۔" رضی اللہ عنہ‘
بقلم: محمد عمر (دستک)
🌱🌱🌱🌱🌱🌱🌱🌱🌱
پیش خدمت: مجموعۃ واٹسآپ
*🌤فرسانُ الإسلام🌤* (مَردوں کے لئے)
*📚اِسلامی فِکر📚* (خواتین کے لئے)
https://telegram.me/IslamiFikr
Telegram
📑 اِســـلامـــی فِـــکر 📑
عـصـرِ حـاضـر کـی نـئـی پـود کـو اِسـں وقـت سـب سـے زیـادہ ضـرورت اپـنـے "اَسْـــلافـــ" کـی روشـن تـاریـخ سـے اگاہـی اور اُسـں کـی روشـنـی مـیـں اپـنـے مـسـتـقـبـل کـا تـعـيّـن.
ہمارے دیگر چینلس
@BatilShikan
@tareekhelslamurdu
@IslamiSahafath
ہمارے دیگر چینلس
@BatilShikan
@tareekhelslamurdu
@IslamiSahafath
⭐ فاسئلوا عني فی الجنة ۔۔۔۔!
🌹 قال الإمام الشافعي:
إن أهل الجنة إذا دخلوا الجنة، ولم يجدوا أصحابهم الذين كانوا معهم على خير في الدنيا ؛
فإنهم يسألون عنهم رب العزة ويقولون :
” ربي لنا إخوان كانوا يصلون معنا ويصومون معنا لم نرهم“ .
🌿 امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا
جب اہل جنت جنت میں داخل کیے جائیں گے اور وہ وہاں ان لوگوں کو نہیں پائیں گے جن کے ساتھ وہ دنیا میں خیر کے کاموں پر ہوا کرتے تھے
تو وہ ان کے بارے میں رب العزت سے سوال کریں گے
اور کہیں گے
اے ہمارے رب! ہمارے بھائی ہوا کرتے تھے جو ہمارے ساتھ نماز پڑھتے تھے اور روزے رکھتے تھے
ہم انہیں یہاں نہیں دیکھتے
🌹 فيقول الله جل و علا :
( اذهبوا للنار وأخرجوا من كان في قلبه مثقال ذرة من إيمان )
🌿 تو اللہ عزوجل و تعالی فرمائیں گے
(جاؤ آگ سے انہیں نکال لاؤ جن کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہے )
🌹 وقال الحسن البصري رحمه الله:
[ استكثروا من الأصدقاء المؤمنين، فإن لهم شفاعة يوم القيامة] .
🌿 اور حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا
مؤمن دوست بنانے میں کثرت سے کام لو کیونکہ قیامت کے دن ان کے لیے شفاعت (کرنے کا اختیار) ہوگا
💕 الصديق الوفي : ھو من يمشي بك إلى الجنة.
💕 وفا دار دوست : وہ ہے جو تمہارے ساتھ جنت تک جائے!
🌹قال ابن الجوزي رحمه الله
إن لم تجدوني في الجنة بينكم ، فاسألوا عني فقولوا : ربنا عبدك فلان كان يذكرنا بك !!! .
ثم بكى رحمه الله رحمة واسعة .
🌿ابن جوزي رحمہ اللہ
فرماتے کہ
اگر تم جنت میں مجھے اپنے درمیان نہ پاؤ تو میرے بارے میں سوال کرنا
پھر کہنا
اے ہمارے رب! تیرا فلاں بندہ ہمیں تیری یاد دلاتا تھا
پھر رحمہ اللہ رو دئیے
اللہ وسیع رحمت نازل کرے
✨ وأنا أسألكم يا اصدقائي إن لم تجدوني بينكم في الجنة، فاسألوا عني ، لعلي ذكرتكم بالله ولو لمرة واحدة .
🍃 اور اے میری عزیز دوستوں!
میں آپ سب سے کہتا ہوں
اگر تم لوگ مجھے جنت میں اپنے درمیان نہ پاؤ
تو میرے بارے میں سوال ضرور کرنا۔۔۔
اگرچہ میں نے کبھی یک بار ہی تمہیں اللہ کی یاد دلائی ہو۔۔۔!
🌹 قال الإمام الشافعي:
إن أهل الجنة إذا دخلوا الجنة، ولم يجدوا أصحابهم الذين كانوا معهم على خير في الدنيا ؛
فإنهم يسألون عنهم رب العزة ويقولون :
” ربي لنا إخوان كانوا يصلون معنا ويصومون معنا لم نرهم“ .
🌿 امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا
جب اہل جنت جنت میں داخل کیے جائیں گے اور وہ وہاں ان لوگوں کو نہیں پائیں گے جن کے ساتھ وہ دنیا میں خیر کے کاموں پر ہوا کرتے تھے
تو وہ ان کے بارے میں رب العزت سے سوال کریں گے
اور کہیں گے
اے ہمارے رب! ہمارے بھائی ہوا کرتے تھے جو ہمارے ساتھ نماز پڑھتے تھے اور روزے رکھتے تھے
ہم انہیں یہاں نہیں دیکھتے
🌹 فيقول الله جل و علا :
( اذهبوا للنار وأخرجوا من كان في قلبه مثقال ذرة من إيمان )
🌿 تو اللہ عزوجل و تعالی فرمائیں گے
(جاؤ آگ سے انہیں نکال لاؤ جن کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہے )
🌹 وقال الحسن البصري رحمه الله:
[ استكثروا من الأصدقاء المؤمنين، فإن لهم شفاعة يوم القيامة] .
🌿 اور حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا
مؤمن دوست بنانے میں کثرت سے کام لو کیونکہ قیامت کے دن ان کے لیے شفاعت (کرنے کا اختیار) ہوگا
💕 الصديق الوفي : ھو من يمشي بك إلى الجنة.
💕 وفا دار دوست : وہ ہے جو تمہارے ساتھ جنت تک جائے!
🌹قال ابن الجوزي رحمه الله
إن لم تجدوني في الجنة بينكم ، فاسألوا عني فقولوا : ربنا عبدك فلان كان يذكرنا بك !!! .
ثم بكى رحمه الله رحمة واسعة .
🌿ابن جوزي رحمہ اللہ
فرماتے کہ
اگر تم جنت میں مجھے اپنے درمیان نہ پاؤ تو میرے بارے میں سوال کرنا
پھر کہنا
اے ہمارے رب! تیرا فلاں بندہ ہمیں تیری یاد دلاتا تھا
پھر رحمہ اللہ رو دئیے
اللہ وسیع رحمت نازل کرے
✨ وأنا أسألكم يا اصدقائي إن لم تجدوني بينكم في الجنة، فاسألوا عني ، لعلي ذكرتكم بالله ولو لمرة واحدة .
🍃 اور اے میری عزیز دوستوں!
میں آپ سب سے کہتا ہوں
اگر تم لوگ مجھے جنت میں اپنے درمیان نہ پاؤ
تو میرے بارے میں سوال ضرور کرنا۔۔۔
اگرچہ میں نے کبھی یک بار ہی تمہیں اللہ کی یاد دلائی ہو۔۔۔!
سلطنت_مدینہ_کے_سفیر_صحابہ_رضی_ال.pdf
8.1 MB
📓کتاب: سلطنت مدینہ کے سفیر صحابہ۔ PDF
🖊مؤلف: تبسم محمود غضنفر
نبوی سفیر کے تعارف و خصوصیات پر مشتمل بہترین کتاب
🖊مؤلف: تبسم محمود غضنفر
نبوی سفیر کے تعارف و خصوصیات پر مشتمل بہترین کتاب
غلبۂ اسلام کی بشارتیں_241216072440.PDF
4.2 MB
📓کتاب: غلبہ اسلام کی بشارتیں۔ PDF
🖊مؤلف: علامہ یوسف قرضاوی
(ترجمہ۔ عبد الحکیم فلاحی)
نبوی تعلیم کی روشنی میں غلبہ اسلام کے رہنما اصول۔
🖊مؤلف: علامہ یوسف قرضاوی
(ترجمہ۔ عبد الحکیم فلاحی)
نبوی تعلیم کی روشنی میں غلبہ اسلام کے رہنما اصول۔
🕯 حضرت عمرو بن العاصؓ اور مغرب کی بالادستی
🖋بقلم: مولانا زاہد الراشدی
فاتح مصر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا شمار دھاۃ العرب میں ہوتا ہے، یعنی عرب کے چوٹی کے ذہین اور ہوشیار لوگوں میں، جن کی فطانت و فراست کا تذکرہ تاریخ میں ہمیشہ امتیازی حیثیت سے ہوتا رہا ہے۔ وہ ایک تجربہ کار جرنیل، کامیاب منتظم، مدبر سیاست کار، اور انسانی اجتماعیت کے مزاج و نفسیات سے اچھی طرح واقف تھے جس پر ان کی زندگی کے متعدد واقعات گواہ ہیں۔ ان میں سے ایک واقعہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے جس سے ان کی دور اندیشی اور پیش بینی کی صلاحیت کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
مسلم شریف کی روایت ہے کہ حضرت عمرو بن العاصؓ کی مجلس میں ایک روز مستورد قرشیؓ بیٹھے ہوئے تھے جن کا شمار صغار صحابہؓ میں ہوتا ہے۔ مستورد قرشیؓ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے تقوم الساعة والروم أكثر الناس کہ قیامت سے پہلے رومی لوگوں میں کثرت سے پھیل جائیں گے۔ روم اس دور میں عیسائی سلطنت کا پایۂ تخت تھا اور رومیوں سے عام طور پر مغرب کے عیسائی حکمران مراد ہوتے تھے۔ حضرت عمرو بن العاصؓ نے سنا تو چونکے اور پوچھا کہ دیکھو! کیا کہہ رہے ہو؟ مستورد قرشیؓ نے کہا کہ میں وہی کہہ رہا ہوں جو میں نے جناب رسول اللہؐ سے سنا ہے۔ حضرت عمرو بن العاصؓ نے فرمایا کہ اگر ایسی بات ہے تو پھر ان رومیوں میں چار خصلتیں موجود ہوں گی (جن کی وجہ سے وہ انسانی سوسائٹی پر غالب آئیں گے)۔
إنهم لأحلم الناس عند فتنة۔ پہلی یہ کہ وہ فتنے اور آزمائش کے وقت دوسرے لوگوں سے زیادہ تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کریں گے،
وأسرعهم إفاقة بعد مصيبة۔ دوسری یہ کہ وہ مصیبت گزر جانے کے بعد سنبھلنے میں دوسرے لوگوں سے تیز ہوں گے،
وأوشكهم كرة بعد فرة۔ تیسری یہ کہ وہ شکست کے بعد دوبارہ جلدی حملہ آور ہونے والے ہوں گے،
وخيرهم لمسكين ويتيم وضعيف۔ چوتھی یہ کہ وہ اپنے یتیموں، مسکینوں اور کمزوروں کے لیے اچھے لوگ ثابت ہوں گے،
اتنا کہہ کر حضرت عمرو بن العاصؓ نے فرمایا کہ وخامسۃ حسنۃ جمیلۃ کہ ان میں ایک اور پانچویں خصلت بھی ہوگی جو اچھی اور خوب ہوگی
وأمنعهم من ظلم الملوك۔ کہ وہ لوگوں کو حکمرانوں کے مظالم سے روکنے میں پیش پیش ہوں گے۔
اس ارشاد کو ایک بار پھر ملاحظہ فرمائیے اور اندازہ کیجیے کہ حضرت عمرو بن العاصؓ نے کس طرح ہمارے آج کے دور کا نقشہ چودہ سو برس قبل جناب رسول اللہؐ کی ایک پیش گوئی کی وضاحت کرتے ہوئے کھینچ دیا تھا۔ انہوں نے دراصل قوموں کے مزاج و نفسیات کو سمجھتے ہوئے اقوام عالم کی برادری میں برتری اور بالادستی کی منزل تک پہنچانے والے اخلاق اور خصلتوں کی وضاحت کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ جو قوم بردباری، غریب پروری، اور عدل و انصاف کے اوصاف اپنا لیتی ہے اسے انسانی برادری میں برتری حاصل ہو جاتی ہے اور وہ اقوام کی برادری میں قیادت کا تخت سنبھال لیتی ہے۔ یہ پانچ اوصاف جن کا ذکر حضرت عمرو بن العاصؓ نے کیا ہے انسانیت کے اعلیٰ اخلاق ہیں جو آسمانی تعلیمات کی بنیاد ہیں اور اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں نے وحی الٰہی کے ذریعہ نسل انسانی کے لیے موصول ہونے والی ان خدائی ہدایات کو لوگوں تک پہنچایا ہے۔
آسمانی مذاہب کے مطالعہ میں آپ کو انسانی اخلاق اور اعلیٰ انسانی اوصاف کی تعلیم نمایاں نظر آئے گی۔ اور تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی قوم نے ان تعلیمات کو اپنایا ہے اس کے نتائج سے اسے ضرور ثمر ملا ہے۔ اس بارے میں خود جناب رسول اللہؐ کی تعلیمات دیکھ لیں کہ آپؐ نے اپنی امت کو کن اعلیٰ اخلاقی اقدار سے روشناس کرایا؟ اس کا مشاہدہ جناب نبی اکرمؐ کی ذات گرامی، آپؐ کے قائم کردہ معاشرے، اور خلفائے راشدینؓ کے طز زندگی اور طرز حکومت میں بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ بالخصوص حضرت عمرو بن ا لعاصؓ کے ذکر کردہ آخری دو اوصاف تو خلفائے راشدہ کا طرہ امتیاز ہیں، یعنی غریب پروری اور لوگوں کو حکمرانوں کے مظالم سے روکنا خلفاء راشدینؓ کے نظام حکومت کی بنیاد تھا۔ معاشرہ کے نادار افراد، کمزوروں، بے سہارا لوگوں، یتیموں، بیواؤں، اور مجبوروں کی سرکاری خزانے (بیت المال) سے کفالت کا اہتمام خلافت راشدہ کے دور میں ہی منظم طریقہ سے شروع ہوا تھا۔ اور حکمرانوں کو عام آدمی کے سامنے احتساب کے لیے پیش کر کے عدل اور انصاف کی ضمانت بھی سب سے پہلے خلافت راشدہ نے ہی فراہم کی تھی۔
آج دنیا کی دوسری قوموں نے ہماری اس ’’متاع‘‘ پر قبضہ کر لیا ہے تو یہ ہماری کوتاہیوں کانتیجہ ہے۔ آج مغرب سے ہمیں شکوہ ہے کہ مغرب ہمارے خلاف صف آرا ہے اور ہمیں اپنا سب سے بڑا حریف سمجھ کر زیر کرنے کے لیے جو کچھ وہ کر سکتا ہے، کر رہا ہے۔ مغرب سے ہمیں یہ بھی شکایت ہے کہ وہ ہم پر اپنی ثقافت مسلط کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور انسانی حقوق کے خود ساختہ فلسفے کے ہتھیار سے ہماری اخلاقی، دینی، اور معاشرتی اقدار و روایات کو ملیامیٹ کرنے کے درپے ہے۔ یہ شکایتیں بجا ہیں لیکن ہمیں حضرت عمرو بن العاصؓ کے مذکورہ ارشاد کے حوالہ سے مغرب کے ساتھ اپنا تقابل
🖋بقلم: مولانا زاہد الراشدی
فاتح مصر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا شمار دھاۃ العرب میں ہوتا ہے، یعنی عرب کے چوٹی کے ذہین اور ہوشیار لوگوں میں، جن کی فطانت و فراست کا تذکرہ تاریخ میں ہمیشہ امتیازی حیثیت سے ہوتا رہا ہے۔ وہ ایک تجربہ کار جرنیل، کامیاب منتظم، مدبر سیاست کار، اور انسانی اجتماعیت کے مزاج و نفسیات سے اچھی طرح واقف تھے جس پر ان کی زندگی کے متعدد واقعات گواہ ہیں۔ ان میں سے ایک واقعہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے جس سے ان کی دور اندیشی اور پیش بینی کی صلاحیت کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
مسلم شریف کی روایت ہے کہ حضرت عمرو بن العاصؓ کی مجلس میں ایک روز مستورد قرشیؓ بیٹھے ہوئے تھے جن کا شمار صغار صحابہؓ میں ہوتا ہے۔ مستورد قرشیؓ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے تقوم الساعة والروم أكثر الناس کہ قیامت سے پہلے رومی لوگوں میں کثرت سے پھیل جائیں گے۔ روم اس دور میں عیسائی سلطنت کا پایۂ تخت تھا اور رومیوں سے عام طور پر مغرب کے عیسائی حکمران مراد ہوتے تھے۔ حضرت عمرو بن العاصؓ نے سنا تو چونکے اور پوچھا کہ دیکھو! کیا کہہ رہے ہو؟ مستورد قرشیؓ نے کہا کہ میں وہی کہہ رہا ہوں جو میں نے جناب رسول اللہؐ سے سنا ہے۔ حضرت عمرو بن العاصؓ نے فرمایا کہ اگر ایسی بات ہے تو پھر ان رومیوں میں چار خصلتیں موجود ہوں گی (جن کی وجہ سے وہ انسانی سوسائٹی پر غالب آئیں گے)۔
إنهم لأحلم الناس عند فتنة۔ پہلی یہ کہ وہ فتنے اور آزمائش کے وقت دوسرے لوگوں سے زیادہ تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کریں گے،
وأسرعهم إفاقة بعد مصيبة۔ دوسری یہ کہ وہ مصیبت گزر جانے کے بعد سنبھلنے میں دوسرے لوگوں سے تیز ہوں گے،
وأوشكهم كرة بعد فرة۔ تیسری یہ کہ وہ شکست کے بعد دوبارہ جلدی حملہ آور ہونے والے ہوں گے،
وخيرهم لمسكين ويتيم وضعيف۔ چوتھی یہ کہ وہ اپنے یتیموں، مسکینوں اور کمزوروں کے لیے اچھے لوگ ثابت ہوں گے،
اتنا کہہ کر حضرت عمرو بن العاصؓ نے فرمایا کہ وخامسۃ حسنۃ جمیلۃ کہ ان میں ایک اور پانچویں خصلت بھی ہوگی جو اچھی اور خوب ہوگی
وأمنعهم من ظلم الملوك۔ کہ وہ لوگوں کو حکمرانوں کے مظالم سے روکنے میں پیش پیش ہوں گے۔
اس ارشاد کو ایک بار پھر ملاحظہ فرمائیے اور اندازہ کیجیے کہ حضرت عمرو بن العاصؓ نے کس طرح ہمارے آج کے دور کا نقشہ چودہ سو برس قبل جناب رسول اللہؐ کی ایک پیش گوئی کی وضاحت کرتے ہوئے کھینچ دیا تھا۔ انہوں نے دراصل قوموں کے مزاج و نفسیات کو سمجھتے ہوئے اقوام عالم کی برادری میں برتری اور بالادستی کی منزل تک پہنچانے والے اخلاق اور خصلتوں کی وضاحت کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ جو قوم بردباری، غریب پروری، اور عدل و انصاف کے اوصاف اپنا لیتی ہے اسے انسانی برادری میں برتری حاصل ہو جاتی ہے اور وہ اقوام کی برادری میں قیادت کا تخت سنبھال لیتی ہے۔ یہ پانچ اوصاف جن کا ذکر حضرت عمرو بن العاصؓ نے کیا ہے انسانیت کے اعلیٰ اخلاق ہیں جو آسمانی تعلیمات کی بنیاد ہیں اور اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں نے وحی الٰہی کے ذریعہ نسل انسانی کے لیے موصول ہونے والی ان خدائی ہدایات کو لوگوں تک پہنچایا ہے۔
آسمانی مذاہب کے مطالعہ میں آپ کو انسانی اخلاق اور اعلیٰ انسانی اوصاف کی تعلیم نمایاں نظر آئے گی۔ اور تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی قوم نے ان تعلیمات کو اپنایا ہے اس کے نتائج سے اسے ضرور ثمر ملا ہے۔ اس بارے میں خود جناب رسول اللہؐ کی تعلیمات دیکھ لیں کہ آپؐ نے اپنی امت کو کن اعلیٰ اخلاقی اقدار سے روشناس کرایا؟ اس کا مشاہدہ جناب نبی اکرمؐ کی ذات گرامی، آپؐ کے قائم کردہ معاشرے، اور خلفائے راشدینؓ کے طز زندگی اور طرز حکومت میں بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ بالخصوص حضرت عمرو بن ا لعاصؓ کے ذکر کردہ آخری دو اوصاف تو خلفائے راشدہ کا طرہ امتیاز ہیں، یعنی غریب پروری اور لوگوں کو حکمرانوں کے مظالم سے روکنا خلفاء راشدینؓ کے نظام حکومت کی بنیاد تھا۔ معاشرہ کے نادار افراد، کمزوروں، بے سہارا لوگوں، یتیموں، بیواؤں، اور مجبوروں کی سرکاری خزانے (بیت المال) سے کفالت کا اہتمام خلافت راشدہ کے دور میں ہی منظم طریقہ سے شروع ہوا تھا۔ اور حکمرانوں کو عام آدمی کے سامنے احتساب کے لیے پیش کر کے عدل اور انصاف کی ضمانت بھی سب سے پہلے خلافت راشدہ نے ہی فراہم کی تھی۔
آج دنیا کی دوسری قوموں نے ہماری اس ’’متاع‘‘ پر قبضہ کر لیا ہے تو یہ ہماری کوتاہیوں کانتیجہ ہے۔ آج مغرب سے ہمیں شکوہ ہے کہ مغرب ہمارے خلاف صف آرا ہے اور ہمیں اپنا سب سے بڑا حریف سمجھ کر زیر کرنے کے لیے جو کچھ وہ کر سکتا ہے، کر رہا ہے۔ مغرب سے ہمیں یہ بھی شکایت ہے کہ وہ ہم پر اپنی ثقافت مسلط کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور انسانی حقوق کے خود ساختہ فلسفے کے ہتھیار سے ہماری اخلاقی، دینی، اور معاشرتی اقدار و روایات کو ملیامیٹ کرنے کے درپے ہے۔ یہ شکایتیں بجا ہیں لیکن ہمیں حضرت عمرو بن العاصؓ کے مذکورہ ارشاد کے حوالہ سے مغرب کے ساتھ اپنا تقابل
اس حوالہ سے بھی کرلینا چاہیے کہ مصیبت و مشکل کے وقت مغربی اقوام اور ہمارے طرز عمل میں کیا فرق ہوتا ہے؟
مصیبت کے گزر جانے کے بعد سنبھلنے میں ہم کتنا وقت لیتے ہیں؟
شکست کے بعد اس کی تلافی کرنے یا ماتم کرتے رہنے میں سے ہم کونسا راستہ اختیار کرتے ہیں؟
معاشرہ کے نادار اور بے سہارا لوگوں کی کفالت کے لیے ہمارے پاس کونسا نظام موجود ہے؟
اور عام لوگوں کو حکام کے مظالم اور ریاستی جبر سے بچانے کے لیے ہمارا ’’معاشرتی شعور‘‘ کس مرحلہ میں ہے؟
انسانی حقوق کے حوالے سے مغرب کا گزشتہ صدی کا ریکارڈ سامنے رکھا جائے تو یہ شکایت ضرور سامنے آتی ہے کہ مسلم ممالک کے بارے میں مغرب دوہرا معیار رکھتا ہے اور جن ممالک کی حکومتیں مغرب کے مفادات کی نگہبانی کر رہی ہیں وہاں کے عوام کے انسانی اور سیاسی حقوق کے معاملہ میں مغرب نے مجرمانہ غفلت اور خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ لیکن اس سے ہٹ کر عمومی تناظر میں دیکھا جائے تو آج مغربی ممالک دنیا بھر کے مختلف خطوں کی حکومتوں کے ستائے ہوئے مظلوموں کی سب سے بڑی پناہ گاہ بھی ہیں اور معاشرے کے نادار و معذور افراد کے لیے اگر زندگی کی سب سے زیادہ سہولتیں میسر ہیں تو وہ بھی انہی مغربی ممالک میں ہیں۔
اس پس منظر میں حضرت عمرو بن العاصؓ کے اس ارشاد گرامی میں جہاں قوموں کی قائدانہ صلاحیتوں اور اوصاف کی نشاندہی ملتی ہے وہاں ہمارے لیے یہ سبق بھی ہے کہ ہمارا بھولا ہوا سبق دوسری قوموں نے سیکھ کر اقوام کی برادری میں چودھراہٹ حاصل کر لی ہے اور ہم ابھی تک ’’پدرم سلطان بود‘‘ کے نعرے کی مستی میں گم ہیں۔ اسلامی نظام کے نفاذ اور اسلامی ثقافت کی جدوجہد کرنے والے مراکز، شخصیات اور اداروں کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے کہ ملت اسلامیہ کی عظمت رفتہ کی بحالی کی شاہراہ یہی ہے۔
📰 (روزنامہ پاکستان، 17 جولائی 1997ء)
مصیبت کے گزر جانے کے بعد سنبھلنے میں ہم کتنا وقت لیتے ہیں؟
شکست کے بعد اس کی تلافی کرنے یا ماتم کرتے رہنے میں سے ہم کونسا راستہ اختیار کرتے ہیں؟
معاشرہ کے نادار اور بے سہارا لوگوں کی کفالت کے لیے ہمارے پاس کونسا نظام موجود ہے؟
اور عام لوگوں کو حکام کے مظالم اور ریاستی جبر سے بچانے کے لیے ہمارا ’’معاشرتی شعور‘‘ کس مرحلہ میں ہے؟
انسانی حقوق کے حوالے سے مغرب کا گزشتہ صدی کا ریکارڈ سامنے رکھا جائے تو یہ شکایت ضرور سامنے آتی ہے کہ مسلم ممالک کے بارے میں مغرب دوہرا معیار رکھتا ہے اور جن ممالک کی حکومتیں مغرب کے مفادات کی نگہبانی کر رہی ہیں وہاں کے عوام کے انسانی اور سیاسی حقوق کے معاملہ میں مغرب نے مجرمانہ غفلت اور خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ لیکن اس سے ہٹ کر عمومی تناظر میں دیکھا جائے تو آج مغربی ممالک دنیا بھر کے مختلف خطوں کی حکومتوں کے ستائے ہوئے مظلوموں کی سب سے بڑی پناہ گاہ بھی ہیں اور معاشرے کے نادار و معذور افراد کے لیے اگر زندگی کی سب سے زیادہ سہولتیں میسر ہیں تو وہ بھی انہی مغربی ممالک میں ہیں۔
اس پس منظر میں حضرت عمرو بن العاصؓ کے اس ارشاد گرامی میں جہاں قوموں کی قائدانہ صلاحیتوں اور اوصاف کی نشاندہی ملتی ہے وہاں ہمارے لیے یہ سبق بھی ہے کہ ہمارا بھولا ہوا سبق دوسری قوموں نے سیکھ کر اقوام کی برادری میں چودھراہٹ حاصل کر لی ہے اور ہم ابھی تک ’’پدرم سلطان بود‘‘ کے نعرے کی مستی میں گم ہیں۔ اسلامی نظام کے نفاذ اور اسلامی ثقافت کی جدوجہد کرنے والے مراکز، شخصیات اور اداروں کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے کہ ملت اسلامیہ کی عظمت رفتہ کی بحالی کی شاہراہ یہی ہے۔
📰 (روزنامہ پاکستان، 17 جولائی 1997ء)
❤️ عظیم قوم کی عظیم مائیں ایسی ہوا کرتی ہے...
سلطان محمد فاتح کی والدہ ماجدہ، ھُما ھاطون، اپنے بیٹے محمد کو انکے بچپن سے ہی علی الصبح لے جایا کرتیں اور قُسطُنطُنیہ کی دیواریں دکھا کر کہتیں : "اے محمد، تم ان دیواروں کو فتح کرو گے."
محمد فاتح پوچھا کرتے: "لیکن میں اتنا بڑا شہر کیسے فتح کروں، ماں؟"
ھُما ھاطون، کلی دانش مندی سے جواب دیتیں: "قرآن کے ذریعے، طاقت، ہتھیاروں اور لوگوں کی محبت سے."
انہوں نے اپنا بیٹا اسلام کے لیے ہدیہ کیا، اسکی ترجیحات کو صراط مستقیم پر قائم کیا اور اسے اولوالعزمی کے ساتھ وہ سلطان بننے کی تربیت کی جس کی خوش خبری نبی کریمﷺ نے دی تھی. اکیس سال کی عمر میں، محمد فاتح نے قُسطُنطُنیہ فتح کر کے مشرقی رومی سلطنت کا خاتمہ کر دیا.
🌷سبحان اللہ۔ 🌹الحمدللہ۔ 🌼اللہ اکبر
#عظیم_ماں
#عظیم_قوم
سلطان محمد فاتح کی والدہ ماجدہ، ھُما ھاطون، اپنے بیٹے محمد کو انکے بچپن سے ہی علی الصبح لے جایا کرتیں اور قُسطُنطُنیہ کی دیواریں دکھا کر کہتیں : "اے محمد، تم ان دیواروں کو فتح کرو گے."
محمد فاتح پوچھا کرتے: "لیکن میں اتنا بڑا شہر کیسے فتح کروں، ماں؟"
ھُما ھاطون، کلی دانش مندی سے جواب دیتیں: "قرآن کے ذریعے، طاقت، ہتھیاروں اور لوگوں کی محبت سے."
انہوں نے اپنا بیٹا اسلام کے لیے ہدیہ کیا، اسکی ترجیحات کو صراط مستقیم پر قائم کیا اور اسے اولوالعزمی کے ساتھ وہ سلطان بننے کی تربیت کی جس کی خوش خبری نبی کریمﷺ نے دی تھی. اکیس سال کی عمر میں، محمد فاتح نے قُسطُنطُنیہ فتح کر کے مشرقی رومی سلطنت کا خاتمہ کر دیا.
🌷سبحان اللہ۔ 🌹الحمدللہ۔ 🌼اللہ اکبر
#عظیم_ماں
#عظیم_قوم
🌹 یار غار ہونے کا شرف:
جب قریش کی ایذاء رسانی حد سے بڑھ گئیں اور مسلمانوں کو ستانے میں انہوں نے کوئی کسر باقی نہ رکھی تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور حبشہ کے بعد پھر مدینہ ہجرت کا حکم فرمایا۔ اور خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حکم خداوندی کے منتظر تھے، جب اللہ نے آپ کو حکم ہجرت دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے ہجرت کا ذکر فرمایا۔ تو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پکار اٹھے :
’’اے اللہ کے رسول مجھے بھی معیت سے نوازئیے۔ ‘‘
ارشاد گرامی ہوا ’الصحبۃ‘ معیت تو ضرور ہو گی اس مصائب والے سفر میں تم میرے ساتھ ہو گے۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں۔
’’بخدا مجھے اس دن سے قبل معلوم نہ تھا کہ کوئی خوشی سے بھی آنسو بہاتا ہے میں نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اس روز روتے دیکھا۔‘‘
اور یوں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو ہجرت کے وقت پیغمبر خدا کا ساتھی ہونے اور یار غار ہونے کا لازوال اعزاز حاصل ہوا اور غار ثور میں تین دن اور تین راتیں متوجہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے اور متوجہ علیہ ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے۔
اللهم صل على سيدنا محمد النبي الأمي
وعلى آلہ وازواجہ واھل بیتہ واصحٰبہ وبارك وسلم.
اللھم ربّنا آمین.
📚 (سيرت ابن هشام، 1 : 485)
جب قریش کی ایذاء رسانی حد سے بڑھ گئیں اور مسلمانوں کو ستانے میں انہوں نے کوئی کسر باقی نہ رکھی تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور حبشہ کے بعد پھر مدینہ ہجرت کا حکم فرمایا۔ اور خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حکم خداوندی کے منتظر تھے، جب اللہ نے آپ کو حکم ہجرت دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے ہجرت کا ذکر فرمایا۔ تو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پکار اٹھے :
’’اے اللہ کے رسول مجھے بھی معیت سے نوازئیے۔ ‘‘
ارشاد گرامی ہوا ’الصحبۃ‘ معیت تو ضرور ہو گی اس مصائب والے سفر میں تم میرے ساتھ ہو گے۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں۔
’’بخدا مجھے اس دن سے قبل معلوم نہ تھا کہ کوئی خوشی سے بھی آنسو بہاتا ہے میں نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اس روز روتے دیکھا۔‘‘
اور یوں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو ہجرت کے وقت پیغمبر خدا کا ساتھی ہونے اور یار غار ہونے کا لازوال اعزاز حاصل ہوا اور غار ثور میں تین دن اور تین راتیں متوجہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے اور متوجہ علیہ ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے۔
اللهم صل على سيدنا محمد النبي الأمي
وعلى آلہ وازواجہ واھل بیتہ واصحٰبہ وبارك وسلم.
اللھم ربّنا آمین.
📚 (سيرت ابن هشام، 1 : 485)
💐 جریج کا واقعہ ۔ ۔ ۔
حضرت ابوہریرة رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا '' بنی اسرائیل میں ایک عابد (جس کا نام جریج تھا) اس نے عبادت کیلئے ایک معبد خانہ تعمیر کیا ہوا تھا۔ ایک دن وہ نماز پڑھ رہا تھا کہ اس کی والدہ نے آکر اس کو آواز دی. اے جریج مجھ سے کلام کرو مگر جریج نماز پڑھتا رہا اور دل ہی دل میں سوچا کہ اے ﷲ !(ایک طرف) میری نماز اور دوسری طرف والدہ ہے اب کیا کروں ؟ نماز پڑھتا رہوں یا والدہ کی سنوں؟ (پھر وہ نماز میں ہی مصروف رہا). والدہ نے جب دیکھا کہ جریج نماز میں لگا ہے میری طرف تو توجہ ہی نہیں دے رہا تو وہ چلی گئی. جب دوسرا دن ہوا تو پھر آئی. اتفاق سے اب بھی وہی معاملہ بنا تو وہ لوٹ گئی. تیسرے دن بھی آئی تو اب بھی جریج کو نماز پڑھتے ہوئے پایا. اس نے آواز دے کر بلایا مگر جریج متوجہ نہ ہوا اور ناراض ہوکر چلی گئی اور غصہ میں آکر بدعا دی کہ اے جریج تمہیں اس وقت تک موت نہ آئے جب تک تم کسی بدکار عورت کا منہ نہ دیکھ لو. اس کی دعا قبول ہوگئی. اس کی تعمیل یوں ہوئی کہ ایک دن جریج عبادت میں مصروف تھا کہ ان کی قوم میں سے ایک بری عورت اس کے پاس آئی اور اپنے ساتھ بدکاری کروانے کا جریج سے کہا مگر اس نے انکار کردیا وہ چلی گئی اور ایک چروا ہے سے جاکر اپنی خواہش کی تکمیل کروا لی جس سے وہ حاملہ ہوگئ، تو پھر جب اس نے بچہ جنا تو قوم نے پوچھا یہ کس کا ہے؟ اس نے جریج کا نام لگا دیا ۔ ۔ لوگوں نے غصے میں آکر اس عابد کو بہت مارا اور اس کا عبادت خانہ بھی گرا دیا. جریج نے پوچھا، بھائیوں کیا بات ہے ؟ تم مجھے کیوں مار رہے ہو؟ انہوں نے کہا کہ تم نے اس عورت کے ساتھ بدفعلی کی ہے اور اس نے بچہ جنا ہے ۔۔ جریج نے کہا اس بچے کو میرے پاس لاؤ، لوگ لے آئے جریج نے ﷲ سے دعا کی پھر اس نے بچے کے پیٹ کو ہاتھ سے ٹھونکا اور پوچھا: یا غلام! اے بچے ! من ابوک ؟ تیرا باپ کون ہے ؟ ﷲ نے اس بچے کو قوت گویائی بخشی ۔۔ وہ بولا : '' ابی فلان الراعی'' میرا باپ فلاں بکریوں کا چرواہا ہے. جریج کی یہ کرامت دیکھ کر لوگ بہت شرمندہ ہوئے اور جریج سے معافی مانگی . پھر دریافت کیا کہ اب بتاؤ تمہارا معبد خانہ سونے کا یا چاندی کا بنا دیں. اس نے کہا نہیں بس مٹی کا ہی بنادو ۔ ۔ ۔
(صحیح مسلم)
اس واقعہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے اور ان کی بد دعا سے ہمیشہ بچنا چاہیے. ( یہ بھی یاد رہے کہ اگر والدین ﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کا کہیں تو پھر ان کی نافرمانی جائز ہے)
📚 ''صحیح اسلامی واقعات '' صفحہ نمبر 123-122
حضرت ابوہریرة رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا '' بنی اسرائیل میں ایک عابد (جس کا نام جریج تھا) اس نے عبادت کیلئے ایک معبد خانہ تعمیر کیا ہوا تھا۔ ایک دن وہ نماز پڑھ رہا تھا کہ اس کی والدہ نے آکر اس کو آواز دی. اے جریج مجھ سے کلام کرو مگر جریج نماز پڑھتا رہا اور دل ہی دل میں سوچا کہ اے ﷲ !(ایک طرف) میری نماز اور دوسری طرف والدہ ہے اب کیا کروں ؟ نماز پڑھتا رہوں یا والدہ کی سنوں؟ (پھر وہ نماز میں ہی مصروف رہا). والدہ نے جب دیکھا کہ جریج نماز میں لگا ہے میری طرف تو توجہ ہی نہیں دے رہا تو وہ چلی گئی. جب دوسرا دن ہوا تو پھر آئی. اتفاق سے اب بھی وہی معاملہ بنا تو وہ لوٹ گئی. تیسرے دن بھی آئی تو اب بھی جریج کو نماز پڑھتے ہوئے پایا. اس نے آواز دے کر بلایا مگر جریج متوجہ نہ ہوا اور ناراض ہوکر چلی گئی اور غصہ میں آکر بدعا دی کہ اے جریج تمہیں اس وقت تک موت نہ آئے جب تک تم کسی بدکار عورت کا منہ نہ دیکھ لو. اس کی دعا قبول ہوگئی. اس کی تعمیل یوں ہوئی کہ ایک دن جریج عبادت میں مصروف تھا کہ ان کی قوم میں سے ایک بری عورت اس کے پاس آئی اور اپنے ساتھ بدکاری کروانے کا جریج سے کہا مگر اس نے انکار کردیا وہ چلی گئی اور ایک چروا ہے سے جاکر اپنی خواہش کی تکمیل کروا لی جس سے وہ حاملہ ہوگئ، تو پھر جب اس نے بچہ جنا تو قوم نے پوچھا یہ کس کا ہے؟ اس نے جریج کا نام لگا دیا ۔ ۔ لوگوں نے غصے میں آکر اس عابد کو بہت مارا اور اس کا عبادت خانہ بھی گرا دیا. جریج نے پوچھا، بھائیوں کیا بات ہے ؟ تم مجھے کیوں مار رہے ہو؟ انہوں نے کہا کہ تم نے اس عورت کے ساتھ بدفعلی کی ہے اور اس نے بچہ جنا ہے ۔۔ جریج نے کہا اس بچے کو میرے پاس لاؤ، لوگ لے آئے جریج نے ﷲ سے دعا کی پھر اس نے بچے کے پیٹ کو ہاتھ سے ٹھونکا اور پوچھا: یا غلام! اے بچے ! من ابوک ؟ تیرا باپ کون ہے ؟ ﷲ نے اس بچے کو قوت گویائی بخشی ۔۔ وہ بولا : '' ابی فلان الراعی'' میرا باپ فلاں بکریوں کا چرواہا ہے. جریج کی یہ کرامت دیکھ کر لوگ بہت شرمندہ ہوئے اور جریج سے معافی مانگی . پھر دریافت کیا کہ اب بتاؤ تمہارا معبد خانہ سونے کا یا چاندی کا بنا دیں. اس نے کہا نہیں بس مٹی کا ہی بنادو ۔ ۔ ۔
(صحیح مسلم)
اس واقعہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے اور ان کی بد دعا سے ہمیشہ بچنا چاہیے. ( یہ بھی یاد رہے کہ اگر والدین ﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کا کہیں تو پھر ان کی نافرمانی جائز ہے)
📚 ''صحیح اسلامی واقعات '' صفحہ نمبر 123-122
🐚 سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کی خلافت کے عظیم و لاثانی کارنامے۔
بیاد صدیق اکبر, 22 جمادی الثانی
آج میں جس ہستی کے متعلق لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں وہ اتنی عظیم ہستی ہے کہ میرے جیسے ادنا انسان کو ان کے قدموں کی خاک ہونے کے لئے بھی بے پناہ محبتِ دین، عشقِ رسولﷺ اور عباداتِ الہٰی کی ضرورت ہے۔ یہ وہ ہستی ہیں کہ جن کے محض نام لینے سے ارواح اس قدر لطافت محسوس کرتا ہیں کہ اس کے جہانِ کل کی ہر شے سرورِ عبادت و محبت نظر آتی ہے۔ میں بات کر رہا ہوں حضورِ اقدسﷺ کے رفیق، اسلام کے عظیم جانثار، محرم اسرار نبوت، ثانی اثنین فی لغار سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی۔ آپؓ کا نام عبداللہ، کنیت ابوبکرؓ اور لقب صدیقؓ ہے۔ آپؓ کے والد گرامی کا نام قحافہ تھا۔ آپؓ قبیلہ قریش کی شاخ بنی تمیم سے تعلق رکھتے تھے۔ چھٹی پشت سے آپؓ کا گھرانہ پاک پیغمبر حضرت محمدﷺ سے جا ملتا ہے۔ آپؓ کا گھرانہ زمانہ جاہلیت ہی سے نہایت معزز تھا اور اسلام کے ابتدائی اور ارتقائی ادوار میں تو آپؓ نے وہ عظیم الشان خدمات و قربانیاں سرانجام دیں کہ جن کی مثال نہ تو کبھی آپؓ سے پہلے مل پائی اور نہ ہی رہتی دنیا تک مل پانا ممکن ہے۔ آپؓ کے خاندان کی عظمت کی مثال یہ ہے کہ قریش کے نظام سیاسی میں خون بہا کے مال کی امانتداری کا عہدہ آپؓ ہی کے گھرانے کے ذمہ تھا۔
اسلام سے پہلے حضرت ابو بکر صدیقؓ کا پیشہ تجارت تھا۔ آپؓ ابتداء ہی سے سلیم الفطرت تھے چنانچہ زمانہ جاہلیت میں بھی آپ کا دامن اخلاقِ عرب کے عام مفاسد جیسے شراب نوشی، جوا، پانسے، سود خوری، بددیانتی، ریاکاری وغیرہ سے بالکل پاک تھا اور اسی زمانہ سے لوگوں پر آپؓ کے حسن خلق، راست بازی، متانت اور سنجیدگی کا سکہ بیٹھا ہوا تھا اور شرفائے مکہ میں آپؓ کو بڑی عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ آپؓ تقریباً آنحصرتﷺ کے ہم عصر تھے۔ طبیعت کی یکسانیت و سنجیدگی کی وجہ سے بچپن ہی سے دونوں میں گہرے تعلقات و روابط استوار ہو گئے تھے۔ انہی روابط کی بنا پر دونوں ایک دوسرے کی سیرت اور اخلاق و عادات سے اچھی طرح واقفیت رکھتے تھے۔ چنانچہ جس وقت آنحضرتﷺ نے پہلی مرتبہ اسلام کی دعوت دی تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بغیر کسی ہچکچاہٹ، بنا کسی شک و شبہ کے اس کی تصدیق کی۔ مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد آپؓ نے اسلام کی تبلیغ میں آپﷺ کے دست راست بن گئے اور راہِ خدا میں جان و مال، عزت و آبرو سب کچھ نثار کر دیا۔ یہاں تک کہ میدانِ جنگ میں بھی کوئی دوسرا صحابیؓ آپؓ سے بازی نہ لے جا سکا۔ بعض مواقع پر گھر کا سارا اثاثہ خدا کی راہ میں دے دیا، جب حضورِ اقدسﷺ نے پوچھا کہ کچھ اہل و عیال کے لئے بھی چھوڑا ہے؟ تو عرض کیا ان کے لئے اللہ اور اس کا رسولﷺ ہی کافی ہے۔ (ترمذی مناقب ابی بکر)
کسی صحابیؓ کی اسلامی خدمات آپؓ کے برابر نہیں۔ ان کی مختصر فہرست یہ ہے کہ قریش کے سن رسیدہ لوگوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا، مکہ کی پر خطر اور مظلومیت کی زندگی کے ہر مرحلہ میں آنحضرتﷺ کے پشت پناہ رہے، تبلیغ اسلام میں آپﷺ کی رفاقت کرتے رہے، جہاں حضور اکرمﷺ تشریف لے جاتے، انہیں ساتھ لے جاتے اور دونوں اپنے جانے والوں سے ایک دوسرے کا تعارف کرواتے۔ (کنز العمال)۔حضرت عثمانؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ اور حضرت عثمان بن مظعونؓ جیسے اکابر صحابہؓ آپؓ کی کوششوں سے مشرف بہ اسلام ہوئے۔ (بخاری، باب مانفٰی النبیؐ و اصحاب من الشرکین)۔ الغرض آغازِ اسلام سے لے کر وفاتِ نبوی ؐ تک ہر مرحلہ میں حضرت ابوبکر صدیقؓ نے آنحضرتﷺ کی جانثارانہ رفاقت کی۔ آپؓ پر انؓ کی قربانیوں کا اتنا اثر تھا کہ فرماتے تھے کہ ’’جان و مال کے لحاظ سے مجھ پر ابوبکر کے سوا کسی کا حق نہیں‘‘۔ (بخاری باب فضائل ابی بکر)۔
حضور اقدسﷺ کی حیاتِ طیبہ میں آپؓ ہمہ وقت آپﷺ کے ساتھی و ہمنوا تھے۔ لیکن اصل امتحان حضورﷺ کے رحلت فرما جانے کے بعد شروع ہوا۔ آپﷺ کا اس دنیا سے رحلت فرما جانا ہی آپؓ کے لئے اتنا بڑا صدمہ تھا کہ پہاڑ ٹوٹ پڑا ہو کہ اس آفت ناگہانی پر صبر کی کوئی صورت نظر نہ آتی ہو، لیکن اس صورت میں بھی آپؓ کو خلافت کی ذمہ داری اٹھانا پڑی، آپؓ ابھی غم و دکھ کی شدید کیفیت سے گزر رہے تھے اور پاک پیغمبر کی تجہیز و تدفین بھی نہ ہوئی تھی کہ سقیفہ بنی ساعدہ کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا۔ اگر بغور جائزہ لیا جائے تو سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی جدوجہد اسلام کا حقیقی دور پاک پیغمبرﷺ کے اس دنیا سے رحلت فرما جانے کے بعد شروع ہوا کیونکہ حضور اکرمﷺ کی صحبتِ طیبہ میں رہتے ہوئے تو پاکیزگی و راست بازی و جانثاری کا عالم ایک بندہ خدا کے لئے بجا سی بات ہے لیکن آپﷺ کے نہ موجود ہوتے ہوئے اپنی خصوصیات کو برقرار رکھنا اور خدمات پر جمے رہنا اور عظیم الشان کارنامے سرانجام دینا بہت بڑی بات ہے۔
رحلتِ محبوبِ خداﷺ کے بعد جو سب سے پہلی مشکل پیش آئی اسے تاریخ میں سقیفہ بنی ساعدہ کے نام سے رقم کیا گیا ہے۔ مدینہ میں منافقوں کی جماعت جن کا اچعار دوستی کے پردہ میں اسلام کا
بیاد صدیق اکبر, 22 جمادی الثانی
آج میں جس ہستی کے متعلق لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں وہ اتنی عظیم ہستی ہے کہ میرے جیسے ادنا انسان کو ان کے قدموں کی خاک ہونے کے لئے بھی بے پناہ محبتِ دین، عشقِ رسولﷺ اور عباداتِ الہٰی کی ضرورت ہے۔ یہ وہ ہستی ہیں کہ جن کے محض نام لینے سے ارواح اس قدر لطافت محسوس کرتا ہیں کہ اس کے جہانِ کل کی ہر شے سرورِ عبادت و محبت نظر آتی ہے۔ میں بات کر رہا ہوں حضورِ اقدسﷺ کے رفیق، اسلام کے عظیم جانثار، محرم اسرار نبوت، ثانی اثنین فی لغار سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی۔ آپؓ کا نام عبداللہ، کنیت ابوبکرؓ اور لقب صدیقؓ ہے۔ آپؓ کے والد گرامی کا نام قحافہ تھا۔ آپؓ قبیلہ قریش کی شاخ بنی تمیم سے تعلق رکھتے تھے۔ چھٹی پشت سے آپؓ کا گھرانہ پاک پیغمبر حضرت محمدﷺ سے جا ملتا ہے۔ آپؓ کا گھرانہ زمانہ جاہلیت ہی سے نہایت معزز تھا اور اسلام کے ابتدائی اور ارتقائی ادوار میں تو آپؓ نے وہ عظیم الشان خدمات و قربانیاں سرانجام دیں کہ جن کی مثال نہ تو کبھی آپؓ سے پہلے مل پائی اور نہ ہی رہتی دنیا تک مل پانا ممکن ہے۔ آپؓ کے خاندان کی عظمت کی مثال یہ ہے کہ قریش کے نظام سیاسی میں خون بہا کے مال کی امانتداری کا عہدہ آپؓ ہی کے گھرانے کے ذمہ تھا۔
اسلام سے پہلے حضرت ابو بکر صدیقؓ کا پیشہ تجارت تھا۔ آپؓ ابتداء ہی سے سلیم الفطرت تھے چنانچہ زمانہ جاہلیت میں بھی آپ کا دامن اخلاقِ عرب کے عام مفاسد جیسے شراب نوشی، جوا، پانسے، سود خوری، بددیانتی، ریاکاری وغیرہ سے بالکل پاک تھا اور اسی زمانہ سے لوگوں پر آپؓ کے حسن خلق، راست بازی، متانت اور سنجیدگی کا سکہ بیٹھا ہوا تھا اور شرفائے مکہ میں آپؓ کو بڑی عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ آپؓ تقریباً آنحصرتﷺ کے ہم عصر تھے۔ طبیعت کی یکسانیت و سنجیدگی کی وجہ سے بچپن ہی سے دونوں میں گہرے تعلقات و روابط استوار ہو گئے تھے۔ انہی روابط کی بنا پر دونوں ایک دوسرے کی سیرت اور اخلاق و عادات سے اچھی طرح واقفیت رکھتے تھے۔ چنانچہ جس وقت آنحضرتﷺ نے پہلی مرتبہ اسلام کی دعوت دی تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بغیر کسی ہچکچاہٹ، بنا کسی شک و شبہ کے اس کی تصدیق کی۔ مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد آپؓ نے اسلام کی تبلیغ میں آپﷺ کے دست راست بن گئے اور راہِ خدا میں جان و مال، عزت و آبرو سب کچھ نثار کر دیا۔ یہاں تک کہ میدانِ جنگ میں بھی کوئی دوسرا صحابیؓ آپؓ سے بازی نہ لے جا سکا۔ بعض مواقع پر گھر کا سارا اثاثہ خدا کی راہ میں دے دیا، جب حضورِ اقدسﷺ نے پوچھا کہ کچھ اہل و عیال کے لئے بھی چھوڑا ہے؟ تو عرض کیا ان کے لئے اللہ اور اس کا رسولﷺ ہی کافی ہے۔ (ترمذی مناقب ابی بکر)
کسی صحابیؓ کی اسلامی خدمات آپؓ کے برابر نہیں۔ ان کی مختصر فہرست یہ ہے کہ قریش کے سن رسیدہ لوگوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا، مکہ کی پر خطر اور مظلومیت کی زندگی کے ہر مرحلہ میں آنحضرتﷺ کے پشت پناہ رہے، تبلیغ اسلام میں آپﷺ کی رفاقت کرتے رہے، جہاں حضور اکرمﷺ تشریف لے جاتے، انہیں ساتھ لے جاتے اور دونوں اپنے جانے والوں سے ایک دوسرے کا تعارف کرواتے۔ (کنز العمال)۔حضرت عثمانؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ اور حضرت عثمان بن مظعونؓ جیسے اکابر صحابہؓ آپؓ کی کوششوں سے مشرف بہ اسلام ہوئے۔ (بخاری، باب مانفٰی النبیؐ و اصحاب من الشرکین)۔ الغرض آغازِ اسلام سے لے کر وفاتِ نبوی ؐ تک ہر مرحلہ میں حضرت ابوبکر صدیقؓ نے آنحضرتﷺ کی جانثارانہ رفاقت کی۔ آپؓ پر انؓ کی قربانیوں کا اتنا اثر تھا کہ فرماتے تھے کہ ’’جان و مال کے لحاظ سے مجھ پر ابوبکر کے سوا کسی کا حق نہیں‘‘۔ (بخاری باب فضائل ابی بکر)۔
حضور اقدسﷺ کی حیاتِ طیبہ میں آپؓ ہمہ وقت آپﷺ کے ساتھی و ہمنوا تھے۔ لیکن اصل امتحان حضورﷺ کے رحلت فرما جانے کے بعد شروع ہوا۔ آپﷺ کا اس دنیا سے رحلت فرما جانا ہی آپؓ کے لئے اتنا بڑا صدمہ تھا کہ پہاڑ ٹوٹ پڑا ہو کہ اس آفت ناگہانی پر صبر کی کوئی صورت نظر نہ آتی ہو، لیکن اس صورت میں بھی آپؓ کو خلافت کی ذمہ داری اٹھانا پڑی، آپؓ ابھی غم و دکھ کی شدید کیفیت سے گزر رہے تھے اور پاک پیغمبر کی تجہیز و تدفین بھی نہ ہوئی تھی کہ سقیفہ بنی ساعدہ کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا۔ اگر بغور جائزہ لیا جائے تو سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی جدوجہد اسلام کا حقیقی دور پاک پیغمبرﷺ کے اس دنیا سے رحلت فرما جانے کے بعد شروع ہوا کیونکہ حضور اکرمﷺ کی صحبتِ طیبہ میں رہتے ہوئے تو پاکیزگی و راست بازی و جانثاری کا عالم ایک بندہ خدا کے لئے بجا سی بات ہے لیکن آپﷺ کے نہ موجود ہوتے ہوئے اپنی خصوصیات کو برقرار رکھنا اور خدمات پر جمے رہنا اور عظیم الشان کارنامے سرانجام دینا بہت بڑی بات ہے۔
رحلتِ محبوبِ خداﷺ کے بعد جو سب سے پہلی مشکل پیش آئی اسے تاریخ میں سقیفہ بنی ساعدہ کے نام سے رقم کیا گیا ہے۔ مدینہ میں منافقوں کی جماعت جن کا اچعار دوستی کے پردہ میں اسلام کا
شیرازہ بکھیرنا تھا، ہمیشہ سے موجود تھی اور ہر موقع پر انی اسلام دشمنی کا ثبوت دیتی تھی۔ چونکہ رسول اللہﷺ نے کسی کو اپنا جانشین نامزد نہیں فرمایا تھا اس لئے آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد اس جماعت کو فتنہ انگیزی کا موقع مل گیا۔ چنانچہ آپﷺ کی وفات کے بعد تجہیز و تکفین سے پہلے ہی منافقین کی سازش سے آپﷺ کی جانشینی کا مسئلہ چھڑ گیا اور انصار نے سقیفہ بن ساعدہ میں جمع ہو کر جانشینی کا دعویٰ کیا۔ یہ مسئلہ ایسے نازک وقت چھڑا تھا کہ اگر فوراً اس کا تدارک نہ کیا جاتا تو بڑی نازک صورتحال پیدا ہو جاتی۔ لیکن حضرت ابوبکرؓ کو بروقت اس کی اطلاع ہو گئی اور آپؓ فوراً حضرت عمرؓ اور امین الامت حضرت ابو عبیدہؓ بن جراح کو ساتھ لے کر سقیفہ بنی ساعدہ پہنچے، یہاں دیکھا تو دوسرا ہی گل کھلا ہوا تھا، انصار مدعی تھے کہ آنحضرتؐ کی جانشینی میں انہیں بھی حصہ ملنا چاہئے اور قریش کے ساتھ ان کی جماعت کا بھی ایک امیر نائب الرسولؐ ہونا چاہئے لیکن ایک شخص کے دو جانشین ہونے کے نتائج بالکل ظاہر ہیں اس لئے اس صورت کو قبول کرنے کے معنی خود اپنے ہاتھوں سے اسلامی نظام درہم برہم کرنے کے تھے۔ یہ ہو سکتا تھا کہ تنہا انصاریوں کو ہی یہ منصب مل جاتا لیکن اس میں دقت تھی کہ اولاً قریش خود قریش، پھر دوسرے عرب قبائل قریش کے علاوہ اور کسی خاندان کے سامنے سر نہیں جھکا سکتے تھے۔ پھر انصاریوں میں اوس و خزاج دو مقابل جماعتیں موجود تھیں، ان میں سے جسے بھی یہ منصب دیا جاتا دوسرا اسے قبول نہ کرتا اور پھر نتیجتاً مواخاتِ مدینہ کے ذریعے اوس و خزاج کے درمیان جس لڑائی جھگڑے کو ختم کر کے مواخات کا رشتہ قائم کیا گیا تھا، وہ پھر سے جنم لے لیتا اور یوں اسلامی مملکت میں ایک نیا فساد برپا ہو جاتا اور اسلامی انقلاب درہم برہم ہو کر رہ جاتا۔
اس نازک موقع پر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے نہایت نرمی و آشتی اور تحمل سے کام لیتے ہوئے انصار کو سمجھایا اور یہ بااثر تقریر کی، ’’ مجھے تم لوگوں کے فضائل و مناقب اور تمہاری خدماتِ اسلامی سے انکار نہیں لیکن عرب، قریش کے علاوہ اور کسی خاندان کی قیادت تسلیم نہیں کر سکتے، پھر مہاجرین اپنے تقدم فی الاسلام اور آنحضرتﷺ کے ساتھ خاندانی تعلق کی بنا پر آپؐ کی جانشینی کے زیادہ مستحق ہیں۔ یہ ابو عبیدہؓ اور عمر بن الخطاب ؓ موجود ہیں، ان میں سے جس کے ہاتھ چاہو بیعت کر لو‘‘۔ یہ سنتے ہی حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر فرمایا ’’آپ ہم سب میں بزرگ ہیں، ہم سب میں بہتر اور رسولؐ اللہ کے سب سے مقرب ہیں، اس لئے ہم آپؓ کے ہاتھوں پر بیعت کرتے ہیں‘‘۔ (بخاری ج 1، ص518)
حضرت ابوبکرؓ کی شخصیت ہر جماعت میں ایسی محترم تھی کہ اس انتخاب پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا تھا۔ چنانچہ حضرت عمرؓ کی بیعت کے ساتھ مسلمان بیعت کے لئے ٹوٹ پڑے اور ابوبکرؓ کی برمحل تقریر اور بیعت میں حضرت عمر ؓ کی پیش قدمی سے ایک زبردست انقلاب ہوتے ہوئے بچ گیا۔ اس کے دوسرے دن مسجد نبویؐ میں عام بیعت ہوئی اور ربیع الاول 11ھ میں حضرت ابوبکرؓ سند خلافت پر متمکن ہوئے۔ بیعت عام کے بعد آپؓ نے حسبِ ذیل تقریر فرمائی:۔
’’لوگو! میں تم پر حاکم بنایا گیا ہوں حالانکہ میں تمہاری جماعت میں سے بہتر نہیں ہوں۔ اگر میں اچھا کام کروں تو میری اطاعت کرو اور اگر کچ روی اختیار کروں تو سیدھا کر دو۔ سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت۔ تمہارا ضعیف فرد بھی میرے نزدیک قوی ہے یہاں تک کہ میں دوسروں سے اس کا حق اس کو نہ دلا دوں اور تمہارا قوی شخص بھی میرے نزدیک ضعیف ہے یہاں تک میں اس سے دوسروں کا حق نہ حاصل کر لوں۔ یاد رکھو! جو قوم جہاد فی سبیل اللہ چھوڑ دیتی ہے خدا اس کو ذلیل و خوار کر دیتا ہے اور جس قوم میں بدکاری پھیل جاتی ہے خدا اس کو مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اگر میں خدا اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کروں تو میری اطاعت کرو اور ان کی نافرمانی کروں تو تم پر میری اطاعت لازم نہیں‘‘۔ (طبقاتِ ابن سعد)
اس طرح ایک فتنہ کا تدارک کرتے ہوئے حضرت ابوبکرؓ نے خلافت سنبھالی، تاریخ گواہ ہے کہ آپؓ کا اپنا ذاتی ارادہ یا خلافت کے لئے ذاتی پسندیدگی کسی صورت بھی نہ تھی۔ آج مسلمین کے بعض مکاتبِ فکر کا یہ کہنا ہے کہ سقیفہ میں ہونے والی سازش میں خود سیدنا ابوبکرؓ و عمرؓ بذاتِ خود شامل تھے جو کہ سراسر غلط اور قطعاً ناجائز ہے۔ یہ گھٹیا فعل آپؓ کے ذمہ اس لئے عائد کیا جاتا ہے کہ آپؓ حضرات وہاں پر موجود تھے لیکن اس بات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ آپؓ وہاں فتنہ کے تدارک کے لئے موجود تھے نہ کہ خود شمولیت کی غرض سے۔ اور آپؓ نے خلافت سنبھالی وقت کی نزاکت اور سنگین حالات کو نظر میں رکھتے ہوئے نہ کہ ذاتی خوشنودی کے لئے۔ اور تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اگر اس نازک دور میں ملت اسلامیہ کو صدیقِ اکبرؓ جیسا رہنما نہ ملتا تو امت مسلمہ کا شیرازہ بکھر کر رہ جاتا اور اسلام کے نام لیواؤں میں سے صرف چند ایک باقی رہتے، دنیا کے کسی ایک کونہ میں پوشیدگی سے اسلامی قوانین پر عمل پیرا ہوتے،
اس نازک موقع پر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے نہایت نرمی و آشتی اور تحمل سے کام لیتے ہوئے انصار کو سمجھایا اور یہ بااثر تقریر کی، ’’ مجھے تم لوگوں کے فضائل و مناقب اور تمہاری خدماتِ اسلامی سے انکار نہیں لیکن عرب، قریش کے علاوہ اور کسی خاندان کی قیادت تسلیم نہیں کر سکتے، پھر مہاجرین اپنے تقدم فی الاسلام اور آنحضرتﷺ کے ساتھ خاندانی تعلق کی بنا پر آپؐ کی جانشینی کے زیادہ مستحق ہیں۔ یہ ابو عبیدہؓ اور عمر بن الخطاب ؓ موجود ہیں، ان میں سے جس کے ہاتھ چاہو بیعت کر لو‘‘۔ یہ سنتے ہی حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر فرمایا ’’آپ ہم سب میں بزرگ ہیں، ہم سب میں بہتر اور رسولؐ اللہ کے سب سے مقرب ہیں، اس لئے ہم آپؓ کے ہاتھوں پر بیعت کرتے ہیں‘‘۔ (بخاری ج 1، ص518)
حضرت ابوبکرؓ کی شخصیت ہر جماعت میں ایسی محترم تھی کہ اس انتخاب پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا تھا۔ چنانچہ حضرت عمرؓ کی بیعت کے ساتھ مسلمان بیعت کے لئے ٹوٹ پڑے اور ابوبکرؓ کی برمحل تقریر اور بیعت میں حضرت عمر ؓ کی پیش قدمی سے ایک زبردست انقلاب ہوتے ہوئے بچ گیا۔ اس کے دوسرے دن مسجد نبویؐ میں عام بیعت ہوئی اور ربیع الاول 11ھ میں حضرت ابوبکرؓ سند خلافت پر متمکن ہوئے۔ بیعت عام کے بعد آپؓ نے حسبِ ذیل تقریر فرمائی:۔
’’لوگو! میں تم پر حاکم بنایا گیا ہوں حالانکہ میں تمہاری جماعت میں سے بہتر نہیں ہوں۔ اگر میں اچھا کام کروں تو میری اطاعت کرو اور اگر کچ روی اختیار کروں تو سیدھا کر دو۔ سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت۔ تمہارا ضعیف فرد بھی میرے نزدیک قوی ہے یہاں تک کہ میں دوسروں سے اس کا حق اس کو نہ دلا دوں اور تمہارا قوی شخص بھی میرے نزدیک ضعیف ہے یہاں تک میں اس سے دوسروں کا حق نہ حاصل کر لوں۔ یاد رکھو! جو قوم جہاد فی سبیل اللہ چھوڑ دیتی ہے خدا اس کو ذلیل و خوار کر دیتا ہے اور جس قوم میں بدکاری پھیل جاتی ہے خدا اس کو مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اگر میں خدا اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کروں تو میری اطاعت کرو اور ان کی نافرمانی کروں تو تم پر میری اطاعت لازم نہیں‘‘۔ (طبقاتِ ابن سعد)
اس طرح ایک فتنہ کا تدارک کرتے ہوئے حضرت ابوبکرؓ نے خلافت سنبھالی، تاریخ گواہ ہے کہ آپؓ کا اپنا ذاتی ارادہ یا خلافت کے لئے ذاتی پسندیدگی کسی صورت بھی نہ تھی۔ آج مسلمین کے بعض مکاتبِ فکر کا یہ کہنا ہے کہ سقیفہ میں ہونے والی سازش میں خود سیدنا ابوبکرؓ و عمرؓ بذاتِ خود شامل تھے جو کہ سراسر غلط اور قطعاً ناجائز ہے۔ یہ گھٹیا فعل آپؓ کے ذمہ اس لئے عائد کیا جاتا ہے کہ آپؓ حضرات وہاں پر موجود تھے لیکن اس بات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ آپؓ وہاں فتنہ کے تدارک کے لئے موجود تھے نہ کہ خود شمولیت کی غرض سے۔ اور آپؓ نے خلافت سنبھالی وقت کی نزاکت اور سنگین حالات کو نظر میں رکھتے ہوئے نہ کہ ذاتی خوشنودی کے لئے۔ اور تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اگر اس نازک دور میں ملت اسلامیہ کو صدیقِ اکبرؓ جیسا رہنما نہ ملتا تو امت مسلمہ کا شیرازہ بکھر کر رہ جاتا اور اسلام کے نام لیواؤں میں سے صرف چند ایک باقی رہتے، دنیا کے کسی ایک کونہ میں پوشیدگی سے اسلامی قوانین پر عمل پیرا ہوتے،
اسلام عالم میں عالم اسلام کے طور پر پھیلا نہ ہوتا۔
سند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد حضرت ابوبکرؓ درپیش مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ان سبھی کا ذکر تو محال ہے چند کا تذکرہ حسب ذیل ہے۔
حضورﷺ کی وفات کے بعد آپؓ خلافت پر متمکن ہوئے تو مہاجرین و انصار نے سر تسلیم خم کر لیا تاہم سعد بن عبادہؓ جن کو خلیفہ بنانے کی تجاویز تھیں، نے بیعت نہیں کی۔ اکابرین بنو امیہ جو فتح مکہ کے موقع پر ایمان لائے تھے، قبائلی تعصب اور نسلی تفاخر کو ہوا دے رہے تھے چنانچہ ابو سفیان نے حضرت علیؓ کے پاس آ کر کہا، ’’ یہ کیا غضب ہو گیا، قریش کے سب سے چھوٹے قبیلے کا آدمی کس طرح خلیفہ بنا دیا گیا؟ اے علی! اگر تم چاہو تو خدا کی قسم میں اس وادی کو سواروں اور پیادوں سے بھر دوں‘‘۔ مگر حضرت علیؓ نے جواب دیا، ’’اے ابو سفیان! تم ساری زندگی اسلام اور اہلِ اسلام سے دشمنی کرتے رہے مگر تمہاری دشمنی سے نہ اسلام کا کچھ بگڑا اور نہ اہل اسلام کا۔ ہم ابوبکرؓ کو اس منصب کا اہم سمجھتے ہیں‘‘۔ (صدیقِ اکبرؓ از مولانا سید احمد الہ آبادی)
یعنی مسلمانوں میں ہی ایسے عناصر موجود تھے جو اتحاد مسلمین کا شیرازہ منشر کرنا چاہتے تھے لہذا آغاز خلافت ہی سے جناب صدیقِ اکبرؓ غیر معمولی عزم و استقلال اور احتیاط سے کام لیتے ہوئے داخلی انتشار پر قابو پانا تھا۔ نبی اکرمﷺ کے پردہ فرما جانے کے بعد ایک ایسا خلا پیدا ہو گیا تھا جسے پر کرنا ناممکنات میں سے تھا۔ خود مومنین اس حادثہ ناگہاں سے ہراساں و پریشان تھے۔ اس حادثہ عظمیٰ کا کسی کو یقین نہیں آ رہا تھا۔ قبائل عرب تک جب یہ خبر پہنچی تو نو مسلم بدو اسلام سے منحرف ہونے لگے۔ مرکز سے دور قبائلی سرداروں نے مرکزی حکومت سے علیحدگی کا زرین موقع جانتے ہوئے صنم پرستی پر غور کرنا شروع کر دیا۔ بعض روایات کے مطابق مکہ اور طائف میں ارتداد کی تیاریاں ہونے لگیں۔ مرتدین کی ایک جماعت صریحاً یعنی کھلم کھلا، مکمل طور پر اسلام سے منحرف نہیں ہوئی تھی البتہ انہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ارشاد ربانی’’ خذ من اموالھم صدقۃ تطھرھم و تزکیھم بھا‘‘ سورۃ الخ کے مطابق صرف خدا کے رسول ؐ کو ان سے زکوٰۃ لینے کا حق تھا اور اب ان کی وفات کے بعد یہ حق کسی اور کو حاصل نہیں۔
آنحضرتﷺ کی حیات مبارکہ میں ہی نصاری شام کے تصادم کا آغاز ہو گیا تھا۔ جنگ موتہ اور غزوہ تبوک میں عیسائیوں نے شوکت و شجاعتِ اسلام کا اندازہ کر لیا تھا لیکن رومی سلطنت کی پشت پناہی اور تائید کی وجہ سے ان کے جارحانہ عزائم ابھی خاک آلود نہ ہوئے تھے۔ آنحضرت ؐ نے اس فتنہ کے استحصال کے لئے حضرت اسامہ بن زیدؓ کی سربراہی میں ایک لشکر شام کی جانب روانہ فرمایا مگر یہ لشکر رسالت ماب ؐ کے وصال کی خبر سن کر واپس لوٹ آیا۔ المختصر مصائب و مسائل کا پہاڑ جو خلیفہ رسول ؓ کی آنکھوں کے سامنے کھڑا تھا اور اگر بر وقت ان سب کا تدارک نہ کیا جاتا تو اسلام عالم میں نہ پھیل پاتا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا بیان ہے کہ ’’حضور ؐ کے وصال کے بعد ہم مسلمانوں کو ایسے حالات سے سابقہ پڑا کہ اگر اللہ تعالیٰ ہم لوگوں کو ابوبکرؓ عطا نہ کرتے تو ہم لوگ ہلاک ہو جاتے‘‘۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ’’رسول ؐخدا کا وصال ہوا اور میرے باپؓ پر ایسے مصائب و حوادث ٹوٹ پڑے کہ وہ حوادث بڑے بڑے مضبوط پہاڑوں پر پڑتے تو وہ پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتے‘‘۔ لیکن حضور اکرم ؐ جیسے ساتھی کی جدائی کے غم کے باوجود آپؓ نے تمام عزم و استقلال کو یکجا کیا اور تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے خندہ پیشانی سے نہ صرف مقابلہ کیا بلکہ انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ حضرت اسامہؓ کی سربراہی میں وہ لشکر جو حضور اکرم ؐ نے شام میں بغاوت کو فرو کرنے لے لئے بھیجا تھا وہ لشکر وصال رسول ؐ کی خبر سن کر مقام جرف سے واپس آگیا تھا، حضرت ابوبکرؓ سب سے پہلے اس لشکر کی روانگی چاہتے تھے چونکہ مدینہ باغیوں کی زد میں تھا اس لئے بعض صحابہ اکرامؓ کی رائے یہ تھی کہ اس لشکر کی روانگی فی الحال ملتوی کر دی جائے۔ پھر یہ بھی کہا گیا کہ مدینہ میں حضور اکرمؐ کی ازواج مطہرات ہیں اس لئے ان کی حفاظت کے خیال سے بھی مدینے کو مہاجرین سے خالی نہیں کرنا چاہئے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کو اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے (آمین) یہ انہی کی شان تھی، فرمایا کہ ’’لشکروں کی اس طرح روانگی سے اگر مجھے یقین ہو جائے کہ مدینہ خالی ہو جائے گا اور یہاں تنہا رہ جاؤں گا، درندے حضورؓ کی ازواج مطہرات کی نعشوں کو مدینے کی گلیوں میں گھسیٹتے پھریں گے تو پھر بھی اپنے عزم سے باز نہیں آؤں گا‘‘۔ اس کے بعد حضرت عمر فاروقؓ نے انصار کے ایما پر یہ کہا کہ ’’اگر لشکر کو بھیجنے کا فیصلہ فرما ہی چکے ہیں تو اس لشکر میں تجربہ کار اور سن رسیدہ صحابہؓ موجود ہیں، تو آپؓ بجائے اسامہؓ کے کسی اور کو امیر لشکر مقرر فرمائیں‘‘ تو اس پر غصے میں فرمایا: ’’اے خطاب کے بیٹے! جس شخص کو امیر لشکر حضورؓ نے مقرر فرمایا ہو، ابوبکرؓ کی مجال نہیں کہ اس کو تبدیل کرے‘‘۔
سند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد حضرت ابوبکرؓ درپیش مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ان سبھی کا ذکر تو محال ہے چند کا تذکرہ حسب ذیل ہے۔
حضورﷺ کی وفات کے بعد آپؓ خلافت پر متمکن ہوئے تو مہاجرین و انصار نے سر تسلیم خم کر لیا تاہم سعد بن عبادہؓ جن کو خلیفہ بنانے کی تجاویز تھیں، نے بیعت نہیں کی۔ اکابرین بنو امیہ جو فتح مکہ کے موقع پر ایمان لائے تھے، قبائلی تعصب اور نسلی تفاخر کو ہوا دے رہے تھے چنانچہ ابو سفیان نے حضرت علیؓ کے پاس آ کر کہا، ’’ یہ کیا غضب ہو گیا، قریش کے سب سے چھوٹے قبیلے کا آدمی کس طرح خلیفہ بنا دیا گیا؟ اے علی! اگر تم چاہو تو خدا کی قسم میں اس وادی کو سواروں اور پیادوں سے بھر دوں‘‘۔ مگر حضرت علیؓ نے جواب دیا، ’’اے ابو سفیان! تم ساری زندگی اسلام اور اہلِ اسلام سے دشمنی کرتے رہے مگر تمہاری دشمنی سے نہ اسلام کا کچھ بگڑا اور نہ اہل اسلام کا۔ ہم ابوبکرؓ کو اس منصب کا اہم سمجھتے ہیں‘‘۔ (صدیقِ اکبرؓ از مولانا سید احمد الہ آبادی)
یعنی مسلمانوں میں ہی ایسے عناصر موجود تھے جو اتحاد مسلمین کا شیرازہ منشر کرنا چاہتے تھے لہذا آغاز خلافت ہی سے جناب صدیقِ اکبرؓ غیر معمولی عزم و استقلال اور احتیاط سے کام لیتے ہوئے داخلی انتشار پر قابو پانا تھا۔ نبی اکرمﷺ کے پردہ فرما جانے کے بعد ایک ایسا خلا پیدا ہو گیا تھا جسے پر کرنا ناممکنات میں سے تھا۔ خود مومنین اس حادثہ ناگہاں سے ہراساں و پریشان تھے۔ اس حادثہ عظمیٰ کا کسی کو یقین نہیں آ رہا تھا۔ قبائل عرب تک جب یہ خبر پہنچی تو نو مسلم بدو اسلام سے منحرف ہونے لگے۔ مرکز سے دور قبائلی سرداروں نے مرکزی حکومت سے علیحدگی کا زرین موقع جانتے ہوئے صنم پرستی پر غور کرنا شروع کر دیا۔ بعض روایات کے مطابق مکہ اور طائف میں ارتداد کی تیاریاں ہونے لگیں۔ مرتدین کی ایک جماعت صریحاً یعنی کھلم کھلا، مکمل طور پر اسلام سے منحرف نہیں ہوئی تھی البتہ انہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ارشاد ربانی’’ خذ من اموالھم صدقۃ تطھرھم و تزکیھم بھا‘‘ سورۃ الخ کے مطابق صرف خدا کے رسول ؐ کو ان سے زکوٰۃ لینے کا حق تھا اور اب ان کی وفات کے بعد یہ حق کسی اور کو حاصل نہیں۔
آنحضرتﷺ کی حیات مبارکہ میں ہی نصاری شام کے تصادم کا آغاز ہو گیا تھا۔ جنگ موتہ اور غزوہ تبوک میں عیسائیوں نے شوکت و شجاعتِ اسلام کا اندازہ کر لیا تھا لیکن رومی سلطنت کی پشت پناہی اور تائید کی وجہ سے ان کے جارحانہ عزائم ابھی خاک آلود نہ ہوئے تھے۔ آنحضرت ؐ نے اس فتنہ کے استحصال کے لئے حضرت اسامہ بن زیدؓ کی سربراہی میں ایک لشکر شام کی جانب روانہ فرمایا مگر یہ لشکر رسالت ماب ؐ کے وصال کی خبر سن کر واپس لوٹ آیا۔ المختصر مصائب و مسائل کا پہاڑ جو خلیفہ رسول ؓ کی آنکھوں کے سامنے کھڑا تھا اور اگر بر وقت ان سب کا تدارک نہ کیا جاتا تو اسلام عالم میں نہ پھیل پاتا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا بیان ہے کہ ’’حضور ؐ کے وصال کے بعد ہم مسلمانوں کو ایسے حالات سے سابقہ پڑا کہ اگر اللہ تعالیٰ ہم لوگوں کو ابوبکرؓ عطا نہ کرتے تو ہم لوگ ہلاک ہو جاتے‘‘۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ’’رسول ؐخدا کا وصال ہوا اور میرے باپؓ پر ایسے مصائب و حوادث ٹوٹ پڑے کہ وہ حوادث بڑے بڑے مضبوط پہاڑوں پر پڑتے تو وہ پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتے‘‘۔ لیکن حضور اکرم ؐ جیسے ساتھی کی جدائی کے غم کے باوجود آپؓ نے تمام عزم و استقلال کو یکجا کیا اور تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے خندہ پیشانی سے نہ صرف مقابلہ کیا بلکہ انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ حضرت اسامہؓ کی سربراہی میں وہ لشکر جو حضور اکرم ؐ نے شام میں بغاوت کو فرو کرنے لے لئے بھیجا تھا وہ لشکر وصال رسول ؐ کی خبر سن کر مقام جرف سے واپس آگیا تھا، حضرت ابوبکرؓ سب سے پہلے اس لشکر کی روانگی چاہتے تھے چونکہ مدینہ باغیوں کی زد میں تھا اس لئے بعض صحابہ اکرامؓ کی رائے یہ تھی کہ اس لشکر کی روانگی فی الحال ملتوی کر دی جائے۔ پھر یہ بھی کہا گیا کہ مدینہ میں حضور اکرمؐ کی ازواج مطہرات ہیں اس لئے ان کی حفاظت کے خیال سے بھی مدینے کو مہاجرین سے خالی نہیں کرنا چاہئے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کو اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے (آمین) یہ انہی کی شان تھی، فرمایا کہ ’’لشکروں کی اس طرح روانگی سے اگر مجھے یقین ہو جائے کہ مدینہ خالی ہو جائے گا اور یہاں تنہا رہ جاؤں گا، درندے حضورؓ کی ازواج مطہرات کی نعشوں کو مدینے کی گلیوں میں گھسیٹتے پھریں گے تو پھر بھی اپنے عزم سے باز نہیں آؤں گا‘‘۔ اس کے بعد حضرت عمر فاروقؓ نے انصار کے ایما پر یہ کہا کہ ’’اگر لشکر کو بھیجنے کا فیصلہ فرما ہی چکے ہیں تو اس لشکر میں تجربہ کار اور سن رسیدہ صحابہؓ موجود ہیں، تو آپؓ بجائے اسامہؓ کے کسی اور کو امیر لشکر مقرر فرمائیں‘‘ تو اس پر غصے میں فرمایا: ’’اے خطاب کے بیٹے! جس شخص کو امیر لشکر حضورؓ نے مقرر فرمایا ہو، ابوبکرؓ کی مجال نہیں کہ اس کو تبدیل کرے‘‘۔
یہ سن کر تمام صحابہؓ مطمئن ہو گئے اور اسامہؓ کی قیادت میں لشکر جانبِ شام روانہ ہوا۔ حضرت ابوبکرؓ نے ان کو اس شان سے روانہ کیا کہ حضرت اسامہؓ گھوڑے پر سوار تھے اور حضرت ابوبکرؓ ان کے ساتھ ساتھ پیدل چل رہے تھے، ہدایات دے رہے تھے۔ حضرت اسامہؓ نے سن کر عرض کیا کہ ’’اے امیر المومنین! مجھے اس سے شرم آتی یہ کہ میں سوار ہوں اور آپ پیدل۔ یا تو آپؓ بھی سوار ہو جائیں ورنہ میں بھی پیدل چلتا ہوں‘‘۔ اس پر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا: ’’نہیں تم سوار رہو گے اور میں پیدل ہی چلوں گا اس لئے کہ میں نے حضورؐ سے سنا تھا کہ اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں جائے اور دوسرا شخص اس کی مشابعت کے لئے اس کے ساتھ کچھ دور تک جائے تو اس شخص کو اس کے ہر قدم کے ساتھ سات سو نیکیاں ملیں گی۔ اس لئے میں تو اللہ کی راہ میں فضیلت حاصل کرنے کا محتاج ہوں‘‘۔
حضرت اسامہؓ نے محاذ جنگ پر شاندار عسکری صلاحیتوں کا ثبوت بہم پہنچایا۔ شامیوں کو ہزیمت کی ذلت سے دو چار ہونا پڑا۔ آپؓ بے شمار مالِ غنیمت اور جنگی قیدی لے کر مدینہ واپس آئے اور صدیق اکبرؓ نے مدینہ سے باہر نکل کر آپؓ کا استقبال کیا۔ لشکر اسامہ نے شاندار اثرات مرتب کئے جو قبائل مدینہ پر حملہ آور ہونے کے منصوبے بنا رہے تھے، تھم گئے۔ انہیں محسوس ہوا کہ مسلمانوں کے پاس بے پناہ فوجی طاقت ہے ورنہ سلطنتِ روم کے خلاف عسکری کاروائی نہیں کی جا سکتی۔ لشکر اسامہ کی روانگی سے قبل نصرانیوں کے حملہ کا خطرہ اس قدر شدید تھا کہ ایک دفعہ عتبان بن مالک نے یکبارگی حضرت عمرؓ سے کہا: ’’غضب ہو گیا‘‘ حضرت عمرؓ نے ہراساں ہو کر پوچھا ’’کیا ہوا؟ عیسائی آ گئے؟ ‘‘یعنی عالم یہ تھا کہ ابھی حملہ ہوا، ابھی حملہ ہوا۔ لیکن حضرت اسامہ کی مہم سے عیسائی اس قدر مرعوب ہوئے کہ ابن عساکر کے بیاں کے مطابق قیصر روم نے پادریوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’دیکھو! یہ وہی لوگ ہیں جن سے میں تم کو خبردار کیا کرتا تھا لیکن تم نہیں جانتے تھے۔ تم ان عربوں کی جرات و ہمت ملاحظہ کرتے ہو کہ ایک مہینہ کی مسافت پر آ کر تم پر چھاپے مارتے ہیں اور محفوظ و مامون اسی وقت واپس چلے جاتے ہیں‘‘۔ یہ سات ہزار کا لشکر جس میں مرتد قبیلے کے پاس سے گزرا وہ اسلامی لشکر کی شوکت و سطوت کو دیکھ کر ازسرنو مسلمان ہو گیا۔ اسامہ بن زیدؓ کے لشکر کی روانگی صدیقِ اکبرؓ کے جذبہ اتباع رسولؐ کی درخشاں مثال ہے۔ اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے انسائیکلو پیڈیا کا عیسائی مقالہ نگار لکھتا ہے: ’’پیغمبر اسلام ؐ نے اس بات کو محسوس کر لیا تھا کہ جب تک شام کی جانب مہمات روانہ نہ کی جائیں گی عرب قبائل پر امن نہیں رہ سکتے۔ ابوبکرصدیقؓ اس کی سیاسی اہمیت سے واقف تھے۔ اسی لئے باوجود سخت خطرات اور شدید مخالفت کے انہوں نے اسامہؓ کی زیرِ قیادت ایک بڑا لشکر روانہ فرما دیا تھا‘‘۔
رسول ؐخدا کا دنیا سے تشریف لے جانا تھا کہ پورے عرب میں یکا یک بغاوت کا طوفان اس زور سے اٹھا کہ اسلام کی عمارت کے درو دیوار ہل گئے اور صحابہ اکرامؓ اس میں محصور ہو گئے۔ تاریخ طبری میں ایک راوی کے بیان کے مطابق ’’مسلمانوں کی حالت اس وقت اس بکری کی سی تھی جو موسم سرما کی بارش والی رات میں کھڑی ہو‘‘۔ جو لوگ مرتد، باغی یا مسلمانوں کے خلاف صف آراء ہوئے یہ زیادہ تر وہ نو مسلم تھے جنہوں نے کسی لالچ یا دباؤ میں آ کر اسلام قبول کیا تھا لیکن ابھی اسلام ان کے دلوں میں راسخ نہیں ہوا تھا۔ اسی بنا پر پروفیسر بھٹی لکھتے ہیں: ’’حقیقت یہ ہے کہ وسائل آمدو رفت کی کمی، مبلغین کی باقاعدہ تنظیم کا فقدان اور قلت وقت ایسے اسباب تھے جن کی وجہ سے پیغمبر اسلامؐ کی زندگی میں جزیرہ نمائے عرب کی ایک تہائی سے زیادہ مسلمان نہیں ہو سکی۔ خود حجاز جو پیغمبرؐ اسلام کی سرگرمیوں کا مرکز تھا، اس کا حال یہ تھا کہ آپ ؐ کی وفات کے ایک یا دو سال پہلے مکمل طور پر مسلمان ہوا تھا۔ دو وفود پیغمبر ؐ اسلام کی خدمت میں آئے، ان کو پورے عرب کا ترجمان نہیں کہا جا سکتا تھا۔ کسی وفد کے مسلمان ہونے کی حیثیت اس سے زیادہ کچھ نہ تھی کہ اس قبیلے کے سرداروں نے اسلام قبول کر لیا‘‘۔
اسلام کا جھنڈا بلند ہوا اور پے در پے فتوحات کے باعث اس کا قدم حجاز میں جب مضبوطی سے جم گئے اور مدینہ میں ایک بااقتدار اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آ گیا تو ایران و روم کو اپنی فکر ہوئی۔ اس لئے انہوں نے ان عرب قبائل کو جو ان کے دست نگر اور احسان مند تھے، اسلام کے خلاف بھڑکانہ شروع کر دیا اور آخر کار انہیں بغاوت پر آمادہ کر لیا۔ غزوہ موتہ کا اہتمام حضورؐ نے انہی لوگوں کی سرکوبی کے لئے کیا تھا۔ ابھی اس مہم کا اصل مقصد حاصل نہیں ہوا تھا کہ رسول ؐ خدا کا وصال ہوگیا اور اسلام کے خلاف ریشہ دوانیوں کا جو مواد اندر ہی اندر پک رہا تھا، بغاوت کے آتش فشاں کی شکل میں اچانک پھوٹ پڑا۔ اس فتنے کی آگ کو بجھانے کے لئے عزم کی ضرورت تھی۔ حضرت ابوبکرؓ لشکر اسامہؓ کے منتظر تھے۔ جونہی لشکر فاتحانہ واپس آیا آپؓ نے سرکش قبائل کی سرکوبی کے لئے
حضرت اسامہؓ نے محاذ جنگ پر شاندار عسکری صلاحیتوں کا ثبوت بہم پہنچایا۔ شامیوں کو ہزیمت کی ذلت سے دو چار ہونا پڑا۔ آپؓ بے شمار مالِ غنیمت اور جنگی قیدی لے کر مدینہ واپس آئے اور صدیق اکبرؓ نے مدینہ سے باہر نکل کر آپؓ کا استقبال کیا۔ لشکر اسامہ نے شاندار اثرات مرتب کئے جو قبائل مدینہ پر حملہ آور ہونے کے منصوبے بنا رہے تھے، تھم گئے۔ انہیں محسوس ہوا کہ مسلمانوں کے پاس بے پناہ فوجی طاقت ہے ورنہ سلطنتِ روم کے خلاف عسکری کاروائی نہیں کی جا سکتی۔ لشکر اسامہ کی روانگی سے قبل نصرانیوں کے حملہ کا خطرہ اس قدر شدید تھا کہ ایک دفعہ عتبان بن مالک نے یکبارگی حضرت عمرؓ سے کہا: ’’غضب ہو گیا‘‘ حضرت عمرؓ نے ہراساں ہو کر پوچھا ’’کیا ہوا؟ عیسائی آ گئے؟ ‘‘یعنی عالم یہ تھا کہ ابھی حملہ ہوا، ابھی حملہ ہوا۔ لیکن حضرت اسامہ کی مہم سے عیسائی اس قدر مرعوب ہوئے کہ ابن عساکر کے بیاں کے مطابق قیصر روم نے پادریوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’دیکھو! یہ وہی لوگ ہیں جن سے میں تم کو خبردار کیا کرتا تھا لیکن تم نہیں جانتے تھے۔ تم ان عربوں کی جرات و ہمت ملاحظہ کرتے ہو کہ ایک مہینہ کی مسافت پر آ کر تم پر چھاپے مارتے ہیں اور محفوظ و مامون اسی وقت واپس چلے جاتے ہیں‘‘۔ یہ سات ہزار کا لشکر جس میں مرتد قبیلے کے پاس سے گزرا وہ اسلامی لشکر کی شوکت و سطوت کو دیکھ کر ازسرنو مسلمان ہو گیا۔ اسامہ بن زیدؓ کے لشکر کی روانگی صدیقِ اکبرؓ کے جذبہ اتباع رسولؐ کی درخشاں مثال ہے۔ اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے انسائیکلو پیڈیا کا عیسائی مقالہ نگار لکھتا ہے: ’’پیغمبر اسلام ؐ نے اس بات کو محسوس کر لیا تھا کہ جب تک شام کی جانب مہمات روانہ نہ کی جائیں گی عرب قبائل پر امن نہیں رہ سکتے۔ ابوبکرصدیقؓ اس کی سیاسی اہمیت سے واقف تھے۔ اسی لئے باوجود سخت خطرات اور شدید مخالفت کے انہوں نے اسامہؓ کی زیرِ قیادت ایک بڑا لشکر روانہ فرما دیا تھا‘‘۔
رسول ؐخدا کا دنیا سے تشریف لے جانا تھا کہ پورے عرب میں یکا یک بغاوت کا طوفان اس زور سے اٹھا کہ اسلام کی عمارت کے درو دیوار ہل گئے اور صحابہ اکرامؓ اس میں محصور ہو گئے۔ تاریخ طبری میں ایک راوی کے بیان کے مطابق ’’مسلمانوں کی حالت اس وقت اس بکری کی سی تھی جو موسم سرما کی بارش والی رات میں کھڑی ہو‘‘۔ جو لوگ مرتد، باغی یا مسلمانوں کے خلاف صف آراء ہوئے یہ زیادہ تر وہ نو مسلم تھے جنہوں نے کسی لالچ یا دباؤ میں آ کر اسلام قبول کیا تھا لیکن ابھی اسلام ان کے دلوں میں راسخ نہیں ہوا تھا۔ اسی بنا پر پروفیسر بھٹی لکھتے ہیں: ’’حقیقت یہ ہے کہ وسائل آمدو رفت کی کمی، مبلغین کی باقاعدہ تنظیم کا فقدان اور قلت وقت ایسے اسباب تھے جن کی وجہ سے پیغمبر اسلامؐ کی زندگی میں جزیرہ نمائے عرب کی ایک تہائی سے زیادہ مسلمان نہیں ہو سکی۔ خود حجاز جو پیغمبرؐ اسلام کی سرگرمیوں کا مرکز تھا، اس کا حال یہ تھا کہ آپ ؐ کی وفات کے ایک یا دو سال پہلے مکمل طور پر مسلمان ہوا تھا۔ دو وفود پیغمبر ؐ اسلام کی خدمت میں آئے، ان کو پورے عرب کا ترجمان نہیں کہا جا سکتا تھا۔ کسی وفد کے مسلمان ہونے کی حیثیت اس سے زیادہ کچھ نہ تھی کہ اس قبیلے کے سرداروں نے اسلام قبول کر لیا‘‘۔
اسلام کا جھنڈا بلند ہوا اور پے در پے فتوحات کے باعث اس کا قدم حجاز میں جب مضبوطی سے جم گئے اور مدینہ میں ایک بااقتدار اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آ گیا تو ایران و روم کو اپنی فکر ہوئی۔ اس لئے انہوں نے ان عرب قبائل کو جو ان کے دست نگر اور احسان مند تھے، اسلام کے خلاف بھڑکانہ شروع کر دیا اور آخر کار انہیں بغاوت پر آمادہ کر لیا۔ غزوہ موتہ کا اہتمام حضورؐ نے انہی لوگوں کی سرکوبی کے لئے کیا تھا۔ ابھی اس مہم کا اصل مقصد حاصل نہیں ہوا تھا کہ رسول ؐ خدا کا وصال ہوگیا اور اسلام کے خلاف ریشہ دوانیوں کا جو مواد اندر ہی اندر پک رہا تھا، بغاوت کے آتش فشاں کی شکل میں اچانک پھوٹ پڑا۔ اس فتنے کی آگ کو بجھانے کے لئے عزم کی ضرورت تھی۔ حضرت ابوبکرؓ لشکر اسامہؓ کے منتظر تھے۔ جونہی لشکر فاتحانہ واپس آیا آپؓ نے سرکش قبائل کی سرکوبی کے لئے
گیارہ دستے بنائے جو درج ذیل ہیں؛۔
1۔۔۔ امیر لشکر حضرت خالد بن ولیدؓ کو طلیحہ کی سرکوبی کے بعد مالک بن نویرہ کی سرکوبی کے لئے بھیجا۔
2۔۔۔ حضرت عکرمہؓ بن ابی جہل کو سلیمہ کذاب کے خلاف بھیجا۔
3۔۔۔ حضرت شرجیلؓ بن حسنہ کو حضرت عکرمہؓ کی امداد اور اس کے بعد حضرموت کے مر تدین کی سرکوبی کے لئے بھیجا۔
4۔۔۔ حضرت عمروؓ بن العاص کو مرتدین کی سرکوبی کے لئے بھیجا۔
5۔۔۔حضرت خالدؓ بن العاص کو سرحد شام کے مرتدین کی سرکوبی کے لئے بھیجا۔
6۔۔۔ حضرت حذیفہؓ بن محصن کو مرتدین ربا کی سرکوبی کے لئے بھیجا۔
7۔۔۔ حضرت طریفہؓ بن حاطر کو بنو مسلم اور بنو ہوازن کے مرتدین کی سرکوبی کے لئے بھیجا۔
8۔۔۔ حضرت مریدؓ بن مقون کو اہلِ تھامہ یمن کی سرکوبی کے لئے بھیجا۔
9۔۔۔حضرت علاٗ حضریؓ کو بحرین کے مرتدین کی سرکوبی کے لئے بھیجا۔
10۔۔۔ حضرت عرفجہؓ بن ہرتمہؓ کو مہرہ کے مرتدین کی سرکوبی کے لئے بھیجا۔
11۔۔۔ حضرت مہاجرؓ بن امیہ کو اسود عنسی کے پیردوں کی سرکوبی پر مامور کیا گیا۔
(پچاس صحابہؓ از طالب ہاشمی)
ان لشکروں کی روانگی سے پہلے حضرت ابوبکر صدیقؓ نے قاصدوں کے ذریعے ایک عام اعلان تمام مرتد قبائل کی طرف بھیج دیا جس میں ان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ اگر وہ سرکشی سے باز آ جائیں اور احکام اسلام کی پابندی اختیار کریں تو ان سے کوئی تعرض نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح ہر سپہ سالار کو جاتے وقت اس کے متعلق مختلف ہدایات دیں۔ مدینہ منوہ میں تین دن اور تین راتیں ایسے گزریں کہ عورتوں اور بچوں کے سوا کوئی مرد شہر میں موجود نہ تھا۔ اللہ پاک نے حضرات صحابہؓ کی اس قربانی کو قبول فرما کر تمام مخالف فضا کو اسلام کے حق میں ہموار کر دیا اور لوگوں کے لئے ہدایات کے عمومی فیصلے فرما دئیے۔
حضور ؐ کی حیاتِ طیبہ ہی میں نبوت کے بعض جھوٹے دعویدار پیدا ہو گئے تھے۔ مسلیمہ نے آپ ؐ کی زندگی میں ہی نبوت کا دعویٰ کیا مگر شمع رسالت کی موجودگی میں اس کی نبوت کا چراغ نہ جل سکا۔ مرد تو مرد عورتوں کو بھی یہ جنون ہوا چنانچہ قبیلہ تمیم کی سجاح نامی عورت نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا۔ اسی طرح طلیحہ اسدی بنی اس کا سردار تھا۔ رسول ؐاللہ کی بیماری کی اطلاع پاکر اس پر بھی نبوت کا خبط وار ہوا۔ اس نے اپنی قوم میں نبوت کا دعویٰ کر دیا۔ بنو اس، طے اور بنو غطفان کے اکثر لوگ اس کے ہمنوا بن گئے۔ طلیحہ نے اس کثیر اجتماع کے ساتھ سرزمین نجد میں چشمہ راؤ پر پڑاؤ ڈالا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو اس کی سرکوبی کے لئے بھیجا تھا۔ حضرت عدیؓ بن حاتم کی تمام کوششوں سے قبیلہ طے کے تمام آدمی طلیحہ سے علیحدہ ہو گئے اور دوبارہ اسلام قبول کر کے خالد بن ولیدؓ کی فوج میں شامل ہو گئے۔ خالدؓ اور طلیحہ کے لشکر کا بزاخہ کے مقام پر مقابلہ ہوا، طلیحہ کے لشکر کو شکت ہوئی۔ طلیحہ اپنی بیوی کے ہمراہ شام بھاگ گیا۔ مدینہ آکر دوبارہ مسلمان ہوا۔ طلیحہ نے اس کے بعد عراق کی فتوحات میں شامل ہو کر بہادری کے جوہر دکھائے اور اپنے سابقہ گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کی کوشش کی۔
رسول ؐ خدا کے وفات پا جانے کے بعد بنو تمیم میں سے بعض لوگ اسلام سے منحرف ہو گئے اس اثناء میں بنو ثعلب میں سے جو کہ بنو تمیم کی ایک شاخ تھی، سجاح بنت حارث نے نبوت کا دعویٰ کر دیا۔ سجاح نے اپنے پیروکاروں کے لئے نمازِ پنجگانہ تو لازمی رکھی لیکن بعض فحاشی اور ناجائز باتوں کو جائز قرار دیا۔ بنو تمیم کی شاخ ہربوع کے لوگ اپنے سردار مالک بن نویرہ کے ساتھ سجاح کے ساتھ مل گئے مگر بنو تمیم کے کچھ لوگوں نے نہ صرف اس کی نبوت کو تسلیم نہ کیا بلکہ یہاں تک ڈٹ کر اس کا مقابلہ کیا کہ وہ یہاں سے یمامہ بھاگنے پر مجبور ہوگئی۔ یہاں اس نے مسلیمہ کذاب سے شادی کر لی مگر دونوں ناکام و نامراد رہے۔ جب مالک بن نویرہ اکیلا رہ گیا تو اس نے فوج کو منتشر ہونے کا حکم دیا اور خود خالد بن ولیدؓ کے سامنے پیش ہو گیا۔ خالدؓ بن ولید نے مالک بن نویرہ کو قتل کروا دیا۔
یمامہ کا ایک وفد حضور اکرمؐ کی زندگی میں ہی حاضر ہوا تھا اور اسلام قبول کیا تھا۔ اس وفد میں ایک شخص مسلیمہ بھی تھا۔ اس نے رسول ؐ خدا سے عرض کیا کہ میں اس شرط پر اسلام قبول کروں گا کہ آپ ؐ اپنے بعد مجھے اپنا خلیفہ بنائیں، مگر یہ یہاں سے ناکام لوٹا۔ حضور کی بیماری کے ایام میں مسلیمہ بہت زور پکڑ گیا اور اس کے قبیلے کے لوگ قبائلی تعصب میں اندھے ہو کر اس کے گرد جمع ہو گئے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے عکرمہؓ بن ابی جہل کو اس کی سرکوبی کے لئے بھیجا اور ہدایات دیں کہ شرجیل بن حسنہ کی کمک کا انتظار کیا جائے مگر عکرمہ نے جوش میں جلد بازی کی اور حزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر حضرت ابوبکرؓ نے خالدؓ بن ولید کو بھیجا جنہوں نے ایک خونریز جنگ کے بعد مسلیمہ کو شکست دی اور وہ وحشی بن کر حرب کے ہاتھوں قتل ہوا۔ اسود عنسی کی جماعت میں خود بخود اختلافات پیدا ہو گیا اور وہ اپنے ساتھی قیس کے ہاتھوں نشہ کی حالت میں مارا گیا۔ غرض چند دنوں میں نبوت کے تمام جھوٹے دعویداروں کا خاتمہ ہوا
1۔۔۔ امیر لشکر حضرت خالد بن ولیدؓ کو طلیحہ کی سرکوبی کے بعد مالک بن نویرہ کی سرکوبی کے لئے بھیجا۔
2۔۔۔ حضرت عکرمہؓ بن ابی جہل کو سلیمہ کذاب کے خلاف بھیجا۔
3۔۔۔ حضرت شرجیلؓ بن حسنہ کو حضرت عکرمہؓ کی امداد اور اس کے بعد حضرموت کے مر تدین کی سرکوبی کے لئے بھیجا۔
4۔۔۔ حضرت عمروؓ بن العاص کو مرتدین کی سرکوبی کے لئے بھیجا۔
5۔۔۔حضرت خالدؓ بن العاص کو سرحد شام کے مرتدین کی سرکوبی کے لئے بھیجا۔
6۔۔۔ حضرت حذیفہؓ بن محصن کو مرتدین ربا کی سرکوبی کے لئے بھیجا۔
7۔۔۔ حضرت طریفہؓ بن حاطر کو بنو مسلم اور بنو ہوازن کے مرتدین کی سرکوبی کے لئے بھیجا۔
8۔۔۔ حضرت مریدؓ بن مقون کو اہلِ تھامہ یمن کی سرکوبی کے لئے بھیجا۔
9۔۔۔حضرت علاٗ حضریؓ کو بحرین کے مرتدین کی سرکوبی کے لئے بھیجا۔
10۔۔۔ حضرت عرفجہؓ بن ہرتمہؓ کو مہرہ کے مرتدین کی سرکوبی کے لئے بھیجا۔
11۔۔۔ حضرت مہاجرؓ بن امیہ کو اسود عنسی کے پیردوں کی سرکوبی پر مامور کیا گیا۔
(پچاس صحابہؓ از طالب ہاشمی)
ان لشکروں کی روانگی سے پہلے حضرت ابوبکر صدیقؓ نے قاصدوں کے ذریعے ایک عام اعلان تمام مرتد قبائل کی طرف بھیج دیا جس میں ان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ اگر وہ سرکشی سے باز آ جائیں اور احکام اسلام کی پابندی اختیار کریں تو ان سے کوئی تعرض نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح ہر سپہ سالار کو جاتے وقت اس کے متعلق مختلف ہدایات دیں۔ مدینہ منوہ میں تین دن اور تین راتیں ایسے گزریں کہ عورتوں اور بچوں کے سوا کوئی مرد شہر میں موجود نہ تھا۔ اللہ پاک نے حضرات صحابہؓ کی اس قربانی کو قبول فرما کر تمام مخالف فضا کو اسلام کے حق میں ہموار کر دیا اور لوگوں کے لئے ہدایات کے عمومی فیصلے فرما دئیے۔
حضور ؐ کی حیاتِ طیبہ ہی میں نبوت کے بعض جھوٹے دعویدار پیدا ہو گئے تھے۔ مسلیمہ نے آپ ؐ کی زندگی میں ہی نبوت کا دعویٰ کیا مگر شمع رسالت کی موجودگی میں اس کی نبوت کا چراغ نہ جل سکا۔ مرد تو مرد عورتوں کو بھی یہ جنون ہوا چنانچہ قبیلہ تمیم کی سجاح نامی عورت نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا۔ اسی طرح طلیحہ اسدی بنی اس کا سردار تھا۔ رسول ؐاللہ کی بیماری کی اطلاع پاکر اس پر بھی نبوت کا خبط وار ہوا۔ اس نے اپنی قوم میں نبوت کا دعویٰ کر دیا۔ بنو اس، طے اور بنو غطفان کے اکثر لوگ اس کے ہمنوا بن گئے۔ طلیحہ نے اس کثیر اجتماع کے ساتھ سرزمین نجد میں چشمہ راؤ پر پڑاؤ ڈالا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو اس کی سرکوبی کے لئے بھیجا تھا۔ حضرت عدیؓ بن حاتم کی تمام کوششوں سے قبیلہ طے کے تمام آدمی طلیحہ سے علیحدہ ہو گئے اور دوبارہ اسلام قبول کر کے خالد بن ولیدؓ کی فوج میں شامل ہو گئے۔ خالدؓ اور طلیحہ کے لشکر کا بزاخہ کے مقام پر مقابلہ ہوا، طلیحہ کے لشکر کو شکت ہوئی۔ طلیحہ اپنی بیوی کے ہمراہ شام بھاگ گیا۔ مدینہ آکر دوبارہ مسلمان ہوا۔ طلیحہ نے اس کے بعد عراق کی فتوحات میں شامل ہو کر بہادری کے جوہر دکھائے اور اپنے سابقہ گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کی کوشش کی۔
رسول ؐ خدا کے وفات پا جانے کے بعد بنو تمیم میں سے بعض لوگ اسلام سے منحرف ہو گئے اس اثناء میں بنو ثعلب میں سے جو کہ بنو تمیم کی ایک شاخ تھی، سجاح بنت حارث نے نبوت کا دعویٰ کر دیا۔ سجاح نے اپنے پیروکاروں کے لئے نمازِ پنجگانہ تو لازمی رکھی لیکن بعض فحاشی اور ناجائز باتوں کو جائز قرار دیا۔ بنو تمیم کی شاخ ہربوع کے لوگ اپنے سردار مالک بن نویرہ کے ساتھ سجاح کے ساتھ مل گئے مگر بنو تمیم کے کچھ لوگوں نے نہ صرف اس کی نبوت کو تسلیم نہ کیا بلکہ یہاں تک ڈٹ کر اس کا مقابلہ کیا کہ وہ یہاں سے یمامہ بھاگنے پر مجبور ہوگئی۔ یہاں اس نے مسلیمہ کذاب سے شادی کر لی مگر دونوں ناکام و نامراد رہے۔ جب مالک بن نویرہ اکیلا رہ گیا تو اس نے فوج کو منتشر ہونے کا حکم دیا اور خود خالد بن ولیدؓ کے سامنے پیش ہو گیا۔ خالدؓ بن ولید نے مالک بن نویرہ کو قتل کروا دیا۔
یمامہ کا ایک وفد حضور اکرمؐ کی زندگی میں ہی حاضر ہوا تھا اور اسلام قبول کیا تھا۔ اس وفد میں ایک شخص مسلیمہ بھی تھا۔ اس نے رسول ؐ خدا سے عرض کیا کہ میں اس شرط پر اسلام قبول کروں گا کہ آپ ؐ اپنے بعد مجھے اپنا خلیفہ بنائیں، مگر یہ یہاں سے ناکام لوٹا۔ حضور کی بیماری کے ایام میں مسلیمہ بہت زور پکڑ گیا اور اس کے قبیلے کے لوگ قبائلی تعصب میں اندھے ہو کر اس کے گرد جمع ہو گئے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے عکرمہؓ بن ابی جہل کو اس کی سرکوبی کے لئے بھیجا اور ہدایات دیں کہ شرجیل بن حسنہ کی کمک کا انتظار کیا جائے مگر عکرمہ نے جوش میں جلد بازی کی اور حزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر حضرت ابوبکرؓ نے خالدؓ بن ولید کو بھیجا جنہوں نے ایک خونریز جنگ کے بعد مسلیمہ کو شکست دی اور وہ وحشی بن کر حرب کے ہاتھوں قتل ہوا۔ اسود عنسی کی جماعت میں خود بخود اختلافات پیدا ہو گیا اور وہ اپنے ساتھی قیس کے ہاتھوں نشہ کی حالت میں مارا گیا۔ غرض چند دنوں میں نبوت کے تمام جھوٹے دعویداروں کا خاتمہ ہوا