18: روس میں دنیا میں سب سے زیادہ پینے کے قابل پانی ہے!
عوام کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی دنیا کے کئی ممالک میں تشویش کا باعث ہے لیکن قدرت اس معاملے میں روس پر مہربان ہے۔ روس کی صرف ایک جھیل دنیا کے کل میٹھے پانی کا 20% ہے۔ اس جھیل کا نام جھیل بائیکل ہے۔ یہ دنیا کی سب سے گہری جھیل بھی ہے۔ بیکل جھیل کی لمبائی 646 کلومیٹر اور گہرائی 1.5 کلومیٹر سے زیادہ ہے۔
19: دھاتوں اور معدنیات کی کانیں!
روس میں پائی جانے والی اہم دھاتیں اور معدنیات درج ذیل ہیں، تانبا، چونا پتھر، سونا، میگنیشیم، میکا، ایلومینیم، کوبالٹ، کوئلہ، بوران، آرسینک، ٹائٹینیم، نکل، سٹیل، باکسائٹ، وینڈیم، ٹن، ٹنگسٹن، پوٹاش، کیڈمیم، پٹرولیم، فاسفیٹ وغیرہ
20: روسی زبان!
روسی زبان روس میں بولی جاتی ہے جو دنیا کی آٹھویں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے روسی زبان میں صرف 2 لاکھ الفاظ ہیں جبکہ انگریزی میں 10 لاکھ سے زیادہ الفاظ ہیں۔
21: منفرد میوزیم!
روس کے سینٹ پیٹرزبرگ شہر میں ہرمیٹیج نامی ایک بہت بڑا عجائب گھر ہے جہاں 70 بلیاں بطور محافظ کام کرتی ہیں، اس میوزیم میں اتنی پینٹنگز اور فن پارے موجود ہیں کہ انسانوں کے لیے چوہوں سے ان کی حفاظت کرنا مشکل تھا۔ میوزیم کی پوری آرٹ گیلری دیکھنے کے لیے آپ کو 22 کلومیٹر پیدل چلنا پڑے گا۔
عوام کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی دنیا کے کئی ممالک میں تشویش کا باعث ہے لیکن قدرت اس معاملے میں روس پر مہربان ہے۔ روس کی صرف ایک جھیل دنیا کے کل میٹھے پانی کا 20% ہے۔ اس جھیل کا نام جھیل بائیکل ہے۔ یہ دنیا کی سب سے گہری جھیل بھی ہے۔ بیکل جھیل کی لمبائی 646 کلومیٹر اور گہرائی 1.5 کلومیٹر سے زیادہ ہے۔
19: دھاتوں اور معدنیات کی کانیں!
روس میں پائی جانے والی اہم دھاتیں اور معدنیات درج ذیل ہیں، تانبا، چونا پتھر، سونا، میگنیشیم، میکا، ایلومینیم، کوبالٹ، کوئلہ، بوران، آرسینک، ٹائٹینیم، نکل، سٹیل، باکسائٹ، وینڈیم، ٹن، ٹنگسٹن، پوٹاش، کیڈمیم، پٹرولیم، فاسفیٹ وغیرہ
20: روسی زبان!
روسی زبان روس میں بولی جاتی ہے جو دنیا کی آٹھویں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے روسی زبان میں صرف 2 لاکھ الفاظ ہیں جبکہ انگریزی میں 10 لاکھ سے زیادہ الفاظ ہیں۔
21: منفرد میوزیم!
روس کے سینٹ پیٹرزبرگ شہر میں ہرمیٹیج نامی ایک بہت بڑا عجائب گھر ہے جہاں 70 بلیاں بطور محافظ کام کرتی ہیں، اس میوزیم میں اتنی پینٹنگز اور فن پارے موجود ہیں کہ انسانوں کے لیے چوہوں سے ان کی حفاظت کرنا مشکل تھا۔ میوزیم کی پوری آرٹ گیلری دیکھنے کے لیے آپ کو 22 کلومیٹر پیدل چلنا پڑے گا۔
اک دن جلال جبہ و دستار دیکھنا
ارباب مکر و فن کو سر دار دیکھنا
سنتے رہیں کسی بھی دریدہ دہن کی بات
ہم بھی کھلے تو جوشش گفتار دیکھنا
قرآن میں ڈھونڈتے ہیں مساوات احمریں
یارو! نیا یہ فتنہ اغیار دیکھنا
ورد زباں ہیں خیر سے آیات پاک بھی
ہے اہرمن یہ خرقہ و پندار دیکھنا
کل تک جو بتکدے کی اڑاتا تھا دھجیاں
اس کے گلے میں حلقہ زنار دیکھنا
لائی گئی ہے لال پری سبزہ زار میں
ہوتے ہیں کتنے لوگ گناہ گار دیکھنا
فرصت ملے جو لال حویلی کے درس سے
اک بوریہ نشیں کے بھی افکار دیکھنا
اسرار ناروی
ارباب مکر و فن کو سر دار دیکھنا
سنتے رہیں کسی بھی دریدہ دہن کی بات
ہم بھی کھلے تو جوشش گفتار دیکھنا
قرآن میں ڈھونڈتے ہیں مساوات احمریں
یارو! نیا یہ فتنہ اغیار دیکھنا
ورد زباں ہیں خیر سے آیات پاک بھی
ہے اہرمن یہ خرقہ و پندار دیکھنا
کل تک جو بتکدے کی اڑاتا تھا دھجیاں
اس کے گلے میں حلقہ زنار دیکھنا
لائی گئی ہے لال پری سبزہ زار میں
ہوتے ہیں کتنے لوگ گناہ گار دیکھنا
فرصت ملے جو لال حویلی کے درس سے
اک بوریہ نشیں کے بھی افکار دیکھنا
اسرار ناروی
اُردُو کا دامَن تنگ کہنے والوں پر ہنسی آتی ہے ۔ حالانکہ ذرا دھیان دیں تو بُہُت سی مِثالیں ایسی مِل جائیں گی جو ایسی بات کہنے والوں کی نفی کرتی ہیں ۔ مثلاً :
1 - رِشتوں کیلِئے اُردُو میں الفاظ کی جو نیرنگی پائی جاتی ہے وُہ انگریزی بی بی میں عنقا ہے جیسے انگریزی میں الفاظ Uncle اور Aunt بہ طورِ " اَمرَت دھارا " اِستعمال ہوتے ہیں ۔ جبکہ اُردُو میں باپ کے اُس بھائی کو جو عُمر میں باپ سے بڑا ہو ، " تایا " ، اور جو عُمر میں باپ سے چھوٹا ہو ، وُہ " چچا " ، ماں کا بھائی " مامُوں " ، ماں کا بہنوئی " خالُو " ، باپ کا بہنوئی " پُھوپھا " ۔ اِسی طرح تایا کی اہلیہ " تائی " چچا کی اہلیہ " چچی " ، مامُوں کی اہلیہ " مُمانی" باپ کی بہن " پُھوپھی " ، ماں کی بہن " خالہ ۔
2 - پِھر Sister کیلِئے
" بہن " ، " ہمشیرہ " ، " بہنا " ، " باجی " ، " آپا " ، " آپی " ، " بجیا " ، " بَجّو " ، " گُڈُّو " ، گُڈّی " ، " گُڑیا " وغیرہ مُستعمِل ہیں۔
3 - اور Brother کیلِئے اُردُو میں :
بھائی ، بَھیّا ، بھائی جان ، لالہ جیسے الفاظ ہیں ۔
4 - انگریزی لفظ Daughter کیلِئے ،
" بیٹی " ، " بِٹِیا " ، " بِٹّو " ، " گُڑیا " ، " لاڈو " ، " بِٹِیا رانی " ، " صاحبزادی " ، " دُختَر " وغیرہ ہیں۔
5 - انگریزی لفظ Son کے اُردُو مُتَرادِفات :
" بیٹا " ، " برخُوردار " ، " پُوت " ، " لمڈا " ، " لَؤنڈا " ، " صاحبزادہ " ، نُور چَشم " ، " پِسر " ، " فَرزَند " ہیں
6 - اِسکے عِلاوہ Brother in law اور Sister in law سے کئی جگہ کام چلایا جاتا ہے۔ جیسے Brother in law کو بہنوئی ، ہم زُلف ، برادَرِ نِسبَتی ، سالا کا مُتَرادِف مانا جاتا ہے ، اور Sister in law کو سالی ، خواہرِ نِسبَتی ، بھابی " ، کیلِئے اِستعمال کرتے ہیں۔
7 - انگریزی الفاظ Smile اور Laughter کے اُردُو مُتَرادِف دیکھیں تو ، " مُسکانا ، مُسکُرانا ، تَبَسُّم فرمانا ، ہنسنا ، کِھلکِھلانا ، اور قہقَہے لگانا کے علاوہ چہرے پر دَھَنَک رنگ بِکَھرنا ، ہنستے ہنستے پیٹ میں بل پڑ جانا ، کھسیانی ہنسی ہنسنا ، جیسے رنگا رنگ اِظہارِئے ملتے ہیں جن میں سے ہر لفظ کا اَلَگ ہی ذائقہ ہے۔
8 - پِھر ہاتھی کا بَچّہ " ہَتھنوٹا / پاٹھا " ، شیر کا بَچّہ ، " شِبلی " ( شِبلی عربیُ الاصل ہے ) ، انگریزی میں دونوں کیلِئے ایک ہی لفظ cub سے کام چلایا جاتا ہے ۔ پِھر بکری کا بَچّہ " " میمنا " اور ہِرَن کا بَچّہ " ہِرنوٹا " کیلِئے انگریزی میں ایک ہی لفظ kid ہے ۔ عُقاب کا بَچّہ " قاز " ، تذکیر و تانیث دیکھیں : " بِلّا " ، " بِلّی " ، " بکرا " ، " بکری " ، " گدھا " ، " گدھی " ، " ہاتھی " ، " ہتھنی " ، " ناگ " ، " ناگن " سانپ " ، " سپنی " ، " سپنی " ، " سنپولِا " جِنکے لِئے انگریزی میں ۔ ۔ ۔ ۔
9 - " حُور " ، " غیرَت " ، پہلی اولاد " پہلوٹی " ، یا آخری اولاد " کُھرچَن " ، " گُھٹّی " ، " دھمال " ، کیلِئے انگریزی کی پوٹلی میں الفاظ ہیں ہی نہیں ۔ بھلا غیرَت یا حُور کا کوئی کیا ترجُمہ کرے گا اور کیا کھا کر کرے گا ؟
10 - کِسی کے ساتھ تَعَلُّق کے مُختَلِف مدارِج ہیں اور ہر ایک کیلِئے اُردُو میں الفاظ موجُود ہیں۔ مثلاً : " واجبی شناسائی " ، " جانکاری " ، " واقِفِیَّت " ، " اُنس " ، " لگاؤ " ، " پیار " ، " مَحَبَّت " ، " عِشق " ، مُؤدَّت " ، " فنا فی المحبُوب " ، " قَدر " ، " عقیدَت " " احترام کا رِشتہ " وغیرہ وغیرہ ۔ جِنکے مُتبادِل میں انگریزی میں Love ، affection , fondness ، acquaintance ہی ہیں ۔
11 - انگریزی لفظ eye کیلِئے
" آنکھ " ، " چشم " دیدہ " ، " نین " ، " نَیَن " ، " نَیَنوا " اَنکھیَن " ، " اَنکھیَن " ۔ " اَنکھڑی " ، " اَنکھڑِیوں " ، " اَنکھڑِیاں "
12 - انگریزی لفظ lover کیلِئے ،
" محبُوب " ، " ماھی " ، " مِیت " ، " مِتوا " ، " پی " ، " پِیا " ، " سانوَل " ، ڈھولا " ، ڈھولَن " ، " ڈھولنا " ، " سانوَرِیا " ، " سانورے " ، سَنوَرِیا " ، " ساجَن " ، " ساجنا " ، " سجنا " ، " مِتَّر " ، " رانجھن " ، " مَجنُوں " ، " عاشِق " ، " سودائی " ، " دیوانہ " ، " بالَم " ، " بَلَم " ، " بَلَما " وغیرہ ۔
13 - انگریزی الفاظ father , dad , daddy کیلِئے اُردُو ،
" والِد " ، " والِدِ مُحتَرَم " ، " والِدِ بُزُرگوار " ، " اَبّا جان " ، اَبّا جی " ، " اَبّا " ، " بابا " بابا جان " ، بابا جانی " ، " اَبُّو " جیسے الفاظ سے مالا مال ہے ۔
14 - انگریزی الفاظ friend کیلِئے ،
" دوست " ، " مِیت " ، " مِتوا " ، " سجن " ، " جِگَر " ، "جِگری یار " ، " یار " ، " یار جانی " ، " رازدار " ، " یارِ غار " ، " بَڈُّو " جیسے رنگا رنگ الفاظ موجُود ہیں۔
1 - رِشتوں کیلِئے اُردُو میں الفاظ کی جو نیرنگی پائی جاتی ہے وُہ انگریزی بی بی میں عنقا ہے جیسے انگریزی میں الفاظ Uncle اور Aunt بہ طورِ " اَمرَت دھارا " اِستعمال ہوتے ہیں ۔ جبکہ اُردُو میں باپ کے اُس بھائی کو جو عُمر میں باپ سے بڑا ہو ، " تایا " ، اور جو عُمر میں باپ سے چھوٹا ہو ، وُہ " چچا " ، ماں کا بھائی " مامُوں " ، ماں کا بہنوئی " خالُو " ، باپ کا بہنوئی " پُھوپھا " ۔ اِسی طرح تایا کی اہلیہ " تائی " چچا کی اہلیہ " چچی " ، مامُوں کی اہلیہ " مُمانی" باپ کی بہن " پُھوپھی " ، ماں کی بہن " خالہ ۔
2 - پِھر Sister کیلِئے
" بہن " ، " ہمشیرہ " ، " بہنا " ، " باجی " ، " آپا " ، " آپی " ، " بجیا " ، " بَجّو " ، " گُڈُّو " ، گُڈّی " ، " گُڑیا " وغیرہ مُستعمِل ہیں۔
3 - اور Brother کیلِئے اُردُو میں :
بھائی ، بَھیّا ، بھائی جان ، لالہ جیسے الفاظ ہیں ۔
4 - انگریزی لفظ Daughter کیلِئے ،
" بیٹی " ، " بِٹِیا " ، " بِٹّو " ، " گُڑیا " ، " لاڈو " ، " بِٹِیا رانی " ، " صاحبزادی " ، " دُختَر " وغیرہ ہیں۔
5 - انگریزی لفظ Son کے اُردُو مُتَرادِفات :
" بیٹا " ، " برخُوردار " ، " پُوت " ، " لمڈا " ، " لَؤنڈا " ، " صاحبزادہ " ، نُور چَشم " ، " پِسر " ، " فَرزَند " ہیں
6 - اِسکے عِلاوہ Brother in law اور Sister in law سے کئی جگہ کام چلایا جاتا ہے۔ جیسے Brother in law کو بہنوئی ، ہم زُلف ، برادَرِ نِسبَتی ، سالا کا مُتَرادِف مانا جاتا ہے ، اور Sister in law کو سالی ، خواہرِ نِسبَتی ، بھابی " ، کیلِئے اِستعمال کرتے ہیں۔
7 - انگریزی الفاظ Smile اور Laughter کے اُردُو مُتَرادِف دیکھیں تو ، " مُسکانا ، مُسکُرانا ، تَبَسُّم فرمانا ، ہنسنا ، کِھلکِھلانا ، اور قہقَہے لگانا کے علاوہ چہرے پر دَھَنَک رنگ بِکَھرنا ، ہنستے ہنستے پیٹ میں بل پڑ جانا ، کھسیانی ہنسی ہنسنا ، جیسے رنگا رنگ اِظہارِئے ملتے ہیں جن میں سے ہر لفظ کا اَلَگ ہی ذائقہ ہے۔
8 - پِھر ہاتھی کا بَچّہ " ہَتھنوٹا / پاٹھا " ، شیر کا بَچّہ ، " شِبلی " ( شِبلی عربیُ الاصل ہے ) ، انگریزی میں دونوں کیلِئے ایک ہی لفظ cub سے کام چلایا جاتا ہے ۔ پِھر بکری کا بَچّہ " " میمنا " اور ہِرَن کا بَچّہ " ہِرنوٹا " کیلِئے انگریزی میں ایک ہی لفظ kid ہے ۔ عُقاب کا بَچّہ " قاز " ، تذکیر و تانیث دیکھیں : " بِلّا " ، " بِلّی " ، " بکرا " ، " بکری " ، " گدھا " ، " گدھی " ، " ہاتھی " ، " ہتھنی " ، " ناگ " ، " ناگن " سانپ " ، " سپنی " ، " سپنی " ، " سنپولِا " جِنکے لِئے انگریزی میں ۔ ۔ ۔ ۔
9 - " حُور " ، " غیرَت " ، پہلی اولاد " پہلوٹی " ، یا آخری اولاد " کُھرچَن " ، " گُھٹّی " ، " دھمال " ، کیلِئے انگریزی کی پوٹلی میں الفاظ ہیں ہی نہیں ۔ بھلا غیرَت یا حُور کا کوئی کیا ترجُمہ کرے گا اور کیا کھا کر کرے گا ؟
10 - کِسی کے ساتھ تَعَلُّق کے مُختَلِف مدارِج ہیں اور ہر ایک کیلِئے اُردُو میں الفاظ موجُود ہیں۔ مثلاً : " واجبی شناسائی " ، " جانکاری " ، " واقِفِیَّت " ، " اُنس " ، " لگاؤ " ، " پیار " ، " مَحَبَّت " ، " عِشق " ، مُؤدَّت " ، " فنا فی المحبُوب " ، " قَدر " ، " عقیدَت " " احترام کا رِشتہ " وغیرہ وغیرہ ۔ جِنکے مُتبادِل میں انگریزی میں Love ، affection , fondness ، acquaintance ہی ہیں ۔
11 - انگریزی لفظ eye کیلِئے
" آنکھ " ، " چشم " دیدہ " ، " نین " ، " نَیَن " ، " نَیَنوا " اَنکھیَن " ، " اَنکھیَن " ۔ " اَنکھڑی " ، " اَنکھڑِیوں " ، " اَنکھڑِیاں "
12 - انگریزی لفظ lover کیلِئے ،
" محبُوب " ، " ماھی " ، " مِیت " ، " مِتوا " ، " پی " ، " پِیا " ، " سانوَل " ، ڈھولا " ، ڈھولَن " ، " ڈھولنا " ، " سانوَرِیا " ، " سانورے " ، سَنوَرِیا " ، " ساجَن " ، " ساجنا " ، " سجنا " ، " مِتَّر " ، " رانجھن " ، " مَجنُوں " ، " عاشِق " ، " سودائی " ، " دیوانہ " ، " بالَم " ، " بَلَم " ، " بَلَما " وغیرہ ۔
13 - انگریزی الفاظ father , dad , daddy کیلِئے اُردُو ،
" والِد " ، " والِدِ مُحتَرَم " ، " والِدِ بُزُرگوار " ، " اَبّا جان " ، اَبّا جی " ، " اَبّا " ، " بابا " بابا جان " ، بابا جانی " ، " اَبُّو " جیسے الفاظ سے مالا مال ہے ۔
14 - انگریزی الفاظ friend کیلِئے ،
" دوست " ، " مِیت " ، " مِتوا " ، " سجن " ، " جِگَر " ، "جِگری یار " ، " یار " ، " یار جانی " ، " رازدار " ، " یارِ غار " ، " بَڈُّو " جیسے رنگا رنگ الفاظ موجُود ہیں۔
15 - ایک دِلچَسپ بات یہ کہ موٹر سائیکل پر دو سوار بیٹھے ہوں تو اِسے عوامی زبان میں ڈَبَل سواری کہا جاتا ہے ۔ انگریزی میں اِسے pillion riding کہتے ہیں ۔ لیکِن فارسی میں گھوڑے پر بیٹھنے والے دو سواروں میں سے اگلے کو ، " قافِیہ " ، اور پیچھے بیٹھنے والے کو ، " رَدیف " کہا جاتا ہے ۔ اور یہ دو الفاظ اُردُو کے ذخیرۂِ الفاظ میں شامِل ہیں اَگَرچہ آج کل کے حضرات اُردُو سے کم واقِفِیَّت کی بِنا پر کم جانتے ہیں ۔ اور اِتنی فَصاحَت انگریزی میں نہیں۔
16 - اِسکے عِلاوہ انگریزی الفاظ girl , lace , damsel ، virgin کے اُردُو مُتَرادِفات دیکھیں :
" لڑکی " ، " دوشیزہ " ، " ناکتخدا " ، " باکرہ " ، " چھوکری " ، " چھوری " ، " لونڈِیا " ، " پُھل جَھڑی " غیرہ ہیں ۔
17 - اَنگریزی لَفظ Tears کے لِیے ،
آنسُو ، اشک ، نیر ، آبِ چشم ، ٹَسوے ، موتی ۔copied
16 - اِسکے عِلاوہ انگریزی الفاظ girl , lace , damsel ، virgin کے اُردُو مُتَرادِفات دیکھیں :
" لڑکی " ، " دوشیزہ " ، " ناکتخدا " ، " باکرہ " ، " چھوکری " ، " چھوری " ، " لونڈِیا " ، " پُھل جَھڑی " غیرہ ہیں ۔
17 - اَنگریزی لَفظ Tears کے لِیے ،
آنسُو ، اشک ، نیر ، آبِ چشم ، ٹَسوے ، موتی ۔copied
ایک ٹویٹ پوری دنیا میں ہلچل مچا دیتا ہے
عمر فراہی
ہم لوگوں کی عمر کے لوگ جو ابھی زندہ ہیں وہ دنیا کی تاریخ میں اس لئے ایک سنہرے دور سے تعلق رکھتے ہیں کیوں کہ انہوں نے نہ صرف ریڈیو اور ٹیپ ریکارڈر سے لیکر موبائل اور لیپ ٹاپ تک کا دور دیکھا جو صرف انگلیوں کے اشارے سے کام کرتے ہیں وہ دور بھی دیکھا ہے جب کنویں سے پانی اور کھیت سے اناج کیلئے جانوروں کی مدد لینی پڑتی تھی ۔تھوڑا اور زندہ رہے تو شاید وہ آخری دور بھی دیکھ لیں گے جب موبائل کی پوری سرکٹ اور سم ٹیٹو کی شکل میں لوگوں کی ہتھیلی پہ رنگ دی جائے اور بات کرنے کیلئے کان میں انگوٹھا اور منھ کے پاس انگلیوں کا اشارہ ہی کافی ہو ۔
ذرا دماغ پر زور دیجئے ابھی وہ دن گزرے ہوۓ کتنا عرصہ ہوا جب ایک شخص سر پر ایک ڈبا نما بائیس کوپ ڈھوتے ہوئے گلی گلی چلاتے پھرتا تھا کہ ۔۔۔پیسہ پھیکو تماشہ دیکھو ۔۔دلی کا قطب مینار دیکھو
اور پھر ہم سارے بچے دس بیس پیسے لیکر اس کے ارد گرد جمع ہو جاتے ۔بائیس کوپ والا ہاتھ سے بائیس کوپ کا ہینڈل گھماتا اور ہم سب ایک ایک کرکے ایک شیشہ لگے ہوئے سوراخ سے تاج محل اور قطب مینار کی سیر کرتے ۔آج جب ہم اس کھیل کے بارے میں اپنے بچوں کو بتاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ کتنے بھولے تھے آپ لوگ کہ پیسے دیکر تاج محل اور قطب مینار کی تصویر دیکھتے تھے ۔ آج ہم لوگ مفت میں گوگل کےذریعے انگلی کے اشارے سے دنیا کے لاکھوں کروڑوں خوبصورت مناظر کی سیر کر لیتے ہیں ۔دنیا اتنی جلدی اتنا بدل جائے گی ہمیں پتہ ہی نہیں تھا ۔آج انہیں تعلیم یافتہ بچوں سے جب میں یہ کہتا ہوں کہ بیٹا جس طرح تم لوگ موبائل اسکرین پر انگلیوں کے اشارے سے دنیا کی سیر کر لیتے ہو ایک دن یہ موبائل بھی نہیں ہوگا اور تم لوگ انگلیوں کے اشارے سے لاکھوں کلو میٹر دور بیٹھے انسانوں سے بات کرو گے ۔یہ بات تو بچے کسی حد تک مان بھی لیتے ہیں لیکن جب میں یہ کہتا ہوں کہ ویکسین کےنام پر کیا تمہارے خون میں مائیکرو چپس نصب کرنے کا تجربہ نہیں کیا جارہا ہے تو وہ ہنستے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ صرف آپ کا وہم ہے ۔
ابھی وہ دن گزرے ہوۓ بھی کتنا عرصہ ہوا جب اخبارات اور کتابیں خریدنا ہر شخص کے دسترس سے باہر تھا۔ ایک بار کے خریدے گئے اخبار اور ایک اچھی کتاب سے سیکڑوں لوگ استفادہ کر لیا کرتے تھے ۔اسی لئے اس دور میں کتابوں کی لائیریاں ہوتی تھیں ۔ایک اخبار اور رسالہ اس وقت تک سنبھال کر رکھے جاتے تھے جب تک اس کا دوسرا شمارہ ڈاک سے موصول نہ ہو جاتا ۔خبروں کیلئے اچھا ذریعہ بی بی سی لندن کی اردو سروس تھی ۔شام کےوقت گاؤں دیہات کے بوڑھے جوان دوچار چارپائی جمع کر کے بیٹھ جاتے ۔دونوں چارپائیوں کے بیچ ایک حقہ ہوتا اور خبروں پر تبصرہ شروع ہو جاتا۔اب تو چارپائی کا دور بھی نہیں رہا یا ہے بھی تو ایسی محفلوں کا دور نہیں ملتا ۔سنا ہے لوگ تعلیم یافتہ ہو گئے ہیں اب وہ خود خبر پیدا کرتے ہیں اور منٹوں میں موبائل سے@ #Me too کے نام سے ایک ٹویٹ پوری دنیا میں ہلچل مچا دیتا ہے ۔
تاریخ کے پروفیسر کہتے ہیں کہ انسانی دنیا کی ابھی تک کی تاریخ صرف دس ہزار سال پر محیط ہے اور موجودہ جدید ڈیجیٹل اور الیکٹرانک ٹکنالوجی کی عمر سو سال سے زیادہ نہیں ہے ۔ان سو سالوں میں دنیا اچانک اتنا برق رفتار سے بدل سکتی ہے تو اس کا مطلب دنیا اب منٹوں اور سیکنڈوں میں بہت تیزی سے بدل رہی ہے اور آپ اپنے تبدیل ہونے کو محسوس کریں یا نہ کریں صرف ٹکنالوجی میں ہی تبدیلی اور ترقی نہیں ہوئی ہے دس ہزار سال تک روئے زمین پر پیار محبت اور خوراک میں جو لذت تھی اور ماحول میں رومانس تھا اس کے اندر صرف چالیس پچاس سالوں میں اتنا زہر بھر دیا گیا ہے کہ اب کسی چیز میں پہلے جیسی لذت اور برکت نہیں رہی ۔اس طرح آنے والے چند سال جو شاید ایک دہائی پر ہی محیط ہوں صورتحال کتنا دھماکہ خیز صورتحال ہو سکتی ہے اس کی پیشن گوئی کرنے کیلئے کوئی فرانسس فوکو ہامہ ,سموئیل ہنٹنگٹن جیسے پروفیسر اور ڈاکٹر اسرار احمد جیسے عالم اور مفکر بھی زندہ نہیں رہے ۔
عمر فراہی
ہم لوگوں کی عمر کے لوگ جو ابھی زندہ ہیں وہ دنیا کی تاریخ میں اس لئے ایک سنہرے دور سے تعلق رکھتے ہیں کیوں کہ انہوں نے نہ صرف ریڈیو اور ٹیپ ریکارڈر سے لیکر موبائل اور لیپ ٹاپ تک کا دور دیکھا جو صرف انگلیوں کے اشارے سے کام کرتے ہیں وہ دور بھی دیکھا ہے جب کنویں سے پانی اور کھیت سے اناج کیلئے جانوروں کی مدد لینی پڑتی تھی ۔تھوڑا اور زندہ رہے تو شاید وہ آخری دور بھی دیکھ لیں گے جب موبائل کی پوری سرکٹ اور سم ٹیٹو کی شکل میں لوگوں کی ہتھیلی پہ رنگ دی جائے اور بات کرنے کیلئے کان میں انگوٹھا اور منھ کے پاس انگلیوں کا اشارہ ہی کافی ہو ۔
ذرا دماغ پر زور دیجئے ابھی وہ دن گزرے ہوۓ کتنا عرصہ ہوا جب ایک شخص سر پر ایک ڈبا نما بائیس کوپ ڈھوتے ہوئے گلی گلی چلاتے پھرتا تھا کہ ۔۔۔پیسہ پھیکو تماشہ دیکھو ۔۔دلی کا قطب مینار دیکھو
اور پھر ہم سارے بچے دس بیس پیسے لیکر اس کے ارد گرد جمع ہو جاتے ۔بائیس کوپ والا ہاتھ سے بائیس کوپ کا ہینڈل گھماتا اور ہم سب ایک ایک کرکے ایک شیشہ لگے ہوئے سوراخ سے تاج محل اور قطب مینار کی سیر کرتے ۔آج جب ہم اس کھیل کے بارے میں اپنے بچوں کو بتاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ کتنے بھولے تھے آپ لوگ کہ پیسے دیکر تاج محل اور قطب مینار کی تصویر دیکھتے تھے ۔ آج ہم لوگ مفت میں گوگل کےذریعے انگلی کے اشارے سے دنیا کے لاکھوں کروڑوں خوبصورت مناظر کی سیر کر لیتے ہیں ۔دنیا اتنی جلدی اتنا بدل جائے گی ہمیں پتہ ہی نہیں تھا ۔آج انہیں تعلیم یافتہ بچوں سے جب میں یہ کہتا ہوں کہ بیٹا جس طرح تم لوگ موبائل اسکرین پر انگلیوں کے اشارے سے دنیا کی سیر کر لیتے ہو ایک دن یہ موبائل بھی نہیں ہوگا اور تم لوگ انگلیوں کے اشارے سے لاکھوں کلو میٹر دور بیٹھے انسانوں سے بات کرو گے ۔یہ بات تو بچے کسی حد تک مان بھی لیتے ہیں لیکن جب میں یہ کہتا ہوں کہ ویکسین کےنام پر کیا تمہارے خون میں مائیکرو چپس نصب کرنے کا تجربہ نہیں کیا جارہا ہے تو وہ ہنستے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ صرف آپ کا وہم ہے ۔
ابھی وہ دن گزرے ہوۓ بھی کتنا عرصہ ہوا جب اخبارات اور کتابیں خریدنا ہر شخص کے دسترس سے باہر تھا۔ ایک بار کے خریدے گئے اخبار اور ایک اچھی کتاب سے سیکڑوں لوگ استفادہ کر لیا کرتے تھے ۔اسی لئے اس دور میں کتابوں کی لائیریاں ہوتی تھیں ۔ایک اخبار اور رسالہ اس وقت تک سنبھال کر رکھے جاتے تھے جب تک اس کا دوسرا شمارہ ڈاک سے موصول نہ ہو جاتا ۔خبروں کیلئے اچھا ذریعہ بی بی سی لندن کی اردو سروس تھی ۔شام کےوقت گاؤں دیہات کے بوڑھے جوان دوچار چارپائی جمع کر کے بیٹھ جاتے ۔دونوں چارپائیوں کے بیچ ایک حقہ ہوتا اور خبروں پر تبصرہ شروع ہو جاتا۔اب تو چارپائی کا دور بھی نہیں رہا یا ہے بھی تو ایسی محفلوں کا دور نہیں ملتا ۔سنا ہے لوگ تعلیم یافتہ ہو گئے ہیں اب وہ خود خبر پیدا کرتے ہیں اور منٹوں میں موبائل سے@ #Me too کے نام سے ایک ٹویٹ پوری دنیا میں ہلچل مچا دیتا ہے ۔
تاریخ کے پروفیسر کہتے ہیں کہ انسانی دنیا کی ابھی تک کی تاریخ صرف دس ہزار سال پر محیط ہے اور موجودہ جدید ڈیجیٹل اور الیکٹرانک ٹکنالوجی کی عمر سو سال سے زیادہ نہیں ہے ۔ان سو سالوں میں دنیا اچانک اتنا برق رفتار سے بدل سکتی ہے تو اس کا مطلب دنیا اب منٹوں اور سیکنڈوں میں بہت تیزی سے بدل رہی ہے اور آپ اپنے تبدیل ہونے کو محسوس کریں یا نہ کریں صرف ٹکنالوجی میں ہی تبدیلی اور ترقی نہیں ہوئی ہے دس ہزار سال تک روئے زمین پر پیار محبت اور خوراک میں جو لذت تھی اور ماحول میں رومانس تھا اس کے اندر صرف چالیس پچاس سالوں میں اتنا زہر بھر دیا گیا ہے کہ اب کسی چیز میں پہلے جیسی لذت اور برکت نہیں رہی ۔اس طرح آنے والے چند سال جو شاید ایک دہائی پر ہی محیط ہوں صورتحال کتنا دھماکہ خیز صورتحال ہو سکتی ہے اس کی پیشن گوئی کرنے کیلئے کوئی فرانسس فوکو ہامہ ,سموئیل ہنٹنگٹن جیسے پروفیسر اور ڈاکٹر اسرار احمد جیسے عالم اور مفکر بھی زندہ نہیں رہے ۔
پردہ چہرے سے اٹھا، انجمن آرائی کر
چشمِ مہر و مہ و انجم کو تماشائی کر
تو جو بجلی ہے تو یہ چشمکِ پنہاں کب تک؟
بےحجابانہ مرے دل سے شناسائی کر
نفَسِ گرم کی تاثیر ہے اعجازِ حیات
تیرے سینے میں اگر ہے تو مسیحائی کر
کب تلک طور پہ دریوزہ گری مثلِ کلیم؟
اپنی ہستی سے عیاں شعلۂ سینائی کر
ہو تری خاک کے ہر ذرّے سے تعمیرِ حرم
دل کو بیگانۂ اندازِ کلیسائی کر
اِس گلستاں میں نہیں حد سے گزرنا اچھا
ناز بھی کر تو بہ اندازۂ رعنائی کر
پہلے خوددار تو مانندِ سکندر ہو لے
پھر جہاں میں ہوسِ شوکتِ دارائی کر
مل ہی جائے گی کبھی منزلِ لیلیٰ، اقبالؔ
کوئی دن اور ابھی بادیہ پیمائی کر
چشمِ مہر و مہ و انجم کو تماشائی کر
تو جو بجلی ہے تو یہ چشمکِ پنہاں کب تک؟
بےحجابانہ مرے دل سے شناسائی کر
نفَسِ گرم کی تاثیر ہے اعجازِ حیات
تیرے سینے میں اگر ہے تو مسیحائی کر
کب تلک طور پہ دریوزہ گری مثلِ کلیم؟
اپنی ہستی سے عیاں شعلۂ سینائی کر
ہو تری خاک کے ہر ذرّے سے تعمیرِ حرم
دل کو بیگانۂ اندازِ کلیسائی کر
اِس گلستاں میں نہیں حد سے گزرنا اچھا
ناز بھی کر تو بہ اندازۂ رعنائی کر
پہلے خوددار تو مانندِ سکندر ہو لے
پھر جہاں میں ہوسِ شوکتِ دارائی کر
مل ہی جائے گی کبھی منزلِ لیلیٰ، اقبالؔ
کوئی دن اور ابھی بادیہ پیمائی کر
مصر کے ایک عالمِ دین اٹلی میں تبلیغی دورے پر تھے.
انہوں نے کچھ لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا قرآن مجید میں دنیا کے ہر مسئلے کا حل لکھا ہوا ہے . مجمعے میں سے ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا: جنابِ والا , پیزا بنانے کے لیے ایک کلو آٹے کو گوندھنے میں جتنا پانی ڈالا جاتا ہے وہ قرآن مجید میں کس مقام پر لکھا ہوا ہے ؟
عالمِ دین نے اس شخص کو قرآن مجید کھول کر سورہ النحل کی آیات نمبر 43 دکھاتے ہوئے کہا یہ ادھر لکھا ہوا ہے کہ: "جس بات کا تمہیں پتہ نہیں ہے وہ (متعلقہ) اہل علم سے پوچھ لیا کرو ..."
انہوں نے کچھ لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا قرآن مجید میں دنیا کے ہر مسئلے کا حل لکھا ہوا ہے . مجمعے میں سے ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا: جنابِ والا , پیزا بنانے کے لیے ایک کلو آٹے کو گوندھنے میں جتنا پانی ڈالا جاتا ہے وہ قرآن مجید میں کس مقام پر لکھا ہوا ہے ؟
عالمِ دین نے اس شخص کو قرآن مجید کھول کر سورہ النحل کی آیات نمبر 43 دکھاتے ہوئے کہا یہ ادھر لکھا ہوا ہے کہ: "جس بات کا تمہیں پتہ نہیں ہے وہ (متعلقہ) اہل علم سے پوچھ لیا کرو ..."
اومکران کے بعد پشپا نامی ایک نئی بیماری تیزی سے پھیل رہی ہے، ہوشیار رہیں۔
علامات:- ایک کندھا ٹیڑھا ہو جانا، جھکنے کے قابل نہیں، پاؤں سے چپل پھسلنا، داڑھی میں خارش۔
ہوشیار رہیں اور محفوظ رہیں۔
🤭😝
علامات:- ایک کندھا ٹیڑھا ہو جانا، جھکنے کے قابل نہیں، پاؤں سے چپل پھسلنا، داڑھی میں خارش۔
ہوشیار رہیں اور محفوظ رہیں۔
🤭😝
قرآن وسنت کی روشنی میں طلبہ اپنا سفرِ حیات جاری رکھیں
دارالعلوم دیوبند میں ختم بخاری شریف کے موقع پر شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی کا خطاب
دیوبند : 9؍ مارچ 2022ء (پریس ریلیز)
ایشیاء کی عظیم علمی دینی درسگاہ دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث و مھتمم حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی دامت برکاتھم العالیہ نے بخاری شریف کا آخری درس دیتے ہوئے حضرت امام بخاریؒ کی عظیم خدمات پر روشنی ڈالی اور طلبہ کو قیمتی پند ونصائح سے نوازا ۔ شیخ الحدیث مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے پہلی مرتبہ ادارہ میں بخاری شریف کا آخری درس دیا ۔ واضح رہے کہ حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالنپوریؒ کے انتقال کے بعد گذشتہ سال مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی کو شوریٰ کے ذریعہ اہتمام کے ساتھ ساتھ شیخ الحدیث کی ذمہ داری بھی سوپنی گئی تھی ، جس کے بعد دارالعلوم دیوبند میں پہلی مرتبہ موصوف نے بخاری شریف کا آخری درس دے کر کتاب مکمل کرائی ۔ مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے امام بخاریؒ کے مقام ومرتبہ ، ان کے علمی اسفار ، ذوق مطالعہ اور حفظ حدیث میں ان کے تشخص و انفراد کو واضح کیا اور بتایا کہ امام بخاریؒ کو تقریباً دس لاکھ روایات زبانی یاد تھیں ، احادیث کے اتنے بڑے ذخیرہ کو محفوظ کرکے دوسروں تک پہنچانے پر ساری امت مسلمہ ان کی ممنون رہے گی ۔ مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے بخاری شریف کی پہلی اور آخری روایت کے ارتباط کو اجاگر کرتے ہوئے بہت سے نکات بیان کیے ، جس سے خالص توحید ، کامل اخلاص اور عمل صالح جیسے مضامین کا ادراک ہوتا ہے ، انہوں نے فرمایا کہ انسانی عمل کی ابتداء نیت سے ہوتی ہے اس لیے امام بخاریؒ سب سے پہلی نیت والی حدیث کتاب میں لائے اور عمل کا اختتام قیامت کے دن وزن اعمال پر ہوگا اس لیے وزن اعمال والی حدیث سب سے آخر میں لائے اور یہ بھی اشارہ فرمایا کہ نیک اعمال میں نیت سے ہی وزن پیدا ہوتا ہے ، نیت جس قدر خالص اللہ کے لیے ہوگی عمل میں وزن بھی اسی قدر زیادہ ہوگا ، مفتی موصوف نے کہا کہ امام بخاریؒ روایات سے پہلے قرآنی آیت لاکر اس طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں کہ احادیث کے بغیر قرآن کے معانی و مفاھیم کو نہیں سمجھا جاسکتا ، کیوں کہ قرآن متن ہے اور احادیث شریفہ اس کی شرح ہے ، اس لیے امام اعظم ابوحنیفہؒ نے فرمایا کہ اگر احادیث کا ذخیرہ نہ ہوتا تو ہم میں سے کوئی شخص قرآن کو نہ سمجھ پاتا ۔ مفتی موصوف نے کلام الٰہی کے مخلوق اور غیر مخلوق ہونے کی بحث کو علماء اور سلف کے اقوال کی روشنی میں واضح کیا ، موصوف نے طلبہ سے تاکیدی طور پر کہا کہ وہ قرآن وسنت کی روشنی میں اپنا سفرِ حیات جاری رکھیں اور انسانیت کی خدمت کو سب سے بڑا وظیفہ خیال کریں ، بلا تفریق مذہب و ملت سب کیساتھ آپ کا رویہ اخلاق اور ہمدردی کا ہونا چاہئیے ۔ انہوں نے طلبہ عزیز بالخصوص فضلاء کو نہایت اہم اور قیمتی نصیحتوں سے نوازتے ہوئے انہیں دین کی تبلیغ واشاعت کی تلقین کی ۔
بعد ازیں شیخ الحدیث مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے ملک و ملت ، عالم اسلام اور پوری دنیا میں امن وشانتی کے لیے دعاء کرائی ۔
Mufti Gulam Rasool
دارالعلوم دیوبند میں ختم بخاری شریف کے موقع پر شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی کا خطاب
دیوبند : 9؍ مارچ 2022ء (پریس ریلیز)
ایشیاء کی عظیم علمی دینی درسگاہ دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث و مھتمم حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی دامت برکاتھم العالیہ نے بخاری شریف کا آخری درس دیتے ہوئے حضرت امام بخاریؒ کی عظیم خدمات پر روشنی ڈالی اور طلبہ کو قیمتی پند ونصائح سے نوازا ۔ شیخ الحدیث مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے پہلی مرتبہ ادارہ میں بخاری شریف کا آخری درس دیا ۔ واضح رہے کہ حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالنپوریؒ کے انتقال کے بعد گذشتہ سال مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی کو شوریٰ کے ذریعہ اہتمام کے ساتھ ساتھ شیخ الحدیث کی ذمہ داری بھی سوپنی گئی تھی ، جس کے بعد دارالعلوم دیوبند میں پہلی مرتبہ موصوف نے بخاری شریف کا آخری درس دے کر کتاب مکمل کرائی ۔ مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے امام بخاریؒ کے مقام ومرتبہ ، ان کے علمی اسفار ، ذوق مطالعہ اور حفظ حدیث میں ان کے تشخص و انفراد کو واضح کیا اور بتایا کہ امام بخاریؒ کو تقریباً دس لاکھ روایات زبانی یاد تھیں ، احادیث کے اتنے بڑے ذخیرہ کو محفوظ کرکے دوسروں تک پہنچانے پر ساری امت مسلمہ ان کی ممنون رہے گی ۔ مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے بخاری شریف کی پہلی اور آخری روایت کے ارتباط کو اجاگر کرتے ہوئے بہت سے نکات بیان کیے ، جس سے خالص توحید ، کامل اخلاص اور عمل صالح جیسے مضامین کا ادراک ہوتا ہے ، انہوں نے فرمایا کہ انسانی عمل کی ابتداء نیت سے ہوتی ہے اس لیے امام بخاریؒ سب سے پہلی نیت والی حدیث کتاب میں لائے اور عمل کا اختتام قیامت کے دن وزن اعمال پر ہوگا اس لیے وزن اعمال والی حدیث سب سے آخر میں لائے اور یہ بھی اشارہ فرمایا کہ نیک اعمال میں نیت سے ہی وزن پیدا ہوتا ہے ، نیت جس قدر خالص اللہ کے لیے ہوگی عمل میں وزن بھی اسی قدر زیادہ ہوگا ، مفتی موصوف نے کہا کہ امام بخاریؒ روایات سے پہلے قرآنی آیت لاکر اس طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں کہ احادیث کے بغیر قرآن کے معانی و مفاھیم کو نہیں سمجھا جاسکتا ، کیوں کہ قرآن متن ہے اور احادیث شریفہ اس کی شرح ہے ، اس لیے امام اعظم ابوحنیفہؒ نے فرمایا کہ اگر احادیث کا ذخیرہ نہ ہوتا تو ہم میں سے کوئی شخص قرآن کو نہ سمجھ پاتا ۔ مفتی موصوف نے کلام الٰہی کے مخلوق اور غیر مخلوق ہونے کی بحث کو علماء اور سلف کے اقوال کی روشنی میں واضح کیا ، موصوف نے طلبہ سے تاکیدی طور پر کہا کہ وہ قرآن وسنت کی روشنی میں اپنا سفرِ حیات جاری رکھیں اور انسانیت کی خدمت کو سب سے بڑا وظیفہ خیال کریں ، بلا تفریق مذہب و ملت سب کیساتھ آپ کا رویہ اخلاق اور ہمدردی کا ہونا چاہئیے ۔ انہوں نے طلبہ عزیز بالخصوص فضلاء کو نہایت اہم اور قیمتی نصیحتوں سے نوازتے ہوئے انہیں دین کی تبلیغ واشاعت کی تلقین کی ۔
بعد ازیں شیخ الحدیث مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے ملک و ملت ، عالم اسلام اور پوری دنیا میں امن وشانتی کے لیے دعاء کرائی ۔
Mufti Gulam Rasool
وی سی آر
ازقلم: مبشر عزیز
پچھلے دنوں دراز سے وی سی آر کی کیسٹ نمودار ہوئی جو ہمارے لیے کوئی انوکھی چیز نہیں تھی لیکن آج کل کی نسل کے لئے عجیب و غریب چیز تھی۔۔۔۔
مجھے وہ وقت یاد آیا جب وی سی آر ہمارے لئے بڑی بڑی خاص چیز ہوا کرتا تھا۔ وی سی آر کو کرائے پر محلے والوں کی نظروں سے چھپاکر لانا بھی کمال ہوا کرتا تھا۔ صرف قریبی ہمسائیوں کو فلم دیکھنے کے لئے مدعو کیا جاتا تھا۔ وی سی آر رات نو بجے سے صبح نوبجے تک کے لئے ہمارے پاس ہوتا تھا اور اس قلیل عرصے میں تین تین گھنٹے کی چار فلمیں دیکھنی ہوتی تھیں غرضیکہ وقت کم اور مقابلہ سخت والا حساب ہوتا تھا۔۔۔۔۔۔
اس وقت موجودہ کرونا والا وقت تو تھا نہیں کہ سارا دن سونے کے بعد ساری رات جاگنے کی عادت ہو اس لئے بمشکل دوسری فلم کے بعد نیند کے جھونکے آنے لگتے لیکن پورے پانچ یا دس روپے کا حصہ وی سی آر کےکرائے میں ہوتا تھا اس لئیے بار بار نیند کو بھگانے کے لئے منہ کو دھویا جاتا جو اس سے پہلے بمشکل صرف صبح کے وقت دھویا جاتا تھا۔ پھر بعض اوقات انگوٹھے اور انگلی کی مدد سے آنکھوں کو پھاڑ کر کھولا جاتا کیونکہ اگر کوئی منظر یا فلم رہ گئی تو باقی دیکھنے والوں نے چڑانا تھا۔ ویسے ساری فلمیں دیکھنے کا مجھے کبھی بھی اعزاز حاصل نہیں ہوا۔
اگر گرمیاں ہوتی تو وی سی آر صاحب کے لئے بطور خاص پیڈسٹل لگوایا جاتا کیونکہ ان کے نخرے بڑے ہوتے تھے اور تھوڑی دیر بعد گرم ہونے پر اس کو بند بھی کرنا پڑتا تھا۔
اچانک فلم دیکھنے کے دوران سکرین پر جھری سی آنے لگتی تو فوری طور پر وی سی آر کا اوپر کا حصہ الگ کیا جاتا اور اس کے ہیڈ (شنید تا کہ ہیڈ میں ہیرا استعمال لگا ہوتا ہے اس لئے دھیان سے صاف کرنا پڑتا ہے) کو صاف کرنے کے لئے دس یا سو کا کرارا نوٹ مانگا جاتا اور پھر اس پر پرفیوم چھڑک کر گزارا جاتا کہ ہیڈ صاف ہوجائے۔ ویسے ہماری حسرت ہی رہی کہ کبھی ہم وی سی آر کو کھولے بغیر بھی استعمال کریں۔
اگر شومئی قسمت وی سی آر صحیح کام کررہا ہوتا تو کیسٹ گڑبڑ کر جاتی اور پھر کیسٹ کو ڈھیلا کرنا پڑتا جس کے لئے کیسٹ کے سوراخوں میں انگوٹھا ڈال کر گھمایا جاتا تو ریل آگے کو کھسک جاتی تو پھر سے وی سی آر میں ڈال کر چلائی جاتی۔ کیسٹ کی ریل ٹوٹ جانے کی صورت میں ناخن پالش سے اسے بڑی مہارت سے جوڑا جاتا تھا۔
ایک دفعہ ہم نے اپنے ایک دوست کو کہا کہ کیسٹ ڈھیلی کرکے لگائے، اس نے ڈھیلی کرکے لگائی لیکن کچھ نہ ہوا۔۔۔ ہم نے کہا ”ابے یار ڈھیلی نہیں کی“ تو موصوف نے ہمارے چودہ طبق یہ کہہ کر روشن کردئے کہ ”پیچ آدھے آدھے تو باہر نکال دیے ہیں“ـــ ہم نے سر پیٹ لیا کہ موصوف ٹیپ ریکارڈر کی کیسٹ سمجھے تھے (اب ٹیپ ریکارڈر کے بارے میں پھر کبھی) اور کیسٹ کے پیج کھول کر ڈھیلے کردیے تھے۔
ایک بندہ وی سی آر کے ساتھ بیٹھا رہتا جو تمام گانوں کو تیزی سے آگے کرتا نیز ولن یا ہیرو کے غلط ارادوں کو بھانپ کر بھی منظر آگے کردیتا تھا۔
ایک دفعہ ہمارا دوست جو اپنے تایا کے گھر رہتا تھا، ایک رات بالکل اکیلا تھا کیونکہ اس کے تایا وغیرہ دوسرے شہردودن کے لئے چلے گئے تھے۔ ہم نے وی سی آر پر فلم دیکھنے کا منصوبہ بنا لیا اور سب دوست پیسے جمع کرکے سائیکل رکشے پر وی سی آر لائے۔ آتے ہوئے ہمارے دوست نے رکشے والے کو حکم دیا کہ لمبے اور سنسان راستے سے لے کر چلے تاکہ کسی کوپتا نہ چلے اور ستم یہ کہ رکشے سے اترتے ہوئے رکشے والے کو بولا کہ ”یار! پولیس کو یا محلے والے کو بتاؤ گے تو نہیں کہ ہم وی سی آر لائے ہیں“ ۔۔۔۔ ہم نے سر پیٹ لیا کہ اب اس نے نہیں بھی بتانا ہوگا تو سب کو بتائے گا۔
اب وہ ہمیں کہتا آواز اونچی مت کرو اور ہر تھوڑی دیر بعد پورے مکان کا باہر سے چکر لگاتا کہ آواز باہر تو نہیں جارہی ہے۔۔۔۔
ویسے جب وہ باہر نکلتا تو ہم آواز بالکل بند کردیتے اور اس کے آنے پر کھول دیتے۔۔۔
خیر کیازمانہ تھا اور بھولے لوگ تھے۔۔۔ آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہوگا۔۔۔۔۔۔
اب تو ہر کوئی ہاتھ میں فلمیں اور گانے وغیرہ موبائیل کی صورت میں لیے پھرتا ہے۔
برسبیل تذکرہ وی سی آر کے بعد وی سی پی کی آمد ہوئی تھی بس فرق یہ تھا کہ وی سی پی میں ریکارڈنگ نہیں ہوتی تھی۔ پھر وی سی ڈی کی آمد ہوئی جس میں سی ڈی چلتی تھی۔ اب تو یو ایس بی سے بات چند ملی میٹر کے ایس ڈی کارڈ تک آگئی ہے۔ جس کو موبائیل یا ٹی وی کے ساتھ جوڑ کر فلم دیکھ لو۔
ازقلم: مبشر عزیز
پچھلے دنوں دراز سے وی سی آر کی کیسٹ نمودار ہوئی جو ہمارے لیے کوئی انوکھی چیز نہیں تھی لیکن آج کل کی نسل کے لئے عجیب و غریب چیز تھی۔۔۔۔
مجھے وہ وقت یاد آیا جب وی سی آر ہمارے لئے بڑی بڑی خاص چیز ہوا کرتا تھا۔ وی سی آر کو کرائے پر محلے والوں کی نظروں سے چھپاکر لانا بھی کمال ہوا کرتا تھا۔ صرف قریبی ہمسائیوں کو فلم دیکھنے کے لئے مدعو کیا جاتا تھا۔ وی سی آر رات نو بجے سے صبح نوبجے تک کے لئے ہمارے پاس ہوتا تھا اور اس قلیل عرصے میں تین تین گھنٹے کی چار فلمیں دیکھنی ہوتی تھیں غرضیکہ وقت کم اور مقابلہ سخت والا حساب ہوتا تھا۔۔۔۔۔۔
اس وقت موجودہ کرونا والا وقت تو تھا نہیں کہ سارا دن سونے کے بعد ساری رات جاگنے کی عادت ہو اس لئے بمشکل دوسری فلم کے بعد نیند کے جھونکے آنے لگتے لیکن پورے پانچ یا دس روپے کا حصہ وی سی آر کےکرائے میں ہوتا تھا اس لئیے بار بار نیند کو بھگانے کے لئے منہ کو دھویا جاتا جو اس سے پہلے بمشکل صرف صبح کے وقت دھویا جاتا تھا۔ پھر بعض اوقات انگوٹھے اور انگلی کی مدد سے آنکھوں کو پھاڑ کر کھولا جاتا کیونکہ اگر کوئی منظر یا فلم رہ گئی تو باقی دیکھنے والوں نے چڑانا تھا۔ ویسے ساری فلمیں دیکھنے کا مجھے کبھی بھی اعزاز حاصل نہیں ہوا۔
اگر گرمیاں ہوتی تو وی سی آر صاحب کے لئے بطور خاص پیڈسٹل لگوایا جاتا کیونکہ ان کے نخرے بڑے ہوتے تھے اور تھوڑی دیر بعد گرم ہونے پر اس کو بند بھی کرنا پڑتا تھا۔
اچانک فلم دیکھنے کے دوران سکرین پر جھری سی آنے لگتی تو فوری طور پر وی سی آر کا اوپر کا حصہ الگ کیا جاتا اور اس کے ہیڈ (شنید تا کہ ہیڈ میں ہیرا استعمال لگا ہوتا ہے اس لئے دھیان سے صاف کرنا پڑتا ہے) کو صاف کرنے کے لئے دس یا سو کا کرارا نوٹ مانگا جاتا اور پھر اس پر پرفیوم چھڑک کر گزارا جاتا کہ ہیڈ صاف ہوجائے۔ ویسے ہماری حسرت ہی رہی کہ کبھی ہم وی سی آر کو کھولے بغیر بھی استعمال کریں۔
اگر شومئی قسمت وی سی آر صحیح کام کررہا ہوتا تو کیسٹ گڑبڑ کر جاتی اور پھر کیسٹ کو ڈھیلا کرنا پڑتا جس کے لئے کیسٹ کے سوراخوں میں انگوٹھا ڈال کر گھمایا جاتا تو ریل آگے کو کھسک جاتی تو پھر سے وی سی آر میں ڈال کر چلائی جاتی۔ کیسٹ کی ریل ٹوٹ جانے کی صورت میں ناخن پالش سے اسے بڑی مہارت سے جوڑا جاتا تھا۔
ایک دفعہ ہم نے اپنے ایک دوست کو کہا کہ کیسٹ ڈھیلی کرکے لگائے، اس نے ڈھیلی کرکے لگائی لیکن کچھ نہ ہوا۔۔۔ ہم نے کہا ”ابے یار ڈھیلی نہیں کی“ تو موصوف نے ہمارے چودہ طبق یہ کہہ کر روشن کردئے کہ ”پیچ آدھے آدھے تو باہر نکال دیے ہیں“ـــ ہم نے سر پیٹ لیا کہ موصوف ٹیپ ریکارڈر کی کیسٹ سمجھے تھے (اب ٹیپ ریکارڈر کے بارے میں پھر کبھی) اور کیسٹ کے پیج کھول کر ڈھیلے کردیے تھے۔
ایک بندہ وی سی آر کے ساتھ بیٹھا رہتا جو تمام گانوں کو تیزی سے آگے کرتا نیز ولن یا ہیرو کے غلط ارادوں کو بھانپ کر بھی منظر آگے کردیتا تھا۔
ایک دفعہ ہمارا دوست جو اپنے تایا کے گھر رہتا تھا، ایک رات بالکل اکیلا تھا کیونکہ اس کے تایا وغیرہ دوسرے شہردودن کے لئے چلے گئے تھے۔ ہم نے وی سی آر پر فلم دیکھنے کا منصوبہ بنا لیا اور سب دوست پیسے جمع کرکے سائیکل رکشے پر وی سی آر لائے۔ آتے ہوئے ہمارے دوست نے رکشے والے کو حکم دیا کہ لمبے اور سنسان راستے سے لے کر چلے تاکہ کسی کوپتا نہ چلے اور ستم یہ کہ رکشے سے اترتے ہوئے رکشے والے کو بولا کہ ”یار! پولیس کو یا محلے والے کو بتاؤ گے تو نہیں کہ ہم وی سی آر لائے ہیں“ ۔۔۔۔ ہم نے سر پیٹ لیا کہ اب اس نے نہیں بھی بتانا ہوگا تو سب کو بتائے گا۔
اب وہ ہمیں کہتا آواز اونچی مت کرو اور ہر تھوڑی دیر بعد پورے مکان کا باہر سے چکر لگاتا کہ آواز باہر تو نہیں جارہی ہے۔۔۔۔
ویسے جب وہ باہر نکلتا تو ہم آواز بالکل بند کردیتے اور اس کے آنے پر کھول دیتے۔۔۔
خیر کیازمانہ تھا اور بھولے لوگ تھے۔۔۔ آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہوگا۔۔۔۔۔۔
اب تو ہر کوئی ہاتھ میں فلمیں اور گانے وغیرہ موبائیل کی صورت میں لیے پھرتا ہے۔
برسبیل تذکرہ وی سی آر کے بعد وی سی پی کی آمد ہوئی تھی بس فرق یہ تھا کہ وی سی پی میں ریکارڈنگ نہیں ہوتی تھی۔ پھر وی سی ڈی کی آمد ہوئی جس میں سی ڈی چلتی تھی۔ اب تو یو ایس بی سے بات چند ملی میٹر کے ایس ڈی کارڈ تک آگئی ہے۔ جس کو موبائیل یا ٹی وی کے ساتھ جوڑ کر فلم دیکھ لو۔
ایکـــــــ باحجاب خـــــــاتون میٹرو میں سوار ہوئی دروازے سے گزرتے ہوئے اسکی چادر ایک جگہ اٹک گئی جس سے خاتون لڑکھڑائی🧕
ایک خاتون جس نے نامناسب اور تنگ لباس پہنا ہوا تھا چيخ کر بولی يہ کيا کررہی ہو اور کیسا لباس پہنا ہوا ہے اس گرمی میں؟
میٹرو میں بيٹھے بقیہ افراد بھی متوجہ ہوئے لیکن اس باحجاب خاتون نے جلدی سے خود کو سمیٹا اور اسی خاتون کے ساتھ جا کر بيٹھ گئی🙇♂️
جب میٹرو چل پڑی تو اس باحجاب خاتون نے اس خاتون کو کان میں کہا کہ يہ چادر میں نے تمہاری خاطر پہن رکھی ہے👏
يہ سن کر اس خاتون نے کہا کہ ميری خاطر؟ میں نے تمہیں کب کہا کہ میری خاطر تم چادر پہنو اور اس گرمی میں پسینے سے شرابور ہو؟
اس نے کہا بالکل! میں نے يہ لباس تمہاری خاطر پہنا ہے تاکہ اگر ایک دن تمہارا شوہر! جس نے تم سے نکاح کیا ہے اور عہد کیا ہے کہ وہ تمہارے علاوہ کسی اور خاتون کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھے گا کبھی تم سے بے وفائی نہ کرے گا اور میری طرف متوجہ نہ ہوگا🙏
کبھی میرے حسن کی طرف مائل ہوکر اسکا دل تم سے اچاٹ نہ ہو اور تمہاری ازدواجی زندگی خراب نہ ہو. اسکی توجہ فقط تمہاری ذات تک محدود رہے اس لئے ميں نے اپنے اوپر سختی کرکے تمہارے گھر کو محفوظ کیا ہوا ہے🥀
میں گرمی کی شدت میں بھی اپنے جسم کی نمائش نہیں کرتی، تاکہ کوئی مرد اپنے گھر کی خواتین سے خیانت نہ کرے🌷
اور يہ مت بھولو کہ میں بھی تمہاری طرح عورت ہوں. میرا بھی دل کرتا ہے کہ لوگ میری تعریف کریں اور جب تک میں نظروں سے اوجھل نہ ہو جاؤں لوگ میرے حسن کی مدح کریں🔥
لیکن میرا بھی ایک شوہر ہے جس سے میں خیانت نہيں کرنا چاہتی کیونکہ میری نظر میں مجھ پر فقط میرے شوہر کا حق ہے اور میں اس حق میں خیانت نہیں کروں گی. اگر اس عہد میں وفا کرتی ہوں تو میرا شوہر بھی مجھ سے کبھی خیانت نہیں کرے گا اور کسی خاتون کی جانب نظریں اٹھا کر نہیں دیکھے گا👁
لیکن تم جیسی عورتوں نے کہ جنکے گھروں کی حفاظت ہم اپنے حجاب سے کرتی ہیں، اپنے جسموں کی نمائش کرکے مردوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں اور اپنے حسن کی طرف لبھاتی ہیں. مردوں کی ایک ایک نظر کی بھیک مانگتی ہیں
اب تم بتاؤ اعتراض مجھ پر کرنا چاہئے يا مجھے تم پر؟ يہ سن کر وہ خاتون شرمندہ ہوئی اور اس نے کہا کہ کبھی میں نے اس معاملے کو اس زاویے سے نہیں ديکھا تھا👀
اس حقیقت کو مغربی خاتون سمجھ چکی ہے اور وہ حجاب جیسی نعمت کو درک کرکے اسلام کی طرف مائل ہورہی ہے✍️
🙏 copy
ایک خاتون جس نے نامناسب اور تنگ لباس پہنا ہوا تھا چيخ کر بولی يہ کيا کررہی ہو اور کیسا لباس پہنا ہوا ہے اس گرمی میں؟
میٹرو میں بيٹھے بقیہ افراد بھی متوجہ ہوئے لیکن اس باحجاب خاتون نے جلدی سے خود کو سمیٹا اور اسی خاتون کے ساتھ جا کر بيٹھ گئی🙇♂️
جب میٹرو چل پڑی تو اس باحجاب خاتون نے اس خاتون کو کان میں کہا کہ يہ چادر میں نے تمہاری خاطر پہن رکھی ہے👏
يہ سن کر اس خاتون نے کہا کہ ميری خاطر؟ میں نے تمہیں کب کہا کہ میری خاطر تم چادر پہنو اور اس گرمی میں پسینے سے شرابور ہو؟
اس نے کہا بالکل! میں نے يہ لباس تمہاری خاطر پہنا ہے تاکہ اگر ایک دن تمہارا شوہر! جس نے تم سے نکاح کیا ہے اور عہد کیا ہے کہ وہ تمہارے علاوہ کسی اور خاتون کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھے گا کبھی تم سے بے وفائی نہ کرے گا اور میری طرف متوجہ نہ ہوگا🙏
کبھی میرے حسن کی طرف مائل ہوکر اسکا دل تم سے اچاٹ نہ ہو اور تمہاری ازدواجی زندگی خراب نہ ہو. اسکی توجہ فقط تمہاری ذات تک محدود رہے اس لئے ميں نے اپنے اوپر سختی کرکے تمہارے گھر کو محفوظ کیا ہوا ہے🥀
میں گرمی کی شدت میں بھی اپنے جسم کی نمائش نہیں کرتی، تاکہ کوئی مرد اپنے گھر کی خواتین سے خیانت نہ کرے🌷
اور يہ مت بھولو کہ میں بھی تمہاری طرح عورت ہوں. میرا بھی دل کرتا ہے کہ لوگ میری تعریف کریں اور جب تک میں نظروں سے اوجھل نہ ہو جاؤں لوگ میرے حسن کی مدح کریں🔥
لیکن میرا بھی ایک شوہر ہے جس سے میں خیانت نہيں کرنا چاہتی کیونکہ میری نظر میں مجھ پر فقط میرے شوہر کا حق ہے اور میں اس حق میں خیانت نہیں کروں گی. اگر اس عہد میں وفا کرتی ہوں تو میرا شوہر بھی مجھ سے کبھی خیانت نہیں کرے گا اور کسی خاتون کی جانب نظریں اٹھا کر نہیں دیکھے گا👁
لیکن تم جیسی عورتوں نے کہ جنکے گھروں کی حفاظت ہم اپنے حجاب سے کرتی ہیں، اپنے جسموں کی نمائش کرکے مردوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں اور اپنے حسن کی طرف لبھاتی ہیں. مردوں کی ایک ایک نظر کی بھیک مانگتی ہیں
اب تم بتاؤ اعتراض مجھ پر کرنا چاہئے يا مجھے تم پر؟ يہ سن کر وہ خاتون شرمندہ ہوئی اور اس نے کہا کہ کبھی میں نے اس معاملے کو اس زاویے سے نہیں ديکھا تھا👀
اس حقیقت کو مغربی خاتون سمجھ چکی ہے اور وہ حجاب جیسی نعمت کو درک کرکے اسلام کی طرف مائل ہورہی ہے✍️
🙏 copy
------------------------------------------------------------
اُس کی گلّی میں کیا جھمیلا ہے
عاشقوں کا اُودَھم مَچیلا ہے
وِینٹِلیٹر پہ جو پَڑیلا ہے
ایک ہفتے سے وہ مَریلا ہے
ایسی فیشن میں کیا رَکھیلا ہے
جو چھُپانا تھا، سب دِکھیلا ہے
بھوک لگتی ہے پھر بھی لیڈر کو
پیٹ حالانکہ فُل بھَریلا ہے
ووٹ لینے کو سوچ کر آنا
اب کے جَنتا کا دل دُکھیلا ہے
گاؤں کا سب رِکارڈ رکھتا ہوں
کس کا ٹانکا کہاں بھِڑیلا ہے
میم بھائی کے واسطے سب کے
درد کیوں پیٹ میں اُٹھیلا ہے
بات کیجے،سنبھل کے ساحر سے
اُس کا بھیجا ذرا گُھمیلا ہے
عقیـــــــــــل ســـــــاحـــــــــر اکولہ
اُس کی گلّی میں کیا جھمیلا ہے
عاشقوں کا اُودَھم مَچیلا ہے
وِینٹِلیٹر پہ جو پَڑیلا ہے
ایک ہفتے سے وہ مَریلا ہے
ایسی فیشن میں کیا رَکھیلا ہے
جو چھُپانا تھا، سب دِکھیلا ہے
بھوک لگتی ہے پھر بھی لیڈر کو
پیٹ حالانکہ فُل بھَریلا ہے
ووٹ لینے کو سوچ کر آنا
اب کے جَنتا کا دل دُکھیلا ہے
گاؤں کا سب رِکارڈ رکھتا ہوں
کس کا ٹانکا کہاں بھِڑیلا ہے
میم بھائی کے واسطے سب کے
درد کیوں پیٹ میں اُٹھیلا ہے
بات کیجے،سنبھل کے ساحر سے
اُس کا بھیجا ذرا گُھمیلا ہے
عقیـــــــــــل ســـــــاحـــــــــر اکولہ
آداب عرض!!!
کسی بھائی کی پروفائل سے لیا گیا ایک شاہکار آپ سب کے لیے... اسے پڑھ کر جو محسوس کیا, اسی کو سامنے رکھتے ھوئے آپ سب کی نظر کر رہا ہوں. غور سے پڑھ کر سوچئے گا کہ حقیقت سے کتنی مطابقت رکھتی ہے یہ تحریر. اپنی دعاؤں میں یاد رکھا کیجئے-
جزاک الله
"ہم لوگ ماڈرن کہلائے جانے کے چکر میں بہت قیمتی چیزیں چھوڑ بیٹھے ہیں۔ ہم نے آسانیاں ڈھونڈیں اور اپنے لیے مشکلیں کھڑی کر دیں۔
آج ہم دھوتی پہن کے باہر نہیں نکل سکتے لیکن صدیوں کی آزمائش کے بعد یہ واحد لباس تھا جو ہمارے موسم کا تھا۔
ہم نے خود اپنے اوپر جینز مسلط کی اور اس کو پہننے کے لیے کمروں میں اے سی لگوائے۔ شالیں ہم نے فینسی ڈریس شو کے لیے رکھ دیں اور کندھے جکڑنے والے کوٹ جیکٹ اپنا لیے۔ ہمیں داڑھی مونچھ اور لمبے بال کٹ جانے میں امپاورمنٹ ملی اور فیشن بدلا تو یہ سب رکھ کے بھی ہم امپاورڈ تھے۔
ہم نے حقہ چھوڑ کے سگریٹ اٹھایا اور ولایت سے وہی چیز جب شیشے کی شکل میں آئی تو ہزار روپے فی چلم دے کر اسے پینا شروع کر دیا۔ ہے کوئی ہم جیسا خوش نصیب؟
ہم نے لسی چھوڑی، کولا بوتلیں تھام لیں۔
ہم نے ستو ترک کیا اور سلش کے جام انڈیلے۔
ہم نے املی آلو بخارے کو اَن ہائی جینک بنا دیا اور وہی چیز ایسنس کے ساتھ جوس کے مہر بند ڈبے خرید کے بچوں کو پلائی۔
وہ پیک جس کے آر پار نہیں دیکھا جا سکتا کہ گتے کا ہوتا ہے، ہم نے اس اندھے پن پہ اعتبار کیا اور آنکھوں دیکھے کو غیر صحت بخش بنا دیا۔
ہم نے دودھ سے نکلا دیسی گھی چھوڑا اور بیجوں سے نکلے تیل کو خوش ہو کے پیا۔
ہم نے چٹا سفید مکھن چھوڑا اور زرد ممی ڈیڈی مارجرین کو چاٹنا شروع کر دیا، اس کے نقصان اسٹیبلش ہو گئے تو پھر ڈگمگاتے ڈولتے پھرتے ہیں۔
گوالے کا پانی ہمیں برداشت نہیں لیکن یوریا سے بنا دودھ ہم گڑک جاتے ہیں، الحمدللہ
اصلی دودھ سے ہمیں چائے میں بو آتی ہے اور ٹی واٹنر ہم نوش جان کرتے ہیں جس پہ خود لکھا ہے کہ وہ دودھ نہیں۔
گھر کے نیچے بھینس باندھ کر ہم نے سوکھا دودھ باہر ملک سے خریدنے کا سودا کیا اور کیا ہی خوب کیا۔
ہم تو وہ ہیں جو آم کے موسم میں بھی اس کا جوس شیشے کی بوتلوں میں پیتے ہیں۔
ہم گڑ کو پینڈو کہتے تھے، سفید چینی ہمیں پیاری لگتی تھی۔ براؤن شوگر نے ہوٹلوں میں واپس آ کے ہمیں چماٹ مار دیا۔ اب ہم ادھر ادھر دیکھتے ہوئے گال سہلاتے ہیں لیکن گڑ بھی کھاتے ہیں تو پیلے والا کہ بھورا گڑ تو ابھی بھی ہمیں رنگ کی وجہ سے پسند نہیں۔
آئیں ہم سے ملیں، ہم ایمرجنسی میں پیاسے مر جاتے ہیں۔ گھروں کی ٹونٹی کا پانی نہیں پی سکتے، نہ ابال کر نہ نتھار کے-
ہم پانی بھی خرید کے پیتے ہیں۔ ہم ہیں ستلجوں، راویوں، چنابوں اور سندھوں کے زمین زاد، جو ولایتی کمپنیوں کو پیسے دے کے پانی خریدتے ہیں۔
ہم تو پودینے کی چٹنی تک ڈبوں میں بند خریدتے ہیں۔ چھٹانک دہی اور مفت والے پودینے کی چٹنی ہم ڈیڑھ سو روپے دے کے اس ذائقے میں کھاتے ہیں جو ہمارے دادوں کو ملتی تو انہوں نے دسترخوان سے اٹھ جانا تھا۔
سوہانجنا ہمیں کڑوا لگتا تھا، جب سے وہ مورنگا بن کر کیپسولوں میں آیا ہے تو ہم دو ہزار میں پندرہ دن کی خوراک خریدتے ہیں۔ وہی سوکھے پسے ہوئے پتے جب حکیم پچاس روپے کے دیتا تھا تو ہمیں یقین نہیں تھا آتا۔
پانچ سو روپے کا شربت کھانسی کے لیے خریدیں گے لیکن پانچ روپے کی ملٹھی کا ٹکڑا دانتوں میں نہیں دبانا، عجیب سا ٹیسٹ آتا ہے۔
ہم پولیسٹر کے تکیوں پہ سوتے ہیں، نائلون ملا لباس پہنتے ہیں۔ سردی گرمی بند جوتا چڑھاتے ہیں، کپڑوں کے نیچے کچھ مزید کپڑے پہنتے ہیں اور زندگی کی سڑک پہ دوڑ پڑتے ہیں، رات ہوتی ہے تو اینٹی الرجی بہرحال ہمیں کھانی پڑتی ہے۔
ہم اپنی مادری زبان ماں باپ کے لہجے میں نہیں بول سکتے۔ ہم زبان کے لیے نعرے لگاتے ہیں لیکن گھروں میں بچوں سے اردو میں بات کرتے ہیں۔ ہم اردو یا انگریزی کے رعب میں آ کے اپنی جڑیں خود کاٹتے ہیں اور بعد میں وجہ ڈھونڈتے ہیں کہ ہم ’مس فٹ‘ کیوں ہیں۔
عربی فارسی کو ہم نے مدرسے والوں کی زبان قرار دیا اور ہاتھ جھاڑ کے سکون سے بیٹھ گئے۔ الف لیلیٰ اور اپنے دیسی قصے کہانیوں کو ہم نے لات مار دی، گورے کے پاس سے آئی تو ہمیں یاد آ گیا کہ استاد مال تو اپنا تھا۔
جا کے دیکھیں تو سہی، عربی فارسی کی پرانی ہوں یا نئی، صرف وہ کتابیں ہمارے پاس اب باقی ہیں جو مدرسوں کے نصاب میں شامل ہیں۔ باقی ایک خزانہ ہے جسے ہم طلاق دیے بیٹھے ہیں۔
ہماری گلیوں میں اب کوئی چارپائی بُننے والا نہیں آتا، ہمیں نیم اور بکائن میں تمیز نہیں رہ گئی، ہمارے سورج سخت ہوگئے اور ہمارے سائے ہم سے بھاگ چکے- ہمارے چاند کو روشنیاں نگل گئیں اور مٹی کی خوشبو کو ہم نے عطر کی شکل میں خریدنا پسند کیا۔
وہ بابا جو نیم کی چھاؤں میں چارپائی لگائے ٹیوب ویل کے ساتھ دھوتی پہنے لیٹا ہوتا ہے، وہ حقے کا کش لگاتا ہے، ہمیں دیکھتا ہے اور ہنس کے آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ اسے کب کی سمجھ آ گئی ہے، ہمیں نہیں آتی"
منقول
کسی بھائی کی پروفائل سے لیا گیا ایک شاہکار آپ سب کے لیے... اسے پڑھ کر جو محسوس کیا, اسی کو سامنے رکھتے ھوئے آپ سب کی نظر کر رہا ہوں. غور سے پڑھ کر سوچئے گا کہ حقیقت سے کتنی مطابقت رکھتی ہے یہ تحریر. اپنی دعاؤں میں یاد رکھا کیجئے-
جزاک الله
"ہم لوگ ماڈرن کہلائے جانے کے چکر میں بہت قیمتی چیزیں چھوڑ بیٹھے ہیں۔ ہم نے آسانیاں ڈھونڈیں اور اپنے لیے مشکلیں کھڑی کر دیں۔
آج ہم دھوتی پہن کے باہر نہیں نکل سکتے لیکن صدیوں کی آزمائش کے بعد یہ واحد لباس تھا جو ہمارے موسم کا تھا۔
ہم نے خود اپنے اوپر جینز مسلط کی اور اس کو پہننے کے لیے کمروں میں اے سی لگوائے۔ شالیں ہم نے فینسی ڈریس شو کے لیے رکھ دیں اور کندھے جکڑنے والے کوٹ جیکٹ اپنا لیے۔ ہمیں داڑھی مونچھ اور لمبے بال کٹ جانے میں امپاورمنٹ ملی اور فیشن بدلا تو یہ سب رکھ کے بھی ہم امپاورڈ تھے۔
ہم نے حقہ چھوڑ کے سگریٹ اٹھایا اور ولایت سے وہی چیز جب شیشے کی شکل میں آئی تو ہزار روپے فی چلم دے کر اسے پینا شروع کر دیا۔ ہے کوئی ہم جیسا خوش نصیب؟
ہم نے لسی چھوڑی، کولا بوتلیں تھام لیں۔
ہم نے ستو ترک کیا اور سلش کے جام انڈیلے۔
ہم نے املی آلو بخارے کو اَن ہائی جینک بنا دیا اور وہی چیز ایسنس کے ساتھ جوس کے مہر بند ڈبے خرید کے بچوں کو پلائی۔
وہ پیک جس کے آر پار نہیں دیکھا جا سکتا کہ گتے کا ہوتا ہے، ہم نے اس اندھے پن پہ اعتبار کیا اور آنکھوں دیکھے کو غیر صحت بخش بنا دیا۔
ہم نے دودھ سے نکلا دیسی گھی چھوڑا اور بیجوں سے نکلے تیل کو خوش ہو کے پیا۔
ہم نے چٹا سفید مکھن چھوڑا اور زرد ممی ڈیڈی مارجرین کو چاٹنا شروع کر دیا، اس کے نقصان اسٹیبلش ہو گئے تو پھر ڈگمگاتے ڈولتے پھرتے ہیں۔
گوالے کا پانی ہمیں برداشت نہیں لیکن یوریا سے بنا دودھ ہم گڑک جاتے ہیں، الحمدللہ
اصلی دودھ سے ہمیں چائے میں بو آتی ہے اور ٹی واٹنر ہم نوش جان کرتے ہیں جس پہ خود لکھا ہے کہ وہ دودھ نہیں۔
گھر کے نیچے بھینس باندھ کر ہم نے سوکھا دودھ باہر ملک سے خریدنے کا سودا کیا اور کیا ہی خوب کیا۔
ہم تو وہ ہیں جو آم کے موسم میں بھی اس کا جوس شیشے کی بوتلوں میں پیتے ہیں۔
ہم گڑ کو پینڈو کہتے تھے، سفید چینی ہمیں پیاری لگتی تھی۔ براؤن شوگر نے ہوٹلوں میں واپس آ کے ہمیں چماٹ مار دیا۔ اب ہم ادھر ادھر دیکھتے ہوئے گال سہلاتے ہیں لیکن گڑ بھی کھاتے ہیں تو پیلے والا کہ بھورا گڑ تو ابھی بھی ہمیں رنگ کی وجہ سے پسند نہیں۔
آئیں ہم سے ملیں، ہم ایمرجنسی میں پیاسے مر جاتے ہیں۔ گھروں کی ٹونٹی کا پانی نہیں پی سکتے، نہ ابال کر نہ نتھار کے-
ہم پانی بھی خرید کے پیتے ہیں۔ ہم ہیں ستلجوں، راویوں، چنابوں اور سندھوں کے زمین زاد، جو ولایتی کمپنیوں کو پیسے دے کے پانی خریدتے ہیں۔
ہم تو پودینے کی چٹنی تک ڈبوں میں بند خریدتے ہیں۔ چھٹانک دہی اور مفت والے پودینے کی چٹنی ہم ڈیڑھ سو روپے دے کے اس ذائقے میں کھاتے ہیں جو ہمارے دادوں کو ملتی تو انہوں نے دسترخوان سے اٹھ جانا تھا۔
سوہانجنا ہمیں کڑوا لگتا تھا، جب سے وہ مورنگا بن کر کیپسولوں میں آیا ہے تو ہم دو ہزار میں پندرہ دن کی خوراک خریدتے ہیں۔ وہی سوکھے پسے ہوئے پتے جب حکیم پچاس روپے کے دیتا تھا تو ہمیں یقین نہیں تھا آتا۔
پانچ سو روپے کا شربت کھانسی کے لیے خریدیں گے لیکن پانچ روپے کی ملٹھی کا ٹکڑا دانتوں میں نہیں دبانا، عجیب سا ٹیسٹ آتا ہے۔
ہم پولیسٹر کے تکیوں پہ سوتے ہیں، نائلون ملا لباس پہنتے ہیں۔ سردی گرمی بند جوتا چڑھاتے ہیں، کپڑوں کے نیچے کچھ مزید کپڑے پہنتے ہیں اور زندگی کی سڑک پہ دوڑ پڑتے ہیں، رات ہوتی ہے تو اینٹی الرجی بہرحال ہمیں کھانی پڑتی ہے۔
ہم اپنی مادری زبان ماں باپ کے لہجے میں نہیں بول سکتے۔ ہم زبان کے لیے نعرے لگاتے ہیں لیکن گھروں میں بچوں سے اردو میں بات کرتے ہیں۔ ہم اردو یا انگریزی کے رعب میں آ کے اپنی جڑیں خود کاٹتے ہیں اور بعد میں وجہ ڈھونڈتے ہیں کہ ہم ’مس فٹ‘ کیوں ہیں۔
عربی فارسی کو ہم نے مدرسے والوں کی زبان قرار دیا اور ہاتھ جھاڑ کے سکون سے بیٹھ گئے۔ الف لیلیٰ اور اپنے دیسی قصے کہانیوں کو ہم نے لات مار دی، گورے کے پاس سے آئی تو ہمیں یاد آ گیا کہ استاد مال تو اپنا تھا۔
جا کے دیکھیں تو سہی، عربی فارسی کی پرانی ہوں یا نئی، صرف وہ کتابیں ہمارے پاس اب باقی ہیں جو مدرسوں کے نصاب میں شامل ہیں۔ باقی ایک خزانہ ہے جسے ہم طلاق دیے بیٹھے ہیں۔
ہماری گلیوں میں اب کوئی چارپائی بُننے والا نہیں آتا، ہمیں نیم اور بکائن میں تمیز نہیں رہ گئی، ہمارے سورج سخت ہوگئے اور ہمارے سائے ہم سے بھاگ چکے- ہمارے چاند کو روشنیاں نگل گئیں اور مٹی کی خوشبو کو ہم نے عطر کی شکل میں خریدنا پسند کیا۔
وہ بابا جو نیم کی چھاؤں میں چارپائی لگائے ٹیوب ویل کے ساتھ دھوتی پہنے لیٹا ہوتا ہے، وہ حقے کا کش لگاتا ہے، ہمیں دیکھتا ہے اور ہنس کے آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ اسے کب کی سمجھ آ گئی ہے، ہمیں نہیں آتی"
منقول
- KashmirFiles _ कितना सच, कितना झूठ_ - KashmirFilesReview by Ashok Kumar Pandey
https://youtu.be/FtKc0-4yQfI
https://youtu.be/FtKc0-4yQfI
YouTube
The KashmirFiles _ कितना सच, कितना झूठ_ - KashmirFilesReview by Ashok Kumar Pandey
- KashmirFiles _ कितना सच, कितना झूठ_ - KashmirFilesReview by Ashok Kumar Pandey
#TheKashmirFiles
#KitnaSachKitnaJhut
#JanePuriHaqeeqat
#HistoryVideo
#TheKashmirFiles
#KitnaSachKitnaJhut
#JanePuriHaqeeqat
#HistoryVideo
آسمان میں ایک بڑا عقاب اڑ رہا ہے اور اس کی پیٹھ پر ایک سانپ ہے
عقاب کہہ رہا ہے کہ اگر میں اسے پھینکنے کی کوشش کروں تو وہ مجھے ڈس لے گا
سانپ کہہ رہا ہے کہ اگر میں اسے ڈس لوں تو وہ مجھے پھینکے گا
اور لوگ دونوں دیکھ کے تالیاں بجاتے ہوئے کہہ رہے ہیں: اوہ! دونوں کی دوستی کتنی خوبصورت ہے!!
(ایک چھوٹی سی کہانی جو اس زمانے میں کئی رشتوں کی وضاحت کرتی ہے)۔
عقاب کہہ رہا ہے کہ اگر میں اسے پھینکنے کی کوشش کروں تو وہ مجھے ڈس لے گا
سانپ کہہ رہا ہے کہ اگر میں اسے ڈس لوں تو وہ مجھے پھینکے گا
اور لوگ دونوں دیکھ کے تالیاں بجاتے ہوئے کہہ رہے ہیں: اوہ! دونوں کی دوستی کتنی خوبصورت ہے!!
(ایک چھوٹی سی کہانی جو اس زمانے میں کئی رشتوں کی وضاحت کرتی ہے)۔
Gujrat filesگجرات فائلس .pdf
81.9 MB
Gujrat files
گجرات فائلس .pdf
گجرات فائلس .pdf