محمد أكرم الندوي
4.33K subscribers
820 photos
5 videos
53 files
781 links
Download Telegram
الأول: أن الغرض من الأضحية هو إهراق الدم نيابة عن سنة الخليل إبراهيم عليه السلام، إذ امتثل أمر ربه في ذبح ابنه إسماعيل عليه السلام، فلما أسلما وتله للجبين نودي أن يا إبراهيم قد صدقت الرؤيا، وأمره أن يذبح بنعجة مكان ولده، فأبقى الله هذه السنة تذكيرا بذلك الإسلام وبذلك الذبح العظيم. أخرج البخاري عن البراء بن عازب رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلّم قال: من ذبح بعد الصلاة فقد تم نسكه وأصاب سنة المسلمين، فانظروا كيف حث على الذبح، وأخرج الترمذي عن عائشة رضي الله عنها أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ما عمل آدمي من عمل يوم النّحر أحبُّ إلى الله من إهراق الدّم، إنّها لتأتي يوم القيامة بقرونها وأشعارها وأظلافها، وأن الدم ليقع من الله بمكان قبل أن يقع من الأرض، فطيبوا بها نفسا، وأخرج ابن ماجه وأحمد عن زيد بن أرقم قال: قال أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا رسول الله، ما هذه الأضاحي؟ قال: سنة أبيكم إبراهيم عليه الصلاة والسلام، قالوا: فما لنا فيها يا رسول الله؟ قال: بكل شعرة حسنة، قالوا: فالصّوف يا رسول الله؟ قال: بكل شعرة من الصوف حسنة.
وليست صدقة الفطر إلا طهرة للصائمين وطعمة للمساكين، أخرج أبو داود وابن ماجه وغيرهما عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم زكاة الفطر طهرة للصائم من اللغو والرفث وطعمة للمساكين، والطهرة والطعمة تتحققان بما ورد في الحديث وبغيره مما في معناه.
والثاني: أن الأضحية ليست صدقة، فتراعى فيها مصالح الفقراء، بل هي عبادة مستقلة، ومن ثم يأكل منها المضحي بنفسه، ويطعم منها الأغنياء والفقراء، ولو اقتصر بها على أهله أو على الأغنياء لجاز.
ولا يجوز للرجل أن يتصدق بزكاة الفطر على نفسه أو أهله الأقربين أو الأغنياء، بل لا بد أن يخرجه للفقراء.
والثالث: لم ينص القرآن والسنة في الأضحية إلا على الأضحية، ولم يرد فيها تنويع، وذلك أمر اجتمعت عليه الأمة في كافة الأمصار والأعصار، وأقْبِح بالإنسان أن يجعل الأمر المختلف فيه كالأمر المجمع عليه.
وصدقة الفطر فيها تنويع، إذ قال: صاعا من طعام أو صاعا من شعير أو صاعا من تمر أو صاعا من أقط أو صاعا من زبيب، والتويع يقتضي التخيير بين ما ذكر وبين ما كان في معناه، لأن الإنسان البليغ لا يحصر كل الأنواع، وإنما يأتي ببعضها مثالا، وهذه الأنواع لها قيمة شرعا، فيشمل التنويع القيمة.
والرابع: وهو أمر مهم للغاية، وهو أن القياس الصحيح، مهما كان قياس علة أو قياس شبه، أن تجمعوا بين المتماثلين، وتفرقوا بين المتخالفين، وهو أمر دقيق جدا يتبين منه فقه الفقيه، فإذا أردتم القياس فيما نحن فيه، فهو أن تقيسوا الأضحية بالحج والعمرة، وأن تقيسوا صدقة الفطر بالزكاة وعامة الصدقات والكفارات، فمثلا: خير الفقهاء بين أن إخراج زكاة الذهب والفضة ذهبا وفضة وإخراج قيمتها، وصدقة الفطر تماثلها أبلغ مماثلة، فإياكم إياكم أن تفرقوا بين المتماثلين، وأن تجمعوا بين المتخالفين، فتكونوا من أبعد الناس عن الفقه والفهم.
قالوا: فما توصينا؟ قلت: أوصيكم ونفسي بتقوى الله، وأن لا تغلوا في دين الله، وأن تيسروا على المسلمين دينهم غير معسرين، ورضي الله عن الأئمة الفقهاء أبي حنيفة ومالك والثوري والأوزاعي والشافعي وأبي ثور وأحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه والبخاري، ومن بعدهم ممن اتبعهم أو اختلف عنهم ورضي عنا معهم أجمعين، وصلى الله على سيدنا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين.
اے کاش میرے تیرے لئے کل یہ حکم ہو
لے جاؤ اِن کو خلد میں جو کچھ ہُوا، ہُوا

داغ
بسم اللّه الرحمن الرحيم
فتوى دينے كا عمل: ذاتى تجربات كى روشنى ميں

از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى
آكسفورڈ

اس مضمون كے چار حصے ہيں: أهلية الإفتاء، إصدار الفتوى، تقييم الفتوى، احترام الفتوى والمفتى، ان ميں سے ہر حصه كى بقدر ضرورت تفصيل پيش كرنے كى كوشش كروں گا:

أهلية الإفتاء:
اپنے بارے ميں كسى اہليت كى بات كرناادب كے خلاف ہے، ليكن دو وجہوں سے اس ادب كى خلاف ورزى كى جرأت كى جا رہى ہے، ايك تو يه كه آئنده فتوى دينے كے حواله سے جو تجربات بيان كئے جائيں گے وه اسى وقت التفات كے مستحق ہوں گے جب ان كى پشت پر كوئى اتهاريٹى ہو، دوسرے يه كه ميں تقريبا پينتيس سال سے فتوى دينے كے كام ميں مشغول ہوں، اور بيس سالوں سے يه كام بہت بڑه گيا ہے، دس سال پہلے كى بات ہے كه كچه لوگوں نے مجه سے پوچها كه آپ كيسے فتوى ديتے ہيں جبكه آپ مفتى نہيں ہيں؟ ميں نے استفسار كيا كه آپ كو يه كيسے معلوم ہوا كه ميں مفتى نہيں؟ انہوں نے كہا كه آپ كے نام كے ساته مفتى كا سابقه نہيں، اس دليل پر مجهے سخت حيرت ہوئى، جن لوگوں نے يه دليل دى تهى وه عوام الناس ميں سے نہيں تهے اور نه ہى جديد تعليميافته طبقه سے تعلق ركهتے تهے، بلكه ان لوگوں ميں سے تهے جو اہتمام سے اپنے ناموں كے ساته مفتى كا سابقه لگاتے ہيں، ميں نے اس مضحكه خيز استدلال پر خاموشى اختيار كرلى، اور اپنا كام جارى ركها، آج موضوع كى مناسبت سے غنيمت معلوم ہو رہا ہے كه اس سوال كا جواب ديا جائے۔
ميں نے دار العلوم ندوة العلماء سے عالميت اور فضيلت كى، ميرا اختصاص حديث ميں تها، ليكن فقه سے شروع سے مناسبت تهى، اور ميں نے دوران طالبعلمى درسى كتابوں كے علاوه حنفى اور غير حنفى فقه كى كتابوں كا خاطر خواه مطالعه كيا تها، سنه 1984 ميں ندوه ميں بحيثيت مدرس ميرى تقڑى ہوئى، استاذ محترم مفتى مولانا ظہور صاحب رحمه الله سے پہلے سے قربت تهى، اس دوران قربت مزيد بڑهى، اس كى وجه يه ہوئى كه مفتى صاحب كے پاس عالم عرب سے كبهى كبهى عربى ميں استفتاءات آتے تو مفتى صاحب نے مجهے حكم ديا كه ميں عربى ميں ان كے جوابات تيار كروں اور ان كو دكها ديا كروں، مفتى صاحب نے مجهے اپنے پرانے فتوون كى كوئى جلد مطالعه كے لئے بهى دى جس ميں سابق مفتى ندوه مفتى سعيد صاحب كے فتوے بهى تهے، ميں نے شروع ميں عربوں كى رعايت ميں بغير كسى مسلك كى پابندى كے جواب لكها تو مفتى صاحب نے زور ديا كه حنفى مسلك كا التزام كروں، شايد مفتى صاحب كے ذہن ميں يه بات رہى ہو كه عالم عرب سے جو شخص ہندوستان كا فتوى حاصل كرنا چاہے گا وه ضرور حنفى ہوگا، مفتى صاحب كے ساته كام كرنے سے فتوى نويسى كى عملى تربيت حاصل ہوئى، اور مفتى صاحب نے مجهے فقه وفتوى كى اجازت اپنے ہاته سے لكهكر دى جو ميرى كتاب معجم الشيوخ ميں موجود ہے۔
اس كے بعد مختلف موقعوں پر شيخ يوسف القرضاوى حفظه الله سے ان كى كچه كتابيں پڑہيں، ان ميں "فتاوى معاصرة"، اور "الفتوى بين الانضباط والتسيب" خاص طور سے قابل ذكر ہيں، شيخ قرضاوى نے كئى بار اپنے ہاته سے تفصيلي اجازت بهى لكهكر دى، جب يوروپين فتوى كونسل نئى نئى قائم ہوئى، تو شيخ قرضاوى نے بحيثيت چيرمين فرمايا كه وه مجهے اس كا ممبر نام زد كرنا چاہتے ہيں، اس وقت آكسفورڈ ميں اپنى مشغوليتوں كى وجه سے ميں نے معذرت كردى۔
مزيد برآں ڈاكٹر شيخ على القره داغى سے ان كى تحقيق سے شائع شده شافعى اصول فتوى كى كتاب "الغاية القصوى في دراسة الفتوى ، للقاضي البيضاوي" كا ايك حصه پڑها، شام كے مشهور قاضى ومفتى علامه مرشد ابن عابدين سے فتاوى شاميه كے كچه اسباق لئے، شيخ محمد ديب الكلاس سے تحفة الفقہاء كے بعض حصے پڑهے، شيخ محمد عبد الرزاق الحلبى سے قرطبى كے احكام القرآن كے ايك حصه كا درس ليا، شيخ وہبه زحيلى سے الرسالة كے كچه مباحث پڑهے، شيخ محمد عصام الشطى سے فقه حنبلى كے مشہور متن مختصر الخرقي كا ايك حصه پڑها، اور ان سب نے اجازت بهى عطا كى۔
فقه اور اس سے متعلق بنيادى كتابوں كا مطالعه كيا اور ان ميں سے كچه كو پڑهايا بهى، ان ميں سے اہم كتابيں ہيں: امام شافعى كا الرسالة، ابن حزم كى المحلى، ابن قدامه كى المغنى، فتاوى ابن تيميه (مختلف حصے) شاطبى كى الموافقات، شوكانى كى ارشاد الفحول، حنفى مذہب ميں امام محمد كى كتابيں، اصول السرخسي، اصول البزدوى، تحفة الفقہاء، بدائع الصنائع، ہدايه، ابن نجيم كى الأشباه والنظائر، حجة الله البالغة، فتاوى شاميه، فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت، وغيره۔
حنفى مسلك كى مشہور درسى كتاب اصول الشاشى كى مختلف مخطوطات كى بنياد پر ايڈيٹنگ كى، جو شيخ قرضاوى كے مقدمه سے بيروت سے شائع ہوئى، اصول فقه پر ايك رساله لكها جو ندوه وغيره ميں نصاب ميں داخل ہے، پندره سال پہلے انگريزى ميں حنفى فقه كو مع دلائل پيش كرنے كا پروجكٹ شروع كيا جس كى اب تك دو جلديں شائع ہوئيں، اور الحمد لله يه كتاب مغربى دنيا ميں بہت مقبول ہوئى۔
انگريزى، عربى اور اردو ميں زبانى اور تحريرى طور پر كثرت سے فتووں كے جواب ديئے، لكهے ہوئے فتوے تقريبا ايك جلد ميں ہوں گے، يوروپين فتوى كونسل كا ممبر ہونے كى حيثيت سے ان كے استفتاءات كے جواب بهى وقتا فوقتا تحرير كرتا ہووں۔
اصدار الفتوى:
ميرے مستفتى كسى ايك مسلك كے پيرو نہيں، ان ميں حنفى، مالكى، شافعى، حنبلى، سلفى، ديوبندى اور بريلوى سبهى ہيں، ان مختلف الانواع مستفتين كو بالعموم تفصيل سے اور دلائل كے ساته جواب ديتا ہوں، تاكه ان كے علم ميں اضافه ہو اور انہيں اطمينان بهى حاصل ہو ، زياده تر امام ابن تيميه، علامه رشيد رضا اور شيخ يوسف القرضاوى كے طريقه فتوى نويسى كى پيروى كرتا ہوں۔
سوالات دو طرح كے ہوتے ہيں، ايك وه سوالات جن كا تعلق عبادات ومعاملات كى ان جزئيات سے ہے جو سلف كے زمانه سے اب تك منقول چلے آرہے ہيں، ان ميں مستفتى كے مسلك كے مطابق جواب دينے كى كوشش كرتا ہوں، اور كبهى كبهى حالات كى رعايت كرتے ہوئے دوسرے مسالك كى قابل عمل آراء كو ترجيح ديتے ہوئے جواب ديتا ہوں، دوسر ے وه سوالات ہيں جن كا تعلق جديد حالات يعنى نوازل وطوارئ سے ہوتا ہے، ان كا جواب دينے ميں درج ذيل مراحل كى پابندى كرتا ہوں:
1- صورت مسؤوله كو اچهى طرح اخذ كرنے كى كوشش كرتا ہوں، اگر مسئله كا تعلق طب، معاشيات، يا نفسيات وغيره سے ہے تو اسے اس فن كے ماہرين كى مدد سے سمجهتا ہوں، يوروپين فتوى كونسل كے اجتماعات ميں ماہرين كى ايك تعداد ہميشه مدعو ہوتى ہے جو اپنے اختصاص كى روشنى ميں كونسل كے ممبران كو صورت حال سے واقف كراتے ہيں، اور ان كے سوالات كا جواب ديتے ہيں، ميرے شاگردوں ميں كثرت سے ڈاكٹر وغيره ہيں ان كى طرف بهى رجوع كرتا ہوں۔
2- اس كے بعد على الترتيب قرآن كريم، سنت نبوىه، فتاوى صحابه وتابعين، اقوال ائمه كا مطالعه كرتا ہوں، حنفى مسلك كى كتابوں ميں امام محمد كى كتابوں، تحفة الفقہاء، بدائع الصنائع وغيره كو ترجيح ديتا ہوں، اور كبهى كبهى حاشيۂ ابن عابدين اور فتاوى عالمگيريه كى بهى مراجعت كرتا ہوں، حتى الامكان متاخرين كى كتابوں سے احتراز كرتا ہوں۔
3- اگر جواب كے كئى پہلو ہوں تو اس پہلو كو ترجيح ديتا ہوں جس سے سائل كے لئے آسانى ہو، كيونكه اس زمانه ميں دين پر چلنا جس قدر مشكل ہے وه ہم سب كو معلوم ہے، اگر ہم اسے اور مشكل بناديں گے تو شايد لوگوں كو دين سے تنفر ہو، جواب ميں تيسير شيخ يوسف القرضاوى اور دوسرے محققين كا بهى طريقۂ عمل ہے۔
4- جواب فتوى كى زبان ميں نہيں لكهتا، بلكه عام انسانوں كى زبان ميں تحرير كرتا ہوں تاكه اسے سمجهنے ميں انہيں آسانى ہو۔
5- كبهى كبهى لوگوں كى زندگى اور ان كے معاشره سے وه مثاليں پيش كرتا ہوں جن سے مسئله اچهى طرح واضح ہو اور دل نشيں ہو۔
6- ايسى تمہيدسے جواب كا آغاز كرتا ہوں جس سے مستفتى كے دل ميں خدا اور رسول سے محبت بڑهے، اور وه شريعت كو رحمت سمجهكر اس پر عمل كريں۔

تقييم الفتوى:
تقييم الفتوى كا مطلب ہے كه دوسروں كى آراء كى روشنى ميں اپنے فتوون پر نظر ثانى، اصلاح، يا رجوع اگر رجوع كرنا ہى صواب ہو، اس كے لئے بالعموم درج ذيل اقدام كرتا ہوں:
1- اپنے جوابات اصحاب فقه وفتوى كى خدمت ميں پيش كركے ان كے خيالات معلوم كرتا ہوں، پہلے زياده تر شيخ يوسف القرضاوى اور شيخ على القره داغى سے مشوره كرتا تها، اور ان كے مشوروں كى مطابق رد وبدل كرتا تها، اب مشوره كى نوبت كم آتى ہے، تا ہم كبهى كبهى دوسرے علماء بعض پہلوؤں كى طرف توجه دلاتے ہيں تو ان كى رہنمائى كے لئے متشكر ہوتا ہوں۔
2- ماہرين فن حضرات كى رايوں كى قدر كرتا ہوں، ان ميں زياده تر ميرے شاگرد ہوتے ہيں، اگر وه واضح كرتے ہيں كه مجه سے مسئله كے كسى پہلو كے سمجهنے ميں غلطى ہوگئى ہے، يا كوئى پہلو نظر انداز ہوگيا ہے تو ان كى رايوں كو قبول كرنے ميں كوئى عار نہيں محسوس كرتا، اسى لئے لوگ مجهے بے جهجهك متنبه كرتے رہتے ہيں۔
3- عام مستفسرين كى رائے كو بهى وقعت ديتا ہوں، وه توجه دلاتے ہيں كه اس فتوى پر عمل كرنے ميں كيا دشوارياں ہيں، يا جواب واضح نہيں ہے، يا جواب ايسا ہے جس سے شريعت كى تفصيلات انہيں سخت معلوم ہوتى ہيں، تو ان كے خيالات كى روشنى ميں مسئله كو مزيد واضح كرتا ہوں يا اس ميں كوئى رد وبدل كرتا ہوں۔

احترام الفتوى والمفتى:
فتوى نويسى ميں چونكه غير مفتى حضرات كى رائے كو بهى اہميت ديتا ہوں تو بعض لوگوں كے ذہن ميں يه سوال اٹهتا ہے كه اس سے فتوى اور مفتى كى بے قدرى ہوگى، ميرے خيال ميں يه شبہ بے محل ہے، مفتى حضرات كو ہر چيز كا علم نہيں ہوتا، انہيں دوسروں كے نقد وتبصره كو خوش آمديد كہنا چاہئے، اس طرح وه غلطيوں سے محفوظ رہيں گے۔
بعض لوگ يه اشكال كرتے ہيں كه جو فقيه ومفتى نہيں، اس كى رائے كو فقه وفتوى ميں كيا دخل؟ اس كا جواب يه ہے كه ہر فن كى دو پہلو ہوتے ہيں، ايك ٹكنيكل جسے اس فن كے ماہرين سمجهتے ہيں، دوسرا غير ٹكنيكل پہلو جسے عام پڑهے لكهے لوگ بلكه عوام الناس بهى سمجه سكتے ہيں، مثلا آپ ايك ڈاكٹر كے پاس جائيں جس كى توند نكلى ہو، مختلف بيماريوں ميں مبتلا ہو، اس كے شفا خانه ميں گندگى ہو، ہوا كا معقول انتظام نه ہو، تو آپ خواه ڈاكٹر نه ہوں اسے مشوره دے سكتے ہيں، اور اس كے عملى تضاد كو اس پر واضح كرسكتے ہيں۔
اسى طرح اگر ايك مفتى معاشيات كے كسى مسئله پر فتوى ديتا ہے تو معاشيات كے ماہرين اسے اس كى غلطى پر متنبه كرسكتے ہيں كه آپ نے يه بات نہيں سمجهى، يا مسئله كى يه شق آپ سے چهوٹ گئى، يا اگر مفتى كے قول وعمل ميں تضاد ہو تو عوام الناس كو بهى اس كى طرف توجه دلانے كا حق ہوگا۔
احترام علم كى گہرائى اور عمل كى پختگى سے آتا ہے، بر صغير ميں علامه عبد الحى فرنگى محلى، مولانا رشيد احمد گنگوہى اور مولانا اشرف على تهانوى كے فتووں كى بڑى قدر رہى ہے، حالانكه انہوں نے كسى سے يه مطالبه نہيں كيا كه لوگ ان كا احترام كريں، ميں ان بزرگوں كى خاك پا كے برابر بهى نہيں ليكن پهر بهى كثرت سے لوگ ميرے پاس احترام اور تشكر كے پيغام بهيجتے رہتے ہيں۔
حاصل يه ہے كه مفتى حضرات كو يه نہيں سوچنا چاہئے كه لوگ ان كا احترام كريں، بلكه انہيں پورى كوشش اس پر صرف كرنى چاہئے كه ان كے جوابات علمى، مدلل اور واضح ہوں، اور ان كے قول وعمل ميں تضاد نه ہو، الله تعالى لوگوں كے دلوں كو ان كے لئے جذبۂ محبت واحترام سے بهر دے گا۔
‎وكثرة أعمال الجوارح مع تدنَّس القلب بشيء من هذه الأوصاف ( رياء - غل - حقد - حسد ...الخ) لا تزكو، وهو كزرعٍ في أرض كثيرة الآفات لا يكاد يسلم ما ينبت فيها"
‌‏مجموع رسائل ابن رجب

Ibn rajab رحمة الله عليه said:

A plethora of outward actions while having a filthy heart (with diseases such as hypocrisy, envy, malice) will not purify (ones self). It is like planting seeds into a spoiled land. Almost nothing will be able to grow from it.
لا يفرق بين المؤمنين لأجل ما يتميز به بعضهم عن بعض مثل الأنساب والبلدان والتحالف على المذاهب والطرائق والمسالك والصداقات وغير ذلك بل يعطى كل من ذلك حقه كما أمر الله ورسوله ولا يجمع بينهم وبين الكفار الذين قطع الله الموالاة بينهم وبينه فإن دين الله هو الصراط المستقيم صراط الذين أنعم الله عليهم من النبي والصديقين والشهداء والصالحين وحسن أولئك رفيقا.
ابن تيمية.
بسم اللّه الرحمن الرحيم
بكرياں چَرانے والا مفتى


از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى
آكسفورڈ

مت سہل ہميں جانو، پهرتا ہے فلك برسوں
تب خاك كے پردے سے انساں نكلتے ہيں
بكرياں چرانے والے پيغمبروں كے بارے ميں آپ كو علم ہوگا، بخارى شريف وغيره كى روايت ميں ہے كه بشمول نبى اكرم صلى الله عليه وسلم كے انبياء عليہم السلام نے بالعموم بكرياں چرائى ہيں، گله بانى سے وه جہاں بانى كا ہنر سيكهتے تهے، آج آپ كو بكرياں چرانے والے ايك ايسے ذى علم كى داستان سنانے جا رہا ہوں، جو ايك محقق مفتى، كامياب مدرس، اور جادو بياں واعظ تهے ، وه مفتى صاحب كے نام سے جانے جاتے تهے، جس تندہى سے وه اپنے علمى مشغلوں كو انجام ديتے اسى وارفتگى سے وه بكريوں پر وقت صرف كرتے، جس طرح وه طلبه پر شفقت كرتے، سامعين كا خيال كرتے، اور مہمانوں كى خاطر دارى كرتے اسى طرح بكريوں پر بهى جان چهڑكتے، جب كوئى ان سے ملنے آتا تو اگر انہيں ان كے حجره ميں نه پاتا تو اسے يه جاننے ميں دير نه لگتى كه مفتى صاحب اس وقت بكريوں كے جهنڈ ميں ہوں گے۔
مفتى صاحب بكريوں سے والہانه باتيں كرتے، ان باتوں ميں حلاوت ہوتى، محبت كى آميزش ہوتى، پيار كا لہجه ہوتا، اور وه بكرياں مفتى صاحب كو ديكهكر نازنينوں كى طرح ناز كرتيں، اور ادائے دلبرانه سے ان كا استقبال كرتيں، اگر مجهے بكريوں سے ہمكلامى كا موقع ملتا تو ان سے ضرور پوچهتا كه وه مفتى صاحب كى باتوں كو كتنا سمجهتى ہيں؟ بہر حال خواه وه بكرياں جملۂ فعليه اور جملۂ اسميه كى تقسيم سے واقف نه ہوں، تاہم جملوں كى شيرينى، نگاه محبت، انداز الفت، دل نواز مسكراہٹ، اور پيار بهرے ہاتهوں كے لمس كو ضرور سمجهتى تهيں، اور اپنے مالك كو ديكهكر زبان حال سے گويا ہوتيں:
ميكدے ميں تو چند خم ہوں گے
تيرى آنكهوں ميں چشمۂ مے ہے
يه ہيں ميرے گاؤں كے رہنے والے مفتى محمد حنيف صاحب رحمة الله عليه، ايك شخصيت منفرد، ايك جہان دانش، ايك گوشه نشين، اور ايك مرجع فقه وفتوى، كسانوں كے ايك غريب گهرانه ميں پيدا ہوئے، بچپن دوسروں كے يہاں مزدورى كرتے گزرا، مجه سے كئى بار فرمايا كه ميرے دادا مرحوم كے يہاں بهى انہوں نے كام كياتها، جوان ہونے كے بعد علم كى طرف رغبت ہوئى، ضياء العلوم مانى كلاں ميں مولانا عبد الحليم صاحب اور مولانا ضياء الحق صاحب رحمة الله عليهما سے فارسى اور عربى كى تعليم حاصل كى، اس دوران حكيم الامت مولانا اشرف على تهانوى رحمه الله كے پاس بيعت واسترشاد كى درخواست پر مشتمل ايك عريضه ارسال كيا، حكيم الامت نے پيرانه سالى اور بيمارى كى وجه سے معذرت كردى، البته اپنے كچه خلفاء كے نام لكهديئے كه ان ميں سے كسى سے ربط پيدا كرليں، اور ساته ہى اس كى اجازت دى كه وقتا فوقتا دعا كے لئے خط وكتابت كرسكتے ہيں۔
ہمارے علاقه ميں اس وقت مولانا تهانوى كے خليفۂ اعظم شاه وصى الله فتحپورى كا شہره تها، مفتى صاحب شاه صاحب كے گاؤں فتحپور پہنچے، اور ان كے پاس مجاہدانه اٹهاره سال گزار كر طلب علم اور سلوك كى منزليں طے كيں، راه كٹهن تهى، ہمت سے كام ليا، لگن اور دهن سے رشته استوار كيا، شاه صاحب سے اصول سته كى سارى كتابيں پڑهيں، باره مرتبه صحيح بخارى كى سماعت كى، شاه صاحب حديث شريف ميں مولانا انور شاه كشميرى رحمه الله كے شاگرد تهے۔
صحبت كيميا گر نے اثر دكهايا، مس خام كو كندن بنايا، شاه صاحب نے مفتى صاحب كو اجازت وخلافت سے نوازا، ان كے جوہر كو پہچانا اور اپنے پاس روك ليا، تقريبا سوله سال تك شاه صاحب كى خدمت كى اور اله آباد ميں ان كے مدرسه ميں تدريس كے فرائض انجام ديئے، بعد ميں كئى سال ضياء العلوم ميں پڑهايا، اور سنه 1974 ميں جب مدرسۂ رياض العلوم گورينى كا وجود عمل ميں آيا تو وہاں منتقل ہوگئے، سالہا سال فقه اور حديث كى اونچى كتابوں كا درس ديا، بخارى شريف اٹهائيس بار پڑهائى، عمر كے آخرى چند سالوں ميں بيت العلوم سرائے مير ميں تدريس كى خدمات انجام ديں، عمر طويل پائى، بڑهاپے ميں بهى صحتمند تهے، انتقال سے كچه پہلے اختلاط ہوگيا، ليكن شديد نہيں، اس حال ميں بهى جب ميں ان سے ملا پہچان ليا، كچه غير مربوط باتيں كرتے، ليكن فرائض وواجبات كى ادائيگى ميں آخر تك نشاط قائم رہا۔
مفتى صاحب نے تصنيف وتاليف پر زياده توجه نہيں كى، مولانا تهانوى رحمة الله عليه كى جزاء الاعمال كا عربى ميں ترجمه كيا تها جو استاد محترم مولانا سعيد الرحمن اعظمى صاحب مد ظله كے مقدمه سے شائع ہوئى تهى، چند رسالے لكهے، اور فتووں كا ايك بڑا ذخيره چهوڑا، زبان وادب سے مناسبت تهى، بر محل اشعار پڑهتے، ايك مرتبه مولانا عبد الحليم صاحب رحمة الله عليه كو اپنى كوئى فقہى تحرير سنا رہے تهے، اس مجلس ميں ميں بهى موجود تها، تحرير مرتب ومدلل تهى، اور اس پر حيرت ہو رہى تهى كه زبان شسته تهى، اس طرح كا انداز ہمارے قديم علماء ميں شاذ ونادر ہى پايا جاتا ہے۔
زہد وقناعت، تواضع اور سادگى ان كے اوصاف گراں مايه تهے، عبادت گزار اور طاعت شعار تهے، زندگى محنت اور جان كاہى ميں گزار دى، مزاج ميں ظرافت تهى اس لئے ان كے پاس بيٹهنے ميں كبهى اكتاہٹ نه ہوتى، ايك گوشه ميں زندگى گزار دى، اله آباد ميں ضرورت سے قيام كيا، ليكن شوقيه كوئى شہر ديكهنے نہيں گئے، لكهنؤ بهى كبهى جانا نہيں ہوا، استاذ محترم مولانا واضح رشيد ندوى كى ان سے ملاقات ہوئى تو اس پر سخت استعجاب كيا كه انہوں نے اب تك لكهنؤ نہيں ديكها، استاد محترم نے ميرے سامنے بهى ايك بار اس حيرت كا اظہار كيا، مختصر يه كه مفتى صاحب اپنى مجموعى خوبيوں كى بنا پر فخر جونپور تهے اور آبروئے تدريس وافتاء ووعظ، زمانه كا رنگ ديكهكر يه توقع مشكل ہے كه ہمارے علاقه ميں اس طرز كا عالم پهر پيدا ہوسكے:
روش دہر كا ہر نقش پكارے گا مجهے
يه نه سمجهو كه مجهى تك مرا افسانه ہے
ضياء العلوم ميں ميں نے دو سال فارسى اور ايك سال عربى پڑهى، اس وقت وه وہاں مدرس اعلى تهے، مشكاة المصابيح وغيره پڑهاتے تهے، ميرا كلاس روم ان كے حجره سے قريب تها، دن ميں بار بار آمنا سامنا ہوتا، اور مجه پر ہميشه شفقت فرماتے، ضياء العلوم ميں مفتى صاحب سے كچه پڑهنے كى نوبت نہيں آئى، جب وه گورينى منتقل ہوگئے تو ميں نے ايك دوسرے مدرسه مولانا آزاد تعليمى مركز ميں داخله لے ليا، كبهى كبهى ملاقات كى غرض سے حاضر ہوتا، ان كى مجالس وعظ ميں شركت كرتا، اور ايك بار رمضان كى چهٹيوں ميں رياض العلوم ميں قيام كيا اور مفتى صاحب سے الگ سے مشكوة كے كچه ابواب پڑهے، ندوه آجانے كے بعد بهى چهٹيوں ميں وطن جاتا تو مفتى صاحب سے ضرور ملتا، شفقت ومحبت كے كيا لطيف جذبات تهے! محبت سے ہاته پكڑ ليتے اور اپنے كمره ميں لے جاكر كچه نه كچه كهلاتے اور پلاتے، ميں ان كى مجلسوں كا عاشق تها، رمضان ميں ہر روز ظہر سے پہلے گورينى جاتا، ان كا بيان سنتا اور افطارى سے كچه پهلے گهر آتا، مفتى صاحب نے مجهے اور ميرى اولادكو اجازت عامه بهى دى، ميرى بڑى بچى كا نكاح پڑهايا، اور ميرى دعوت پر گاؤں ميں مدرسه محموديه كى تأسيس كى تقريب كى صدارت فرمائى۔
تصوف وطريقت ميں خلافت ہونے كے باوجود مفتى صاحب نے اس فن كى طرف توجه نہيں، خانقاہيت ان كے مزاج سے مناسبت نہيں ركهتى تهى، ان پر علم كا غلبه رہا، پڑهنا پڑهانا ان كا اوڑهنا بچهونا تها، تبحر علم اور وسعت نظر سے متصف تهے، اور بيحد ذہين تهے، ان كى ذاتى لائبريرى منتخب كتابوں كا خزانه تهى، فن تدريس ميں يگانۂ عہد تهے، سارى عمر تدريس ميں گزار دى، سيكڑوں طلبه ان كے فيض تربيت سے علماء بن كر نكلے، مطالعه كركے محنت سے پڑهاتے، تقرير دروس ميں مہارت تامه حاصل تهى، ان كے سبق ميں دل لگتا، اور دلچسپى آخر تك قائم رہتى، درس عالمانه ہوتا، كتاب كے ما له وما عليه كى تشريح كرتے، بين السطور مضامين كو بهى سمجهاتے، كبهى كبهى رقت طارى ہوجاتى تو پهر آنسوؤں كو سنبهال نه پاتے، افسوس كه ايسے با كمال مدرسين سے دنيا خالى ہوتى جا رہى ہے۔
شعله بيان مقرر تو نہيں تهے، ليكن واعظ سحر آفريں ضرور تهے اور ايك بلبل خوش نوا، ان كے وعظ ميں جو كشش تهى اس كى مثال نہيں، كسى كے وعظ ميں دل كى وه كيفيت نه ہوتى جو مفتى صاحب كے وعظ ميں ہوتى، ايك عجيب لطف اور ايك نشه آور سرور، سوتوں كو جگانے اور مرده دلوں كى مسيحائى كے فن سے واقف تهے، احياء العلوم، كيميائے سعادت، مثنوى شريف وغيره كى مدد سے وعظ شروع كرتے، درميان ميں حسب مناسبت مولانا تهانوى، شاه وصى الله فتحپورى وغيره كے احوال بيان كرتے، تاريخى قصوں اور مقامى كہانيوں كا بهى حواله ديتے، ايك قصه شروع كرتے، تو اس سے كسى اور قصے ميں منتقل ہو جاتے، پهر كوئى تيسرى حكايت شروع كرديتے، داستان امير حمزه كى طرح ايك كہانى سے دوسرى كہانى نكلتى، يا كليله ودمنه كى طرح الجهتے ہوئے گيسو سلجهتے، بيان زلف محبوب كى طرح دراز اور دلفريب ہوتا، وقتا فوقتا مقامى زبان كو اس طرح استعمال كرتے كه مزه دوبالا ہوجاتا: ہوئى معزولى انداز وادا ميرے بعد
بحيثيت مفتى ديار مشرق ميں ان كا طوطى بولتا تها، فتوى نويسى ان كى قابليت كا سب سے بڑا مظہر تهى، كتب فقه كى جزئيات پر ان كى وسعت نظر بدرجۂ اتم تهى، اگر وه دار العلوم ديوبند ميں ہوتے تو رئيس المفتين ہوتے، وه عام مفتيوں كى طرح ناقل نہيں تهے، بلكه تحقيق سے فتوے ديا كرتے تهے، اور جو مسائل تفصيل طلب ہوتے ان ميں اختصار سے كام نه ليتے، ميرے خيال ميں مفتى كفايت الله صاحب رحمة الله عليه كے بعد ايسا محقق اور دقيقه رس مفتى ہندوستان ميں كوئى دوسرا نہيں پيدا ہوا، علم كى وسعت وگہرائى كے باوجود ان كے يہاں فروع وجزئيات ميں تنگى تهى، يه تشدد كيوں تها سمجه ميں نہيں آيا، كيونكه وه بہت نرم مزاج، ملنسار اور محبت كرنے والے انسان تهے، شايد اس كى وجه يه رہى ہو كه عہد آخريں كے علماء كے ذہن ميں يه بات بيٹهه گئى تهى كه اگر جزئيات وفروع ميں نرمى اختيار كى گئى تو عام لوگ آزاد ہو جائيں گے، اور دين سے ہاتهه دهو بيٹهيں گے، اور يه ان كى صريح غلطى تهى، صحيح بات يه ہے كه فروع وجزئيات ميں تشدد ہى نے امت كے بڑ ے طبقه كو دين سے بيزار كرديا ہے، اور ان شدت پسند علماء كے شاگردوں نے اپنے اساتذه كى طرح علم ميں وسعت و گہرائى تو نہيں پيدا كى، البته بيجا تشدد ميں وه ان سے بهى آگے نكل گئے۔
قال ابن تيمية :

‏" من كان الله يحبه استعمله فيما يحبه "

جعلك ربي ممن استعملهم
في طاعته ومرضاته
ساقی نے کچھ چرا کے رکھی تھی میرے لئے
وہ بھی کچھ اہل کشف و کرامات پی گئے

تاج الدین اشعر رام نگری
رات میخوار ہم فقیروں سے
دم کرانے شراب لے آئے
بسم الله الرحمن الرحيم

مناجاة ليلة القدر

بقلم: د. محمد أكرم الندوي
أوكسفورد

اللهم أنت المتجلِّي في الأرض والسماوات العلى، وما بينها من آيات بينات وحجج لا تخفى، وبك ضياء الشمس الزهراء، ودوران القمر أهلة وبدورا غراء، وسبح النجوم والكواكب السطعاء، وفيضك الساري في البحار والأنهار، تتغنى بمجدك الزهور والأشجار والثمار، وأمرك النافذ في الكون ما ظهر منه وما بطن، وما تحرك فيه وما سكن، جعلت الأرض مهادا، والجبال لها أوتادا، وأنزلت من المعصرات ماء ثجاجا، تخرج به حبا ونباتا وجنات ألفافا، زينتها بألوان زاهية ناضرة، ووشيتها بنقوش بهية باهرة، تحمدك اللياليى والظلمات، وما حبوتها من هدأة وثوران، واستسلام وعصيان، ويمجدك الصبح المتولد من غياهب الظلام، وسخرت الرياح عاصفات وناشطات، تجري بالمزن والسحائب المثقلات، أحييت بها الأرض بعد موتها، وبعثت بها حسن الدنيا وجِدَّتها، فأصبحت كالرياض الخضرة والجنان النضرة، وملأت بها العالم شذى ونفحات عطرة، وعائدات المعروف منك إلينا متوالية متواترة، هذه توافي وتلك منتظرة.
أتأمل آلاءك ونعمك فأتهلل بشرا وأطرب طربا، وأتدبرها وأتقصاها فأسمو بصيرة وأزداد معرفة ويقينا، تذكِّرني أنفاسي بك، وتقرِّبني حركاتي وسكناتي إليك تقريبا، كيف تتقلب الأفئدة والقلوب؟ وكيف تحار الألباب والعقول؟ وكيف تجري الدماء في العروق؟ أسئلة أستثيرها فأغرق دهشة واستعجابا في بحار علمك وقدرتك، وأرى فضلك في كل لحظة من لحظاتي، وما حياتي إلا عبارة عن عطائك، ولا اعتماد لها إلا على سخائك، أنا معترف بكرمك وجودك وعظم نوالك، وليس منك إلا دوام حب وموالاة، ولا عدو لي إلا نفسي ذات الشرور والطغيان.
لما ولدت كان اسمك حياة لسمعي، ولما أدركت الوعي والعقل كان اسمك ورد لساني، ولما بلغت الشباب والرشد كنت أنت قوتي وأزري، وحين أموت فسيكون اسمك حلاوة لي في عيش خالد واستمتاع دائم، لم أجد راحة ولا لذة ولا ابتهاجا ولا وجدانا إلا باسمك، إن اسمك ينفخ السكينة في قلبي وروحي، والنشاط في كل ما حولي، وقد قامت الأرض والسموات باسمك، أُثني على غيرك فأكذب، ومن الثناء تكذُّب وتخرُّص، وأثني عليك فأصدق، فالثناء عليك كله صدق وحق، ينقص القمر المنير إذا استوى، وبهاء تمجيدك وتعظيمك لا ينقص أبدا.
أنا الفاني والخلق كله سيفنى، وأنت الباقي، ولا بقاء لغيرك، فما أرى من ألوان ستتبدد، وما أشم من روائح ستتناثر، وما أشاهد من حسن وجمال سيصير حلما زائلا، إن هذه الدنيا آفلة وآفل ما فيها، وما الحياة فيها إلا متاع قليل، ولا تنقضي شهوة إلا تولدت أمثالها، ولا نجاة لي إلا ذكرك، مهما رغبت في تهدئة نفسي أو ترويحها فاسمك دواء لأدوائي وشفاء لحاجاتي.
أعجب بنفسي مغرورا بها غير ناه لها عن صباها، فتُبصِّرني رحمة منك بعيوبي، فترتد إلى صوابها، ويتحكم في الفخر والكبر، فتبلوني بضعفي فتكسره، ثم تجبر كسري بلطفك كما ارفض غيث من تهامة في نجد، وتأخذني الغفلة متماديا لجاجها مضيعا رشدي راضيا بهزلي، فتهيج فيَّ الخوف وتذكِّرني الموت والبلى، فأخرج من لهوي وسلواني، وأؤوب إلى جِدِّي ورشدي، ويغلبني اليأس وأرى الدهر كربة لا انجلاء لها، وضيقة لا انفراج لها، لا تتقضى همومي، ولا يغلق علي رتاجها، فتأتيني بالرجاء، ولا أمل لي إلا وبك طريقه.
أطلب الشيء من نحو وجهه فلا أظفر به، وأثوب إليك فأرجو الشيء من حيث لا يرجى، وما مارست حاجة عندك على نكد الأيام إلا هان علاجها، أعصيك فتحلُم، ولم أر مثلك في حلمك الوافي وفي نائلك الغمر، فيداك تجودان بما لا تأمل النفس، وما في جودك منٌّ، ولا في بذلك حبس، وشهيداي على ما قلت فيك الجن والإنس، إن إحسانك لي يجدد دولتي، ويزيد في جاهي وفي قدري، رب اجعلني اطلب الكفاف بعفة في مكسبه، وأرضى بقسمك متجملا في طلبه، ففي كل يوم منك منة لا يفي ببعضها حمدي ولا شكري.
نهاري مخيف، وليلتي سوداء حالكة، ولا أجد ملاذا من مصائب الحياة، وقد ذهب عني كل آمالي، ربي ليس لي إلا المعاصي والذنوب، والآثام والفجور، ولا قيمة لي في سوق الحياة، ولا أتطلع إلا إلى كرم منك، لا أجد عذرا لأخطائي وزلاتي، ولا حيلة لي أتمسك بها، ولا وسيلة لي إلا أنت، اللهم إني نادم ندامة، أتظاهر بهدوء، وباطني يأسره قلق، وليس منك إلا العفو والمغفرة، والصفح والرحمة، فتجاوز عني، ورُدَّ إلي ربيع حياتي، والطمأنينة إلى قلبي، وألحِق النعمى بنعمى فإنه يزين اللالي في النظام ازدواجها.
عرّج علي ربي وأنعم وأحسن إلي إحسانا، إن عيشى يسمج حين أستغني عنك، وإذا عدت إليك فلا تسميج فيه، إن حبك صرف لا مزاج له، وحب الخلق ممزوج، ما ضرني إبطاء نعمة عني ولي رب لا راد لفضله ولا صاد لرحمته، إن الناس قد أغروا بلا ونسوا نعم، وأنت فرجاؤنا وأملنا إذا خاب الرجاء وكذب الأمل، اللهم إني سائل مسترفد، وأنت الكريم الذي لا تنهر سائلا، ولا ترد مسترفدا خائبا، يا من يعطي قبل سؤال، ويرحم قبل استرحام، وتجيء مواهبه قبل المواعيد، اغفر لي واعف عني وارحمني، عذب عفوك وطابا، حبذا العفو منك مآبا.
🔹*‏(فمَن عجز عن مسابقة المُحبِّين في ميدان مضمارهم، فلا يعجز عن مشاركة المُذنبين في استغفارهم واعتذارهم، صحائف التَّائبين خُدودهم، ومدادُهم دُموعهم، قال بعضهم: إذا بكى الخائفون الخاشعون فقد كاتبوا الله بدموعهم).*

📚 قاله الإمام ابن رجب الحنبلي (المتوفى ٧٩٥هـ) رحمه الله تعالى في كتابه: *(لطائف المعارف فيما لمواسم العام من الوظائف)*
قد ثبت في الصحيح، أن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "ما من رجل يدعو لأخيه بظهر الغيب بدعوة إلا وكل الله به ملكا، كلما دعا لأخيه بدعوة قال الملك الموكل به: آمين، ولك مثل ذلك".

وفي حديث آخر: "أسرع الدعاء [إجابة] دعوة غائب لغائب" [رواه البخاري، وغيره].

فالدّعاء للغير ينتفع به الداعي، والمدعو له وإن كان الداعي دون المدعو له، فدعاء المؤمن لأخيه المؤمن ينتفع به الداعي والمدعو له.

فمن قال لغيره: ادع لي، وقصد انتفاعهما جميعا بذلك؛ كان هو وأخوه متعاونين على البرّ والتّقوى!

فهو نبّه المسؤول وأشار عليه بما ينفعهما، والمسؤول فعل ما ينفعهم، بمنزلة من يأمر غيره ببرّ وتقوى؛ فيُثاب المأمور على فعله، والآمر أيضًا يُثاب مثل ثوابه؛ لكونه دعا إليه.
.

الإمام ابن تيمية رحمه الله تعالىٰ۔