شاعرمشرق علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ
4.17K subscribers
1.48K photos
36 videos
36 files
26 links
Download Telegram
شعر نمبر ۷۹
بہرِ انسان چشمِ من شبہا گریست
تا دریدم پردۂ اسرارِ زیست

ترجمہ و تشریح:
انسان کے لیے میری آنکھیں کئی راتیں روتی رہیں ۔ جب کہیں جا کر میں نے ہستی کے رازوں کا پردہ چاک کر ڈالا (قدرت نے زندگی کے رازوں کا پردہ میرے لیے چاک کر دیا)۔
(پروفیسر حمید ﷲ شاہ ہاشمی)

فرہنگ:
۱۔ بہر۔۔۔۔۔۔۔کےلیٕے۔کےواسطے۔کی غرض سے۔ کےدرد میں۔کی ہمدردی میں۔کی حمایت میں۔
۲۔ انساں۔۔۔۔۔۔۔آدمی۔بنی نوع انساں۔مخلوق میں اشرف المخلوق۔معزز و محترم و برگزیدہ۔
۳۔ چشمَ۔۔۔۔۔۔۔آنکھ۔آنکھ کی پتلی۔آنکھ کا اندرون۔
۴۔ من۔۔۔۔۔۔۔۔۔میری۔میں۔میرے۔دل۔
۵۔ شبہا۔۔۔۔۔۔۔۔شب۔رات۔راتیں۔ ہا۔جمع بنانے کا قاعدہ۔بہت سی راتیں۔
۶۔ گریست۔۔۔۔۔۔۔۔گریستن۔رونا۔گرید مضارع۔ گریست ماضی مطلق۔ روتے ہوتے۔رونے دھونے۔ روتارہا۔گریہ کناں رہا۔۔آنسوبہاتارہا۔
۷۔ تا۔۔۔۔۔۔۔۔۔تب تک۔۔یہاں تک کہ۔حتیٰ کہ۔
۸۔ دریدم۔۔۔۔۔۔۔دریدن۔پھاڑنا۔چیر دیا۔درید۔پھاڑ دیا۔ چیر دیا۔ اٹھا دیا۔
۹۔ پردہٕ۔۔۔۔۔۔۔کا پردہ۔ کی آڑ۔کی اوٹ۔۔کی روکاوٹ۔کےنقاب کو۔۔
۱۰۔ اسرار۔۔۔۔۔۔۔۔سر۔بھید۔۔راز۔بہت سے رازوں سے۔
۱۱۔ زیست۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زندگی۔حیات۔ زندہ ہونا۔رہنا سہنا۔
(فرہنگ از سلامت چشتی علی صابری)

شعر نمبر ۸۰
از درونِ کارگاہِ ممکنات
بر کشیدم سر تقویمِ حیات

ترجمہ و تشریح:
ممکنات کے کارخانے کے اندر سے میں نے ہستی کی حقیقت کا بھید کھول دیا( بھید پا لیا)۔
(پروفیسر حمید ﷲ شاہ ہاشمی)

فرہنگ:
۱۔ از۔۔۔۔۔۔۔۔۔سے ۔ میں سے ۔
۲۔ درونِ ۔۔۔۔۔۔۔۔کےاندر۔میں سے۔
۳۔ کار۔۔۔۔۔۔۔کام۔کائنات کےچلتےہوےکام۔
۴۔ گاہ۔۔۔۔۔۔۔۔جگہ۔مقام۔میدان۔
۵۔ ممکنات۔۔۔۔۔۔۔ امکانات۔جو بن چکا اور بننےوالا ہے۔امکان کی جمع۔
۶۔ بر۔۔۔۔۔۔۔پر۔پر سے۔اوپر سے۔
۷۔ کشیدم۔۔۔۔۔۔۔۔کش۔کھینچنا۔ کھینچ لیا۔کھینچ پھینکا۔اتار دیا۔۔
۸۔ سرِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔بھید۔راز۔مخفی باتیں۔ نامعلوم سرگزشت۔
۹۔ تقویم۔۔۔۔۔۔۔۔قایم۔قوام۔ قم۔کھڑا ہونا۔قایم رہنا۔۔
۱۰۔ حیات۔۔۔۔۔۔۔زندگی۔جان۔روحی۔
(فرہنگ از سلامت چشتی علی صابری)

حوالہ:
کلام: علامہ محمد اقبالؒ
کتاب: اسرارِ خودی
تمہید
شور نمبر ۷۹ و ۸۰
آج کی نظم " فردوس میں ایک مکالمہ " بانگِ درا سے
اس نظم میں اقبال جنت میں ہونے والے ایک مکالمے کا تصور پیش کرتے ہیں جو مولانا الطاف حسین حالی اور شیخ سعدی کے درمیان ہوتا ہے. ہمارے اقبال نے اس نظم/ مکالمے کے مفہوہو تشریح کو پیش کرنے کی پوری کوشش کی ہے، ان شاء اللہ یہ تصور ہم سب کے ذہن میں بیٹھ جائے گا . پہلے ایک دفعہ مکمل نظم پر نظر ڈالتے ہیں ،

ہاتِف نے کہا مجھ سے کہ فردوس میں اک روز
حالیؔ سے مخاطب ہوئے یوں سعدیِؔ شیراز

اے آنکہ ز نورِ گُہرِ نظمِ فلک تاب
دامن بہ چراغِ مہ و اخترزدہ ای باز!

کچھ کیفیتِ مسلمِ ہندی تو بیاں کر
واماندۂ منزل ہے کہ مصروفِ تگ و تاز

مذہب کی حرارت بھی ہے کچھ اس کی رگوں میں؟
تھی جس کی فلک سوز کبھی گرمیِ آواز

باتوں سے ہُوا شیخ کی حالیؔ متاَثّر
رو رو کے لگا کہنے کہ “اے صاحبِ اعجاز

جب پیرِ فلک نے وَرق ایّام کا اُلٹا
آئی یہ صدا، پاؤ گے تعلیم سے اعزاز

آیا ہے مگر اس سے عقیدوں میں تزلزل
دنیا تو ملی، طائرِ دیں کر گیا پرواز

دِیں ہو تو مقاصد میں بھی پیدا ہو بلندی
فطرت ہے جوانوں کی زمیں گیر زمیں تاز

مذہب سے ہم آہنگیِ افراد ہے باقی
دِیں زخمہ ہے، جمعیّتِ مِلّت ہے اگر ساز

بنیاد لرَز جائے جو دیوارِ چمن کی
ظاہر ہے کہ انجامِ گُلستاں کا ہے آغاز

پانی نہ مِلا زمزمِ ملّت سے جو اس کو
پیدا ہیں نئی پَود میں الحاد کے انداز

یہ ذکر حضورِ شہِ یثرِبؐ میں نہ کرنا
سمجھیں نہ کہیں ہند کے مسلم مجھے غمّاز

“خُرما نتواں یافت ازاں خار کہ کشتیم
دیبا نتواں بافت ازاں پشم کہ رشتیم”

(سعدیؔ)

تشریح:-
اقبالؒ فرماتے ہیں کہ مجھ سے جنت میں ایک روز ہاتف (غیب کی آواز یا عرب کا ایک ایسا کردار جس کی آواز تو سنائی دے لیکن وہ خود نہ دکھائی دے) نے کہا کہ اے اقبال تمیں جنت میں پیش آنی والی ایک گفتگو کے متعلق بتاتا ہوں... ہوا ایسے کہ شیخ سعدی شیرازی نے مولانا الطاف حسین حالی سے گفتگو شروع کرتے ہوئے کہا کہ، اے حالی مجھے ذرا بتاؤ کہ یہ کون ہے جس کی شاعری کے موتیوں سے آسمان روشن ہے، اور شاہین چاند اور ستاروں کی روشنیوں میں پرواز کرتا ہے.
اور مجھے ہندوستان کے مسلمانوں کا حال بتاؤ کہ وہ کوششوں میں مصروف ہیں کہ تھک ہار کے بیٹھ گئے ہیں؟ مسلمانوں میںدینِ اسلام کی گرمی/جذبہ ابھی بھی جوش مارتا ہے کیا؟ کہ جس کی ایک صدا بھی آسمان کو چیر دیا کرتی تھی.
اب یہاں کیفیت بیان کرتے ہیں اقبال کہ شیخ سعدی کی باتوں سے حالی کافی شرمندہ ہوئے اور رونے لگے، پھر روتے ہوئے ہی جواب دینے لگے کہ،
اے صاحبِ اعجاز، میں کیا بتاؤں آپ کو کہ آپ سگ بھلا کیا چھپا ہو سکتا ہے.
جب پیرِ فلک (اللہ تعالی) نے وقت کو بدلا، ہم غلام ہوئے، ہماری حالت بد تر ہوئ، ہم پر امتحان آیا، تو پہلے جہاں لوگ اللہ کی خوشنودی کی اعزاز سمجھتے تھے اب وقت ایسا بدلا کہ ہر کوئ کہنے لگا کہ تعلیم حاصل کرنے سے عزت حاصل ہوگی، تعلیم سے کامیاب ہو جاؤ گے.
لیکن اے شیخ! اس سے ہمارے عقیدے اور ایمان کمزور ہو گئے، ہم نہ دنیا کے رہے نہ دین کے. دنیا تو ملی تھوڑی بہت لیکن دین ہمارے روح و بدن سے خارج ہوتا چلا گیا. دین سے ہی مقاصد میں بلندی پیدا ہوتی ہے لیکن یہاں کے جوان تو خود کو مفلوج کر کے بیٹھے ہیں گویا. مذہب کے ذریعے ہی افراد میں ہم آہنگی ہے ، قوم کا آپس اتحاد ہی دین کی سربلندی ہے. لیکن اس سب کی بنیاد دین ہے جس کو دنیا سے بدل دیا گیا ہے. اور جب بنیاد ہی ہِل جائے کسی چمن کی تو انجام تو اس گلستان کا واضح ہے.
حالی مزید بتاتے ہیں کہ اے شیخ! نئ جنریشن کو ملت، اتحاد اور دین کا بنیادی سبق نہیں دیا گیا لہٰذا اس میں الحاد (اللہ کو نہ ماننا) کے رنگ نمایاں ہیں.
لیکن اے شیخ یہ جو حال آپ کو میں اپنی قوم کا بتا رہا ہوں اس کا ذکر نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے مت کرنا کہ کہیں ہندوستان کے مسلمان مجھے غماز (عیب بیان کرنے والا) ہی نہ سمجھ بیٹھیں.
شعر نمبر ۸۲
ملتے در باغ و راغ آوازہ اش
آتشِ دلہا سرودِ تازہ اش

ترجمہ و تشریح:
وہ ملت ایسی ملت ہے جس کی شہرت باغ اور جنگل میں یعنی چہار دانگ عالم میں ہے، اس کے نئے نغموں سے دلوں کی آگ کا سامان پیدا ہوتا ہے۔ (دلوں کو گرما دیتے ہیں)۔

تفہیم:
یعنی یہ ملت پوری دنیا میں چھائی ہوئی ہے۔ سرود تازہ سے مراد اسلام کا نیا پیغام ہے۔ اسلام کے بعد، پہلے مذاہب پر، جو گویا پرانے ہو گئے تھے، خط تنسیخ پھیر دیا گیا۔ قرآن کی روح سے "آج تم پر دین (اسلام) مکمل کر دیا گیا۔" دلوں کی آگ سے مراد جوش و جذبہ اور ولولہ ہے جو اسلام کی بدولت ملت کے دل میں پیدا ہوا۔
(خواجہ حمید یزدانی)

فرہنگ:
۱۔ ملتے۔۔۔۔۔۔۔ملت۔قوم۔امت۔ گروہ۔ جماعت۔ کنتم خیر امہ اخرجت للناس۔۔(سورة آلِ عمران: آیت110)
۲۔۔ در باغ۔۔۔۔۔۔۔میں۔ درمیان۔ اندر۔ باغ۔باغوں۔چمنوں۔ گلستانوں۔ باغوں میں۔دنیا بھر کی آبادیوں میں۔شہروں دیہاتوں ۔کھلیانوں چمنوں گلستانوں غرض ہر آباد سر زمینوں میں۔
۳۔ و۔۔۔۔۔۔اور۔ اور اس کےعلاوہ
۴۔ راغ۔۔۔۔۔۔۔جنگلوں۔بیابانوں صحراٶں پہاڑوں
۵۔ آوازہ۔۔۔۔۔۔۔کا بول بالا۔کی شہرت۔کا شہرہ۔ہمہ گیریت۔پوری دنیا میں چرچا۔
۶۔ اش۔۔۔۔۔۔۔ش۔یا۔اش۔۔اس کا۔اس دین کا۔ اس دینِ اسلام کا۔اللہ تعالےٰ ﷻ کے آخری کلام و پیغام کا۔۔
۷۔ آتشِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کی حرارت۔گرمی۔جذبہ۔ولولہ۔
۸۔ دلہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دلوں۔سینوں۔
۹۔ سرودِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔نغمہ۔گیت۔رجز۔ آیات ِقرآنی کی تلاوت و قرأت۔ علم قرآن پر عمل پیرائی۔
۱۰۔ تازہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چودہ سو سالہ لیکن ہر لحظہ نئی شان نئی آن بان۔۔ہر لمحہ جواں روشن نورانی۔تازگی۔
۱۱۔ اش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس ۔اس کا۔ اس کی۔ اس کے۔اس کو۔۔۔
(فرہنگ از سلامت چشتی علی صابری)

حوالہ:
کلام: علامہ محمد اقبالؒ
کتاب: اسرارِ خودی
تمہید
شعر نمبر ۸۲
#کتاب_بانگِ_درا (شکوہ)🌹
عشق کی خیر وہ پہلی سی ادا بھی نہ سہی
جادہ پیمائی تسلیم و رضا بھی نہ سہی
مضطرب دل صفتِ قبلہ نما بھی نہ سہی
اور پابندیءِ آئین وفا بھی نہ سہی
کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے
بات کہنے کی نہیں،تُو بھی تو ہرجائی ہے۔

جادہ پیمائی : مراد راستے پر گامزن
مضطرب : بے چین
شناسائی : جان پہچان
ہرجائی ؛ بے وفائی
ترجمہ!
ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ہم میں اب پہلے جیسا عشق باقی نہیں رہا اور نہ ہی ہم تسلیم و رضا کے راستے پر گامزن ہیں۔ہمارے بے چین اور بے قرار دل کے اوصاف بھی قبلہ کی مانند نہیں ہیں اور نہ ہی ہم نے وفا کے طور طریقوں کی پاسداری کی ہے۔یہ کیسی عجیب بات ہے کہ کبھی ہم سے جان پہچان تھی اور اب غیروں سے تعلقات اچھے ہیں اور یہ بات بیان کرنی تو نہیں چاہیے مگر تُو بھی تو بے وفا ہے
تشریح !
علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ بھی اشعارِ بالا میں یہ بات تسلیم کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ عصر حاضر کے مسلمان دین اسلام کی تعلیمات کو یکسر نظر انداز کر چکے ہیں اور وہ اللہ عزوجل کی رضا اور قرب کے لئے ویسے کوشاں دکھائی نہیں دیتے جیسے ان کے اسلاف حصولِ عشق خداوندی اور رضائے خداوندی کے لئے محنت اور استقامت کا مظاہرہ کیا کرتے تھے ۔ عصرِ حاضر حاضر کے مسلمان دنیاوی حب و جاہ میں مبتلا ہیں اور انہوں نے دنیاوی زندگی کو ہی اپنا سب کچھ سمجھ لیا ہے اور اخروی زندگی سے منہ موڑے ہوئے ہیں چنانچہ یہی وجہ ہے کہ رسوائی عصر حاضر کے مسلمانوں کا مقدر بن گئی ہے
شعر نمبر ۵
اثر کچھ خواب کا غنچوں ميں باقی ہے تو اے بلبل
''نوا را تلخ تر می زن چو ذوق نغمہ کم يابی''

تشریح:
اے بلبل! اگر تو محسوس کرتی ہے کہ تیری کلیوں میں اب تک نیند کا اثر باقی ہے، وہ کھلنے اور اپنی خوشبو سے فضا کو معطر کرنے کے لیے ابھی تیار نہیں ہوئیں تو مناسب یہ ہے کہ اپنے نغموں کو اور بلند کر دے تاکہ انہیں سننے کا شوق بڑھے کم نہ ہونے پائے۔
بلبل سے اقبال کا اشارہ بہ ظاہر اپنی طرف ہے، جو اپنے باغ کی کلیوں کو بیدار کرنے میں لگے رہے اور کلیوں سے مراد افرادِ ملّت ہیں۔
(شرح غلام رسول مہر)

اے اقبال (بلبل) اگر تو یہ دیکھے کہ قوم میں غفلت کا اثر ہنوز باقی ہے تو اپنی شاعری میں مزید جوش و خروش کا رنگ پیدا کر دے۔ اگر لوگوں میں گانا سننے کا ذوق نہیں ہے تو مطرب کو چاہیے کہ زیادہ دلکشی کے ساتھ گائے تاکہ لوگ متوجہ ہوں۔
(شرح یوسف سلیم چشتی)

حوالہ:
کلام: علامہ محمد اقبالؒ
کتاب: بانگِ درا (حصہ سوم)
نظم: طلوعِ اسلام
پہلا بند
شعر نمبر ۵
شعر نمبر ۸۲
ملتے در باغ و راغ آوازہ اش
آتشِ دلہا سرودِ تازہ اش

ترجمہ و تشریح:
وہ ملت ایسی ملت ہے جس کی شہرت باغ اور جنگل میں یعنی چہار دانگ عالم میں ہے، اس کے نئے نغموں سے دلوں کی آگ کا سامان پیدا ہوتا ہے۔ (دلوں کو گرما دیتے ہیں)۔

تفہیم:
یعنی یہ ملت پوری دنیا میں چھائی ہوئی ہے۔ سرود تازہ سے مراد اسلام کا نیا پیغام ہے۔ اسلام کے بعد، پہلے مذاہب پر، جو گویا پرانے ہو گئے تھے، خط تنسیخ پھیر دیا گیا۔ قرآن کی روح سے "آج تم پر دین (اسلام) مکمل کر دیا گیا۔" دلوں کی آگ سے مراد جوش و جذبہ اور ولولہ ہے جو اسلام کی بدولت ملت کے دل میں پیدا ہوا۔
(خواجہ حمید یزدانی)

فرہنگ:
۱۔ ملتے۔۔۔۔۔۔۔ملت۔قوم۔امت۔ گروہ۔ جماعت۔ کنتم خیر امہ اخرجت للناس۔۔(سورة آلِ عمران: آیت110)
۲۔۔ در باغ۔۔۔۔۔۔۔میں۔ درمیان۔ اندر۔ باغ۔باغوں۔چمنوں۔ گلستانوں۔ باغوں میں۔دنیا بھر کی آبادیوں میں۔شہروں دیہاتوں ۔کھلیانوں چمنوں گلستانوں غرض ہر آباد سر زمینوں میں۔
۳۔ و۔۔۔۔۔۔اور۔ اور اس کےعلاوہ
۴۔ راغ۔۔۔۔۔۔۔جنگلوں۔بیابانوں صحراٶں پہاڑوں
۵۔ آوازہ۔۔۔۔۔۔۔کا بول بالا۔کی شہرت۔کا شہرہ۔ہمہ گیریت۔پوری دنیا میں چرچا۔
۶۔ اش۔۔۔۔۔۔۔ش۔یا۔اش۔۔اس کا۔اس دین کا۔ اس دینِ اسلام کا۔اللہ تعالےٰ ﷻ کے آخری کلام و پیغام کا۔۔
۷۔ آتشِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کی حرارت۔گرمی۔جذبہ۔ولولہ۔
۸۔ دلہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دلوں۔سینوں۔
۹۔ سرودِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔نغمہ۔گیت۔رجز۔ آیات ِقرآنی کی تلاوت و قرأت۔ علم قرآن پر عمل پیرائی۔
۱۰۔ تازہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چودہ سو سالہ لیکن ہر لحظہ نئی شان نئی آن بان۔۔ہر لمحہ جواں روشن نورانی۔تازگی۔
۱۱۔ اش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس ۔اس کا۔ اس کی۔ اس کے۔اس کو۔۔۔
(فرہنگ از سلامت چشتی علی صابری)

حوالہ:
کلام: علامہ محمد اقبالؒ
کتاب: اسرارِ خودی
تمہید
شعر نمبر ۸۲
جواب شکوہ بند نمبر 3

تھی فرشتوں کو بھی حیرت کہ یہ آواز ہے کیا
عرش والوں پہ بھی کھلتا نہیں یہ راز ہے کیا
تا سر عرش بھی انساں کی تگ و تاز ہے کیا
آ گئی خاک کی چٹکی کو بھی پرواز ہے کیا

غافل آداب سے سکان زمیں کیسے ہیں
شوخ و گستاخ یہ پستی کے مکیں کیسے ہیں

مشکل الفاظ کے معانی

الفاظ۔۔۔۔۔ معانی؛
راز۔۔۔ بھید
سر عرش۔۔۔ عرش پر
تگ و تاز۔۔۔ بھاگ دوڑ
خاک کی چٹکی۔۔۔ مٹی کا بنا ہوا چھوٹا سا انسان
آداب۔۔۔ ادب کی جمع اچھے اخلاق و عادات اور طور طریقے
سکان۔۔۔ رہنے والے والے؛ ساکن کی جمع ہے
شوخ و گستاخ۔۔۔ شریر اور بیباک
پستی کے مکیں۔۔۔ نیچے رہنے والے

مختصر تشریح؛

علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ میرے شکوے اور فریاد کی بیباک اور پرسوز صدا سن کر عرش کے فرشتے بھی حیران تھے؛ کہ زمین کی پستیوں میں آباد انسان کی آواز آسمانوں کا سینہ چیر کر عرش پر جا پہنچی تھی؛ فرشتے حیرت زدہ ہو کر کہہ رہے تھے کہ خاک کی مٹھی کے بنے ہوئے انسان کی پرواز و اڑان اتنی بلند کیسے ہو گئی ہے کہ وہ اج خدا تعالیٰ سے ہم کلام اور شکوہ کناں ہے؛ گویا زمین کی خاک پر بسنے والے انسان تعظیم و تکریم اور آداب سے غافل ہو چکے ہیں؛ یہ پستی کے مکین کیسے شوخ و گستاخ ہو چکے ہیں؛ کہ بارگاہ الہٰی کے آداب کا خیال تک نہیں ہے اور خدا سے شکوہ کر رہے ہیں؛

محترم قارئین؛..... اب ایک بار پھر کلام اقبال کو ذوق و شوق سے پڑھئے اور پیغام اقبال اپنے دل کی تختی پر نقش کیجیے؛

تھی فرشتوں کو بھی حیرت کہ یہ آواز ہےکیا
عرش والوں پہ کھلتا نہیں یہ راز ہے کیا
تا سر عرش بھی انساں کی تگ و تاز ہے کیا
آ گئی خاک کی چٹکی کو بھی پرواز ہے کیا

غافل آداب سے سکان زمیں کیسے ہیں
شوخ و گستاخ یہ پستی کے مکیں کیسے ہیں

(بزمِ اقبال)
شعر نمبر ۶
تڑپ صحن چمن ميں، آشياں ميں ، شاخساروں ميں
جدا پارے سے ہو سکتی نہيں تقدير سيمابی

تشریح:
اے بلبل! قدرت نے تڑپنا تیرے ذمے لگا دیا ہے۔ تو باغ کے صحن میں ہو یا گھونسلے میں یا درختوں کی شاخوں پر جہاں بھی ہو، تڑپتی رہ تاکہ باغ میں بیداری ہو۔ تُو پارا ہے اور پارے کی فطرت ہی یہ ہے کہ ہر لحظہ تڑپتا رہے۔ یہ فطرت اس سے چھینی نہیں جا سکتی۔
(شرح غلام رسول مہر)

حوالہ:
کلام: علامہ محمد اقبالؒ
کتاب: بانگِ درا (حصہ سوم)
نظم: طلوعِ اسلام
پہلا بند
شعر نمبر ۶
جواب شکوہ بند نمبر 4

اس قدر شوخ کہ اللہ سے بھی برہم ہے
تھا جو مسجود ملائک؛ یہ وہی آدم ہے
عالم کیف ہے؛ داناۓ رموز کم ہے
ہاں مگر عجز کے اسرار سے نامحرم ہے

ناز ہے طاقت گفتار پہ ا نسانوں کو
بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو

مشکل الفاظ۔۔۔۔۔معانی
برہم۔۔۔۔۔ غصے میں ناراض ہونا
مسجود ملائک۔۔۔۔۔ انسان جسے فرشتوں نے سجدہ کیا تھا؛
عالم کیف۔۔۔۔۔ کیفیات کا پیکر
داناۓ رموز کم ہے۔۔۔اعداد و شمار اور کائنات کے رموز جاننے والا ہے
عجز کے اسرار سے نامحرم۔۔۔عاجزی کےبھیدوں اورآداب سےناواقف
طاقت گفتار پہ۔۔۔ بولنے کی صلاحیت پر

مختصر تشریح

علامہ اقبال کے شکوے کی صدا سن کر فرشتے کہہ رھے ھیں؛ کہ انسان اس قدر بیباک ہو گیا ہے کہ آج اللّٰہ سے بھی برہم ہے؛ کیا یہ وہی آدم ہے جس کو اللّٰہ نے فرشتوں سے سجدہ کروایا تھا؟ یقیناً انسان کیفیات و جذبات کا پیکر اور کائنات کے اسرار و رموز جاننے والا ہے مگر عاجزی و انکساری اور بندگی کے آداب سے ناواقف ہو چکا ہے؛ شاہد نادان انسانوں کو اپنے بولنے اور خوبصورت کلام کہنے کی صلاحیت پر فخر و ناز ہے؛ اور وہ بےوقوف خدا سے بات کرنے کا سلیقہ بھول چکے ہیں؛

اب ایک بار پھر کلام اقبال کو ذوق و شوق سے پڑھئے اور پیغام اقبال اپنے دل کی تختی پر نقش کیجیے؛ فروغِ فکر اقبال کی اس اجتماعی کوشش میں ہمارا ساتھ دیجئے؛

اس قدر شوخ کہ اللہ سے بھی برہم ہے
تھا جو مسجود ملائک؛ یہ وہی آدم ہے
عالم کیف ہے؛ داناۓ رموز کم ہے؛
ہاں مگر عجز کے اسرار سے نامحرم ہے

ناز ہے طاقت گفتار پہ انسانوں کو
بات کرنے کا سلیقہ نہیں انسانوں کو

(بزمِ اقبال)
#انتخاب_بانگ_درا 🌹
عشق کچھ محبوب کے مرنے سے مر جاتا نہیں
روح میں غم بن کے رہتا ہے ،مگر جاتا نہیں
ہے بقائے عشق سے پیدا بقا محبوب کی
زندگانی ہے عدم ناآشنا محبوب کی۔

(بقائے عشق : عشق کا باقی رہنا)(بقا : باقی رہنا)
ترجمہ !
انسانی زندگی اگرچہ فانی ہے مگر عشق ایسی چیز ہے جسے بقائے دوام حاصل ہے یعنی انسان اگرچہ مر جاتا ہے مگر اس کا عشق ہمیشہ زندہ رہتا ہے اور عشق جسمانی قید سے آزاد ہے اور محبوب کے رخصت ہونے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ عشق بھی ختم ہوگیا بلکہ محبوب کے رخصت ہونے کے بعد عشق غم کی صورت بن کر زندہ رہتا ہے۔اگر ہمارا کوئی عزیز ہم سے رخصت ہو جاتا ہے تو اس کی یاد اور اس کی محبت ہمارے دل میں ہمیشہ تازہ رہتی ہے