🥀🥀🌷بانگ درا🌷🥀🥀
96
دو ستارے
آئے جو قراں میں دو ستارے
کہنے لگا ایک ، دوسرے سے
یہ وصل مدام ہو تو کیا خوب
انجام خرام ہو تو کیا خوب
تھوڑا سا جو مہرباں فلک ہو
ہم دونوں کی ایک ہی چمک ہو
لیکن یہ وصال کی تمنا
پیغام فراق تھی سراپا
گردش تاروں کا ہے مقدر
ہر ایک کی راہ ہے مقرر
ہے خواب ثبات آشنائی
آئین جہاں کا ہے جدائی
Https://t.me/AllamaIqbalPoet
Https://t.me/buttgeem
96
دو ستارے
آئے جو قراں میں دو ستارے
کہنے لگا ایک ، دوسرے سے
یہ وصل مدام ہو تو کیا خوب
انجام خرام ہو تو کیا خوب
تھوڑا سا جو مہرباں فلک ہو
ہم دونوں کی ایک ہی چمک ہو
لیکن یہ وصال کی تمنا
پیغام فراق تھی سراپا
گردش تاروں کا ہے مقدر
ہر ایک کی راہ ہے مقرر
ہے خواب ثبات آشنائی
آئین جہاں کا ہے جدائی
Https://t.me/AllamaIqbalPoet
Https://t.me/buttgeem
Telegram
~ Allama Muhammad (Iqbal)
Allama Muhammad Iqbal is a national poet of Pakistan. He was born 1877 in sialkot Pakistan. He was a greatest poet, philosopher and politician. He was died 1938 in Lahore Pakistan.
🥀🥀🌷بانگ درا🌷🥀🥀
97
گورستان شاہی
آسماں ، بادل کا پہنے خرقہء دیرینہ ہے
کچھ مکدر سا جبین ماہ کا آئینہ ہے
چاندنی پھیکی ہے اس نظارہء خاموش میں
صبح صادق سو رہی ہے رات کی آغوش میں
کس قدر اشجار کی حیرت فزا ہے خامشی
بربط قدرت کی دھیمی سی نوا ہے خامشی
باطن ہر ذرہء عالم سراپا درد ہے
اور خاموشی لب ہستی پہ آہ سرد ہے
آہ! جولاں گاہ عالم گیر یعنی وہ حصار
دوش پر اپنے اٹھائے سیکڑوں صدیوں کا بار
زندگی سے تھا کبھی معمور ، اب سنسان ہے
یہ خموشی اس کے ہنگاموں کا گورستاں ہے
اپنے سکان کہن کی خاک کا دلدادہ ہے
کوہ کے سر پر مثال پاسباں استادہ ہے
ابر کے روزن سے وہ بالائے بام آسماں
ناظر عالم ہے نجم سبز فام آسماں
خاک بازی وسعت دنیا کا ہے منظر اسے
داستاں ناکامی انساں کی ہے ازبر اسے
ہے ازل سے یہ مسافر سوئے منزل جا رہا
آسماں سے انقلابوں کا تماشا دیکھتا
گو سکوں ممکن نہیں عالم میں اختر کے لیے
فاتحہ خوانی کو یہ ٹھہرا ہے دم بھر کے لیے
رنگ و آب زندگی سے گل بدامن ہے زمیں
سینکڑوں خوں گشتہ تہذیبوں کا مدفن ہے زمیں
خواب گہ شاہوں کی ہے یہ منزل حسرت فزا
دیدہء عبرت! خراج اشک گلگوں کر ادا
ہے تو گورستاں مگر یہ خاک گردوں پایہ ہے
آہ! اک برگشتہ قسمت قوم کا سرمایہ ہے
مقبروں کی شان حیرت آفریں ہے اس قدر
جنبش مژگاں سے ہے چشم تماشا کو حذر
کیفیت ایسی ہے ناکامی کی اس تصویر میں
جو اتر سکتی نہیں آئینہء تحریر میں
سوتے ہیں خاموش ، آبادی کے ہنگاموں سے دور
مضطرب رکھتی تھی جن کو آرزوئے ناصبور
قبر کی ظلمت میں ہے ان آفتابوں کی چمک
جن کے دروازوں پہ رہتا تھا جبیں گستر فلک
کیا یہی ہے ان شہنشاہوں کی عظمت کا مآل
جن کی تدبیر جہاں بانی سے ڈرتا تھا زوال
رعب فغفوری ہو دنیا میں کہ شان قیصری
ٹل نہیں سکتی غنیم موت کی یورش کبھی
بادشاہوں کی بھی کشت عمر کا حاصل ہے گور
جادہ عظمت کی گویا آخری منزل ہے گور
شورش بزم طرب کیا ، عود کی تقریر کیا
درد مندان جہاں کا نالہء شب گیر کیا
عرصہء پیکار میں ہنگامہء شمشیر کیا
خون کو گرمانے والا نعرہء تکبیر کیا
اب کوئی آواز سوتوں کو جگا سکتی نہیں
سینہ ویراں میں جان رفتہ آ سکتی نہیں
روح ، مشت خاک میں زحمت کش بیداد ہے
کوچہ گرد نے ہوا جس دم نفس ، فریاد ہے
زندگی انساں کی ہے مانند مرغ خوش نوا
شاخ پر بیٹھا ، کوئی دم چہچایا ، اڑ گیا
آہ! کیا آئے ریاض دہر میں ہم ، کیا گئے!
زندگی کی شاخ سے پھوٹے ، کھلے ، مرجھا گئے
موت ہر شاہ و گدا کے خواب کی تعبیر ہے
اس ستم گر کا ستم انصاف کی تصویر ہے
سلسلہ ہستی کا ہے اک بحر نا پیدا کنار
اور اس دریائے بے پایاں کے موجیں ہیں مزار
اے ہوس! خوں رو کہ ہے یہ زندگی بے اعتبار
یہ شرارے کا تبسم ، یہ خس آتش سوار
چاند ، جو صورت گر ہستی کا اک اعجاز ہے
پہنے سیمابی قبا محو خرام ناز ہے
چرخ بے انجم کی دہشت ناک وسعت میں مگر
بے کسی اس کی کوئی دیکھے ذرا وقت سحر
اک ذرا سا ابر کا ٹکڑا ہے ، جو مہتاب تھا
آخری آنسو ٹپک جانے میں ہو جس کی فنا
زندگی اقوام کی بھی ہے یونہی بے اعتبار
رنگ ہائے رفتہ کی تصویر ہے ان کی بہار
اس زیاں خانے میں کوئی ملت گردوں وقار
رہ نہیں سکتی ابد تک بار دوش روزگار
اس قدر قوموں کی بربادی سے ہے خوگر جہاں
دیکھتا بے اعتنائی سے ہے یہ منظر جہاں
ایک صورت پر نہیں رہتا کسی شے کو قرار
ذوق جدت سے ہے ترکیب مزاج روزگار
ہے نگین دہر کی زینت ہمیشہ نام نو
مادر گیتی رہی آبستن اقوام نو
ہے ہزاروں قافلوں سے آشنا یہ رہ گزر
چشم کوہ نور نے دیکھے ہیں کتنے تاجور
مصر و بابل مٹ گئے باقی نشاں تک بھی نہیں
دفتر ہستی میں ان کی داستاں تک بھی نہیں
آ دبایا مہر ایراں کو اجل کی شام نے
عظمت یونان و روما لوٹ لی ایام نے
آہ! مسلم بھی زمانے سے یونہی رخصت ہوا
آسماں سے ابر آذاری اٹھا ، برسا ، گیا
ہے رگ گل صبح کے اشکوں سے موتی کی لڑی
کوئی سورج کی کرن شبنم میں ہے الجھی ہوئی
سینہ دریا شعاعوں کے لیے گہوارہ ہے
کس قدر پیارا لب جو مہر کا نظارہ ہے
محو زینت ہے صنوبر ، جوئبار آئینہ ہے
غنچہ گل کے لیے باد بہار آئینہ ہے
نعرہ زن رہتی ہے کوئل باغ کے کاشانے میں
چشم انساں سے نہاں ، پتوں کے عزلت خانے میں
اور بلبل ، مطرب رنگیں نوائے گلستاں
جس کے دم سے زندہ ہے گویا ہوائے گلستاں
عشق کے ہنگاموں کی اڑتی ہوئی تصویر ہے
خامہ قدرت کی کیسی شوخ یہ تحریر ہے
باغ میں خاموش جلسے گلستاں زادوں کے ہیں
وادی کہسار میں نعرے شباں زادوں کے ہیں
زندگی سے یہ پرانا خاک داں معمور ہے
موت میں بھی زندگانی کی تڑپ مستور ہے
پتےاں پھولوں کی گرتی ہیں خزاں میں اس طرح
دست طفل خفتہ سے رنگیں کھلونے جس طرح
اس نشاط آباد میں گو عیش بے اندازہ ہے
ایک غم ، یعنی غم ملت ہمیشہ تازہ ہے
97
گورستان شاہی
آسماں ، بادل کا پہنے خرقہء دیرینہ ہے
کچھ مکدر سا جبین ماہ کا آئینہ ہے
چاندنی پھیکی ہے اس نظارہء خاموش میں
صبح صادق سو رہی ہے رات کی آغوش میں
کس قدر اشجار کی حیرت فزا ہے خامشی
بربط قدرت کی دھیمی سی نوا ہے خامشی
باطن ہر ذرہء عالم سراپا درد ہے
اور خاموشی لب ہستی پہ آہ سرد ہے
آہ! جولاں گاہ عالم گیر یعنی وہ حصار
دوش پر اپنے اٹھائے سیکڑوں صدیوں کا بار
زندگی سے تھا کبھی معمور ، اب سنسان ہے
یہ خموشی اس کے ہنگاموں کا گورستاں ہے
اپنے سکان کہن کی خاک کا دلدادہ ہے
کوہ کے سر پر مثال پاسباں استادہ ہے
ابر کے روزن سے وہ بالائے بام آسماں
ناظر عالم ہے نجم سبز فام آسماں
خاک بازی وسعت دنیا کا ہے منظر اسے
داستاں ناکامی انساں کی ہے ازبر اسے
ہے ازل سے یہ مسافر سوئے منزل جا رہا
آسماں سے انقلابوں کا تماشا دیکھتا
گو سکوں ممکن نہیں عالم میں اختر کے لیے
فاتحہ خوانی کو یہ ٹھہرا ہے دم بھر کے لیے
رنگ و آب زندگی سے گل بدامن ہے زمیں
سینکڑوں خوں گشتہ تہذیبوں کا مدفن ہے زمیں
خواب گہ شاہوں کی ہے یہ منزل حسرت فزا
دیدہء عبرت! خراج اشک گلگوں کر ادا
ہے تو گورستاں مگر یہ خاک گردوں پایہ ہے
آہ! اک برگشتہ قسمت قوم کا سرمایہ ہے
مقبروں کی شان حیرت آفریں ہے اس قدر
جنبش مژگاں سے ہے چشم تماشا کو حذر
کیفیت ایسی ہے ناکامی کی اس تصویر میں
جو اتر سکتی نہیں آئینہء تحریر میں
سوتے ہیں خاموش ، آبادی کے ہنگاموں سے دور
مضطرب رکھتی تھی جن کو آرزوئے ناصبور
قبر کی ظلمت میں ہے ان آفتابوں کی چمک
جن کے دروازوں پہ رہتا تھا جبیں گستر فلک
کیا یہی ہے ان شہنشاہوں کی عظمت کا مآل
جن کی تدبیر جہاں بانی سے ڈرتا تھا زوال
رعب فغفوری ہو دنیا میں کہ شان قیصری
ٹل نہیں سکتی غنیم موت کی یورش کبھی
بادشاہوں کی بھی کشت عمر کا حاصل ہے گور
جادہ عظمت کی گویا آخری منزل ہے گور
شورش بزم طرب کیا ، عود کی تقریر کیا
درد مندان جہاں کا نالہء شب گیر کیا
عرصہء پیکار میں ہنگامہء شمشیر کیا
خون کو گرمانے والا نعرہء تکبیر کیا
اب کوئی آواز سوتوں کو جگا سکتی نہیں
سینہ ویراں میں جان رفتہ آ سکتی نہیں
روح ، مشت خاک میں زحمت کش بیداد ہے
کوچہ گرد نے ہوا جس دم نفس ، فریاد ہے
زندگی انساں کی ہے مانند مرغ خوش نوا
شاخ پر بیٹھا ، کوئی دم چہچایا ، اڑ گیا
آہ! کیا آئے ریاض دہر میں ہم ، کیا گئے!
زندگی کی شاخ سے پھوٹے ، کھلے ، مرجھا گئے
موت ہر شاہ و گدا کے خواب کی تعبیر ہے
اس ستم گر کا ستم انصاف کی تصویر ہے
سلسلہ ہستی کا ہے اک بحر نا پیدا کنار
اور اس دریائے بے پایاں کے موجیں ہیں مزار
اے ہوس! خوں رو کہ ہے یہ زندگی بے اعتبار
یہ شرارے کا تبسم ، یہ خس آتش سوار
چاند ، جو صورت گر ہستی کا اک اعجاز ہے
پہنے سیمابی قبا محو خرام ناز ہے
چرخ بے انجم کی دہشت ناک وسعت میں مگر
بے کسی اس کی کوئی دیکھے ذرا وقت سحر
اک ذرا سا ابر کا ٹکڑا ہے ، جو مہتاب تھا
آخری آنسو ٹپک جانے میں ہو جس کی فنا
زندگی اقوام کی بھی ہے یونہی بے اعتبار
رنگ ہائے رفتہ کی تصویر ہے ان کی بہار
اس زیاں خانے میں کوئی ملت گردوں وقار
رہ نہیں سکتی ابد تک بار دوش روزگار
اس قدر قوموں کی بربادی سے ہے خوگر جہاں
دیکھتا بے اعتنائی سے ہے یہ منظر جہاں
ایک صورت پر نہیں رہتا کسی شے کو قرار
ذوق جدت سے ہے ترکیب مزاج روزگار
ہے نگین دہر کی زینت ہمیشہ نام نو
مادر گیتی رہی آبستن اقوام نو
ہے ہزاروں قافلوں سے آشنا یہ رہ گزر
چشم کوہ نور نے دیکھے ہیں کتنے تاجور
مصر و بابل مٹ گئے باقی نشاں تک بھی نہیں
دفتر ہستی میں ان کی داستاں تک بھی نہیں
آ دبایا مہر ایراں کو اجل کی شام نے
عظمت یونان و روما لوٹ لی ایام نے
آہ! مسلم بھی زمانے سے یونہی رخصت ہوا
آسماں سے ابر آذاری اٹھا ، برسا ، گیا
ہے رگ گل صبح کے اشکوں سے موتی کی لڑی
کوئی سورج کی کرن شبنم میں ہے الجھی ہوئی
سینہ دریا شعاعوں کے لیے گہوارہ ہے
کس قدر پیارا لب جو مہر کا نظارہ ہے
محو زینت ہے صنوبر ، جوئبار آئینہ ہے
غنچہ گل کے لیے باد بہار آئینہ ہے
نعرہ زن رہتی ہے کوئل باغ کے کاشانے میں
چشم انساں سے نہاں ، پتوں کے عزلت خانے میں
اور بلبل ، مطرب رنگیں نوائے گلستاں
جس کے دم سے زندہ ہے گویا ہوائے گلستاں
عشق کے ہنگاموں کی اڑتی ہوئی تصویر ہے
خامہ قدرت کی کیسی شوخ یہ تحریر ہے
باغ میں خاموش جلسے گلستاں زادوں کے ہیں
وادی کہسار میں نعرے شباں زادوں کے ہیں
زندگی سے یہ پرانا خاک داں معمور ہے
موت میں بھی زندگانی کی تڑپ مستور ہے
پتےاں پھولوں کی گرتی ہیں خزاں میں اس طرح
دست طفل خفتہ سے رنگیں کھلونے جس طرح
اس نشاط آباد میں گو عیش بے اندازہ ہے
ایک غم ، یعنی غم ملت ہمیشہ تازہ ہے
دل ہمارے یاد عہد رفتہ سے خالی نہیں
اپنے شاہوں کو یہ امت بھولنے والی نہیں
اشک باری کے بہانے ہیں یہ اجڑے بام و در
گریہ پیہم سے بینا ہے ہماری چشم تر
دہر کو دیتے ہیں موتی دیدہء گریاں کے ہم
آخری بادل ہیں اک گزرے ہوئے طوفاں کے ہم
ہیں ابھی صد ہا گہر اس ابر کی آغوش میں
برق ابھی باقی ہے اس کے سینہء خاموش میں
وادی گل ، خاک صحرا کو بنا سکتا ہے یہ
خواب سے امید دہقاں کو جگا سکتا ہے یہ
ہو چکا گو قوم کی شان جلالی کا ظہور
ہے مگر باقی ابھی شان جمالی کا ظہور
Https://t.me/AllamaIqbalPoet
Https://t.me/buttgeem
اپنے شاہوں کو یہ امت بھولنے والی نہیں
اشک باری کے بہانے ہیں یہ اجڑے بام و در
گریہ پیہم سے بینا ہے ہماری چشم تر
دہر کو دیتے ہیں موتی دیدہء گریاں کے ہم
آخری بادل ہیں اک گزرے ہوئے طوفاں کے ہم
ہیں ابھی صد ہا گہر اس ابر کی آغوش میں
برق ابھی باقی ہے اس کے سینہء خاموش میں
وادی گل ، خاک صحرا کو بنا سکتا ہے یہ
خواب سے امید دہقاں کو جگا سکتا ہے یہ
ہو چکا گو قوم کی شان جلالی کا ظہور
ہے مگر باقی ابھی شان جمالی کا ظہور
Https://t.me/AllamaIqbalPoet
Https://t.me/buttgeem
Telegram
~ Allama Muhammad (Iqbal)
Allama Muhammad Iqbal is a national poet of Pakistan. He was born 1877 in sialkot Pakistan. He was a greatest poet, philosopher and politician. He was died 1938 in Lahore Pakistan.
🥀🥀🌷بانگ درا🌷🥀🥀
98
نمود صبح
ہو رہی ہے زیر دامان افق سے آشکار
صبح یعنی دختر دوشیزہ لیل و نہار
پا چکا فرصت درود فصل انجم سے سپہر
کشت خاور میں ہوا ہے آفتاب آئینہ کار
آسماں نے آمد خورشید کی پا کر خبر
محمل پرواز شب باندھا سر دوش غبار
شعلہء خورشید گویا حاصل اس کھیتی کا ہے
بوئے تھے دہقان گردوں نے جو تاروں کے شرار
ہے رواں نجم سحر ، جیسے عبادت خانے سے
سب سے پیچھے جائے کوئی عابد شب زندہ دار
کیا سماں ہے جس طرح آہستہ آہستہ کوئی
کھینچتا ہو میان کی ظلمت سے تیغ آب دار
مطلع خورشید میں مضمر ہے یوں مضمون صبح
جیسے خلوت گاہ مینا میں شراب خوش گوار
ہے تہ دامان باد اختلاط انگیز صبح
شورش ناقوس ، آواز اذاں سے ہمکنار
جاگے کوئل کی اذاں سے طائران نغمہ سنج
ہے ترنم ریز قانون سحر کا تار تار
Https://t.me/AllamaIqbalPoet
Https://t.me/buttgeem
98
نمود صبح
ہو رہی ہے زیر دامان افق سے آشکار
صبح یعنی دختر دوشیزہ لیل و نہار
پا چکا فرصت درود فصل انجم سے سپہر
کشت خاور میں ہوا ہے آفتاب آئینہ کار
آسماں نے آمد خورشید کی پا کر خبر
محمل پرواز شب باندھا سر دوش غبار
شعلہء خورشید گویا حاصل اس کھیتی کا ہے
بوئے تھے دہقان گردوں نے جو تاروں کے شرار
ہے رواں نجم سحر ، جیسے عبادت خانے سے
سب سے پیچھے جائے کوئی عابد شب زندہ دار
کیا سماں ہے جس طرح آہستہ آہستہ کوئی
کھینچتا ہو میان کی ظلمت سے تیغ آب دار
مطلع خورشید میں مضمر ہے یوں مضمون صبح
جیسے خلوت گاہ مینا میں شراب خوش گوار
ہے تہ دامان باد اختلاط انگیز صبح
شورش ناقوس ، آواز اذاں سے ہمکنار
جاگے کوئل کی اذاں سے طائران نغمہ سنج
ہے ترنم ریز قانون سحر کا تار تار
Https://t.me/AllamaIqbalPoet
Https://t.me/buttgeem
Telegram
~ Allama Muhammad (Iqbal)
Allama Muhammad Iqbal is a national poet of Pakistan. He was born 1877 in sialkot Pakistan. He was a greatest poet, philosopher and politician. He was died 1938 in Lahore Pakistan.
🥀🥀🌷بانگ درا🌷🥀🥀
99
تضمین بر شعر انیسی شاملو
ہمیشہ صورت باد سحر آوارہ رہتا ہوں
محبت میں ہے منزل سے بھی خوشتر جادہ پیمائی
دل بے تاب جا پہنچا دیار پیر سنجر میں
میسر ہے جہاں درمان درد نا شکیبائی
ابھی نا آشنائے لب تھا حرف آرزو میرا
زباں ہونے کو تھی منت پذیر تاب گویائی
یہ مرقد سے صدا آئی ، حرم کے رہنے والوں کو
شکایت تجھ سے ہے اے تارک آئین آبائی!
ترا اے قیس کیونکر ہوگیا سوز دروں ٹھنڈا
کہ لیلی میں تو ہیں اب تک وہی انداز لیلائی
نہ تخم 'لا الہ' تیری زمین شور سے پھوٹا
زمانے بھر میں رسوا ہے تری فطرت کی نازائی
تجھے معلوم ہے غافل کہ تیری زندگی کیا ہے
کنشتی ساز، معمور نوا ہائے کلیسائی
ہوئی ہے تربیت آغوش بیت اللہ میں تیری
دل شوریدہ ہے لیکن صنم خانے کا سودائی
''وفا آموختی از ما، بکار دیگراں کر دی
ربودی گوہرے از ما نثار دیگراں کر دی''
Https://t.me/AllamaIqbalPoet
Https://t.me/buttgeem
99
تضمین بر شعر انیسی شاملو
ہمیشہ صورت باد سحر آوارہ رہتا ہوں
محبت میں ہے منزل سے بھی خوشتر جادہ پیمائی
دل بے تاب جا پہنچا دیار پیر سنجر میں
میسر ہے جہاں درمان درد نا شکیبائی
ابھی نا آشنائے لب تھا حرف آرزو میرا
زباں ہونے کو تھی منت پذیر تاب گویائی
یہ مرقد سے صدا آئی ، حرم کے رہنے والوں کو
شکایت تجھ سے ہے اے تارک آئین آبائی!
ترا اے قیس کیونکر ہوگیا سوز دروں ٹھنڈا
کہ لیلی میں تو ہیں اب تک وہی انداز لیلائی
نہ تخم 'لا الہ' تیری زمین شور سے پھوٹا
زمانے بھر میں رسوا ہے تری فطرت کی نازائی
تجھے معلوم ہے غافل کہ تیری زندگی کیا ہے
کنشتی ساز، معمور نوا ہائے کلیسائی
ہوئی ہے تربیت آغوش بیت اللہ میں تیری
دل شوریدہ ہے لیکن صنم خانے کا سودائی
''وفا آموختی از ما، بکار دیگراں کر دی
ربودی گوہرے از ما نثار دیگراں کر دی''
Https://t.me/AllamaIqbalPoet
Https://t.me/buttgeem
Telegram
~ Allama Muhammad (Iqbal)
Allama Muhammad Iqbal is a national poet of Pakistan. He was born 1877 in sialkot Pakistan. He was a greatest poet, philosopher and politician. He was died 1938 in Lahore Pakistan.
🥀🥀🌷بانگ درا🌷🥀🥀
100
فلسفہ غم - میاں فضل حسین صاحب کے نام
گو سراپا کیف عشرت ہے شراب زندگی
اشک بھی رکھتا ہے دامن میں سحاب زندگی
موج غم پر رقص کرتا ہے حباب زندگی
ہے 'الم' کا سورہ بھی جزو کتاب زندگی
ایک بھی پتی اگر کم ہو تو وہ گل ہی نہیں
جو خزاں نادیدہ ہو بلبل، وہ بلبل ہی نہیں
آرزو کے خون سے رنگیں ہے دل کی داستاں
نغمہ انسانیت کامل نہیں غیر از فغاں
دیدہ بینا میں داغ غم چراغ سینہ ہے
روح کو سامان زینت آہ کا آئینہ ہے
حادثات غم سے ہے انساں کی فطرت کو کمال
غازہ ہے آئینہء دل کے لیے گرد ملال
غم جوانی کو جگا دیتا ہے لطف خواب سے
ساز یہ بیدار ہوتا ہے اسی مضراب سے
طائر دل کے لیے غم شہپر پرواز ہے
راز ہے انساں کا دل غم انکشاف راز ہے
غم نہیں غم، روح کا اک نغمہء خاموش ہے
جو سرود بربط ہستی سے ہم آغوش ہے
شام جس کی آشنائے نالہء 'یا رب' نہیں
جلوہ پیرا جس کی شب میں اشک کے کوکب نہیں
جس کا جام دل شکست غم سے ہے ناآشنا
جو سدا مست شراب عیش و عشرت ہی رہا
ہاتھ جس گلچیں کا ہے محفوظ نوک خار سے
عشق جس کا بے خبر ہے ہجر کے آزار سے
کلفت غم گرچہ اس کے روز و شب سے دور ہے
زندگی کا راز اس کی آنکھ سے مستور ہے
اے کہ نظم دہر کا ادراک ہے حاصل تجھے
کیوں نہ آساں ہو غم و اندوہ کی منزل تجھے
ہے ابد کے نسخہ دیرینہ کی تمہید عشق
عقل انسانی ہے فانی، زندہء جاوید عشق
عشق کے خورشید سے شام اجل شرمندہ ہے
عشق سوز زندگی ہے ، تا ابد پائندہ ہے
رخصت محبوب کا مقصد فنا ہوتا اگر
جوش الفت بھی دل عاشق سے کر جاتا سفر
عشق کچھ محبوب کے مرنے سے مر جاتا نہیں
روح میں غم بن کے رہتا ہے ، مگر جاتا نہیں
ہے بقائے عشق سے پیدا بقا محبوب کی
زندگانی ہے عدم ناآشنا محبوب کی
آتی ہے ندی جبین کوہ سے گاتی ہوئی
آسماں کے طائروں کو نغمہ سکھلاتی ہوئی
آئنہ روشن ہے اس کا صورت رخسار حور
گر کے وادی کی چٹانوں پر یہ ہو جاتا ہے چور
نہر جو تھی ، اس کے گوہر پیارے پیارے بن گئے
یعنی اس افتاد سے پانی کے تارے بن گئے
جوئے سیماب رواں پھٹ کر پریشاں ہو گئی
مضطرب بوندوں کی اک دنیا نمایاں ہو گئی
ہجر، ان قطروں کو لیکن وصل کی تعلیم ہے
دو قدم پر پھر وہی جو مثل تار سیم ہے
ایک اصلیت میں ہے نہر روان زندگی
گر کے رفعت سے ہجوم نوع انساں بن گئی
پستی عالم میں ملنے کو جدا ہوتے ہیں ہم
عارضی فرقت کو دائم جان کر روتے ہیں ہم
مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں
یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں
عقل جس دم دہر کی آفات میں محصور ہو
یا جوانی کی اندھیری رات میں مستور ہو
دامن دل بن گیا ہو رزم گاہ خیر و شر
راہ کی ظلمت سے ہو مشکل سوئے منزل سفر
خضر ہمت ہو گیا ہو آرزو سے گوشہ گیر
فکر جب عاجز ہو اور خاموش آواز ضمیر
وادی ہستی میں کوئی ہم سفر تک بھی نہ ہو
جادہ دکھلانے کو جگنو کا شرر تک بھی نہ ہو
مرنے والوں کی جبیں روشن ہے اس ظلمات میں
جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں
Https://t.me/AllamaIqbalPoet
Https://t.me/buttgeem
100
فلسفہ غم - میاں فضل حسین صاحب کے نام
گو سراپا کیف عشرت ہے شراب زندگی
اشک بھی رکھتا ہے دامن میں سحاب زندگی
موج غم پر رقص کرتا ہے حباب زندگی
ہے 'الم' کا سورہ بھی جزو کتاب زندگی
ایک بھی پتی اگر کم ہو تو وہ گل ہی نہیں
جو خزاں نادیدہ ہو بلبل، وہ بلبل ہی نہیں
آرزو کے خون سے رنگیں ہے دل کی داستاں
نغمہ انسانیت کامل نہیں غیر از فغاں
دیدہ بینا میں داغ غم چراغ سینہ ہے
روح کو سامان زینت آہ کا آئینہ ہے
حادثات غم سے ہے انساں کی فطرت کو کمال
غازہ ہے آئینہء دل کے لیے گرد ملال
غم جوانی کو جگا دیتا ہے لطف خواب سے
ساز یہ بیدار ہوتا ہے اسی مضراب سے
طائر دل کے لیے غم شہپر پرواز ہے
راز ہے انساں کا دل غم انکشاف راز ہے
غم نہیں غم، روح کا اک نغمہء خاموش ہے
جو سرود بربط ہستی سے ہم آغوش ہے
شام جس کی آشنائے نالہء 'یا رب' نہیں
جلوہ پیرا جس کی شب میں اشک کے کوکب نہیں
جس کا جام دل شکست غم سے ہے ناآشنا
جو سدا مست شراب عیش و عشرت ہی رہا
ہاتھ جس گلچیں کا ہے محفوظ نوک خار سے
عشق جس کا بے خبر ہے ہجر کے آزار سے
کلفت غم گرچہ اس کے روز و شب سے دور ہے
زندگی کا راز اس کی آنکھ سے مستور ہے
اے کہ نظم دہر کا ادراک ہے حاصل تجھے
کیوں نہ آساں ہو غم و اندوہ کی منزل تجھے
ہے ابد کے نسخہ دیرینہ کی تمہید عشق
عقل انسانی ہے فانی، زندہء جاوید عشق
عشق کے خورشید سے شام اجل شرمندہ ہے
عشق سوز زندگی ہے ، تا ابد پائندہ ہے
رخصت محبوب کا مقصد فنا ہوتا اگر
جوش الفت بھی دل عاشق سے کر جاتا سفر
عشق کچھ محبوب کے مرنے سے مر جاتا نہیں
روح میں غم بن کے رہتا ہے ، مگر جاتا نہیں
ہے بقائے عشق سے پیدا بقا محبوب کی
زندگانی ہے عدم ناآشنا محبوب کی
آتی ہے ندی جبین کوہ سے گاتی ہوئی
آسماں کے طائروں کو نغمہ سکھلاتی ہوئی
آئنہ روشن ہے اس کا صورت رخسار حور
گر کے وادی کی چٹانوں پر یہ ہو جاتا ہے چور
نہر جو تھی ، اس کے گوہر پیارے پیارے بن گئے
یعنی اس افتاد سے پانی کے تارے بن گئے
جوئے سیماب رواں پھٹ کر پریشاں ہو گئی
مضطرب بوندوں کی اک دنیا نمایاں ہو گئی
ہجر، ان قطروں کو لیکن وصل کی تعلیم ہے
دو قدم پر پھر وہی جو مثل تار سیم ہے
ایک اصلیت میں ہے نہر روان زندگی
گر کے رفعت سے ہجوم نوع انساں بن گئی
پستی عالم میں ملنے کو جدا ہوتے ہیں ہم
عارضی فرقت کو دائم جان کر روتے ہیں ہم
مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں
یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں
عقل جس دم دہر کی آفات میں محصور ہو
یا جوانی کی اندھیری رات میں مستور ہو
دامن دل بن گیا ہو رزم گاہ خیر و شر
راہ کی ظلمت سے ہو مشکل سوئے منزل سفر
خضر ہمت ہو گیا ہو آرزو سے گوشہ گیر
فکر جب عاجز ہو اور خاموش آواز ضمیر
وادی ہستی میں کوئی ہم سفر تک بھی نہ ہو
جادہ دکھلانے کو جگنو کا شرر تک بھی نہ ہو
مرنے والوں کی جبیں روشن ہے اس ظلمات میں
جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں
Https://t.me/AllamaIqbalPoet
Https://t.me/buttgeem
Telegram
~ Allama Muhammad (Iqbal)
Allama Muhammad Iqbal is a national poet of Pakistan. He was born 1877 in sialkot Pakistan. He was a greatest poet, philosopher and politician. He was died 1938 in Lahore Pakistan.
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید کرتا ہوں سب خیریت سے ہوں۔۔
آپ سب احباب کے پیار اور شفقت کی وجہ سے اللہ کا شکر ہے اس چینل کی تعداد, 3ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔۔۔
یہ سب آپ حضرات کی بدولت ہی ممکن ہوا۔۔
میں نے اس چینل کے علاوہ بھی بہت سے چینل شروع کر رکھے ہیں جو کہ ادبی اعتبار سے بہت مفید ہیں۔۔ اور میں امید کرتا ہوں جیسے آپ لوگوں نے اس چینل کو اپنا پیار دیا ویسے ہی ان چینلز کو بھی مایوس نہیں کریں گے۔۔۔
میری خواہش ہے کہ آپ حضرات ان چینلز میں بھی شمولیت اختیار کر کے میری حوصلہ افزائی فرمائیں۔۔۔
آپ کا خادم:
محمد مدثر بٹ
پرسنل پر رابطہ کے لئے:
Https://t.me/buttgeem
میرے بقیہ چینلز کے لنک:
🥀🥀🌷مرزا اسداللہ خان غالب🌷🥀🥀
Https://t.me/MirzaGalibPoetry
🌴🌹 میر تقی میر 🌹🌴
Https://t.me/Mirtaqimirpoetry
🌹🌹🌷گلشن ادب🌷🌹🌹
Https://t.me/gulshaneadab
امید کرتا ہوں سب خیریت سے ہوں۔۔
آپ سب احباب کے پیار اور شفقت کی وجہ سے اللہ کا شکر ہے اس چینل کی تعداد, 3ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔۔۔
یہ سب آپ حضرات کی بدولت ہی ممکن ہوا۔۔
میں نے اس چینل کے علاوہ بھی بہت سے چینل شروع کر رکھے ہیں جو کہ ادبی اعتبار سے بہت مفید ہیں۔۔ اور میں امید کرتا ہوں جیسے آپ لوگوں نے اس چینل کو اپنا پیار دیا ویسے ہی ان چینلز کو بھی مایوس نہیں کریں گے۔۔۔
میری خواہش ہے کہ آپ حضرات ان چینلز میں بھی شمولیت اختیار کر کے میری حوصلہ افزائی فرمائیں۔۔۔
آپ کا خادم:
محمد مدثر بٹ
پرسنل پر رابطہ کے لئے:
Https://t.me/buttgeem
میرے بقیہ چینلز کے لنک:
🥀🥀🌷مرزا اسداللہ خان غالب🌷🥀🥀
Https://t.me/MirzaGalibPoetry
🌴🌹 میر تقی میر 🌹🌴
Https://t.me/Mirtaqimirpoetry
🌹🌹🌷گلشن ادب🌷🌹🌹
Https://t.me/gulshaneadab
~ Allama Muhammad (Iqbal) pinned «السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ امید کرتا ہوں سب خیریت سے ہوں۔۔ آپ سب احباب کے پیار اور شفقت کی وجہ سے اللہ کا شکر ہے اس چینل کی تعداد, 3ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔۔۔ یہ سب آپ حضرات کی بدولت ہی ممکن ہوا۔۔ میں نے اس چینل کے علاوہ بھی بہت سے چینل شروع کر رکھے…»
🌷🌷غزل نمبر اکیاسی سے لے کر سو تک🌷🌷
🥀🥀🌹بانگ درا🌹🥀🥀
✍️✍️ 81 ایک شام دریائے نیکر (ہائیڈل برگ) کے کنارے پر
✍️✍️ 82 تنہائی
✍️✍️ 83 پیام عشق
✍️✍️ 84 فراق
✍️✍️ 85 عبدالقادر کے نام
✍️✍️ 86 صقیلہ جزیرہ سسلی
✍️✍️ 87 زندگی انساں کی اک دم کے سوا کچھ بھی نہیں
✍️✍️ 88 الہی عقل خجستہ پے کو ذرا سی دیوانگی سکھا دے
✍️✍️ 89 زمانہ دیکھے گا جب مرے دل سے محشر اٹھے گا گفتگو کا
✍️✍️ 90 چمک تیری عیاں بجلی میں، آتش میں، شرارے میں
✍️✍️ 91 یوں تو اے بزم جہاں! دلکش تھے ہنگامے ترے
✍️✍️ 92 مثال پر تو مے، طواف جام کرتے ہیں
✍️✍️ 93 مارچ 1907ء
✍️✍️ 94 بلاد اسلامیہ
✍️✍️ 95 ستارہ
✍️✍️ 96 دو ستارے
✍️✍️ 97 گورستان شاہی
✍️✍️ 98 نمود صبح
✍️✍️ 99 تضمین بر شعر انیس شاملو
✍️✍️ 100 فلسفۂ غم میاں فضل حسین صاحب کے نام
Https://t.me/AllamaIqbalPoet
Https://t.me/buttgeem
🥀🥀🌹بانگ درا🌹🥀🥀
✍️✍️ 81 ایک شام دریائے نیکر (ہائیڈل برگ) کے کنارے پر
✍️✍️ 82 تنہائی
✍️✍️ 83 پیام عشق
✍️✍️ 84 فراق
✍️✍️ 85 عبدالقادر کے نام
✍️✍️ 86 صقیلہ جزیرہ سسلی
✍️✍️ 87 زندگی انساں کی اک دم کے سوا کچھ بھی نہیں
✍️✍️ 88 الہی عقل خجستہ پے کو ذرا سی دیوانگی سکھا دے
✍️✍️ 89 زمانہ دیکھے گا جب مرے دل سے محشر اٹھے گا گفتگو کا
✍️✍️ 90 چمک تیری عیاں بجلی میں، آتش میں، شرارے میں
✍️✍️ 91 یوں تو اے بزم جہاں! دلکش تھے ہنگامے ترے
✍️✍️ 92 مثال پر تو مے، طواف جام کرتے ہیں
✍️✍️ 93 مارچ 1907ء
✍️✍️ 94 بلاد اسلامیہ
✍️✍️ 95 ستارہ
✍️✍️ 96 دو ستارے
✍️✍️ 97 گورستان شاہی
✍️✍️ 98 نمود صبح
✍️✍️ 99 تضمین بر شعر انیس شاملو
✍️✍️ 100 فلسفۂ غم میاں فضل حسین صاحب کے نام
Https://t.me/AllamaIqbalPoet
Https://t.me/buttgeem
Telegram
~ Allama Muhammad (Iqbal)
🥀🥀🌷بانگ درا🌷🥀🥀
81
ایک شام - دریائے نیکر 'ہائیڈل برگ ' کے کنارے پر
خاموش ہے چاندنی قمر کی
شاخیں ہیں خموش ہر شجر کی
وادی کے نوا فروش خاموش
کہسار کے سبز پوش خاموش
فطرت بے ہوش ہو گئی ہے
آغوش میں شب کے سو گئی ہے
کچھ ایسا سکوت کا فسوں ہے
نیکر…
81
ایک شام - دریائے نیکر 'ہائیڈل برگ ' کے کنارے پر
خاموش ہے چاندنی قمر کی
شاخیں ہیں خموش ہر شجر کی
وادی کے نوا فروش خاموش
کہسار کے سبز پوش خاموش
فطرت بے ہوش ہو گئی ہے
آغوش میں شب کے سو گئی ہے
کچھ ایسا سکوت کا فسوں ہے
نیکر…
🥀🥀🌷بانگ درا🌷🥀🥀
101
پھول کا تحفہ عطا ہونے پر
وہ مست ناز جو گلشن میں جا نکلتی ہے
کلی کلی کی زباں سے دعا نکلتی ہے
''الہی! پھولوں میں وہ انتخاب مجھ کو کرے
کلی سے رشک گل آفتاب مجھ کو کرے''
تجھے وہ شاخ سے توڑیں! زہے نصیب ترے
تڑپتے رہ گئے گلزار میں رقیب ترے
اٹھا کے صدمہ فرقت وصال تک پہنچا
تری حیات کا جوہر کمال تک پہنچا
مرا کنول کہ تصدق ہیں جس پہ اہل نظر
مرے شباب کے گلشن کو ناز ہے جس پر
کبھی یہ پھول ہم آغوش مدعا نہ ہوا
کسی کے دامن رنگیں سے آشنا نہ ہوا
شگفتہ کر نہ سکے گی کبھی بہار اسے
فسردہ رکھتا ہے گلچیں کا انتظار اسے
Https://t.me/AllamaIqbalPoet
Https://t.me/buttgeem
101
پھول کا تحفہ عطا ہونے پر
وہ مست ناز جو گلشن میں جا نکلتی ہے
کلی کلی کی زباں سے دعا نکلتی ہے
''الہی! پھولوں میں وہ انتخاب مجھ کو کرے
کلی سے رشک گل آفتاب مجھ کو کرے''
تجھے وہ شاخ سے توڑیں! زہے نصیب ترے
تڑپتے رہ گئے گلزار میں رقیب ترے
اٹھا کے صدمہ فرقت وصال تک پہنچا
تری حیات کا جوہر کمال تک پہنچا
مرا کنول کہ تصدق ہیں جس پہ اہل نظر
مرے شباب کے گلشن کو ناز ہے جس پر
کبھی یہ پھول ہم آغوش مدعا نہ ہوا
کسی کے دامن رنگیں سے آشنا نہ ہوا
شگفتہ کر نہ سکے گی کبھی بہار اسے
فسردہ رکھتا ہے گلچیں کا انتظار اسے
Https://t.me/AllamaIqbalPoet
Https://t.me/buttgeem
Telegram
~ Allama Muhammad (Iqbal)
Allama Muhammad Iqbal is a national poet of Pakistan. He was born 1877 in sialkot Pakistan. He was a greatest poet, philosopher and politician. He was died 1938 in Lahore Pakistan.
🥀🥀🌷بانگ درا🌷🥀🥀
102
ترانہ ملی
چین و عرب ہمارا ، ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم ، وطن ہے سارا جہاں ہمارا
توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے
آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا
دنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا
ہم اس کے پاسباں ہیں، وہ پاسباں ہمارا
تیغوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں
خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا
مغرب کی وادیوں میں گونجی اذاں ہماری
تھمتا نہ تھا کسی سے سیل رواں ہمارا
باطل سے دنبے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا
اے گلستان اندلس! وہ دن ہیں یاد تجھ کو
تھا تیری ڈالیوں پر جب آشیاں ہمارا
اے موج دجلہ! تو بھی پہچانتی ہے ہم کو
اب تک ہے تیرا دریا افسانہ خواں ہمارا
اے ارض پاک! تیری حرمت پہ کٹ مرے ہم
ہے خوں تری رگوں میں اب تک رواں ہمارا
سالار کارواں ہے میر حجاز اپنا
اس نام سے ہے باقی آرام جاں ہمارا
اقبال کا ترانہ بانگ درا ہے گویا
ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا
Https://t.me/AllamaIqbalPoet
Https://t.me/buttgeem
102
ترانہ ملی
چین و عرب ہمارا ، ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم ، وطن ہے سارا جہاں ہمارا
توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے
آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا
دنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا
ہم اس کے پاسباں ہیں، وہ پاسباں ہمارا
تیغوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں
خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا
مغرب کی وادیوں میں گونجی اذاں ہماری
تھمتا نہ تھا کسی سے سیل رواں ہمارا
باطل سے دنبے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا
اے گلستان اندلس! وہ دن ہیں یاد تجھ کو
تھا تیری ڈالیوں پر جب آشیاں ہمارا
اے موج دجلہ! تو بھی پہچانتی ہے ہم کو
اب تک ہے تیرا دریا افسانہ خواں ہمارا
اے ارض پاک! تیری حرمت پہ کٹ مرے ہم
ہے خوں تری رگوں میں اب تک رواں ہمارا
سالار کارواں ہے میر حجاز اپنا
اس نام سے ہے باقی آرام جاں ہمارا
اقبال کا ترانہ بانگ درا ہے گویا
ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا
Https://t.me/AllamaIqbalPoet
Https://t.me/buttgeem
Telegram
~ Allama Muhammad (Iqbal)
Allama Muhammad Iqbal is a national poet of Pakistan. He was born 1877 in sialkot Pakistan. He was a greatest poet, philosopher and politician. He was died 1938 in Lahore Pakistan.
Forwarded from اردو ادب (ترتیب وار کتب)
🌹🌹فہرست نمبر (ایک)🌹🌹
🌴 تمام فہرستیں لکھاریوں کے ناموں کے حساب سے ہوں گی۔۔۔ یعنی جس جس لکھاری کی کتابیں یہاں ہوں گی ان کے مصنفین کے ناموں سے آپ با آسانی تلاش کر سکتے ہیں۔۔۔🌴
✍️✍️ 1: ڈاکٹر عبادت بریلوی
✍️✍️ 2: شمس الرحمن فاروقی
✍️✍️ 3: مالک رام (غالب شناس)
✍️✍️ 4: مولانا الطاف حسین حالی
✍️✍️ 5: ڈاکٹر فرمان فتح پوری
✍️✍️ 6: نیاز فتح پوری
✍️✍️ 7: ڈاکٹر وزیر آغا
✍️✍️ 8: امرتا پریتم
✍️✍️ 9: رضا علی عابدی
✍️✍️ 10: انیس ناگی
✍️✍️ 11: مشرف عالم ذوقی
✍️✍️ 12: بانو قدسیہ
✍️✍️ 13: امجد جاوید
✍️✍️ 14: امجد بیگ
✍️✍️ 15: ڈاکٹر یونس بٹ (مزاح نگار)
✍️✍️ 16: احمد ندیم قاسمی
✍️✍️ 17: اشتیاق احمد
✍️✍️ 18: ابن انشاء (شاعر و مزاح نگار)
✍️✍️ 19: گلِ نو خیز اختر
✍️✍️ 20: طاہر جاوید مغل
رابطہ برائے ایڈمن:
@Mudassarbutt
🌴 تمام فہرستیں لکھاریوں کے ناموں کے حساب سے ہوں گی۔۔۔ یعنی جس جس لکھاری کی کتابیں یہاں ہوں گی ان کے مصنفین کے ناموں سے آپ با آسانی تلاش کر سکتے ہیں۔۔۔🌴
✍️✍️ 1: ڈاکٹر عبادت بریلوی
✍️✍️ 2: شمس الرحمن فاروقی
✍️✍️ 3: مالک رام (غالب شناس)
✍️✍️ 4: مولانا الطاف حسین حالی
✍️✍️ 5: ڈاکٹر فرمان فتح پوری
✍️✍️ 6: نیاز فتح پوری
✍️✍️ 7: ڈاکٹر وزیر آغا
✍️✍️ 8: امرتا پریتم
✍️✍️ 9: رضا علی عابدی
✍️✍️ 10: انیس ناگی
✍️✍️ 11: مشرف عالم ذوقی
✍️✍️ 12: بانو قدسیہ
✍️✍️ 13: امجد جاوید
✍️✍️ 14: امجد بیگ
✍️✍️ 15: ڈاکٹر یونس بٹ (مزاح نگار)
✍️✍️ 16: احمد ندیم قاسمی
✍️✍️ 17: اشتیاق احمد
✍️✍️ 18: ابن انشاء (شاعر و مزاح نگار)
✍️✍️ 19: گلِ نو خیز اختر
✍️✍️ 20: طاہر جاوید مغل
رابطہ برائے ایڈمن:
@Mudassarbutt
~ Allama Muhammad (Iqbal) pinned «🌹🌹فہرست نمبر (ایک)🌹🌹 🌴 تمام فہرستیں لکھاریوں کے ناموں کے حساب سے ہوں گی۔۔۔ یعنی جس جس لکھاری کی کتابیں یہاں ہوں گی ان کے مصنفین کے ناموں سے آپ با آسانی تلاش کر سکتے ہیں۔۔۔🌴 ✍️✍️ 1: ڈاکٹر عبادت بریلوی ✍️✍️ 2: شمس الرحمن فاروقی ✍️✍️ 3: مالک رام…»
🥀🥀🌷بانگ درا🌷🥀🥀
103
وطنیت - یعنی وطن بحیثیت ایک سیاسی تصور کے
اس دور میں مے اور ہے ، جام اور ہے جم اور
ساقی نے بنا کی روش لطف و ستم اور
مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور
تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے ، وہ مذہب کا کفن ہے
یہ بت کہ تراشیدہء تہذیب نوی ہے
غارت گر کاشانہء دین نبوی ہے
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے ، تو مصطفوی ہے
نظارہ دیرینہ زمانے کو دکھا دے
اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملا دے !
ہو قید مقامی تو نتیجہ ہے تباہی
رہ بحر میں آزاد وطن صورت ماہی
ہے ترک وطن سنت محبوب الہی
دے تو بھی نبوت کی صداقت پہ گواہی
گفتار سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے
ارشاد نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے
اقوام جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے
تسخیر ہے مقصود تجارت تو اسی سے
خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے
کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے
اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے
قومیت اسلام کے جڑ کٹتی ہے اس سے
Https://t.me/AllamaIqbalPoet
Https://t.me/buttgeem
103
وطنیت - یعنی وطن بحیثیت ایک سیاسی تصور کے
اس دور میں مے اور ہے ، جام اور ہے جم اور
ساقی نے بنا کی روش لطف و ستم اور
مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور
تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے ، وہ مذہب کا کفن ہے
یہ بت کہ تراشیدہء تہذیب نوی ہے
غارت گر کاشانہء دین نبوی ہے
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے ، تو مصطفوی ہے
نظارہ دیرینہ زمانے کو دکھا دے
اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملا دے !
ہو قید مقامی تو نتیجہ ہے تباہی
رہ بحر میں آزاد وطن صورت ماہی
ہے ترک وطن سنت محبوب الہی
دے تو بھی نبوت کی صداقت پہ گواہی
گفتار سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے
ارشاد نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے
اقوام جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے
تسخیر ہے مقصود تجارت تو اسی سے
خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے
کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے
اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے
قومیت اسلام کے جڑ کٹتی ہے اس سے
Https://t.me/AllamaIqbalPoet
Https://t.me/buttgeem
Telegram
~ Allama Muhammad (Iqbal)
Allama Muhammad Iqbal is a national poet of Pakistan. He was born 1877 in sialkot Pakistan. He was a greatest poet, philosopher and politician. He was died 1938 in Lahore Pakistan.
🥀🥀🌷بانگ درا🌷🥀🥀
104
ایک حاجی مدینے کے راستے میں
قافلہ لوٹا گیا صحرا میں اور منزل ہے دور
اس بیاباں یعنی بحر خشک کا ساحل ہے دور
ہم سفر میرے شکار دشنہء رہزن ہوئے
بچ گئے جو ، ہو کے بے دل سوئے بیت اللہ پھرے
اس بخاری نوجواں نے کس خوشی سے جان دی !
موت کے زہراب میں پائی ہے اس نے زندگی
خنجر رہزن اسے گویا ہلال عید تھا
'ہائے یثرب' دل میں ، لب پر نعرہ توحید تھا
خوف کہتا ہے کہ یثرب کی طرف تنہا نہ چل
شوق کہتا ہے کہ تو مسلم ہے ، بے باکانہ چل
بے زیارت سوئے بیت اللہ پھر جاؤں گا کیا
عاشقوں کو روز محشر منہ نہ دکھلاؤں گا کیا
خوف جاں رکھتا نہیں کچھ دشت پیمائے حجاز
ہجرت مدفون یثرب میں یہی مخفی ہے راز
گو سلامت محمل شامی کی ہمراہی میں ہے
عشق کی لذت مگر خطروں کے جاں کاہی میں ہے
آہ! یہ عقل زیاں اندیش کیا چالاک ہے
اور تاثر آدمی کا کس قدر بے باک ہے
Https://t.me/AllamaIqbalPoet
Https://t.me/buttgeem
104
ایک حاجی مدینے کے راستے میں
قافلہ لوٹا گیا صحرا میں اور منزل ہے دور
اس بیاباں یعنی بحر خشک کا ساحل ہے دور
ہم سفر میرے شکار دشنہء رہزن ہوئے
بچ گئے جو ، ہو کے بے دل سوئے بیت اللہ پھرے
اس بخاری نوجواں نے کس خوشی سے جان دی !
موت کے زہراب میں پائی ہے اس نے زندگی
خنجر رہزن اسے گویا ہلال عید تھا
'ہائے یثرب' دل میں ، لب پر نعرہ توحید تھا
خوف کہتا ہے کہ یثرب کی طرف تنہا نہ چل
شوق کہتا ہے کہ تو مسلم ہے ، بے باکانہ چل
بے زیارت سوئے بیت اللہ پھر جاؤں گا کیا
عاشقوں کو روز محشر منہ نہ دکھلاؤں گا کیا
خوف جاں رکھتا نہیں کچھ دشت پیمائے حجاز
ہجرت مدفون یثرب میں یہی مخفی ہے راز
گو سلامت محمل شامی کی ہمراہی میں ہے
عشق کی لذت مگر خطروں کے جاں کاہی میں ہے
آہ! یہ عقل زیاں اندیش کیا چالاک ہے
اور تاثر آدمی کا کس قدر بے باک ہے
Https://t.me/AllamaIqbalPoet
Https://t.me/buttgeem
Telegram
~ Allama Muhammad (Iqbal)
Allama Muhammad Iqbal is a national poet of Pakistan. He was born 1877 in sialkot Pakistan. He was a greatest poet, philosopher and politician. He was died 1938 in Lahore Pakistan.
🥀🥀🌷بانگ درا🌷🥀🥀
105
قطعہ
کل ایک شوریدہ خواب گاہ نبی پہ رو رو کے کہہ رہا تھا
کہ مصر و ہندوستاں کے مسلم بنائے ملت مٹا رہے ہیں
یہ زائران حریم مغرب ہزار رہبر بنیں ہمارے
ہمیں بھلا ان سے واسطہ کیا جو تجھ سے نا آشنا رہے ہیں
غضب ہیں یہ 'مرشدان خود بیں خدا تری قوم کو بچائے!
بگاڑ کر تیرے مسلموں کو یہ اپنی عزت بنا رہے ہیں
سنے گا اقبال کون ان کو ، یہ انجمن ہی بدل گئی ہے
نئے زمانے میں آپ ہم کو پرانی باتیں سنا رہے ہیں !
Https://t.me/AllamaIqbalPoet
Https://t.me/buttgeem
105
قطعہ
کل ایک شوریدہ خواب گاہ نبی پہ رو رو کے کہہ رہا تھا
کہ مصر و ہندوستاں کے مسلم بنائے ملت مٹا رہے ہیں
یہ زائران حریم مغرب ہزار رہبر بنیں ہمارے
ہمیں بھلا ان سے واسطہ کیا جو تجھ سے نا آشنا رہے ہیں
غضب ہیں یہ 'مرشدان خود بیں خدا تری قوم کو بچائے!
بگاڑ کر تیرے مسلموں کو یہ اپنی عزت بنا رہے ہیں
سنے گا اقبال کون ان کو ، یہ انجمن ہی بدل گئی ہے
نئے زمانے میں آپ ہم کو پرانی باتیں سنا رہے ہیں !
Https://t.me/AllamaIqbalPoet
Https://t.me/buttgeem
Telegram
~ Allama Muhammad (Iqbal)
Allama Muhammad Iqbal is a national poet of Pakistan. He was born 1877 in sialkot Pakistan. He was a greatest poet, philosopher and politician. He was died 1938 in Lahore Pakistan.
🥀🥀🌷بانگ درا🌷🥀🥀
106
شکوہ
کیوں زیاں کار بنوں ، سود فراموش رہوں
فکر فردا نہ کروں محو غم دوش رہوں
نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
ہم نوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں
جرات آموز مری تاب سخن ہے مجھ کو
شکوہ اللہ سے ، خاکم بدہن ، ہے مجھ کو
ہے بجا شیوہء تسلیم میں مشہور ہیں ہم
قصہ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
ساز خاموش ہیں ، فریاد سے معمور ہیں ہم
نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہیں ہم
اے خدا! شکوہء ارباب وفا بھی سن لے
خوگر حمد سے تھوڑا سا گلا بھی سن لے
تھی تو موجود ازل سے ہی تری ذات قدیم
پھول تھا زیب چمن پر نہ پریشاں تھی شمیم
شرط انصاف ہے اے صاحب الطاف عمیم
بوئے گل پھیلتی کس طرح جو ہوتی نہ نسیم
ہم کو جمعیت خاطر یہ پریشانی تھی
ورنہ امت ترے محبوب کی دیوانی تھی؟
ہم سے پہلے تھا عجب تیرے جہاں کا منظر
کہیں مسجود تھے پتھر ، کہیں معبود شجر
خوگر پیکر محسوس تھی انساں کی نظر
مانتا پھر کوئی ان دیکھے خدا کو کیونکر
تجھ کو معلوم ہے ، لیتا تھا کوئی نام ترا؟
قوت بازوئے مسلم نے کیا کام ترا
بس رہے تھے یہیں سلجوق بھی، تورانی بھی
اہل چیں چین میں ، ایران میں ساسانی بھی
اسی معمورے میں آباد تھے یونانی بھی
اسی دنیا میں یہودی بھی تھے ، نصرانی بھی
پر ترے نام پہ تلوار اٹھائی کس نے
بات جو بگڑی ہوئی تھی ، وہ بنائی کس نے
تھے ہمیں ایک ترے معرکہ آراؤں میں
خشکیوں میں کبھی لڑتے ، کبھی دریاؤں میں
دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں
کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں
شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہاں داروں کی
کلمہ پڑھتے تھے ہم چھاؤں میں تلواروں کی
ہم جو جیتے تھے تو جنگوں کے مصیبت کے لیے
اور مرتے تھے ترے نام کی عظمت کے لیے
تھی نہ کچھ تیغ زنی اپنی حکومت کے لیے
سربکف پھرتے تھے کیا دہر میں دولت کے لیے؟
قوم اپنی جو زر و مال جہاں پر مرتی
بت فروشی کے عوض بت شکنی کیوں کرتی!
ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ میں اڑ جاتے تھے
پاؤں شیروں کے بھی میداں سے اکھڑ جاتے تھے
تجھ سے سرکش ہوا کوئی تو بگڑ جاتے تھے
تیغ کیا چیز ہے ، ہم توپ سے لڑ جاتے تھے
نقش توحید کا ہر دل پہ بٹھایا ہم نے
زیر خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے
تو ہی کہہ دے کہ اکھاڑا در خیبر کس نے
شہر قیصر کا جو تھا ، اس کو کیا سر کس نے
توڑے مخلوق خداوندوں کے پیکر کس نے
کاٹ کر رکھ دیے کفار کے لشکر کس نے
کس نے ٹھنڈا کیا آتشکدہ ایراں کو؟
کس نے پھر زندہ کیا تذکرہ یزداں کو؟
کون سی قوم فقط تیری طلب گار ہوئی
اور تیرے لیے زحمت کش پیکار ہوئی
کس کی شمشیر جہاں گیر ، جہاں دار ہوئی
کس کی تکبیر سے دنیا تری بیدار ہوئی
کس کی ہیبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے
منہ کے بل گر کے 'ھو اللہ احد' کہتے تھے
آ گیا عین لڑائی میں اگر وقت نماز
قبلہ رو ہو کے زمیں بوس ہوئی قوم حجاز
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے
تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
محفل کون و مکاں میں سحر و شام پھرے
مے توحید کو لے کر صفت جام پھرے
کوہ میں ، دشت میں لے کر ترا پیغام پھرے
اور معلوم ہے تجھ کو ، کبھی ناکام پھرے!
دشت تو دشت ہیں ، دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے
صفحہ دہر سے باطل کو مٹایا ہم نے
نوع انساں کو غلامی سے چھڑایا ہم نے
تیرے کعبے کو جبینوں سے بسایا ہم نے
تیرے قرآن کو سینوں سے لگایا ہم نے
پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں
ہم وفادار نہیں ، تو بھی تو دلدار نہیں!
امتیں اور بھی ہیں ، ان میں گنہ گار بھی ہیں
عجز والے بھی ہیں ، مست مےء پندار بھی ہیں
ان میں کاہل بھی ہیں، غافل بھی ہیں، ہشیار بھی ہیں
سینکڑوں ہیں کہ ترے نام سے بیزار بھی ہیں
رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر
بت صنم خانوں میں کہتے ہیں ، مسلمان گئے
ہے خوشی ان کو کہ کعبے کے نگہبان گئے
منزل دہر سے اونٹوں کے حدی خوان گئے
اپنی بغلوں میں دبائے ہوئے قرآن گئے
خندہ زن کفر ہے ، احساس تجھے ہے کہ نہیں
اپنی توحید کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہیں
یہ شکایت نہیں ، ہیں ان کے خزانے معمور
نہیں محفل میں جنھیں بات بھی کرنے کا شعور
قہر تو یہ ہے کہ کافر کو ملیں حور و قصور
اور بیچارے مسلماں کو فقط وعدہ حور
اب وہ الطاف نہیں ، ہم پہ عنایات نہیں
بات یہ کیا ہے کہ پہلی سی مدارات نہیں
کیوں مسلمانوں میں ہے دولت دنیا نایاب
تیری قدرت تو ہے وہ جس کی نہ حد ہے نہ حساب
تو جو چاہے تو اٹھے سینہء صحرا سے حباب
106
شکوہ
کیوں زیاں کار بنوں ، سود فراموش رہوں
فکر فردا نہ کروں محو غم دوش رہوں
نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
ہم نوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں
جرات آموز مری تاب سخن ہے مجھ کو
شکوہ اللہ سے ، خاکم بدہن ، ہے مجھ کو
ہے بجا شیوہء تسلیم میں مشہور ہیں ہم
قصہ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
ساز خاموش ہیں ، فریاد سے معمور ہیں ہم
نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہیں ہم
اے خدا! شکوہء ارباب وفا بھی سن لے
خوگر حمد سے تھوڑا سا گلا بھی سن لے
تھی تو موجود ازل سے ہی تری ذات قدیم
پھول تھا زیب چمن پر نہ پریشاں تھی شمیم
شرط انصاف ہے اے صاحب الطاف عمیم
بوئے گل پھیلتی کس طرح جو ہوتی نہ نسیم
ہم کو جمعیت خاطر یہ پریشانی تھی
ورنہ امت ترے محبوب کی دیوانی تھی؟
ہم سے پہلے تھا عجب تیرے جہاں کا منظر
کہیں مسجود تھے پتھر ، کہیں معبود شجر
خوگر پیکر محسوس تھی انساں کی نظر
مانتا پھر کوئی ان دیکھے خدا کو کیونکر
تجھ کو معلوم ہے ، لیتا تھا کوئی نام ترا؟
قوت بازوئے مسلم نے کیا کام ترا
بس رہے تھے یہیں سلجوق بھی، تورانی بھی
اہل چیں چین میں ، ایران میں ساسانی بھی
اسی معمورے میں آباد تھے یونانی بھی
اسی دنیا میں یہودی بھی تھے ، نصرانی بھی
پر ترے نام پہ تلوار اٹھائی کس نے
بات جو بگڑی ہوئی تھی ، وہ بنائی کس نے
تھے ہمیں ایک ترے معرکہ آراؤں میں
خشکیوں میں کبھی لڑتے ، کبھی دریاؤں میں
دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں
کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں
شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہاں داروں کی
کلمہ پڑھتے تھے ہم چھاؤں میں تلواروں کی
ہم جو جیتے تھے تو جنگوں کے مصیبت کے لیے
اور مرتے تھے ترے نام کی عظمت کے لیے
تھی نہ کچھ تیغ زنی اپنی حکومت کے لیے
سربکف پھرتے تھے کیا دہر میں دولت کے لیے؟
قوم اپنی جو زر و مال جہاں پر مرتی
بت فروشی کے عوض بت شکنی کیوں کرتی!
ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ میں اڑ جاتے تھے
پاؤں شیروں کے بھی میداں سے اکھڑ جاتے تھے
تجھ سے سرکش ہوا کوئی تو بگڑ جاتے تھے
تیغ کیا چیز ہے ، ہم توپ سے لڑ جاتے تھے
نقش توحید کا ہر دل پہ بٹھایا ہم نے
زیر خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے
تو ہی کہہ دے کہ اکھاڑا در خیبر کس نے
شہر قیصر کا جو تھا ، اس کو کیا سر کس نے
توڑے مخلوق خداوندوں کے پیکر کس نے
کاٹ کر رکھ دیے کفار کے لشکر کس نے
کس نے ٹھنڈا کیا آتشکدہ ایراں کو؟
کس نے پھر زندہ کیا تذکرہ یزداں کو؟
کون سی قوم فقط تیری طلب گار ہوئی
اور تیرے لیے زحمت کش پیکار ہوئی
کس کی شمشیر جہاں گیر ، جہاں دار ہوئی
کس کی تکبیر سے دنیا تری بیدار ہوئی
کس کی ہیبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے
منہ کے بل گر کے 'ھو اللہ احد' کہتے تھے
آ گیا عین لڑائی میں اگر وقت نماز
قبلہ رو ہو کے زمیں بوس ہوئی قوم حجاز
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے
تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
محفل کون و مکاں میں سحر و شام پھرے
مے توحید کو لے کر صفت جام پھرے
کوہ میں ، دشت میں لے کر ترا پیغام پھرے
اور معلوم ہے تجھ کو ، کبھی ناکام پھرے!
دشت تو دشت ہیں ، دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے
صفحہ دہر سے باطل کو مٹایا ہم نے
نوع انساں کو غلامی سے چھڑایا ہم نے
تیرے کعبے کو جبینوں سے بسایا ہم نے
تیرے قرآن کو سینوں سے لگایا ہم نے
پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں
ہم وفادار نہیں ، تو بھی تو دلدار نہیں!
امتیں اور بھی ہیں ، ان میں گنہ گار بھی ہیں
عجز والے بھی ہیں ، مست مےء پندار بھی ہیں
ان میں کاہل بھی ہیں، غافل بھی ہیں، ہشیار بھی ہیں
سینکڑوں ہیں کہ ترے نام سے بیزار بھی ہیں
رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر
بت صنم خانوں میں کہتے ہیں ، مسلمان گئے
ہے خوشی ان کو کہ کعبے کے نگہبان گئے
منزل دہر سے اونٹوں کے حدی خوان گئے
اپنی بغلوں میں دبائے ہوئے قرآن گئے
خندہ زن کفر ہے ، احساس تجھے ہے کہ نہیں
اپنی توحید کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہیں
یہ شکایت نہیں ، ہیں ان کے خزانے معمور
نہیں محفل میں جنھیں بات بھی کرنے کا شعور
قہر تو یہ ہے کہ کافر کو ملیں حور و قصور
اور بیچارے مسلماں کو فقط وعدہ حور
اب وہ الطاف نہیں ، ہم پہ عنایات نہیں
بات یہ کیا ہے کہ پہلی سی مدارات نہیں
کیوں مسلمانوں میں ہے دولت دنیا نایاب
تیری قدرت تو ہے وہ جس کی نہ حد ہے نہ حساب
تو جو چاہے تو اٹھے سینہء صحرا سے حباب
رہرو دشت ہو سیلی زدہء موج سراب
طعن اغیار ہے ، رسوائی ہے ، ناداری ہے
کیا ترے نام پہ مرنے کا عوض خواری ہے؟
بنی اغیار کی اب چاہنے والی دنیا
رہ گئی اپنے لیے ایک خیالی دنیا
ہم تو رخصت ہوئے ، اوروں نے سنبھالی دنیا
پھر نہ کہنا ہوئی توحید سے خالی دنیا
ہم تو جیتے ہیں کہ دنیا میں ترا نام رہے
کہیں ممکن ہے کہ ساقی نہ رہے ، جام رہے!
تیری محفل بھی گئی ، چاہنے والے بھی گئے
شب کے آہیں بھی گئیں ، صبح کے نالے بھی گئے
دل تجھے دے بھی گئے ، اپنا صلا لے بھی گئے
آ کے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے
آئے عشاق ، گئے وعدہء فردا لے کر
اب انھیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر
درد لیلی بھی وہی ، قیس کا پہلو بھی وہی
نجد کے دشت و جبل میں رم آہو بھی وہی
عشق کا دل بھی وہی ، حسن کا جادو بھی وہی
امت احمد مرسل بھی وہی ، تو بھی وہی
پھر یہ آزردگی غیر سبب کیا معنی
اپنے شیداؤں پہ یہ چشم غضب کیا معنی
تجھ کو چھوڑا کہ رسول عربی کو چھوڑا؟
بت گری پیشہ کیا ، بت شکنی کو چھوڑا؟
عشق کو ، عشق کی آشفتہ سری کو چھوڑا؟
رسم سلمان و اویس قرنی کو چھوڑا؟
آگ تکبیر کی سینوں میں دبی رکھتے ہیں
زندگی مثل بلال حبشی رکھتے ہیں
عشق کی خیر وہ پہلی سی ادا بھی نہ سہی
جادہ پیمائی تسلیم و رضا بھی نہ سہی
مضطرب دل صفت قبلہ نما بھی نہ سہی
اور پابندی آئین وفا بھی نہ سہی
کبھی ہم سے ، کبھی غیروں سے شناسائی ہے
بات کہنے کی نہیں ، تو بھی تو ہرجائی ہے !
سر فاراں پہ کیا دین کو کامل تو نے
اک اشارے میں ہزاروں کے لیے دل تو نے
آتش اندوز کیا عشق کا حاصل تو نے
پھونک دی گرمی رخسار سے محفل تو نے
آج کیوں سینے ہمارے شرر آباد نہیں
ہم وہی سوختہ ساماں ہیں ، تجھے یاد نہیں؟
وادی نجد میں وہ شور سلاسل نہ رہا
قیس دیوانہ نظارہ محمل نہ رہا
حوصلے وہ نہ رہے ، ہم نہ رہے ، دل نہ رہا
گھر یہ اجڑا ہے کہ تو رونق محفل نہ رہا
اے خوش آں روز کہ آئی و بصد ناز آئی
بے حجابانہ سوئے محفل ما باز آئی
بادہ کش غیر ہیں گلشن میں لب جو بیٹھے
سنتے ہیں جام بکف نغمہ کو کو بیٹھے
دور ہنگامہ گلزار سے یک سو بیٹھے
تیرے دیوانے بھی ہیں منتظر 'ھو' بیٹھے
اپنے پروانوں کو پھر ذوق خود افروزی دے
برق دیرینہ کو فرمان جگر سوزی دے
قوم آوارہ عناں تاب ہے پھر سوئے حجاز
لے اڑا بلبل بے پر کو مذاق پرواز
مضطرب باغ کے ہر غنچے میں ہے بوئے نیاز
تو ذرا چھیڑ تو دے، تشنہء مضراب ہے ساز
نغمے بے تاب ہیں تاروں سے نکلنے کے لیے
طور مضطر ہے اسی آگ میں جلنے کے لیے
مشکلیں امت مرحوم کی آساں کر دے
مور بے مایہ کو ہمدوش سلیماں کر دے
جنس نایاب محبت کو پھر ارزاں کر دے
ہند کے دیر نشینوں کو مسلماں کر دے
جوئے خوں می چکد از حسرت دیرینہء ما
می تپد نالہ بہ نشتر کدہ سینہ ما
بوئے گل لے گئی بیرون چمن راز چمن
کیا قیامت ہے کہ خود پھول ہیں غماز چمن !
عہد گل ختم ہوا ٹوٹ گیا ساز چمن
اڑ گئے ڈالیوں سے زمزمہ پرواز چمن
ایک بلبل ہے کہ ہے محو ترنم اب تک
اس کے سینے میں ہے نغموں کا تلاطم اب تک
قمریاں شاخ صنوبر سے گریزاں بھی ہوئیں
پتیاں پھول کی جھڑ جھڑ کے پریشاں بھی ہوئیں
وہ پرانی روشیں باغ کی ویراں بھی ہوئیں
ڈالیاں پیرہن برگ سے عریاں بھی ہوئیں
قید موسم سے طبیعت رہی آزاد اس کی
کاش گلشن میں سمجھتا کوئی فریاد اس کی!
لطف مرنے میں ہے باقی ، نہ مزا جینے میں
کچھ مزا ہے تو یہی خون جگر پینے میں
کتنے بے تاب ہیں جوہر مرے آئینے میں
کس قدر جلوے تڑپتے ہیں مرے سینے میں
اس گلستاں میں مگر دیکھنے والے ہی نہیں
داغ جو سینے میں رکھتے ہوں ، وہ لالے ہی نہیں
چاک اس بلبل تنہا کی نوا سے دل ہوں
جاگنے والے اسی بانگ درا سے دل ہوں
یعنی پھر زندہ نئے عہد وفا سے دل ہوں
پھر اسی بادہء دیرینہ کے پیاسے دل ہوں
عجمی خم ہے تو کیا ، مے تو حجازی ہے مری
نغمہ ہندی ہے تو کیا ، لے تو حجازی ہے مری!
Https://t.me/AllamaIqbalPoet
Https://t.me/buttgeem
طعن اغیار ہے ، رسوائی ہے ، ناداری ہے
کیا ترے نام پہ مرنے کا عوض خواری ہے؟
بنی اغیار کی اب چاہنے والی دنیا
رہ گئی اپنے لیے ایک خیالی دنیا
ہم تو رخصت ہوئے ، اوروں نے سنبھالی دنیا
پھر نہ کہنا ہوئی توحید سے خالی دنیا
ہم تو جیتے ہیں کہ دنیا میں ترا نام رہے
کہیں ممکن ہے کہ ساقی نہ رہے ، جام رہے!
تیری محفل بھی گئی ، چاہنے والے بھی گئے
شب کے آہیں بھی گئیں ، صبح کے نالے بھی گئے
دل تجھے دے بھی گئے ، اپنا صلا لے بھی گئے
آ کے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے
آئے عشاق ، گئے وعدہء فردا لے کر
اب انھیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر
درد لیلی بھی وہی ، قیس کا پہلو بھی وہی
نجد کے دشت و جبل میں رم آہو بھی وہی
عشق کا دل بھی وہی ، حسن کا جادو بھی وہی
امت احمد مرسل بھی وہی ، تو بھی وہی
پھر یہ آزردگی غیر سبب کیا معنی
اپنے شیداؤں پہ یہ چشم غضب کیا معنی
تجھ کو چھوڑا کہ رسول عربی کو چھوڑا؟
بت گری پیشہ کیا ، بت شکنی کو چھوڑا؟
عشق کو ، عشق کی آشفتہ سری کو چھوڑا؟
رسم سلمان و اویس قرنی کو چھوڑا؟
آگ تکبیر کی سینوں میں دبی رکھتے ہیں
زندگی مثل بلال حبشی رکھتے ہیں
عشق کی خیر وہ پہلی سی ادا بھی نہ سہی
جادہ پیمائی تسلیم و رضا بھی نہ سہی
مضطرب دل صفت قبلہ نما بھی نہ سہی
اور پابندی آئین وفا بھی نہ سہی
کبھی ہم سے ، کبھی غیروں سے شناسائی ہے
بات کہنے کی نہیں ، تو بھی تو ہرجائی ہے !
سر فاراں پہ کیا دین کو کامل تو نے
اک اشارے میں ہزاروں کے لیے دل تو نے
آتش اندوز کیا عشق کا حاصل تو نے
پھونک دی گرمی رخسار سے محفل تو نے
آج کیوں سینے ہمارے شرر آباد نہیں
ہم وہی سوختہ ساماں ہیں ، تجھے یاد نہیں؟
وادی نجد میں وہ شور سلاسل نہ رہا
قیس دیوانہ نظارہ محمل نہ رہا
حوصلے وہ نہ رہے ، ہم نہ رہے ، دل نہ رہا
گھر یہ اجڑا ہے کہ تو رونق محفل نہ رہا
اے خوش آں روز کہ آئی و بصد ناز آئی
بے حجابانہ سوئے محفل ما باز آئی
بادہ کش غیر ہیں گلشن میں لب جو بیٹھے
سنتے ہیں جام بکف نغمہ کو کو بیٹھے
دور ہنگامہ گلزار سے یک سو بیٹھے
تیرے دیوانے بھی ہیں منتظر 'ھو' بیٹھے
اپنے پروانوں کو پھر ذوق خود افروزی دے
برق دیرینہ کو فرمان جگر سوزی دے
قوم آوارہ عناں تاب ہے پھر سوئے حجاز
لے اڑا بلبل بے پر کو مذاق پرواز
مضطرب باغ کے ہر غنچے میں ہے بوئے نیاز
تو ذرا چھیڑ تو دے، تشنہء مضراب ہے ساز
نغمے بے تاب ہیں تاروں سے نکلنے کے لیے
طور مضطر ہے اسی آگ میں جلنے کے لیے
مشکلیں امت مرحوم کی آساں کر دے
مور بے مایہ کو ہمدوش سلیماں کر دے
جنس نایاب محبت کو پھر ارزاں کر دے
ہند کے دیر نشینوں کو مسلماں کر دے
جوئے خوں می چکد از حسرت دیرینہء ما
می تپد نالہ بہ نشتر کدہ سینہ ما
بوئے گل لے گئی بیرون چمن راز چمن
کیا قیامت ہے کہ خود پھول ہیں غماز چمن !
عہد گل ختم ہوا ٹوٹ گیا ساز چمن
اڑ گئے ڈالیوں سے زمزمہ پرواز چمن
ایک بلبل ہے کہ ہے محو ترنم اب تک
اس کے سینے میں ہے نغموں کا تلاطم اب تک
قمریاں شاخ صنوبر سے گریزاں بھی ہوئیں
پتیاں پھول کی جھڑ جھڑ کے پریشاں بھی ہوئیں
وہ پرانی روشیں باغ کی ویراں بھی ہوئیں
ڈالیاں پیرہن برگ سے عریاں بھی ہوئیں
قید موسم سے طبیعت رہی آزاد اس کی
کاش گلشن میں سمجھتا کوئی فریاد اس کی!
لطف مرنے میں ہے باقی ، نہ مزا جینے میں
کچھ مزا ہے تو یہی خون جگر پینے میں
کتنے بے تاب ہیں جوہر مرے آئینے میں
کس قدر جلوے تڑپتے ہیں مرے سینے میں
اس گلستاں میں مگر دیکھنے والے ہی نہیں
داغ جو سینے میں رکھتے ہوں ، وہ لالے ہی نہیں
چاک اس بلبل تنہا کی نوا سے دل ہوں
جاگنے والے اسی بانگ درا سے دل ہوں
یعنی پھر زندہ نئے عہد وفا سے دل ہوں
پھر اسی بادہء دیرینہ کے پیاسے دل ہوں
عجمی خم ہے تو کیا ، مے تو حجازی ہے مری
نغمہ ہندی ہے تو کیا ، لے تو حجازی ہے مری!
Https://t.me/AllamaIqbalPoet
Https://t.me/buttgeem
Telegram
~ Allama Muhammad (Iqbal)
Allama Muhammad Iqbal is a national poet of Pakistan. He was born 1877 in sialkot Pakistan. He was a greatest poet, philosopher and politician. He was died 1938 in Lahore Pakistan.